مرحومین کو قرآن خوانی کا ثواب کیسے ملتا ہے اور کیسے نہیں۔
شرعی تحقیق
♦•••••••••••••••••••••••••♦
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال(1) کیا فرمائے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آج کل جو رواج قائم کرلیا گیا ہے کہ شعبان کے مہینہ میں یا کسی مہینہ میں مرحومین کو ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی ۔کلمہ خوانی درود خوانی کرایا جاتا ہے اس میں گھر والوں کے دماغ میں ہوتا ہے کہ مجھے بچوں کو کچھ نذرانہ دینا ہے اور بچے کو بھی معلوم رہتا ہے کہ وہاں ہم سب کو کچھ نذرانہ ملے گا تو کیا اس طرح قرآن خوانی پڑھ کر مردوں کو بخش دینے کے بعد مرحومین کوثواب ملتا ہے یا نہیں؟
سوال (2) کچھ جگہ مدرسہ والے کہتے ہیں کہ بچے جارہے ہیں انہیں کچھ نذرانہ دے دیں گے کیا یہ صحیح ہے؟
سوال (3) بعض جگہ بچوں کے ساتھ علماء حفاظ بھی روپیہ طلب کرتے ہیں کیا یہ صورت جائز ہے ؟
سوال (4) کچھ مدرسہ والے کہتے ہیں کہ بچے وہاں نہیں کھائیں گے آپ چاول و گوشت مدرسہ ہی میں بھیج دیں ، کیا یہ درست ہے ؟
المستفتی:- جملہ مدرسین دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفے مرپا شریف
(مورخہ 18 مارچ 2022)
سوال(1) کیا فرمائے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آج کل جو رواج قائم کرلیا گیا ہے کہ شعبان کے مہینہ میں یا کسی مہینہ میں مرحومین کو ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی ۔کلمہ خوانی درود خوانی کرایا جاتا ہے اس میں گھر والوں کے دماغ میں ہوتا ہے کہ مجھے بچوں کو کچھ نذرانہ دینا ہے اور بچے کو بھی معلوم رہتا ہے کہ وہاں ہم سب کو کچھ نذرانہ ملے گا تو کیا اس طرح قرآن خوانی پڑھ کر مردوں کو بخش دینے کے بعد مرحومین کوثواب ملتا ہے یا نہیں؟
سوال (2) کچھ جگہ مدرسہ والے کہتے ہیں کہ بچے جارہے ہیں انہیں کچھ نذرانہ دے دیں گے کیا یہ صحیح ہے؟
سوال (3) بعض جگہ بچوں کے ساتھ علماء حفاظ بھی روپیہ طلب کرتے ہیں کیا یہ صورت جائز ہے ؟
سوال (4) کچھ مدرسہ والے کہتے ہیں کہ بچے وہاں نہیں کھائیں گے آپ چاول و گوشت مدرسہ ہی میں بھیج دیں ، کیا یہ درست ہے ؟
المستفتی:- جملہ مدرسین دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفے مرپا شریف
(مورخہ 18 مارچ 2022)
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
الجواب بعون الملک الوہاب
وصلی اللہ تعالیٰ علی سیدنا مولانا محمدمعدن الجود والکرم وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم
صورت مسئولہ میں فقہائے متقدمین و متاخرین کے نزدیک ان تینوں طریقوں سے قرآن خوانی کا ثواب تلاوت قرآن پاک کرنے والے کو نہیں ملتا ہے اور جب پڑھنے والوں کوثواب نہیں ملتا تو وہ دوسرے کو اس کا ثواب کیسے بھیج سکتا ہے۔ کیونکہ اس نے اجرت لیا ہے گھر والے خوش ہوتے ہیں کہ میں نے قرآن خوانی کراکر اپنے مرحومین کو ثواب بھیج دیا لیکن انہیں کیا معلوم کے مرحومین ان نیکیوں کونہیں پاسکیں گے کیونکہ اس طریقہ سے مرحومین کو کوئی ثواب نہیں ملتا ہے کتنے دکھ و درد کی بات ہے کہ گھر والے خرچ بھی کرتے ہیں اور مدرسہ کے طلباء قرآن مجید بھی پڑھتے ہیں لیکن مندرجہ بالا ترکیب ناجائز ہونے کی وجہ سے مرحومین ثواب سے محروم ہوجاتے ہیں۔ مسلمانو! اپنے مردے کے ساتھ بھلائیاں کرو کہ آپ دارالعمل میں ہے اور وہ دارالجزاء میں ہے ایک ایک نیکی کا محتاج ہے اس لئے اس رواج کو بند کرکے جائز طریقہ سے قرآن خوانی کرائیں مدرسہ والے پر سختی کریں کہ اس ترکیب کو بدلیں ۔
بے شک قرآن خوانی جائز اور اس میں کافی ثواب ہے حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں
