◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کیا لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ امام کی آواز ہے یا نہیں؟
اگر لاؤڈ اسپیکر سے نکلی ہوئی آواز بعینہ امام کی آواز ہے تو نماز ہوجاے گی اور اگر نہیں ہے تو نماز نہیں ہوگی اس کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں
(1)لاؤڈ اسپیکر چونکہ آلات جدیدہ میں سے ایک سائنسی نو ایجاد چیز ہے تو اس کی آواز بعینہ متکلم کی آواز ہوتی ہے یا نہیں اس کے متعلق علمائے متقدمین کی کتابوں میں کوئی جزیہ مذکور نہیں ہے اور علمائے متاخرین میں فتاوی رضویہ تک کوئی ذکر نہیں ہے لہذا یہ ایک سائنسی چیز ہے اس لئے اس کے بارے میں سائنسدانوں اور اس کے انجینروں کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے تاکہ یہ ثابت ہوجایے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز متکلم کی آواز ہے یا نہیں اسی۔ لئے حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی رحمتہ اللہ علیہ نے
(1) جناب ایم ۔آر ۔اے خان صاحب بی ایس سی انجینئر طلائی تمغہ یافتہ علی گڑھ
(2) سی اینڈ جی فائنل گریڈ لندن
(3) ایم ۔اے ۔آئی ۔اے پاکستان ۔
(4) پی ۔اے ۔ایس اسپیشلسٹ ٹیلی کم ٹراگ جرمنی ٹی ۔ای ۔ایس کلاس نمبر وغیرہ سائنسدانوں کے اقوال نقل فرماکر مسئلہ کو حل فرمایا ان تمام انجینروں نزدیک یہی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نکلی ہوئی آواز متکلم کی اصل آواز نہیں ہوتی ہے بلکہ آدمی کی مشابہ آواز ہوتی ہے جو نقلی ہے
یہاں پر ایک اشکال اور اس کا جواب
*لیکن لاؤڈ اسپیکر سے نکلی آواز سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ فلاں امام صاحب کی آواز ہے یا فلاں خطیب کی آواز ہے یا فلاں شخص کی آواز ہے یعنی اس آدمی کی آواز سے شناخت ہوجاتی ہے اس کا کیا جواب ہوگا؟
الجواب
جناب اہل کنوٹ صاحب (ایم ۔پی ۔ٹی ۔اے ) پی ۔ایم ۔جی کولمبو پلان ایکسپرٹ آسٹریلیا ۔ٹیلی کیمونیکشن ٹرینگ سنٹر ہری پور ۔ہزارہ پاکستان ایک سوال کے جواب میں کہ
لاؤڈ اسپیکر سے نکلی ہوئی آدمی کی آواز سمجھی جاسکتی ہے یا نہیں؟ ( اس کے جواب میں) لکھتے ہیں میری رائے میں لاؤڈ اسپیکر سے نکلی ہوئی آواز آدمی کی اصل آواز نہیں سمجھی جاسکتی ۔اصل کلام سے پیدا شدہ آواز کا ارتعاش مائیکرو فون کے پردے پر دباؤ ڈالتا ہے جو ایمپلی فائر اور لاؤڈ اسپیکر سسٹم کو اس طرح پر کنٹرول کرتا ہے جس سے اصل آواز کی قابل شناخت نقل پیدا ہوسکے ۔از سر نو پیدائش یعنی یہ اصطلاح جو عام طور پر اس آلے کے لئے کہی جاتی ہے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ آلہ آواز پیدا کرتا ہے نہ کہ اصل کلام کو منتقل کرتا ہے (اس ماہر سائنس جناب کنوٹ صاحب کی اصل انگلیش میں مع ترجمعہ کتاب ضروری مسائل میں نقل ہے)
(2) اور جناب سی ۔ڈبلیو ۔سی ۔ رچرڈبی۔ایس سی انگلینڈ ۔۔اے ۔ایم آئی ۔ای ۔سی کولمبو پلان ایکسپرٹ ایڈوائزر حکومت پاکستان ٹیلی کیمو نیکیشن اسٹاف کالج ہری پور ۔ہزارہ لکھتے ہیں
It is my considered opinion that this sound.from the loudspeaker can not.be regarded as being the actual sound of the man.s..voice.(last)
