(سوال نمبر 4487)
اگر امام کے دل میں جلن ہو تو کیا اس کی امامت درست ہے ؟
................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ایک گاؤں ہے جس میں دو پارٹی ہے اور دو مدرسے چلتے ہیں اور دونوں پارٹیوں میں بہت ہی زیادہ اختلاف ہے اور مسجد ایک ہے جس میں دونوں پارٹی کے لوگ نماز و جمعہ ادا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر جلتے ہیں دل میں بغض و کینہ لے کر نماز ادا کرتے ہیں یعنی اس پارٹی کے لوگ ادھر والوں سے اور اس پارٹی کے لوگ ادھر والوں سے جلتے ہیںاس میں دریافت امر یہ ہے کہ کیا اس طرح ان لوگوں کی نماز ادا ہو جائے گی ؟ اور اگر امام کے دل میں بھی جلن ہو تو کیا اس کی امامت درست ہے ؟
اگر نماز ادا نہیں ہوگی تو کوئی ایسا طریقہ بتائے جسے جمعہ میں بتایا جائے اور ان کے دل سے یہ ساری خرافات نکل جائے اور آپس کا اختلاف ختم ہو جائے کوئی ایسی روایات کوئی ایسا واقعہ جس کو سن کر سب متفق ہوں جائے بہر حال سب کو ایک کرنا ہے بس ایک کرنے کا طریقہ بتادے ؟ جتنے جگہ سوالیہ نشان لگا ہے اسی کا جواب بالترتیب تحریر فرما کر شکریہ کا موقع فراہم کریں قرآن و حدیث اجماع و قیاس جس طرح سے ہوسکے مدلل جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد ابوذر قدوسی فیضی ساکن امہواں مہراجگنج یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ دونوں پارٹیاں گلے شکوے دور کرکے اتفاق و اتحاد قائم کریں شریعت میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے کسی مسلمان کو کسی مسلمان بھائی سے تین دن قطع تعلق رکھنا حلال نہیں ہے جو پارٹی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بہتر بننا چاہتے ہیں وہ اتفاق کرنے میں پہل کرے
جلن حسد بعض و کینہ دل سے نکال دے ۔
خدا ناخواستہ اگر اسی حال میں موت ہوگئی یعنی تین دن سے زیادہ چھوڑ رہیں حدیث میں ہے وہ شخص جہنم میں گیا۔اور اگر سال بھر اسی بغض و کینہ اور قطع کلامی میں رہے تو یہ اس کے قتل کی مثل ہے۔
١/ صحیح مسلم و بخاری میں ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے مروی کہ رسولﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا آدمی کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑ رکھے کہ دونوں ملتے ہیں ایک اِدھر مونھ پھیر لیتا ہے اور دوسرا اُدھر مونھ پھیرلیتا ہے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو ابتدائً سلام کرے۔
٢/ ابو داود نے حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے روایت کی کہ رسول اللّٰہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ مسلم کے لیے یہ نہیں ہے کہ دوسرے مسلم کو تین دن سے زیادہ چھوڑ رکھے جب اس سے ملاقات ہو تو تین مرتبہ سلام کرلے اگر اس نے جواب نہیں دیا تو اس کا گناہ بھی اسی کے ذمہ ہے۔
٣/ ابو داود نےابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسولﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا مومن کے لیے یہ حلال نہیں کہ مومن کو تین دن سے زیادہ چھوڑدے اگر تین دن گزر گئے ملاقات کرلے اور سلام کرے اگر دوسرے نے سلام کا جواب د ے د یا تو اجر میں دونوں شریک ہوگئے اور اگر جواب نہیں دیا تو گناہ اس کے ذمہ ہے اور یہ شخص چھوڑنے کے گناہ سے نکل گیا۔
٤/ ابو داود نے ابوخراش سلمی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ انھوں نے رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ جو شخص اپنے بھائی کو سال بھر چھوڑ دے، تو یہ اس کے قتل کی مثل ہے۔‘