کہ قرآن خوانی کرانا صرف جائز ہی نہیں بلکہ اس میں بہت زیادہ ثواب ہے
" حدیث شریف میں ہے
جو شخص کتاب اللہ سے ایک حرف پڑھتا ہے اسے ہر حرف کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے ۔اور ہر نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے ۔میں نہیں کہتا کہ "الم" ایک حرف ہے بلکہ" الف" ایک حرف ہے "لام" ایک حرف ہے اور "میم" ایک حرف ہے "
لہذا قرآن خوانی یعنی قرآن پڑھنے میں بہر حال ثواب ملتا ہے چاہے تنہا پڑھے یا اجتماعی طور پر، اس لئے کہ حدیث شریف کا بیان عام ہے تنہا پڑھنے والے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ (فتاوی فقیہ ملت جلد اول ص 288)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ
"اصل یہ ہے کہ طاعت و عبادات پر اجرت لینا دینا (سوائے تعلیم قرآن عظیم و علوم دین و اذان و امامت وغیرہا معدودے چند اشیاء کہ جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بنا چاری و مجبوری بنظر حال زمانہ جائز رکھا ) مطلقا حرام ہے ۔اور تلاوت قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب و ذکر شریف میلاد پاک حضور سید عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ضرور منجملہ عبادات و طاعت ہیں تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام و محذور ۔اور اجارہ جس طرح صریح عقد زبان سے ہوتا ہے عرفا شرط معروف و معہود سے بھی ہوجاتا ہے ۔مثلا پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا ۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملے گا ۔انہوں نے اس طور پر پڑھا ۔انہوں نے اس نیت سے پڑھوایا ۔اجارہ ہوگیا ۔اور اب وہ دو وجہ سے حرام ہوا ۔ایک طاعت پر اجارہ یہ خود حرام ۔دوسرے اجرت اگر عرفا معین نہیں تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد ۔یہ دوسرا حرام پس اگر کچھ قرار داد نہ ہو۔ نہ وہاں لین دین معہود ہوتا ہو تو بعد صلہ و حسن سلوک کچھ دے دینا جائز بلکہ حسن ۔مگر جبکہ اس طریقہ کا وہاں عام رواج ہے ۔تو صورت ثانیہ میں داخل ہوکر حرام محض ہے"
صورت مسئولہ میں فقہائے متقدمین و متاخرین کے نزدیک ان تینوں طریقوں سے قرآن خوانی کا ثواب تلاوت قرآن پاک کرنے والے کو نہیں ملتا ہے اور جب پڑھنے والوں کوثواب نہیں ملتا تو وہ دوسرے کو اس کا ثواب کیسے بھیج سکتا ہے۔ کیونکہ اس نے اجرت لیا ہے گھر والے خوش ہوتے ہیں کہ میں نے قرآن خوانی کراکر اپنے مرحومین کو ثواب بھیج دیا لیکن انہیں کیا معلوم کے مرحومین ان نیکیوں کونہیں پاسکیں گے کیونکہ اس طریقہ سے مرحومین کو کوئی ثواب نہیں ملتا ہے کتنے دکھ و درد کی بات ہے کہ گھر والے خرچ بھی کرتے ہیں اور مدرسہ کے طلباء قرآن مجید بھی پڑھتے ہیں لیکن مندرجہ بالا ترکیب ناجائز ہونے کی وجہ سے مرحومین ثواب سے محروم ہوجاتے ہیں۔ مسلمانو! اپنے مردے کے ساتھ بھلائیاں کرو کہ آپ دارالعمل میں ہے اور وہ دارالجزاء میں ہے ایک ایک نیکی کا محتاج ہے اس لئے اس رواج کو بند کرکے جائز طریقہ سے قرآن خوانی کرائیں مدرسہ والے پر سختی کریں کہ اس ترکیب کو بدلیں ۔
بے شک قرآن خوانی جائز اور اس میں کافی ثواب ہے حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں
کہ قرآن خوانی کرانا صرف جائز ہی نہیں بلکہ اس میں بہت زیادہ ثواب ہے
" حدیث شریف میں ہے
جو شخص کتاب اللہ سے ایک حرف پڑھتا ہے اسے ہر حرف کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے ۔اور ہر نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے ۔میں نہیں کہتا کہ "الم" ایک حرف ہے بلکہ" الف" ایک حرف ہے "لام" ایک حرف ہے اور "میم" ایک حرف ہے "
