Type Here to Get Search Results !

کیا مدرسہ کی خالی زمین میں عیدگاہ بنانا یا اسکول کھولنا جائز ہے یا نہیں؟


کیا مدرسہ کی خالی زمین میں عیدگاہ بنانا یا اسکول کھولنا جائز ہے یا نہیں؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
(1)کیا مدرسہ کی خالی زمین میں عیدگاہ بنانا یا دنیاوی اسکول کھولنا جائز ہے یا ناجائز؟
(2) کیا مدرسہ کی وقف شدہ زمین پر مسجد بنانا یا مسجد کی وقف شدہ زمین پر مدرسہ بنانا یا مدرسہ کی زمین میں کسی مدرس یا کسی شخص کا قبر بنانا جائز ہے یا نہیں؟
(3) کیا وقف شدہ زمین کو کوئی خرید سکتا ہے یا نہیں؟
(4)کیا وقف شدہ زمین خرید کر اپنے استعمال میں لا سکتا ہے یا نہیں؟
(5) جس کام کے لئے چندہ کیا گیا اور اس چندہ سے وہ کام مکمل ہوگیا لیکن کچھ روپیہ بچ گیا تو کیا اس روپیہ کو دوسرے کام میں لگا سکتے ہیں یا نہیں؟
سائل:- عبد الغفار خان نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار 
♦•••••••••••••••••••••••••♦
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
مدرسہ کی زمین پر مسجد بنانا یا مسجد کی زمین پر مدرسہ بنانا یا مدرسہ یا مسجد کی زمین پر قبر بنانا یا مدرسہ یا مسجد کی زمین میں کسی رکن کا یا کسی کا بھی قبر بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ فعل تغییر وقف ہے اور تغییر وقف ناجائز وحرام اور باطل ہے ۔
الجواب دوم و سوم ۔ ۔کسی بھی وقف شدہ زمین کو کوئی نہیں خرید سکتا ہے اور نہ کوئی ہبہ کرسکتا ہے نہ کوئی بدلین کرسکتا ہے اور نہ کوئی اپنے مصرف میں لاسکتا ہے چونکہ وقف شدہ زمین کا کوئی مالک نہیں حتی کہ واقف بھی مالک نہیں اس کا مالک خدا تعالیٰ ہے 
وقف کا مسئلہ۔
وقف کسے کہتے ہیں؟
الوقف ازالۃ الملک الی اللہ تعالیٰ علی وجہ القربۃ
یعنی اپنی ملکیت کو عبادت کے طور پر زائل کرنا اللہ تعالیٰ کے لئے ۔اس کو وقف کہتے ہیں۔(الھدایۃ جلد دوم ص 623 کتاب الوقف)
وقف میں دو شرطیں لازم ہیں:
(1) ایک یہ کہ وہ کام جس کے لئے یہ وقت ابتداء ہوا یا آخر میں اس کے لئے قرار پائے گا واقف کے نزدیک کار ثواب ہو وہ اس ثواب کی نیت کرے یا نہ کرے یہ اس کا فعل ہے کام مذہبی حیثیت سے ثواب کا ہونا چاہئے ۔جیسے غربا کے لئے امداد اگرچہ دوا وغیرہ سے ہو 
(2) دوسرے یہ کہ وہ کام خود ہمارے مذہب اسلام کی رو سے کار ثواب ہو اگرچہ وقف کرنے والا مسلمان نہ ہو
(1):اسی لئے اگر اغنیاء کے چائے پانی کے لئے ہوٹل بناکر وقف کیا وقف نہ ہوگا کہ یہ کوئی ثواب کا کام نہیں
(2) کافر نے مسجد کے لئے وقف کیا وقف نہ ہوگا کہ یہ اس کے خیال میں کار ثواب نہیں 
(فتاوی رضویہ جلد ششم قدیم ص 399 پر فتاوی عالمگیری سے ہے)
(3) اسی طرح دیہات میں عیدگاہ بناکر وقف کیا یہ وقف صحیح نہیں ہے کہ دیہات میں احناف کے نزدیک نماز عید نہیں جب نماز عید نہیں تو عیدگاہ کی کیا ضرورت اور شہر میں عیدگاہ کا وقف صحیح ہے 
لایجوز تعییر الوقت:
یعنی وقف میں تغیر جائز نہیں لہذا قبرستان کی زمین کو فروخت کرنا یا اس میں مسجد و مدرسہ اور مسافر خانہ بنانا جائز نہیں ہے اور نہ مسجد کی زمین پر مدرسہ بنانا اور اسی طرح مدرسہ کی زمین پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے وقف کو اپنی حالت میں بحال رکھنا ضروری ہے
فتاوی برکاتیہ میں ہے کہ 
مال وقف مثل یتیم ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ جو اسے ظلما کھاتا ہے اپنے پیٹ میں آگ بھرتا ہے اور عنقریب جہنم میں جائے گا۔
(فتاوی برکاتیہ ص 178)
وقف کسی ملکیت ہر گز نہیں ہوسکتا ۔اعلی حضرت امام احمد رضا برکاتی محدث بریلوی علیہ الرحمہ والرضوان تحریر فرماتے ہیں ۔
