(سوال نمبر 4762)
کیا واٹس ایپ پر کسی کے سلام کا جواب دینا فورا واجب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کچھ لوگ واٹس ایپ پر السلام علیکم و رحمۃ اللہ لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور جس کے پاس بھیجتے ہیں وہ دیکھ بھی لیتا ہے کہ میرے پاس سلام لکھ کر ایا ہے مگر وہ جواب اپ نہیں دیتے کیا اس کا جواب دینا واجب ہے جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد ظفر رضا خیری ضلع و شہر قنوج یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
ہاں وائس ایپ پر سلام کا جواب دینا فورا واجب ہے۔
اس کے دو طریقے ہیں
ایک جب بھی اپ کو سلام کا میسیج ائے اپ میسیج دیکھنے ہی زبان سے سلام کا جواب دے دیں۔
اور دوسرا لکھ کر بھی جواب دیں۔تاکہ اسے پتا چلے اور وہ بد ظن نہ ہو ۔
ہعنی واٹس ایپ پر کیے گئے سلام کا جواب دینے کے دو طریقے ہیں اگر اس کا جواب لکھ کر دے دیا ، تو بھی حق ادا ہوجائے گا اور اگر زبان سے جواب دے دیا ، اس طرح بھی ذمہ سے بری ہوجائے گا اور بہتر بھی یہی ہے کہ جیسے ہی کسی کا سلام موصول ہو تو فوراً زبان سے سلام کا جواب دیدے ، تاکہ تاخیر کی وجہ سے گنہگار بھی نہ ہو اور پھر واٹس ایپ کا جواب دیتے ہوئے بھی سلام کا جواب دے دینا چاہیے تاکہ وہ شخص کسی بدگمانی کا شکار بھی نہ ہو
اللہ کا فرمان ہے
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا
(ترجمہ کنزالایمان)
اور جب تمہیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے ،تو تم اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا وہی کہہ دو
تفسیرِ خزائن العرفان میں ہے سلام کرنا سنّت ہے اور جواب دینا فرض
کیا واٹس ایپ پر کسی کے سلام کا جواب دینا فورا واجب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کچھ لوگ واٹس ایپ پر السلام علیکم و رحمۃ اللہ لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور جس کے پاس بھیجتے ہیں وہ دیکھ بھی لیتا ہے کہ میرے پاس سلام لکھ کر ایا ہے مگر وہ جواب اپ نہیں دیتے کیا اس کا جواب دینا واجب ہے جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد ظفر رضا خیری ضلع و شہر قنوج یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
ہاں وائس ایپ پر سلام کا جواب دینا فورا واجب ہے۔
اس کے دو طریقے ہیں
ایک جب بھی اپ کو سلام کا میسیج ائے اپ میسیج دیکھنے ہی زبان سے سلام کا جواب دے دیں۔
اور دوسرا لکھ کر بھی جواب دیں۔تاکہ اسے پتا چلے اور وہ بد ظن نہ ہو ۔
ہعنی واٹس ایپ پر کیے گئے سلام کا جواب دینے کے دو طریقے ہیں اگر اس کا جواب لکھ کر دے دیا ، تو بھی حق ادا ہوجائے گا اور اگر زبان سے جواب دے دیا ، اس طرح بھی ذمہ سے بری ہوجائے گا اور بہتر بھی یہی ہے کہ جیسے ہی کسی کا سلام موصول ہو تو فوراً زبان سے سلام کا جواب دیدے ، تاکہ تاخیر کی وجہ سے گنہگار بھی نہ ہو اور پھر واٹس ایپ کا جواب دیتے ہوئے بھی سلام کا جواب دے دینا چاہیے تاکہ وہ شخص کسی بدگمانی کا شکار بھی نہ ہو
اللہ کا فرمان ہے
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا
(ترجمہ کنزالایمان)
اور جب تمہیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے ،تو تم اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا وہی کہہ دو
تفسیرِ خزائن العرفان میں ہے سلام کرنا سنّت ہے اور جواب دینا فرض
(پارہ 5، سورۃ النساء ، آیت 86)
سلام کا جواب دینا مسلمان کا حق ہے
حق المسلم على المسلم خمس: رد السلام، وعيادة المريض، وتشميت العاطس، واتباع الجنائز، وإجابة الدعوة۔
مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینا ،بیمار کی عیادت کرنا ،جنازوں کے ساتھ جانا دعوت قبول کرنا ،چھینک کا جواب دینا۔
سلام کا جواب دینا مسلمان کا حق ہے
حق المسلم على المسلم خمس: رد السلام، وعيادة المريض، وتشميت العاطس، واتباع الجنائز، وإجابة الدعوة۔
مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینا ،بیمار کی عیادت کرنا ،جنازوں کے ساتھ جانا دعوت قبول کرنا ،چھینک کا جواب دینا۔
(شعب الایمان ج 11ص 444 ، مطبوعہ ریاض)
قلم بھی ایک قسم کی زبان ہے
فیض القدیر میں ہے
ان القلم احد اللسانين المعبرين عما في القلب
قلم بھی ایک قسم کی زبان ہے ، جو دلی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے ۔
قلم بھی ایک قسم کی زبان ہے
فیض القدیر میں ہے
ان القلم احد اللسانين المعبرين عما في القلب
قلم بھی ایک قسم کی زبان ہے ، جو دلی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے ۔
(فیض القدیر ج 4 ص 336 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
الھدایہ میں ہے
والكتاب كالخطاب ۔
لکھنا بولنے کی طرح ہی ہے ۔
(الھدایہ کتاب البیوع ج 3 ، ص 24 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ،بیروت)
الھدایہ میں ہے
والكتاب كالخطاب ۔
لکھنا بولنے کی طرح ہی ہے ۔
(الھدایہ کتاب البیوع ج 3 ، ص 24 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ،بیروت)
(ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
فتاوی رضویہ میں ہے
القلم احد اللسانین
یعنی قلم بھی ایک زبان ہے جو زبان سے کہے پراحکام ہیں، وہی قلم پر
فتاوی رضویہ میں ہے
القلم احد اللسانین
یعنی قلم بھی ایک زبان ہے جو زبان سے کہے پراحکام ہیں، وہی قلم پر
(فتاویٰ رضویہ ج 14 ص 607 رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
فتاوی شامی میں ہے
ويجب رد جواب كتاب التحية کرد السلام
تحیت والے خط کے سلام کا جواب دینا ( اُسی طرح ) واجب ہے ، جیسا کہ (زبان سے ) سلام کا جواب دینا ۔
آگے فرماتے ہیں
لأن الكتاب من الغائب بمنزلة الخطاب من الحاضر والناس عنه غافلون ط أقول المتبادر من هذا أن المراد رد سلام الكتاب لا رد الكتاب لكن في الجامع الصغير للسيوطي رد جواب الكتاب حق كرد السلام قال شارحه المناوي أي إذا كتب لك رجل بالسلام في كتاب ووصل إليك وجب عليك الرد باللفظ أو بالمراسلة
کیونکہ غائب شخص کی طرف سے آیا ہوا خط ایسے ہی ہے ، جیسا کہ سامنے موجود بندے کا کلام ، جبکہ لوگ اس مسئلے سے غافل ہیں ۔ ( علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ) میں کہتا ہوں کہ اس سے متبادر یہی ہے کہ اس خط کے سلام کا جواب دینا لازم ہے ، نہ کہ لکھ کر بھیجنا ، لیکن امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع الصغیر میں ہے کہ خط والے سلام کا جواب دینا بھی ایسا ہی حق ہے ، جیسا کہ ( زبان سے ) سلام کا حکم ہے ۔ اس کے شارح علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی جب تجھے کسی شخص نے لکھ کر سلام بھیجا اور وہ خط تیرے پاس پہنچ گیا ، تو زبان کے ذریعے یا خط کے ذریعے ( دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعے ) جواب دینا لازم ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے
ويجب رد جواب كتاب التحية کرد السلام
تحیت والے خط کے سلام کا جواب دینا ( اُسی طرح ) واجب ہے ، جیسا کہ (زبان سے ) سلام کا جواب دینا ۔
آگے فرماتے ہیں