لہذا قرآن خوانی یعنی قرآن پڑھنے میں بہر حال ثواب ملتا ہے چاہے تنہا پڑھے یا اجتماعی طور پر، اس لئے کہ حدیث شریف کا بیان عام ہے تنہا پڑھنے والے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ (فتاوی فقیہ ملت جلد اول ص 288)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ
"اصل یہ ہے کہ طاعت و عبادات پر اجرت لینا دینا (سوائے تعلیم قرآن عظیم و علوم دین و اذان و امامت وغیرہا معدودے چند اشیاء کہ جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بنا چاری و مجبوری بنظر حال زمانہ جائز رکھا ) مطلقا حرام ہے ۔اور تلاوت قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب و ذکر شریف میلاد پاک حضور سید عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ضرور منجملہ عبادات و طاعت ہیں تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام و محذور ۔اور اجارہ جس طرح صریح عقد زبان سے ہوتا ہے عرفا شرط معروف و معہود سے بھی ہوجاتا ہے ۔مثلا پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا ۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملے گا ۔انہوں نے اس طور پر پڑھا ۔انہوں نے اس نیت سے پڑھوایا ۔اجارہ ہوگیا ۔اور اب وہ دو وجہ سے حرام ہوا ۔ایک طاعت پر اجارہ یہ خود حرام ۔دوسرے اجرت اگر عرفا معین نہیں تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد ۔یہ دوسرا حرام پس اگر کچھ قرار داد نہ ہو۔ نہ وہاں لین دین معہود ہوتا ہو تو بعد صلہ و حسن سلوک کچھ دے دینا جائز بلکہ حسن ۔مگر جبکہ اس طریقہ کا وہاں عام رواج ہے ۔تو صورت ثانیہ میں داخل ہوکر حرام محض ہے"
(فتاوی رضویہ جلد جدید 19 ص 487)
اس کے جواز کے لئے دو آسان طریقے ہیں اس پر عمل کریں تو قرآن خوانی کروانے والے ۔قران خوانی کرنے والے اور جن جن کو ایصال ثواب کیا جائے گا سب کو ثواب حاصل ہوگا ۔
(1) اول یہ کہ قبل قراءت پڑھنے والے صراحۃ کہہ دیں کہ ہم کچھ نہ لیں گے ۔پڑھوانے والے صاف انکار کردیں کہ تمہیں کچھ نہ دیا جائے گا ۔اس شرط کے بعد وہ پڑھیں ۔اور پھر پڑھوانے والے بطور صلہ جو چاہیں دے دیں ۔یہ لینا دینا حلال ہوگا ۔
لانتفاء الاجارۃ بوجھیھا ۔اما اللفظ فظاہر و اما العرف فلانھم نصوا علی نفیھا والصریح یفوق الدلالۃ ۔فلم یعارضہ العرف المعھود کما نص علیہ الامام فقیہ النفس قاضی خان رحمہ اللہ تعالیٰ فی الخانیۃ وغیرہ فی غیرھا من السادۃ الربانیۃ یعنی دو وجہ سے اجارہ نہ ہونے کی وجہ سے ۔ایک لفظ کے اعتبار سے ظاہر ہے ۔دوسرا عرف کی وجہ سے کیونکہ انہوں نے اس وجہ کی نفی پر نص کردی ہے اور صریح بات فائق ہوتی ہے ۔تو عرف معہود اس کے معارض نہ ہوسکے گا جیسا کہ امام فقیہ النفس قاضی خان نے اس پر اپنے فتاوی اور دیگر فقہاء نے دوسری کتب میں نص فرمائی ہے
(2) دوم پڑھوانے والے پڑھنے والوں سے نہ تعیین وقت و اجرت ان سے مطلق کار خدمت پر پڑھنے والوں کو اجارے میں لے لیں ۔مثلا یہ ان سے کہیں ۔ہم نے کل صبح سات بجے سے بارہ بجے تک بعوض ایک روپیہ کے اپنے کام کاج کے لئے اجارہ میں لیا ۔وہ کہیں ہم نے قبول کیا ۔اب یہ پڑھنے والے اتنے گھنٹوں کے لئے ان کے نوکر ہوگئے ۔وہ جو کام چاہیں لیں ۔اس اجارہ کے بعد وہ ان سے کہیں ۔اتنے پارے کلام اللہ شریف کے پڑھ کر ثواب فلاں کو بخش دو۔ یا مجلس میلاد مبارک پڑھ دو ۔یہ جائز ہوگا ۔اور لینا دینا حلال
لان الاجارۃ وقعت علی منافع ابدانھم لاعلی الطاعات والعبادات
اس کے جواز کے لئے دو آسان طریقے ہیں اس پر عمل کریں تو قرآن خوانی کروانے والے ۔قران خوانی کرنے والے اور جن جن کو ایصال ثواب کیا جائے گا سب کو ثواب حاصل ہوگا ۔
