Type Here to Get Search Results !

بلاضرورت شدیدہ چار ماہ سے کم حمل کو بھی گرانا ناجائز ہے؟


  •┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈• 
بلاضرورت شدیدہ چار ماہ سے کم حمل کو بھی گرانا ناجائز ہے؟
_________(❤️)_________ 
ازقلم:-محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
♦•••••••••••••••••••••••••♦
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
زید ایک معمولی کمائی کرنے والا انسان ہے اس کے فی الوقت کچھ بچے ہیں اب پھر اس کی بیوی کو حمل ٹھہر گیا ہے ۔ جو کہ ایک ماہ کا ہوچکا ہے ۔ لہذا زید اب یہ کہتا ہے کہ میری کمائی بہت معمولی ہے اور میں اتنی معمولی کمائی سے اتنے بچوں کو سنبھال نہیں سکتا ، ان سب کی روزی روٹی کا انتظام نہیں کرسکتا ۔ بس یہی سوچ کر وہ اپنی بیوی کے حمل کی صفائی کروانا چاہتا ہے ۔  کیا شرعا اس کی اجازت ہے؟ جواب عنایت فرمائیں ۔ 
سائل:-سید عبد الرحمن اشرفی لکھنو ، یوپی۔
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوھاب:-
بغیر کسی مجبوری اور ضرورت شدیدہ کے حمل گرانا جائز نہیں اگرچہ حمل کی مدت ایک ہی ماہ ہوئی ہو۔ ایک سو بیس دن سے پہلے اسقاط حمل کی جو شرع نے اجازت دی ہے وہ مطلقٙٙا نہیں دی ہے بلکہ کسی شدید ضرورت کی وجہ سے دی ہے جیسے عورت کی گود میں بچہ ہو اور حمل کے قیام کی وجہ سے دودھ سوکھ گیا ہو اور بچہ کے بھوکوں مر جانے کا خطرہ پیدا ہوا ہو یا عورت کی صحت اتنی خراب ہو کہ حمل کی وجہ سے خود اس کی جان خطرے میں پڑ گئی ہو ۔ اگر ایسی کوئی مجبوری اور پریشانی نہیں ہے تو پھر ایک ماہ کے حمل کے اسقاط کی بھی اجازت نہیں ہے۔ 
اور زید جس خیال سے اپنی بیوی کے حمل کی صفائی کروانا چاہتا ہے تو اس کے لیے تو شدت کے ساتھ کے شرع کی طرف سے ممانعت ہوگی اس لیے کہ زید کا خیال مشرکان عرب سے ملتا جلتا جاہلانہ خیال ہے اس لیے کہ اہل عرب بھی مفلسی اور تنگی رزق کے خوف ، دنیاوی زندگی کی آشائش اور آبادی پر کنٹرول کرنے کے خیال سے اپنی قوم کے بچوں کو زندہ دفنا دیا کرتے تھے۔
 کما قال اللہ تعالیٰ فی القرآن المجید :
"وَ لَا تَقْتُلُـوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا(٣١)
ترجمہ: کنزالایمان
اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم تمھیں بھی اورانہیں بھی روزی دیں گے بےشک ان کا قتل بڑی خطا ہے۔ 
اسی کے تحت تفسیر صراط الجنان تفسیر خازن کے حوالے سے منقول ہے:
(وَلَاتَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ: اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ اس رکوع میں متعدد کبیرہ گناہوں کے بارے میں واضح طور پر حکم دیا ہے کہ ان سے بچو ، چناں چہ یہاں بیان کردہ پہلا گناہ اولاد کو قتل کرنا ہے ۔ زمانۂ جاہلیت میں بہت سے اہلِ عرب اپنی چھوٹی بچیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے ، امیر تو اس لیے کہ کوئی ہمارا داماد نہ بنے اور ہم ذلت و عار نہ اٹھائیں جب کہ، غریب و مُفلس اپنی غربت کی وجہ سے کہ انھیں کہاں سے کھلائیں گے۔