یعنی آدمی کی اصل آواز نہیں سمجھی جاسکتی اور جو آواز لاؤڈ اسپیکر سے سنی جاتی ہے آدمی کی آواز کے مشابہ ہوتی ہے اور مشابہ آواز بالکل ۔نقلی ہے برقی میکانکی نظام سے جو آواز نکلتی ہے وہ خود ہوا کے دباؤ کے اتار چڑھاؤ کا نتیجہ ہوتی ہے جس سے آواز کی سماعت کا احساس ہوتا ہے اور یہ آواز آسانی سے قطعا راست تعلق نہیں رکھتی ۔انتہائی قانونی بنیاد پر بغیر کس وپیش کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ
جو آواز لاؤڈ اسپیکر سے نکل رہی ہے وہ( مائیکروفون پر بولنے والے آدمی) کی اصل آواز نہیں ہے
الحاصل ماہرین سائنس اور اس کے انجینروں کے متفقہ اقوال سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ
لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ متکلم کی آواز نہیں ہوتی بلکہ اس کی نقل ہوتی ہے جو آواز کے ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے اور ج آواز کے ٹکرانے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ صدی ہوتی ہے جیسے کہ پہاڑ اور گنبد وغیرہ سے ٹکراکر پیدا ہونے والی صدی ہوتی ہے اور صدی کا وہ حکم نہیں جو متکلم کی آواز کا ہے کہ متکلم کی آواز بغیر کسی چیز سے ٹکرائے صرف ہوا کہ تموج سے سننے والے کے کان تک پہنچتی ہے اور صدی چونکہ کسی چیز سے ٹکراکر پیدا ہوتی ہے اسی لئے اس سے آیت سجدہ سنے تو سجدہ واجب نہیں ہوتا (ضروری مسائل ص 18)
یہاں تک تو ماہرین سائنس کی عبارت سے مسئلہ حل ہوگیا اور ثابت ہوا کہ یہ آواز صدی یے اب یہاں سے ہمارے اکابرین نے اقوال پڑھیں کہ کیا صدی سے سجدہ کا حکم ہوگا یا نہیں ؟ تنویر الابصار و درمختار مع شامی جلد اول ص 517 میں ہے
لا تجب بسماعہ من الصدی۔
یعنی
جس نے آیت سجدہ صدائے بازگشت تو اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوگا اور اس کے تحت ردالمحتار میں ہے کہ
(قولہ: من الصدی)
ھو ما یجیںک مثل صوتک فی الجبال والصحاری ونحوھما فی الصحاح یعنی اس سے مراد وہ ہے جو تجھے تیری آواز کی مثل پہاڑوں ۔صحراوں ۔وغیرہ میں جواب دیتی ہے جس طرح الصحاح میں ہے
(میرے پاس جو کتاب ردالمحتار علی الدرمختار شرح تنویر الابصار ہے اس میں جلد دوم کتاب الصلوۃ/باب سجود التلاوۃ ص 583 میں ہے)
سائنس داں اور فتاوی شامی کی عبارات سے واضح ہوا کہ صدا باز گشت سے آیت تلاوت سننے پر سجدہ واجب نہیں ہوگا تو بدرجہ اتم لاؤڈ اسپیکر کی آواز سے نماز نہ ہوگی اور یہی صحیح حکم ہے
(2) حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نماز پنچ وقتہ ہو یا جمعہ ۔یا تراویح اور عیدین وغیرہ کسی میں بھی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جائز نہیں اس لئے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ متکلم کی آواز نہیں ہوتی بلکہ اس کی نقل ہوتی ہے جو آواز ٹکرانے سے پیدا ہوتی اور آواز ٹکرانے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ صدا ہوتی ہے جیسے گنبد وغیرہ سے ٹکڑا کر پیدا ہونے والی آواز صدا ہوتی ہے ۔اور صدا کا کا وہ حکم نہیں جو متکلم کی آواز کا ہے کہ متکلم کی آواز بغیر کسی چیز سے ٹکرائے صرف ہوا کے تموج سے سننے والے کے کان تک پہنچتی ہے اور صدا کسی چیز سے ٹکڑا کر پیدا ہوتی ہے اس لئے آیت سجدہ سنے تو سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوتا جیسا کہ امام ابن ہمام علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں
فی الخلاصۃ ان سمھعا من الصدا لاتجب(فتح القدیر جلد اول ص 468)
اور تنویر الابصار و درمختار مع شامی جلد اول ص 517 میں ہے لاتجب بسماعہ من الصدی (فتاویٰ برکاتیہ ص )
اس تغایر حکم سے صاف ظاہر ہوا کہ صدا کا حکم جداگانہ ہے ۔اور جب سجدہ تلاوت کے وجوب میں صدا کا اعتبار نہیں تو حکما صدا نفس آواز متکلم سے الگ ہے اور جب سجدہ تلاوت میں صدا نفس آواز متکلم سے جدا تھری تو نماز کے سجدہ کے لیے صدا کو شرعا بعینہ آواز متکلم مان لینا صحیح نہیں یعنی جب سجدہ تلاوت میں صدا نفس آواز متکلم سے جدا اور خارج ہے تو اس میں بھی خارج قرار پائے گی ۔اور جب صدا خارج قرار پائی تو حالت نماز میں اس سے تلقن جائز نہیں ۔خواہ وہ لاؤڈ اسپیکر کی صدا ہو یا صحرا وغیرہ کی ۔اس لئے خارج سے تلقن مفسد نماز ہے جیسا کہ ردالمحتار جلد اول ص 418 پر ہے
المؤتم لما تلقن من خارج بطلعت صلاتہ
(2) شہزادہ اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند شاہ مصطفی رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جائز نہیں ۔اگر میکروفون میں امام کی آواز ڈالے گا بے اس کے وہ آواز نہ لے گا تو اسی عمل سے امام کی نماز جاری رہے گی ۔امام کی جائے گی تو مقتدیوں کی بھی جائے گئی
(رسالہ القول الازھر فی عدم جواز الصلوۃ باقتداء لاؤڈ اسپیکر تصنیف بیشہ سنت مولانا محمد حشمت علی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ ص 20)
(3)فقیہ ہند حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ آواز مکبر الصوت (لاؤڈ اسپیکر) سے خطبہ سننے میں حرج نہیں مگر اس کی آواز پر رکوع وسجود کرنا مفسد نماز ہے (فتاویٰ امجدیہ جلد اول ص 190)
(3) حضرت بحرالعلوم رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر کی اقتداء کی نماز جائز بھی ہے اور ناجائز بھی ہے, مگر پھر فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے بالقصد لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر اقتداء کی اس کی نماز صحیح نہیں ہوئی ملاحظہ فرمائیں
(8) حضور بحرالعلوم ایک سوال ہوا کہ امام صاحب نے الوداع جمعہ کا خطبہ مائک سے پڑھا اور مکبر ین کی تقرری بھی مائک کے ذریعہ بالا علان کی ۔ںعدہ مائک منبر کے اتر جانب رکھ دیا گیا اور کپڑا سے ڈھاک بھی دیا گیا ۔مگر موذن صاحب سے مائک اچھی طرح سے بند نہیں ہوسکا ۔جس کی وجہ سے نماز کے بعد معلوم ہوا کہ مائک امام صاحب کی آواز پکڑ رہا تھامکبرین کرام نے امام صاحب کی آواز پر اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھا ہیں ۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں نماز ہوئی یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں حضور بحر العلوم حضرت علامہ مولانا عبد المنان صاحب اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کے وہاں امام کی آواز پہونچانے کے مسنون طریقہ پر بھی عمل ہوا کہ مکبرین بھی مقرر کئے گئے ۔اور انہوں نے امام کی تکبیر تحریمہ اور تکبیرات انتقالاٹ ہنچائین بھی ۔مگر مشین پوری بند نہ ہونے سے لاؤڈ اسپیکر بھی جاری رہا اور امام صاحب کی آواز اس سے بھی نشر ہوتی رہی