(1) اول یہ کہ قبل قراءت پڑھنے والے صراحۃ کہہ دیں کہ ہم کچھ نہ لیں گے ۔پڑھوانے والے صاف انکار کردیں کہ تمہیں کچھ نہ دیا جائے گا ۔اس شرط کے بعد وہ پڑھیں ۔اور پھر پڑھوانے والے بطور صلہ جو چاہیں دے دیں ۔یہ لینا دینا حلال ہوگا ۔
لانتفاء الاجارۃ بوجھیھا ۔اما اللفظ فظاہر و اما العرف فلانھم نصوا علی نفیھا والصریح یفوق الدلالۃ ۔فلم یعارضہ العرف المعھود کما نص علیہ الامام فقیہ النفس قاضی خان رحمہ اللہ تعالیٰ فی الخانیۃ وغیرہ فی غیرھا من السادۃ الربانیۃ یعنی دو وجہ سے اجارہ نہ ہونے کی وجہ سے ۔ایک لفظ کے اعتبار سے ظاہر ہے ۔دوسرا عرف کی وجہ سے کیونکہ انہوں نے اس وجہ کی نفی پر نص کردی ہے اور صریح بات فائق ہوتی ہے ۔تو عرف معہود اس کے معارض نہ ہوسکے گا جیسا کہ امام فقیہ النفس قاضی خان نے اس پر اپنے فتاوی اور دیگر فقہاء نے دوسری کتب میں نص فرمائی ہے
(2) دوم پڑھوانے والے پڑھنے والوں سے نہ تعیین وقت و اجرت ان سے مطلق کار خدمت پر پڑھنے والوں کو اجارے میں لے لیں ۔مثلا یہ ان سے کہیں ۔ہم نے کل صبح سات بجے سے بارہ بجے تک بعوض ایک روپیہ کے اپنے کام کاج کے لئے اجارہ میں لیا ۔وہ کہیں ہم نے قبول کیا ۔اب یہ پڑھنے والے اتنے گھنٹوں کے لئے ان کے نوکر ہوگئے ۔وہ جو کام چاہیں لیں ۔اس اجارہ کے بعد وہ ان سے کہیں ۔اتنے پارے کلام اللہ شریف کے پڑھ کر ثواب فلاں کو بخش دو۔ یا مجلس میلاد مبارک پڑھ دو ۔یہ جائز ہوگا ۔اور لینا دینا حلال
لان الاجارۃ وقعت علی منافع ابدانھم لاعلی الطاعات والعبادات
یعنی کیونکہ یہ اجارہ ان کے ابدان سے انتفاع پر ہوا ہے نہ کہ ان کی عبادات و طاعات پر ہوا ہے (فتاوی رضویہ جلد جدید 19 ص 487.488)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں "کہ حق یہی ہے کہ استیجار علی الطاعات حرام و باطل ہے سوائے تعلیم دین علوم دین و اذان و امامت وغیرہا بعض امور کے متاخرین نے بضرورت فتوائے جواز دیا ۔تلاوت قرآن و تسبیح وتہلیل پر اجرت لینا دینا دونوں ناجائز و حرام ہیں جیسا کہ محقق امین الدین شامی رحمۃ اللہ علیہ نے شفاء العلیل میں تحقیق فرمائی ہے" (فتاوی رضویہ جلد جدید 19 ص 498)
پھر سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ "اجرت پر کلام اللہ شریف بغرض ایصال ثواب پڑھنا پڑھوانا ناجائز ۔اور پڑھنے والا اور پڑھوانے والا دونوں گنہگار ۔اور اس میں میت کے لئے کوئی نفع نہیں ۔بلکہ اس کی مرضی وصیت سے ہو تو وہ بھی وبال میں گرفتار ۔اور یہ کہنا کہ ہم اللہ کے لئے پڑھتے ہیں اور دینے والے بھی ہمیں اللہ کے لئے دیتے ہیں ۔محض جھوٹ ہے ۔اگر یہ نہ پڑھیں تو وہ ایک جبہ ان کو نہ دیں ۔اور اگر وہ نہ دیں تو یہ ایک سطر نہ پڑھیں ۔اور شرع مطہرہ کا قاعدہ کلیہ ہے المعروف کالمشروط یعنی معروف مشروط کی طرح ہے ۔
پھر امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔زیارت قبور ۔اموات کے لئے ختم قرآن ۔قراءت ۔میلاد پاک سید الکائنات علیہ وعلی آلہ افضل الصلاۃ ۔پر اصل ضابطہ کی بناء پر منع باقی ہے ۔اور عرف میں مقررہ و مشہور لفظا مشروط کی طرح ہے ۔لہذا ان باقی امور میں اجرت مقرر کی گئی ۔
یا عرفا معلوم ہے کہ اجرت پر پڑھ رہے ہیں یا پڑھانے والے اجرت دیں گے ۔اگر یہ نہ پڑھیں تو نہ دیں ۔اور وہ نہ دیں تو یہ نہ پڑھیں تو ایسی صورت میں لینا اور دینا ناجائز ہے ۔لینے اور دینے والے دونوں گنہگار ہوں گے ۔