لأن الكتاب من الغائب بمنزلة الخطاب من الحاضر والناس عنه غافلون ط أقول المتبادر من هذا أن المراد رد سلام الكتاب لا رد الكتاب لكن في الجامع الصغير للسيوطي رد جواب الكتاب حق كرد السلام قال شارحه المناوي أي إذا كتب لك رجل بالسلام في كتاب ووصل إليك وجب عليك الرد باللفظ أو بالمراسلة
کیونکہ غائب شخص کی طرف سے آیا ہوا خط ایسے ہی ہے ، جیسا کہ سامنے موجود بندے کا کلام ، جبکہ لوگ اس مسئلے سے غافل ہیں ۔ ( علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ) میں کہتا ہوں کہ اس سے متبادر یہی ہے کہ اس خط کے سلام کا جواب دینا لازم ہے ، نہ کہ لکھ کر بھیجنا ، لیکن امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع الصغیر میں ہے کہ خط والے سلام کا جواب دینا بھی ایسا ہی حق ہے ، جیسا کہ ( زبان سے ) سلام کا حکم ہے ۔ اس کے شارح علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی جب تجھے کسی شخص نے لکھ کر سلام بھیجا اور وہ خط تیرے پاس پہنچ گیا ، تو زبان کے ذریعے یا خط کے ذریعے ( دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعے ) جواب دینا لازم ہے ۔
(رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الحظر و الاباحۃ ، فصل فی البیع ج 9 ،ص 685 ،مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے
خط میں سلام لکھا ہوتا ہے اس کا بھی جواب دینا واجب ہے اور یہاں جواب دو طرح ہوتا ہے، ایک یہ کہ زبان سے جواب دے، دوسری صورت یہ ہے کہ سلام کا جواب لکھ کر بھیجے۔ مگر چونکہ جواب سلام فوراً دینا واجب ہے، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ،تو اگر فوراً تحریری جواب نہ ہو ،جیسا کہ عموما ً یہی ہوتا ہے کہ خط کا جواب فوراً ہی نہیں لکھا جاتا ، خواہ مخواہ کچھ دیر ہوتی ہے ، تو زبان سے جواب فوراً دے دے، تاکہ تاخیر سے گناہ نہ ہو۔ اسی وجہ سے علامہ سید احمد طحطاوی نے اس جگہ فرمایا وَالنَّاسُ عَنْہُ غَافِلُوْنَ
یعنی لوگ اس سے غافل ہیں۔ اعلیٰ حضرت قبلہ قُدِّسَ سِرُّہ جب خط پڑھا کرتے تو خط میں جو السَّلام عَلَیْکُمْ لکھا ہوتا ہے ، اس کا جواب زبان سے دے کر بعد کا مضمون پڑھتے (بھارِ شریعت ح16 ج 3 ص 463 ، 464 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
ایک مقام پر فرماتے ہیں
سلام کا جواب فوراً دینا واجب ہے، بلاعذر تاخیر کی ، تو گنہگار ہوا اور یہ گناہ جواب دینے سے دفع نہ ہوگا بلکہ توبہ کرنی ہوگی۔
بہار شریعت میں ہے
خط میں سلام لکھا ہوتا ہے اس کا بھی جواب دینا واجب ہے اور یہاں جواب دو طرح ہوتا ہے، ایک یہ کہ زبان سے جواب دے، دوسری صورت یہ ہے کہ سلام کا جواب لکھ کر بھیجے۔ مگر چونکہ جواب سلام فوراً دینا واجب ہے، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ،تو اگر فوراً تحریری جواب نہ ہو ،جیسا کہ عموما ً یہی ہوتا ہے کہ خط کا جواب فوراً ہی نہیں لکھا جاتا ، خواہ مخواہ کچھ دیر ہوتی ہے ، تو زبان سے جواب فوراً دے دے، تاکہ تاخیر سے گناہ نہ ہو۔ اسی وجہ سے علامہ سید احمد طحطاوی نے اس جگہ فرمایا وَالنَّاسُ عَنْہُ غَافِلُوْنَ
یعنی لوگ اس سے غافل ہیں۔ اعلیٰ حضرت قبلہ قُدِّسَ سِرُّہ جب خط پڑھا کرتے تو خط میں جو السَّلام عَلَیْکُمْ لکھا ہوتا ہے ، اس کا جواب زبان سے دے کر بعد کا مضمون پڑھتے (بھارِ شریعت ح16 ج 3 ص 463 ، 464 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
ایک مقام پر فرماتے ہیں
سلام کا جواب فوراً دینا واجب ہے، بلاعذر تاخیر کی ، تو گنہگار ہوا اور یہ گناہ جواب دینے سے دفع نہ ہوگا بلکہ توبہ کرنی ہوگی۔
(بھارِ شریعت ح 16 ، ج 3 ،ص 460 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
21/10/2023
21/10/2023