٥/ امام احمد وابو داود نے ابوھریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللّہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم ے فرمایا مسلم کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے پھر جس نے ایسا کیا اور مرگیا تو جہنم میں گیا۔
اگر امام کے دل میں جلن ہو تو کیا اس کی امامت درست ہے ؟
................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ایک گاؤں ہے جس میں دو پارٹی ہے اور دو مدرسے چلتے ہیں اور دونوں پارٹیوں میں بہت ہی زیادہ اختلاف ہے اور مسجد ایک ہے جس میں دونوں پارٹی کے لوگ نماز و جمعہ ادا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر جلتے ہیں دل میں بغض و کینہ لے کر نماز ادا کرتے ہیں یعنی اس پارٹی کے لوگ ادھر والوں سے اور اس پارٹی کے لوگ ادھر والوں سے جلتے ہیںاس میں دریافت امر یہ ہے کہ کیا اس طرح ان لوگوں کی نماز ادا ہو جائے گی ؟ اور اگر امام کے دل میں بھی جلن ہو تو کیا اس کی امامت درست ہے ؟
اگر نماز ادا نہیں ہوگی تو کوئی ایسا طریقہ بتائے جسے جمعہ میں بتایا جائے اور ان کے دل سے یہ ساری خرافات نکل جائے اور آپس کا اختلاف ختم ہو جائے کوئی ایسی روایات کوئی ایسا واقعہ جس کو سن کر سب متفق ہوں جائے بہر حال سب کو ایک کرنا ہے بس ایک کرنے کا طریقہ بتادے ؟ جتنے جگہ سوالیہ نشان لگا ہے اسی کا جواب بالترتیب تحریر فرما کر شکریہ کا موقع فراہم کریں قرآن و حدیث اجماع و قیاس جس طرح سے ہوسکے مدلل جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد ابوذر قدوسی فیضی ساکن امہواں مہراجگنج یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ دونوں پارٹیاں گلے شکوے دور کرکے اتفاق و اتحاد قائم کریں شریعت میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے کسی مسلمان کو کسی مسلمان بھائی سے تین دن قطع تعلق رکھنا حلال نہیں ہے جو پارٹی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بہتر بننا چاہتے ہیں وہ اتفاق کرنے میں پہل کرے
جلن حسد بعض و کینہ دل سے نکال دے ۔
خدا ناخواستہ اگر اسی حال میں موت ہوگئی یعنی تین دن سے زیادہ چھوڑ رہیں حدیث میں ہے وہ شخص جہنم میں گیا۔اور اگر سال بھر اسی بغض و کینہ اور قطع کلامی میں رہے تو یہ اس کے قتل کی مثل ہے۔
١/ صحیح مسلم و بخاری میں ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے مروی کہ رسولﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا آدمی کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑ رکھے کہ دونوں ملتے ہیں ایک اِدھر مونھ پھیر لیتا ہے اور دوسرا اُدھر مونھ پھیرلیتا ہے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو ابتدائً سلام کرے۔
٢/ ابو داود نے حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے روایت کی کہ رسول اللّٰہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ مسلم کے لیے یہ نہیں ہے کہ دوسرے مسلم کو تین دن سے زیادہ چھوڑ رکھے جب اس سے ملاقات ہو تو تین مرتبہ سلام کرلے اگر اس نے جواب نہیں دیا تو اس کا گناہ بھی اسی کے ذمہ ہے۔
٣/ ابو داود نےابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسولﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا مومن کے لیے یہ حلال نہیں کہ مومن کو تین دن سے زیادہ چھوڑدے اگر تین دن گزر گئے ملاقات کرلے اور سلام کرے اگر دوسرے نے سلام کا جواب د ے د یا تو اجر میں دونوں شریک ہوگئے اور اگر جواب نہیں دیا تو گناہ اس کے ذمہ ہے اور یہ شخص چھوڑنے کے گناہ سے نکل گیا۔