اگر عرف میں ایسے نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے پڑھیں ۔اور دل میں کسی عوض کا خیال نہ کریں حتی کہ یقین بھی ہوکہ نہ دیں گے اس کے باوجود پڑھیں ۔ایسی صورت میں کسی لفظی یا عرفی تقرر کے بغیر پڑھنے والوں کو دیں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ایسی جگہ جہاں عرف میں لینا دینا ہوتا ہو ۔پڑھنے والے پہلے شرط کریں کہ ہم کچھ نہ لیں گے اور اس کے بعد اگر دینے والے دیں تو بھی جائز ہے کیونکہ صراحت فائق ہوتی ہے دلالت پر
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں "کہ حق یہی ہے کہ استیجار علی الطاعات حرام و باطل ہے سوائے تعلیم دین علوم دین و اذان و امامت وغیرہا بعض امور کے متاخرین نے بضرورت فتوائے جواز دیا ۔تلاوت قرآن و تسبیح وتہلیل پر اجرت لینا دینا دونوں ناجائز و حرام ہیں جیسا کہ محقق امین الدین شامی رحمۃ اللہ علیہ نے شفاء العلیل میں تحقیق فرمائی ہے" (فتاوی رضویہ جلد جدید 19 ص 498)
پھر سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ "اجرت پر کلام اللہ شریف بغرض ایصال ثواب پڑھنا پڑھوانا ناجائز ۔اور پڑھنے والا اور پڑھوانے والا دونوں گنہگار ۔اور اس میں میت کے لئے کوئی نفع نہیں ۔بلکہ اس کی مرضی وصیت سے ہو تو وہ بھی وبال میں گرفتار ۔اور یہ کہنا کہ ہم اللہ کے لئے پڑھتے ہیں اور دینے والے بھی ہمیں اللہ کے لئے دیتے ہیں ۔محض جھوٹ ہے ۔اگر یہ نہ پڑھیں تو وہ ایک جبہ ان کو نہ دیں ۔اور اگر وہ نہ دیں تو یہ ایک سطر نہ پڑھیں ۔اور شرع مطہرہ کا قاعدہ کلیہ ہے المعروف کالمشروط یعنی معروف مشروط کی طرح ہے ۔
پھر امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔زیارت قبور ۔اموات کے لئے ختم قرآن ۔قراءت ۔میلاد پاک سید الکائنات علیہ وعلی آلہ افضل الصلاۃ ۔پر اصل ضابطہ کی بناء پر منع باقی ہے ۔اور عرف میں مقررہ و مشہور لفظا مشروط کی طرح ہے ۔لہذا ان باقی امور میں اجرت مقرر کی گئی ۔
یا عرفا معلوم ہے کہ اجرت پر پڑھ رہے ہیں یا پڑھانے والے اجرت دیں گے ۔اگر یہ نہ پڑھیں تو نہ دیں ۔اور وہ نہ دیں تو یہ نہ پڑھیں تو ایسی صورت میں لینا اور دینا ناجائز ہے ۔لینے اور دینے والے دونوں گنہگار ہوں گے ۔
اگر عرف میں ایسے نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے پڑھیں ۔اور دل میں کسی عوض کا خیال نہ کریں حتی کہ یقین بھی ہوکہ نہ دیں گے اس کے باوجود پڑھیں ۔ایسی صورت میں کسی لفظی یا عرفی تقرر کے بغیر پڑھنے والوں کو دیں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ایسی جگہ جہاں عرف میں لینا دینا ہوتا ہو ۔پڑھنے والے پہلے شرط کریں کہ ہم کچھ نہ لیں گے اور اس کے بعد اگر دینے والے دیں تو بھی جائز ہے کیونکہ صراحت فائق ہوتی ہے دلالت پر
(فتاوی رضویہ جلد جدید 19 ص 495)
حضور فقیہ ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
ایصال ثواب کے لئے کسی بھی موقع پر قرآن خوانی کروانا جائز و مستحسن ہے لیکن اس پر اجرت لینا دینا جائز نہیں ۔فقیہ اعظم ہند حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ
سوم وغیرہ کے موقع پر اجرت پر قرآن پڑھوانا ناجائز ہے دینے والا لینے والا دونوں گنہگار
اسی طرح اکثر لوگ چالیس روز تک قبر کے پاس یا مکان پر قرآن پڑھوا کر ایصال ثواب کرواتے ہیں ۔اگر اجرت پر ہو یہ بھی ناجائز ہے بلکہ اس صورت میں ایصال ثواب بے معنی بات ہے کہ جب پڑھنے والے نے پیسوں کی خاطر پڑھا تو ثواب ہی کہاں جس کا ایصال ثواب کیا جائے اس کا ثواب یعنی بدلہ پیسہ ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ اعمال جتنے ہیں نیت کے ساتھ ہیں جب اللہ کے لئے عمل نہ ہو ثواب کی امید بے کار ہے (فتاوی برکاتیہ ص 222 ۔بحوالہ بہار شریعت جلد 14 ص 139)
اور حضرت علامہ ابن عابدین شامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ
قال تاج الشریعۃ فی شرح الھدایۃ ان القرآن بالاجرۃ لا یستحق بالثواب لاللمیت
جو حافظ اس کا پیشہ رکھے فاسق معلن ہے ۔اور فاسق معلن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے کہ اسے امام بنانا گناہ ۔اور جو نماز اس کے پیچھے پڑھی ہو اس کا پھیرنا واجب۔"
حضور فقیہ ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
ایصال ثواب کے لئے کسی بھی موقع پر قرآن خوانی کروانا جائز و مستحسن ہے لیکن اس پر اجرت لینا دینا جائز نہیں ۔فقیہ اعظم ہند حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ
سوم وغیرہ کے موقع پر اجرت پر قرآن پڑھوانا ناجائز ہے دینے والا لینے والا دونوں گنہگار
اسی طرح اکثر لوگ چالیس روز تک قبر کے پاس یا مکان پر قرآن پڑھوا کر ایصال ثواب کرواتے ہیں ۔اگر اجرت پر ہو یہ بھی ناجائز ہے بلکہ اس صورت میں ایصال ثواب بے معنی بات ہے کہ جب پڑھنے والے نے پیسوں کی خاطر پڑھا تو ثواب ہی کہاں جس کا ایصال ثواب کیا جائے اس کا ثواب یعنی بدلہ پیسہ ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ اعمال جتنے ہیں نیت کے ساتھ ہیں جب اللہ کے لئے عمل نہ ہو ثواب کی امید بے کار ہے (فتاوی برکاتیہ ص 222 ۔بحوالہ بہار شریعت جلد 14 ص 139)
اور حضرت علامہ ابن عابدین شامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ
قال تاج الشریعۃ فی شرح الھدایۃ ان القرآن بالاجرۃ لا یستحق بالثواب لاللمیت
جو حافظ اس کا پیشہ رکھے فاسق معلن ہے ۔اور فاسق معلن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے کہ اسے امام بنانا گناہ ۔اور جو نماز اس کے پیچھے پڑھی ہو اس کا پھیرنا واجب۔"
(فتاوی رضویہ جلد جدید 19 ص 529 528)
آج کل اس طریقۂ قرآن خوانی کا عام رواج ہے تو کیا عموم بلوی کی وجہ سے اب بھی جائز نہیں ہوگا؟
الجواب ۔فقہی نص کی بناء پر عام بحث یا رواج پر عمل نہیں کیا جائے گا ۔طحطاوی باب العدت میں ہے
النص ھو المتبع فلا یعول علی البحث معہ یعنی نقل ہی کا اتباع ہے تو مسئلہ منقول ہوتے ہوئے بحث کا اعتبار نہ ہوگا۔
آج کل اس طریقۂ قرآن خوانی کا عام رواج ہے تو کیا عموم بلوی کی وجہ سے اب بھی جائز نہیں ہوگا؟
الجواب ۔فقہی نص کی بناء پر عام بحث یا رواج پر عمل نہیں کیا جائے گا ۔طحطاوی باب العدت میں ہے
النص ھو المتبع فلا یعول علی البحث معہ یعنی نقل ہی کا اتباع ہے تو مسئلہ منقول ہوتے ہوئے بحث کا اعتبار نہ ہوگا۔
(حاشیہ الطحطاوی علی الدرمختار جلد 2 ص 241)
صورت مسئولہ میں کسی ایک فقیہ کا بھی جواز پر کوئی قول نہیں ہے تو رواج پر کیونکر عمل ہوسکتا ہے ۔جو ہٹ دھرمی کرتے ہیں اس کی بات نہ سنی جائے گی کیونکہ یہ رواج جملہ فقہائے کرام کے اقوال اور مسئلہ منقولہ مذہب کے خلاف ہے اس لئے اس پر عمل جائز نہیں ہے اور ہمیں مذہب بس اگر ہمارے علمائے کرام اس مسئلہ پر دھیان دیں گے تو یہ رواج ختم ہوسکتا ہے اور قرآن خوانی والے بھی پہلے کہہ دیں کہ ہم تلاوت پر کچھ نہیں دیں گے پھر قرآن خوانی کرائیں اور بطور خدمت کچھ انعام دے دیں تو شرعا کوئی حرج نہیں کبھی بھی اجرت نہیں دیں
سوال ( پنجم )
کیا نابالغ بچے قرآنی خوانی کا ثواب مردوں کو بخش سکتا ہے؟
الجواب ۔نابالغ بچے کا پڑھا ہوا قرآن پاک بخشنا جائز ہے فتاوی فقیہ ملت میں ہے کہ نابالغ اپنے اوراد و وظائف اور قرآن کریم کی تلاوت کا ثواب دوسرے کو پہنچانے کے لئے جس کو چاہے دے سکتا ہے کہ اس میں نابالغ کا کچھ نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہے۔