جائدار ملک ہوکر وقف ہوسکتی ہے مگر وقف ٹھہر کر کبھی ملک نہیں ہوسکتی۔
(فتاوی رضویہ جلد قدیم ششم ص 353) 
اور فتاوی رضویہ میں ہے ۔وقف میں تصرف مالکانہ حرام ہے اور متولی جب ایسا کرے تو فرض ہے کہ اسے نکال دیں اگرچہ خود واقف ہو 
وقف شدہ زمین یا مکان کا کو فروخت کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس پر کسی کی ملکیت حاصل نہیں ہے لان الوقف لا یملک کیونکہ وقف کسی کا مملوک نہین ۔
مسلمانوں کو تغییر وقت کا کوئی اختیار نہیں تصرف آدمی اپنی ملک میں کرسکتا ہے وقف مالک حقیقی جل وعلا کی ملک خاص ہے۔
ح
لہذا قبرستان کی زمین کو فروخت کرنا ناجائز و حرام ہے کہ یہ کسی کے ملک میں نہیں ہے اور نہ اس کو بدل سکتے ہیں 
لایجوز تغییر الوقف عن ھیاتہ
وقف کی ہیت کو بدلنا جائز نہیں ۔کیونکہ 
لان شرط الواقف کنص الشارع
 کیونکہ واقف کی شرط ۔شارع کی نص کی طرح ہے
(درمختار ۔کتاب الوقف) 
۔اوقاف میں شرط واقف مثل نص شارع واجب الاتباع ہوتی ہے 
فقد قال علماؤنا ان شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ
یعنی ہمارے علماء نے فرمایا کہ واقف کی شرط پر عمل شارع کی نص پر عمل کی طرح ضروری ہے (الاشباہ والنظائر جلد ایک ص 305)
بلکہ اب واقف کو بھی تغیر وقف کی اجازت نہیں ہے چونکہ اس کی ملکیت سے وہ چیز خارج ہوچکی ہے 
وقف کردی زمین کی بیع جائز نہیں اس لئے مدرسہ یا مسجد یا قبرستان کی زمین کچھ بھی نہیں بیچ سکتے ہیں کیونکہ وہ سب وقف شدہ زمین ہے ۔وقف کی زمین کو رجسٹری کرنا واقف کے لئے ضروری نہیں ہے وقف کا ثبوت تعامل یا شہرت سے بھی ہوتا ہے
فتاوی ہندیہ میں ہے 
لایباع ولایوھب ولا یورث کذا فی البدایہ
نہ بیچ سکتا ہے اور نہ ہبہ کرسکتا ہے اور نہ وراثت بن سکتا ہے۔
(جلد دوم ص 350)
الوقف لایملک لا یباع ولا یورث
یعنی وقف ملکیت نہیں بن سکتا ۔نہ فروخت ہو آور نہ وراثت بن سکتا۔
اور درمختار میں ہے
فاذا تم قلزم لایملک ولا یملک
پس جب وقف مکمل اور لازم ہو جائے تو نہ خود اس کا مالک بنا جاسکتا ہے اور نہ کسی کو مالک بنایا جاسکتا ہے (درمختار جلد ششم ص 539) 
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
قبرستان وقف میں کوئی تصرف خلاف جائز نہیں ۔مدرسہ ہو خواہ مسجد یا کچھ اور 
(فتاوی رضویہ جلد جدید 16 ص 151)
ان تمام فقہی عبارتوں سے واضح ہوا کہ قبرستان ۔مسجد مدرسہ یا عیدگاہ کی زمین کوئی نہیں بیچ سکتا ہے جو بیچے گا گنہگار ہوگا ۔کیونکہ وہ اس کا مالک نہیں اور جو جس زمین کا مالک نہیں وہ اس کو نہ بیچ نہ ہبہ نہ قبضہ کر سکتا ہے اگر بیچا وہ غاصب ہوگا اور وہ علانیہ توبہ و استغفار کریں جو زمین جس کے لئے وقف شرعی ہے اور اسے کسی نے بیچ دیا تو وہ اگر قبرستان کی زمین ہے تو کل رقم قبرستان کے متولی کے حوالے کردیں اسی اگر وہ زمین مسجد کی ہے یا مدرسہ کی ہے یا عیدگاہ کی ہے اس رقم کو متولی کے حوالے کردیں اور خریدنے والا فورا وہ زمین واپس کریں ۔ورنہ قیامت کے دن سخت عذاب کا مستحق ہوگا اگر وہ واپس نہیں کرتا ہے تو وہاں کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں اور جس طرح ہوسکے اس سے روپیہ واپس لیں
حضور بحرالعلوم مفتی عبد المنان اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:جو شخص مسجد کی رقم اپنے ذاتی صرف میں خرچ کرے یا مسجد کے علاؤہ کسی دوسرے نیک کام میں ہی خرچ کرے ۔ایسا کرنا ناجائز و حرام ہے
درمختار میں ہے
ان اختلف احدھما بان بنی رجل مسجدیں او رجل مسجدا او مدرسۃ وقف علیھما اوقافا لا یجوز لہ ذالک۔(درمختار :جلد 6/431)
 مسلمان وہ ساری رقم اس سے وصول کریں اور بے جا تعرف کرنے والے کو علیحدہ اور معزول کردیں ۔وینزع الخائن وجوبا ولو الواقف (فتاوی بحرالعلوم جلد:اول ص 170)