٤/ ابو داود نے ابوخراش سلمی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ انھوں نے رسول اﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ جو شخص اپنے بھائی کو سال بھر چھوڑ دے، تو یہ اس کے قتل کی مثل ہے۔‘
٥/ امام احمد وابو داود نے ابوھریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللّہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم ے فرمایا مسلم کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے پھر جس نے ایسا کیا اور مرگیا تو جہنم میں گیا۔
(بہار شریعت ح ١٦ ص ٥٥١ مكتبة المدينة)
٢/ دونوں کی نماز ہوجائے گی ۔
٣/اگر امام کے دل میں جلن ہے پھر بھی نماز ہوجائے گی اور گناہ امام کے سر ہے
اسی طرح اگر امام سے کوئی جلتے ہیں پھر بھی نماز ہو جائے گی جب کہ امامت شرائط پائی جائے
امام صاحب کی اقتداکو ناپسندکرنے والے شخص پر ملامت کی جائے گی لہذا ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ امام صاحب کےساتھ دنیاوی معاملات کی وجہ سے رنجش نہ رکھے اوراس کام سے باز رہے
سنن ابی داؤد کی حدیث پاک کےایک جز
من تقدم قوما و ھم لہ کارھون
جو کسی قوم کی امامت کے لیے آگے بڑھا، حالانکہ قوم اس کے امام بننے کو ناپسند کرتی ہے۔اس کی شرح کرتے ہوئے علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
ھذا الوعید فی حق الرجل الذی لیس من اھل الامامۃ فیتغلب علیھا حتی یکر ہ الناس امامتہ فاما المستحق للامامۃ فاللوم علی من کرھ
یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو امامت کا اہل نہیں ہے اورلوگوں کی ناپسندیدگی کے باجود امامت کے لیے آگے بڑھ جاتا ہے بہر حال جو امامت کا مستحق ہے تو اس صورت میں جو ناپسند کر رہے ہیں، ان پر ملامت ہوگی۔
٢/ دونوں کی نماز ہوجائے گی ۔
٣/اگر امام کے دل میں جلن ہے پھر بھی نماز ہوجائے گی اور گناہ امام کے سر ہے
اسی طرح اگر امام سے کوئی جلتے ہیں پھر بھی نماز ہو جائے گی جب کہ امامت شرائط پائی جائے
امام صاحب کی اقتداکو ناپسندکرنے والے شخص پر ملامت کی جائے گی لہذا ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ امام صاحب کےساتھ دنیاوی معاملات کی وجہ سے رنجش نہ رکھے اوراس کام سے باز رہے
سنن ابی داؤد کی حدیث پاک کےایک جز
من تقدم قوما و ھم لہ کارھون
جو کسی قوم کی امامت کے لیے آگے بڑھا، حالانکہ قوم اس کے امام بننے کو ناپسند کرتی ہے۔اس کی شرح کرتے ہوئے علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
ھذا الوعید فی حق الرجل الذی لیس من اھل الامامۃ فیتغلب علیھا حتی یکر ہ الناس امامتہ فاما المستحق للامامۃ فاللوم علی من کرھ
یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو امامت کا اہل نہیں ہے اورلوگوں کی ناپسندیدگی کے باجود امامت کے لیے آگے بڑھ جاتا ہے بہر حال جو امامت کا مستحق ہے تو اس صورت میں جو ناپسند کر رہے ہیں، ان پر ملامت ہوگی۔
(شرح ابی داود للعینی، ج 3، ص 98،)
نہر الفائق میں ہے
ام قوما وھم لہ کارھون ان الکراھۃ لفساد فیہ او لانھم احق منہ بالامامۃ کرہ لہ ذلک و ان کان ھو احق بالامامۃ لا یکرہ و الکراھۃ علی القوم