صورت مسئولہ میں کسی ایک فقیہ کا بھی جواز پر کوئی قول نہیں ہے تو رواج پر کیونکر عمل ہوسکتا ہے ۔جو ہٹ دھرمی کرتے ہیں اس کی بات نہ سنی جائے گی کیونکہ یہ رواج جملہ فقہائے کرام کے اقوال اور مسئلہ منقولہ مذہب کے خلاف ہے اس لئے اس پر عمل جائز نہیں ہے اور ہمیں مذہب بس اگر ہمارے علمائے کرام اس مسئلہ پر دھیان دیں گے تو یہ رواج ختم ہوسکتا ہے اور قرآن خوانی والے بھی پہلے کہہ دیں کہ ہم تلاوت پر کچھ نہیں دیں گے پھر قرآن خوانی کرائیں اور بطور خدمت کچھ انعام دے دیں تو شرعا کوئی حرج نہیں کبھی بھی اجرت نہیں دیں
سوال ( پنجم )
کیا نابالغ بچے قرآنی خوانی کا ثواب مردوں کو بخش سکتا ہے؟
الجواب ۔نابالغ بچے کا پڑھا ہوا قرآن پاک بخشنا جائز ہے فتاوی فقیہ ملت میں ہے کہ نابالغ اپنے اوراد و وظائف اور قرآن کریم کی تلاوت کا ثواب دوسرے کو پہنچانے کے لئے جس کو چاہے دے سکتا ہے کہ اس میں نابالغ کا کچھ نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہے۔
(فتاوی فقیہ ملت جلد اول ص 285)
ہاں نابالغ بچے سے پانی منگواکر وضو کرنا جائز نہیں ہے کہ اس صورت میں نابالغ بچے کو ہبہ کرنے کا اختیار نہیں ہے
ایک اشکال اور اس کا حل:-
ایصال ثواب بھی ہدیہ و ہبہ ہے اور نابالغ بچوں سے پانی منگوا کر وضو کرنا بھی بچوں کی طرف سے ہدیہ ہے تو ایک طرح سے ایصال ثواب اور نابالغ کا پانی دینا دونوں ایک ہی طرح ہے تو پھر ایصال ثواب جائز کیوں اور پانی دینا کیوں جائز نہیں۔
حل نابالغ بچوں کے ایصال ثواب یہ ہبہ مال کی طرح نہیں ہے کہ مال جب کسی کو دیا تو اپنے پاس سے گیا ۔اور جب تک اپنے پاس ہے دوسرے تک نہ پہنچے گا جب دوسرے کے پاس پہنچ جائے گا تو اپنے پاس نہ رہے گا جیسا کہ نابالغ بچہ پانی بھر کر دیا تو پانی دے دینے کے بعد اس کے پاس پانی نہیں رہے گا کہ وہ دوسرے کو دے دیا لیکن ایصال ثواب میں وسعت فضل الہی اور کمال ربانی سے ہدیہ کرنے والے کا ثواب خود اس کے پاس بھی رہتا ہے اور موہوب کے پاس بھی پہنچتا ہے بلکہ اس عمل کی وجہ سے خود اس بچے کا ثواب اس کے لئے دس گنا ہوجاتا ہے تو یہ ایسا نفع ہے جس میں کوئی کمی نہیں اور یہ ایسی تجارت ہے جس میں ہر گز کوئی خسارہ نہیں۔
کسی مسلمان کو ثواب ہبہ و ہدیہ کرنے کو بحمدہ تعالیٰ ہم نفع بے ضرر پاتے ہیں ۔یعنی جب اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو ہدیہ کیا تو اس کے پاس پہنچ گیا اور خود ہدیہ کرنے والے کے پاس سے فنا نہ ہوا لہذا بلاشبہ بچہ اس طرح کے تبرع سے ہر گز محجور نہیں۔ اور نابالغ بھی ممیز بچہ اصل عمل دوسرے کے لئے اور اس کے حق میں کرسکتا ہے اور ثواب ہبہ کرنا بھی اس کے توابع میں سے ہے ۔ لیکن مال یا پانی لینے کے بعد بچے کے پاس نہ مال رہتا ہے اور نہ پانی اس میں اس کا نقصان ہوا۔ اس لئے فقہائے کرام نے نابالغ بچہ سے پانی منگواکر وضو کرنے یا پینے سے منع فرمایا ۔
ہاں نابالغ بچے سے پانی منگواکر وضو کرنا جائز نہیں ہے کہ اس صورت میں نابالغ بچے کو ہبہ کرنے کا اختیار نہیں ہے
ایک اشکال اور اس کا حل:-
ایصال ثواب بھی ہدیہ و ہبہ ہے اور نابالغ بچوں سے پانی منگوا کر وضو کرنا بھی بچوں کی طرف سے ہدیہ ہے تو ایک طرح سے ایصال ثواب اور نابالغ کا پانی دینا دونوں ایک ہی طرح ہے تو پھر ایصال ثواب جائز کیوں اور پانی دینا کیوں جائز نہیں۔
حل نابالغ بچوں کے ایصال ثواب یہ ہبہ مال کی طرح نہیں ہے کہ مال جب کسی کو دیا تو اپنے پاس سے گیا ۔اور جب تک اپنے پاس ہے دوسرے تک نہ پہنچے گا جب دوسرے کے پاس پہنچ جائے گا تو اپنے پاس نہ رہے گا جیسا کہ نابالغ بچہ پانی بھر کر دیا تو پانی دے دینے کے بعد اس کے پاس پانی نہیں رہے گا کہ وہ دوسرے کو دے دیا لیکن ایصال ثواب میں وسعت فضل الہی اور کمال ربانی سے ہدیہ کرنے والے کا ثواب خود اس کے پاس بھی رہتا ہے اور موہوب کے پاس بھی پہنچتا ہے بلکہ اس عمل کی وجہ سے خود اس بچے کا ثواب اس کے لئے دس گنا ہوجاتا ہے تو یہ ایسا نفع ہے جس میں کوئی کمی نہیں اور یہ ایسی تجارت ہے جس میں ہر گز کوئی خسارہ نہیں۔