ایسی صورت میں جن قلیل التعداد کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر کی آواز عین امام کی آواز ہے ان کے نزدیک تو سب مقتدیوں کی نماز ہوگئی ۔اور جن کثیر التعداد علماء کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر کی آواز ( امام بولنے والے ) کی آواز کے غیر ہے ان کے قول پر بھی امام اور اس کے آس پاس کے وہ لوگ جنہوں نے امام کی آواز سنی اور اس پر اقتداء کی ان کی بھی نماز ہوگئی ۔اور جن لوگوں نے امام کی آواز نقل کرنے والے مبلغین کی آواز پر اقتداء کی ان کی نماز بھی صحیح ہوگئی ۔الںتہ جن لوگوں نے بالقصد لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر اقتداء کی ان کی نماز صحیح نہیں ہوئی ۔وہ لوگ اس دن کی چار رکعت ظہر کی نیت سے قضاء کریں۔ اور آئندہ پوری احتیاط سے نماز کے وقت لاؤڈ اسپیکر بند رکھا جائے۔ تاکہ کسی قسم کی کوئی غلط فہمی نہ ہو
کیا لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ امام کی آواز ہے یا نہیں؟
اگر لاؤڈ اسپیکر سے نکلی ہوئی آواز بعینہ امام کی آواز ہے تو نماز ہوجاے گی اور اگر نہیں ہے تو نماز نہیں ہوگی اس کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں
(1)لاؤڈ اسپیکر چونکہ آلات جدیدہ میں سے ایک سائنسی نو ایجاد چیز ہے تو اس کی آواز بعینہ متکلم کی آواز ہوتی ہے یا نہیں اس کے متعلق علمائے متقدمین کی کتابوں میں کوئی جزیہ مذکور نہیں ہے اور علمائے متاخرین میں فتاوی رضویہ تک کوئی ذکر نہیں ہے لہذا یہ ایک سائنسی چیز ہے اس لئے اس کے بارے میں سائنسدانوں اور اس کے انجینروں کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے تاکہ یہ ثابت ہوجایے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز متکلم کی آواز ہے یا نہیں اسی۔ لئے حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی رحمتہ اللہ علیہ نے
(1) جناب ایم ۔آر ۔اے خان صاحب بی ایس سی انجینئر طلائی تمغہ یافتہ علی گڑھ
(2) سی اینڈ جی فائنل گریڈ لندن
(3) ایم ۔اے ۔آئی ۔اے پاکستان ۔
(4) پی ۔اے ۔ایس اسپیشلسٹ ٹیلی کم ٹراگ جرمنی ٹی ۔ای ۔ایس کلاس نمبر وغیرہ سائنسدانوں کے اقوال نقل فرماکر مسئلہ کو حل فرمایا ان تمام انجینروں نزدیک یہی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نکلی ہوئی آواز متکلم کی اصل آواز نہیں ہوتی ہے بلکہ آدمی کی مشابہ آواز ہوتی ہے جو نقلی ہے
یہاں پر ایک اشکال اور اس کا جواب
*لیکن لاؤڈ اسپیکر سے نکلی آواز سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ فلاں امام صاحب کی آواز ہے یا فلاں خطیب کی آواز ہے یا فلاں شخص کی آواز ہے یعنی اس آدمی کی آواز سے شناخت ہوجاتی ہے اس کا کیا جواب ہوگا؟
الجواب
جناب اہل کنوٹ صاحب (ایم ۔پی ۔ٹی ۔اے ) پی ۔ایم ۔جی کولمبو پلان ایکسپرٹ آسٹریلیا ۔ٹیلی کیمونیکشن ٹرینگ سنٹر ہری پور ۔ہزارہ پاکستان ایک سوال کے جواب میں کہ