کیا وقف شدہ زمین کو خریدنے والا اپنے استعمال میں لاسکتا ہے؟
الجواب :-
وہ خریدار کو ایک منٹ کے لئے بھی اس پر قابض رہنا حرام ہے اس لئے وہ استعمال میں نہیں لاسکتا ہے علماء فرماتے ہیں کہ 
الواجب البقاء الوقف علی ماکان علیہ
یعنی وقف کو اپنی حالت پر باقی رکھنا واجب ہے (فتح القدیر جلد پنجم ص 440)
لایجوز تغییر الوقف عن ھیاتۃ
یعنی وقف کی ہیت کو تبدیلی کرنا جائز نہیں۔
(فتاوی ہندیہ جلد 2 ص 490)
جس نے وقف شدہ زمین کو خریدا اس پر فرض ہے کہ اس زمین کو فورا چھوڑ دے اپنا روپیہ بیچنے والے سے لے لے جیسا کہ حضور مجدد اعظم امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ۔مشتری پر فرض ہے کہ اسے فورا چھوڑ دے اپنا روپیہ عمرو سے لے لے .روپیہ نہ ملنے تک قبضہ رکھنے کا مشتری کو کوئی اختیار نہیں ۔ایک منٹ کے لئے قابض رہنا اس پر حرام ہے ۔اس نے جدید کرلی (یعنی کوئی عمارت بنالی ) تو اسے اکھیڑ لے ۔اور اگر مسلمان اسے عملے کی قیمت ادا کرے ۔عملہ وقف کے لئے کرلیں تو بہتر 
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 16ص 120)
پس مسلمانوں! غور کرو کہ وقف شدہ زمین کو خریدنا تبدیل کرنا کسی دوسرے کام میں استعمال کرنا وقف کی ہیت کو بدلنا حرام و باطل ہے ایسا کام کرنے والا سخت گنہگار ہوگا بلکہ ایک منٹ قبضہ میں رکھنا حرام ہے اگر کسی نے عیدگاہ یا اسکول یا مدرسہ یا مسجد بنایا وہ اسے فورا ہٹا دیں اس چہار دیواری یا مکان کو فورا گرایں جو وقف جس کام کے لئے ہے اس پر وہی کام ہوگا وقف کو اپنی حالت پر برقرار رکھنا واجب ہے یہاں تک علماء فرماتے ہیں ایک مسجد کا سامان دوسری مسجد کو عاریۃ بھی دینا جائز نہیں۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 16 ص 226)
الجواب پنجم ۔
  
امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
چندہ کا جو روپیہ کام ختم ہوکر بچے لازم ہے کہ چندہ دینے والوں کو حصہ رسد دیا جائے ( یعنی واپس کردیا جائے ) یا وہ جس کام کے لئے اب اجازت دیں اس میں صرف ہو ۔بے ان کی اجازت کے صرف کرنا حرام ہے۔ہاں جب ان کا پتہ نہ چل سکے تو اب یہ چایئے کہ جس طرح کے کام کے لئے چندہ کیا تھا اسی طرح دوسرے کام میں اٹھائیں مثلا تعمیر مسجد کا چندہ تھا مسجد تعمیر ہوچکی تو باقی بھی کسی مسجد کی تعمیر میں اٹھائیں ۔غیر کام مثلا تعمیر مدرسہ میں صرف نہ کریں ۔اور اگر اس طرح کا دوسرا کام نہ پائیں تو وہ باقی روپیہ فقیروں کو تقسیم کریں۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 16 ص 206)
آج کل وہ علماء غور کریں کہ جلسہ کا چندہ کرتے ہیں اور جلسہ میں خرچ کے بعد روپیہ بچ جاتا ہے اسے مدرسہ میں رکھ لیتے ہیں یہ بھی ناجائز ہے اسی طرح کے ہر کام کے لئے یہی حکم ہوگا 
درمختار میں ہے کہ
ان فضل شئی رد للمتصدق ان علم والا اکفن بہ مثلہ والا تصدق بہ
یعنی اگر چندہ سے کچھ بچ جائے تو دینے والا اگر معلوم ہو تو اسے واپس کیا جائے گا ورنہ اس جیسے فقیر کے کفن پر صرف کیا جائے یا صدقہ کردیا جائے۔
(درمختار ۔باب صلواۃ الجنائز جلد ایک ص 121)
اسی طرح میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے چندہ کیا جائے اور خرچ کرنے کے بعد روپیہ بچ جائے تو چندہ دینے والے کو واپس کردیں ورنہ غیر کے مال میں بےجا تصرف کرنے کا گناہ ہوگا 
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوران مفتی اعظم بہارحضرت علامہ 
مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
11جمادی الاول 1445
26 نومبر 2023۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area