کسی مسلمان کو ثواب ہبہ و ہدیہ کرنے کو بحمدہ تعالیٰ ہم نفع بے ضرر پاتے ہیں ۔یعنی جب اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو ہدیہ کیا تو اس کے پاس پہنچ گیا اور خود ہدیہ کرنے والے کے پاس سے فنا نہ ہوا لہذا بلاشبہ بچہ اس طرح کے تبرع سے ہر گز محجور نہیں۔ اور نابالغ بھی ممیز بچہ اصل عمل دوسرے کے لئے اور اس کے حق میں کرسکتا ہے اور ثواب ہبہ کرنا بھی اس کے توابع میں سے ہے ۔ لیکن مال یا پانی لینے کے بعد بچے کے پاس نہ مال رہتا ہے اور نہ پانی اس میں اس کا نقصان ہوا۔ اس لئے فقہائے کرام نے نابالغ بچہ سے پانی منگواکر وضو کرنے یا پینے سے منع فرمایا ۔
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوراں مفتی اعظم بہارحضرت علامہ
مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی مرپاوی
مورخہ 26 شعبان المعظم 1444
بمطابق 19 مارچ 2023
ازقلم:-
مورخہ 26 شعبان المعظم 1444
بمطابق 19 مارچ 2023
ازقلم:-
حضور مصباح ملت مفتی اعظم بہار حضرت مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی۔
ترسیل:-
ترسیل:-
محمد محب اللہ خاں ڈائریکٹر مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتامڑھی
سرپرست:-
سرپرست:-
حضور توصیف ملت حضور تاج السنہ شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان صاحب قادری بریلوی مدظلہ العالی۔
(1) صدر رکن اکیڈمی تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی ثنائی صاحب میرا روڈ ممبئی
(2) رکن خصوصی:-
شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شمس الحق رضوی ثنائی کھٹونہ نیپال
(3) رکن خصوصی:-
جامع معقولات و منقولات ماہر درسیات حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ قادری بریلوی شریف
(4)رکن سراج ملت حضرت مفتی عبد الغفار خاں نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
(5) عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ محمد جیند عالم شارق مصباحی بتاہی امام جامع مسجد کنہولی پرسا سیتامڑھی
(6) رکن خصوصی:-
مفتی اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمد قمر الزماں یار علوی ثنائی بانی و مہتمم دارالعلوم فیضان ملک العلماء گونڈی ممبئی۔
(7)رکن خصوصی:-
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد زین اللہ خاں قادری ثنائی نیتاجی نگر گھاٹکرپر مشرق ممبئی۔
(1) صدر رکن اکیڈمی تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی ثنائی صاحب میرا روڈ ممبئی
(2) رکن خصوصی:-
شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شمس الحق رضوی ثنائی کھٹونہ نیپال
(3) رکن خصوصی:-
جامع معقولات و منقولات ماہر درسیات حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ قادری بریلوی شریف
(4)رکن سراج ملت حضرت مفتی عبد الغفار خاں نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
(5) عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ محمد جیند عالم شارق مصباحی بتاہی امام جامع مسجد کنہولی پرسا سیتامڑھی
(6) رکن خصوصی:-
مفتی اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمد قمر الزماں یار علوی ثنائی بانی و مہتمم دارالعلوم فیضان ملک العلماء گونڈی ممبئی۔
(7)رکن خصوصی:-
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد زین اللہ خاں قادری ثنائی نیتاجی نگر گھاٹکرپر مشرق ممبئی۔