لاؤڈ اسپیکر سے نکلی ہوئی آدمی کی آواز سمجھی جاسکتی ہے یا نہیں؟ ( اس کے جواب میں) لکھتے ہیں میری رائے میں لاؤڈ اسپیکر سے نکلی ہوئی آواز آدمی کی اصل آواز نہیں سمجھی جاسکتی ۔اصل کلام سے پیدا شدہ آواز کا ارتعاش مائیکرو فون کے پردے پر دباؤ ڈالتا ہے جو ایمپلی فائر اور لاؤڈ اسپیکر سسٹم کو اس طرح پر کنٹرول کرتا ہے جس سے اصل آواز کی قابل شناخت نقل پیدا ہوسکے ۔از سر نو پیدائش یعنی یہ اصطلاح جو عام طور پر اس آلے کے لئے کہی جاتی ہے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ آلہ آواز پیدا کرتا ہے نہ کہ اصل کلام کو منتقل کرتا ہے (اس ماہر سائنس جناب کنوٹ صاحب کی اصل انگلیش میں مع ترجمعہ کتاب ضروری مسائل میں نقل ہے)
(2) اور جناب سی ۔ڈبلیو ۔سی ۔ رچرڈبی۔ایس سی انگلینڈ ۔۔اے ۔ایم آئی ۔ای ۔سی کولمبو پلان ایکسپرٹ ایڈوائزر حکومت پاکستان ٹیلی کیمو نیکیشن اسٹاف کالج ہری پور ۔ہزارہ لکھتے ہیں
It is my considered opinion that this sound.from the loudspeaker can not.be regarded as being the actual sound of the man.s..voice.(last)
یعنی آدمی کی اصل آواز نہیں سمجھی جاسکتی اور جو آواز لاؤڈ اسپیکر سے سنی جاتی ہے آدمی کی آواز کے مشابہ ہوتی ہے اور مشابہ آواز بالکل ۔نقلی ہے برقی میکانکی نظام سے جو آواز نکلتی ہے وہ خود ہوا کے دباؤ کے اتار چڑھاؤ کا نتیجہ ہوتی ہے جس سے آواز کی سماعت کا احساس ہوتا ہے اور یہ آواز آسانی سے قطعا راست تعلق نہیں رکھتی ۔انتہائی قانونی بنیاد پر بغیر کس وپیش کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ
جو آواز لاؤڈ اسپیکر سے نکل رہی ہے وہ( مائیکروفون پر بولنے والے آدمی) کی اصل آواز نہیں ہے
الحاصل ماہرین سائنس اور اس کے انجینروں کے متفقہ اقوال سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ
لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ متکلم کی آواز نہیں ہوتی بلکہ اس کی نقل ہوتی ہے جو آواز کے ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے اور ج آواز کے ٹکرانے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ صدی ہوتی ہے جیسے کہ پہاڑ اور گنبد وغیرہ سے ٹکراکر پیدا ہونے والی صدی ہوتی ہے اور صدی کا وہ حکم نہیں جو متکلم کی آواز کا ہے کہ متکلم کی آواز بغیر کسی چیز سے ٹکرائے صرف ہوا کہ تموج سے سننے والے کے کان تک پہنچتی ہے اور صدی چونکہ کسی چیز سے ٹکراکر پیدا ہوتی ہے اسی لئے اس سے آیت سجدہ سنے تو سجدہ واجب نہیں ہوتا (ضروری مسائل ص 18)
یہاں تک تو ماہرین سائنس کی عبارت سے مسئلہ حل ہوگیا اور ثابت ہوا کہ یہ آواز صدی یے اب یہاں سے ہمارے اکابرین نے اقوال پڑھیں کہ کیا صدی سے سجدہ کا حکم ہوگا یا نہیں ؟ تنویر الابصار و درمختار مع شامی جلد اول ص 517 میں ہے
لا تجب بسماعہ من الصدی۔
یعنی
جس نے آیت سجدہ صدائے بازگشت تو اس پر سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوگا اور اس کے تحت ردالمحتار میں ہے کہ
(قولہ: من الصدی)
ھو ما یجیںک مثل صوتک فی الجبال والصحاری ونحوھما فی الصحاح یعنی اس سے مراد وہ ہے جو تجھے تیری آواز کی مثل پہاڑوں ۔صحراوں ۔وغیرہ میں جواب دیتی ہے جس طرح الصحاح میں ہے
(میرے پاس جو کتاب ردالمحتار علی الدرمختار شرح تنویر الابصار ہے اس میں جلد دوم کتاب الصلوۃ/باب سجود التلاوۃ ص 583 میں ہے)