(خازن ، الاسراء ، تحت الآیة : ۳۱، ۳ / ۱۷۳، نور العرفان ، بنی اسرائیل ، تحت الآیة : ۳۲، ص۴۵۴، ملخصاً)
دونوں گروہوں کا فعل ہی حرام تھا اور قرآن و حدیث میں دونوں کی مذمت بیان کی گئی ہے البتہ یہاں بطورِ خاص غریبوں کو اس حرکت سے منع کیا گیا ہے۔
اور فقھائے کرام علیھم الرحمة الرضوان لکھتے ہیں کہ:
بلاضرورتِ شرعیہ چارماہ سے کم کا حمل بھی گرانا، ناجائز و گناہ ہے۔ 
جیسا کہ فتاوی قاضی خان ، جلد سوم ،ص: ٣١٢/ میں ہے:
”واذا اسقطت الولد بالعلاج قالوا:ان لم یستبن شئ من خلقہ لا تاثم قال رضی اللہ عنہ: ولا اقول بہ فان المحرم اذاكسر بيض الصيد یکون ضامناً لانه اصل الصيد فلما كان مؤاخَذاً بالجزاء ثمّۃ فلا اقلّ من ان يلحقها اثم ھهنا اذا اسقطت بغير عذرالّالا تأثم اثم القتل“
یعنی عورت نے بذریعہ علاج حمل ساقط کروایا تو بعض نےفرمایا کہ اگر بچے کے اعضاء نہیں بنے تو گناہ گار نہ ہوگی ،
 آپ (یعنی امام قاضی خان) رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
میں اس کا قائل نہیں کیوں کہ جب احرام والا شخص ، شکاری جاندار کے انڈے توڑ دے تو اس پر تاوان لازم آتا ہے کیوں کہ انڈے جاندار کی اصل ہیں تو جب وہاں احرام والے سے انڈے ضائع کرنے پر جنایت کا حکم ہوگا تو یہاں کم از کم اتنا ہوگا کہ بلاعذرِ شرعی حمل ساقط کرانے والی عورت گناہگار ہوگی البتہ اسے قتل کا گناہ نہیں ملے گا۔
اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فتاوی رضویہ ، جلد ، نہم ، ص: ٢٦٠/ میں فرماتے ہیں کہ:
"جان پڑ جانے کے بعد اسقاط حمل حرام ہے اور ایسا کرنے والا گویا قاتل ہے اور جان پڑنے سے پہلے اگر کوئی ضرورت ہو تو حرج نہیں۔
بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ:
"بغیر کسی شدید قسم کی شرعی ضرورت (مثلا عورت کی ہلاکت کا خطرہ ہو یا استقرار کی وجہ سے دودھ پینے والے بچہ کی جان کو اندیشہ ہو ۔ اسقاطِ حمل ناجائز و گناہ ہے"
(فتاوی بحر العلوم جلد دوم ص: ٦٠٨) 
اسی میں ہے:
اسقاط حمل کی اجازت "بضرورت ہے وہ نفخ روح و تکمیل اعضاء کے بعد اگر بچہ زندہ ہے تو کسی بھی ضرورت پر اسقاط جائز نہیں"۔
(ایضٙٙا ، ص: ٦١٠)
فتاوی فقیہ ملت ، جلد دوم ص: ٣٣١/ میں ہے:
"اگر ضرورت ہو تو چار مہینے سے پہلے حمل گرانا جائز ہے ،بلا ضرورت ایسی حرکت درست نہیں"۔ 
ان ساری عبارات مذکورہ بالا سے یہ بات واضح ہو چکی کہ اگر معاشی خوف کی وجہ سے اسقاط حمل تو بالکل ہی ناجائز ہے وحرام ، اگر چہ حمل چار ماہ سے کم ہی کا کیوں نہ ہو۔ اور اسی طرح اگر شدید ضرورت نہ ہو تو اس۔ صورت میں بھی حمل کا ساقط کرنا درست نہیں ہے اگرچہ حمل کے قیام کی مدت ابھی ایک ہی ماہ ہوئی ہو۔
فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔ 
_________(❤️)_________ 
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــبه:
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
خادم التدریس والافتا دارالعلوم شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات، 
١٢/ جمادی الاولی ١۴۴۵/ ہجری 
٢٧/ نومبر ٢٠٢٣ عیسوی۔ بروز پیر۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area