سائنس داں اور فتاوی شامی کی عبارات سے واضح ہوا کہ صدا باز گشت سے آیت تلاوت سننے پر سجدہ واجب نہیں ہوگا تو بدرجہ اتم لاؤڈ اسپیکر کی آواز سے نماز نہ ہوگی اور یہی صحیح حکم ہے
(2) حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نماز پنچ وقتہ ہو یا جمعہ ۔یا تراویح اور عیدین وغیرہ کسی میں بھی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جائز نہیں اس لئے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ متکلم کی آواز نہیں ہوتی بلکہ اس کی نقل ہوتی ہے جو آواز ٹکرانے سے پیدا ہوتی اور آواز ٹکرانے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ صدا ہوتی ہے جیسے گنبد وغیرہ سے ٹکڑا کر پیدا ہونے والی آواز صدا ہوتی ہے ۔اور صدا کا کا وہ حکم نہیں جو متکلم کی آواز کا ہے کہ متکلم کی آواز بغیر کسی چیز سے ٹکرائے صرف ہوا کے تموج سے سننے والے کے کان تک پہنچتی ہے اور صدا کسی چیز سے ٹکڑا کر پیدا ہوتی ہے اس لئے آیت سجدہ سنے تو سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوتا جیسا کہ امام ابن ہمام علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں
فی الخلاصۃ ان سمھعا من الصدا لاتجب(فتح القدیر جلد اول ص 468)
اور تنویر الابصار و درمختار مع شامی جلد اول ص 517 میں ہے لاتجب بسماعہ من الصدی (فتاویٰ برکاتیہ ص )
اس تغایر حکم سے صاف ظاہر ہوا کہ صدا کا حکم جداگانہ ہے ۔اور جب سجدہ تلاوت کے وجوب میں صدا کا اعتبار نہیں تو حکما صدا نفس آواز متکلم سے الگ ہے اور جب سجدہ تلاوت میں صدا نفس آواز متکلم سے جدا تھری تو نماز کے سجدہ کے لیے صدا کو شرعا بعینہ آواز متکلم مان لینا صحیح نہیں یعنی جب سجدہ تلاوت میں صدا نفس آواز متکلم سے جدا اور خارج ہے تو اس میں بھی خارج قرار پائے گی ۔اور جب صدا خارج قرار پائی تو حالت نماز میں اس سے تلقن جائز نہیں ۔خواہ وہ لاؤڈ اسپیکر کی صدا ہو یا صحرا وغیرہ کی ۔اس لئے خارج سے تلقن مفسد نماز ہے جیسا کہ ردالمحتار جلد اول ص 418 پر ہے
المؤتم لما تلقن من خارج بطلعت صلاتہ
(2) شہزادہ اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند شاہ مصطفی رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جائز نہیں ۔اگر میکروفون میں امام کی آواز ڈالے گا بے اس کے وہ آواز نہ لے گا تو اسی عمل سے امام کی نماز جاری رہے گی ۔امام کی جائے گی تو مقتدیوں کی بھی جائے گئی
(رسالہ القول الازھر فی عدم جواز الصلوۃ باقتداء لاؤڈ اسپیکر تصنیف بیشہ سنت مولانا محمد حشمت علی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ ص 20)
(3)فقیہ ہند حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ آواز مکبر الصوت (لاؤڈ اسپیکر) سے خطبہ سننے میں حرج نہیں مگر اس کی آواز پر رکوع وسجود کرنا مفسد نماز ہے (فتاویٰ امجدیہ جلد اول ص 190)
(3) حضرت بحرالعلوم رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر کی اقتداء کی نماز جائز بھی ہے اور ناجائز بھی ہے, مگر پھر فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے بالقصد لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر اقتداء کی اس کی نماز صحیح نہیں ہوئی ملاحظہ فرمائیں
(8) حضور بحرالعلوم ایک سوال ہوا کہ امام صاحب نے الوداع جمعہ کا خطبہ مائک سے پڑھا اور مکبر ین کی تقرری بھی مائک کے ذریعہ بالا علان کی ۔ںعدہ مائک منبر کے اتر جانب رکھ دیا گیا اور کپڑا سے ڈھاک بھی دیا گیا ۔مگر موذن صاحب سے مائک اچھی طرح سے بند نہیں ہوسکا ۔جس کی وجہ سے نماز کے بعد معلوم ہوا کہ مائک امام صاحب کی آواز پکڑ رہا تھامکبرین کرام نے امام صاحب کی آواز پر اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھا ہیں ۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں نماز ہوئی یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں حضور بحر العلوم حضرت علامہ مولانا عبد المنان صاحب اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کے وہاں امام کی آواز پہونچانے کے مسنون طریقہ پر بھی عمل ہوا کہ مکبرین بھی مقرر کئے گئے ۔اور انہوں نے امام کی تکبیر تحریمہ اور تکبیرات انتقالاٹ ہنچائین بھی ۔مگر مشین پوری بند نہ ہونے سے لاؤڈ اسپیکر بھی جاری رہا اور امام صاحب کی آواز اس سے بھی نشر ہوتی رہی
ایسی صورت میں جن قلیل التعداد کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر کی آواز عین امام کی آواز ہے ان کے نزدیک تو سب مقتدیوں کی نماز ہوگئی ۔اور جن کثیر التعداد علماء کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر کی آواز ( امام بولنے والے ) کی آواز کے غیر ہے ان کے قول پر بھی امام اور اس کے آس پاس کے وہ لوگ جنہوں نے امام کی آواز سنی اور اس پر اقتداء کی ان کی بھی نماز ہوگئی ۔اور جن لوگوں نے امام کی آواز نقل کرنے والے مبلغین کی آواز پر اقتداء کی ان کی نماز بھی صحیح ہوگئی ۔الںتہ جن لوگوں نے بالقصد لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر اقتداء کی ان کی نماز صحیح نہیں ہوئی ۔وہ لوگ اس دن کی چار رکعت ظہر کی نیت سے قضاء کریں۔ اور آئندہ پوری احتیاط سے نماز کے وقت لاؤڈ اسپیکر بند رکھا جائے۔ تاکہ کسی قسم کی کوئی غلط فہمی نہ ہو
(فتاویٰ بحر العلوم جلد اول ص 325)
حصرت علامہ مولانا مفتی محمد فضل کریم صاحب حامدی رضوی رحمتہ اللہ علیہ مظفر پوری سابق آمین شریعت و مفتی دار الافتاء ادارہ شرعیہ پٹنہ فرماتے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کی تحقیق اور اس سلسلہ میں اب تک جو تجسس اور چھان بین ہوئی اس سے یہی ثابت ہوا کہ لاؤڈ اسپیکر سے جو آواز سنی جاتی ہے وہ صرف صدا ہے اور صدا کی تکبیروں پر تحریمہ و انتقالات کرنا صحیح و درست نہیں اور نہ اس کی اتباع و اقتداء جائز ۔اگر یہ کہا جائے کہ لاؤڈ اسپیکر مبلغ و مکبر ہے جو امام کی آواز کو دور تک پہنچاتا ہے تو اس قول کی بنیاد پر اس کی مسموع آواز تحریمہ و تکبیر انتقالات شرعا جائز نہیں اس لئے کہ مبلغ و مکبر کا خود نماز میں داخل ہونا شرط ہے ۔یعنی امام کی اقتداء میں شریک جماعت ہونا ضروری۔یہی وجہ ہے کہ غیر نمازی نمازی کو لقمہ نہیں دے سکتا ۔اگر مصلی اس کے قول پر عمل کرے گا ۔نماز باطل ہوجایے گی ۔علی ہذا القیاس اگر مقتدی نے امام کی آواز پر تحریمہ باندھ لیا اور پھر لاؤڈ اسپیکر کی صدا پر رکوع و سجود کئے تو اسی وقت نماز فاسد ہوگئی ۔اس لئے کہ وہ مکبر لم یدخل فی الصلاۃ ہے (فتاوی شرعیہ جلد اول ص 314 یہ فتوی 30 ستمبر 1975ء کا ہے اس سے واضح ہوا کہ ہمارے علمائے کرام 1975ء تک عدم جواز کے قائل تھے اور آج 2025 ء تک بھی عدم جواز کے قائل ہے
الحاصل
(1) لاؤڈ اسپیکر سے نکلی ہوئی آواز بعینہ آدمی کی آواز نہیں ہے اس لئے وہ صدا کے حکم ہے
(2) جب صدا یعنی گنبد سے ٹکراکر آنے والی آواز سے سجدہ تلاوت واجب نہیں تو لاؤڈ اسپیکر کی آواز جو صدی ہی ہے اس کی اقتداء میں نماز کیونکر ہوگی
(3) اس سے واضح ہوا کہ جب غیر نمازی آدمی کی آواز کی اقتداء مفسد صلوۃ ہے تو آلہ مکبر الصوت (یعنی لاؤڈ اسپیکر) تو نہ انسان ہے نہ نمازی بلکہ وہ نماز میں داخل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے ۔پھر اس کی صدا پر نماز کا جواز کا حکم کیونکر دیا جاسکتا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
حصرت علامہ مولانا مفتی محمد فضل کریم صاحب حامدی رضوی رحمتہ اللہ علیہ مظفر پوری سابق آمین شریعت و مفتی دار الافتاء ادارہ شرعیہ پٹنہ فرماتے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کی تحقیق اور اس سلسلہ میں اب تک جو تجسس اور چھان بین ہوئی اس سے یہی ثابت ہوا کہ لاؤڈ اسپیکر سے جو آواز سنی جاتی ہے وہ صرف صدا ہے اور صدا کی تکبیروں پر تحریمہ و انتقالات کرنا صحیح و درست نہیں اور نہ اس کی اتباع و اقتداء جائز ۔اگر یہ کہا جائے کہ لاؤڈ اسپیکر مبلغ و مکبر ہے جو امام کی آواز کو دور تک پہنچاتا ہے تو اس قول کی بنیاد پر اس کی مسموع آواز تحریمہ و تکبیر انتقالات شرعا جائز نہیں اس لئے کہ مبلغ و مکبر کا خود نماز میں داخل ہونا شرط ہے ۔یعنی امام کی اقتداء میں شریک جماعت ہونا ضروری۔یہی وجہ ہے کہ غیر نمازی نمازی کو لقمہ نہیں دے سکتا ۔اگر مصلی اس کے قول پر عمل کرے گا ۔نماز باطل ہوجایے گی ۔علی ہذا القیاس اگر مقتدی نے امام کی آواز پر تحریمہ باندھ لیا اور پھر لاؤڈ اسپیکر کی صدا پر رکوع و سجود کئے تو اسی وقت نماز فاسد ہوگئی ۔اس لئے کہ وہ مکبر لم یدخل فی الصلاۃ ہے (فتاوی شرعیہ جلد اول ص 314 یہ فتوی 30 ستمبر 1975ء کا ہے اس سے واضح ہوا کہ ہمارے علمائے کرام 1975ء تک عدم جواز کے قائل تھے اور آج 2025 ء تک بھی عدم جواز کے قائل ہے
الحاصل
(1) لاؤڈ اسپیکر سے نکلی ہوئی آواز بعینہ آدمی کی آواز نہیں ہے اس لئے وہ صدا کے حکم ہے
(2) جب صدا یعنی گنبد سے ٹکراکر آنے والی آواز سے سجدہ تلاوت واجب نہیں تو لاؤڈ اسپیکر کی آواز جو صدی ہی ہے اس کی اقتداء میں نماز کیونکر ہوگی
(3) اس سے واضح ہوا کہ جب غیر نمازی آدمی کی آواز کی اقتداء مفسد صلوۃ ہے تو آلہ مکبر الصوت (یعنی لاؤڈ اسپیکر) تو نہ انسان ہے نہ نمازی بلکہ وہ نماز میں داخل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے ۔پھر اس کی صدا پر نماز کا جواز کا حکم کیونکر دیا جاسکتا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
13 رمضان المبارک 1446
14 مارچ 2025
(قسط جاری ہے قسط سوم کا انتظار کریں )
13 رمضان المبارک 1446
14 مارچ 2025
(قسط جاری ہے قسط سوم کا انتظار کریں )