اگر کوئی شخص قوم کی امامت کرواتا ہے،اور وہ اس کو ناپسند کرتے ہیں، تو اگر امام میں کسی خرابی کی وجہ سے کراہت ہو یا دوسرے لوگ امام سے زیادہ امامت کے حقدار ہوں،تو(اس کا امام بننا)مکروہ ہے اور اگر وہی امامت کا سب سے زیادہ حقدار ہو (اور اس میں کوئی فساد بھی نہ ہواور اس کے باوجود لوگ اس کو ناپسند کریں) تو کراہت قوم پر ہے۔(نھر الفائق، ج 1، ص 242، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
نہر الفائق میں ہے
ام قوما وھم لہ کارھون ان الکراھۃ لفساد فیہ او لانھم احق منہ بالامامۃ کرہ لہ ذلک و ان کان ھو احق بالامامۃ لا یکرہ و الکراھۃ علی القوم
اگر کوئی شخص قوم کی امامت کرواتا ہے،اور وہ اس کو ناپسند کرتے ہیں، تو اگر امام میں کسی خرابی کی وجہ سے کراہت ہو یا دوسرے لوگ امام سے زیادہ امامت کے حقدار ہوں،تو(اس کا امام بننا)مکروہ ہے اور اگر وہی امامت کا سب سے زیادہ حقدار ہو (اور اس میں کوئی فساد بھی نہ ہواور اس کے باوجود لوگ اس کو ناپسند کریں) تو کراہت قوم پر ہے۔(نھر الفائق، ج 1، ص 242، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بحرا لرائق میں ہے
والکراھۃ علی القوم و ھو ظاھر لانھا ناشئۃ عن الاخلاق الذمیمۃ
اور کراہت قوم پر ہو گی اور یہی ظاہر ہے، کیونکہ یہ ناپسندیدگی برے اخلاق سے پیدا ہوئی (بحر الرائق ج1ص 609، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوٰی رضویہ میں ہے
اگر قوم کی کراہت شرعی عذر کے بغیر ہو جیسا صالح اور عالم کی امامت کو اپنے بعض دنیوی تنازعے کی وجہ سے مکروہ سمجھتے ہوں یاغلام، نابینا وغیرہ کی امامت کو مکروہ سمجھتے ہوں ،حالانکہ وہ قوم سے افضل ہوں،تو ایسی صورت میں قوم کی اپنی ناپسندیدگی کوئی معنی نہیں رکھتی، لہذا ان افراد کی امامت میں وہ اثرانداز نہ ہوگی ، اگر کراہت کسی شرعی عذر سے ہو ،مثلاً: امام فاسق یا بدعتی ہو یا مذکورچار افراد غلام، اعرابی ،ولد زنا اور نابینا دوسروں سے افضل واعلم نہ ہوں یا قوم میں کوئی ایساشخص موجود ہو ،جس میں شرعی ترجیحات ہوں ،مثلاً :علم زیادہ رکھتا ہے،تجوید وقراءت کا ماہر ہے ،تو یہ خود امامت کےزیادہ لائق اور حقدار ہے،ایسی صورت میں جس شخص کو امام بنانا قوم مکروہ جانے اس شخص کو امام بننا ممنوع اور مکروہ تحریمی ہے۔۔۔الغرض کراہت کا سبب دوطرح پر ہے ،ایک ذاتی کہ اس شخص کے اندر ایسی بات پائی جاتی ہو کہ اس کی امامت مطلقاً یا جماعت حاضرہ میں ممنوع یا خلافِ اولی ہو ،جیسا کہ اس کی مثالیں گزریں ۔دوم سبب خارجی ہے، وہ یہ کہ قوم خاص اس کے امام بننے کو ناپسند جانتی ہو، پھر ذاتی کی دوصورتیں ہیں۔ ایک حق شرع کی بنا پر مثلاً :فاسق ہونا ،بدعتی ہونا اور جاہل ہونا۔دوم غیر کے حق کی وجہ سے، مثلاً: صاحب خانہ، امام محلہ ،قاضی یاسلطان کاموجود ہونا ،کیونکہ اس صورت میں یہ شخص اس اضافی چیز سے خالی ہے، جو دوسرے میں ہے، لہذا اس وجہ سے کراہت آئے گی ،اس وجہ سے یہ ذاتی ہے اور اس کی وجہ حق غیر کی رعایت ہے۔۔۔ذاتی کااثر نماز پر پڑتا ہے،خارجی کا اثر ذاتِ امام یا قوم پر ہوگا نماز پر نہیں ، خارجی کا وقوع ِاثر امام پر وجودِ اول سے مشروط ہے ،ورنہ خودقوم پراثر لوٹ جائے گا۔۔۔ نابینا مثلاً: جو قوم سے زیادہ عالم نہ ہو اورقوم اس کے تقدم پر راضی نہ ہو، تو اس کا امام بننا مکروہ تحریمی ہوگا اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تنزیہی ہوگی، اگر قوم اس کے تقدم پر راضی ہو ،تو پہلی کراہت ساقط دوسری باقی رہے گی۔ اوراگر قوم سے زیادہ عالم ہو، تو قوم کی رضا کی صورت میں کوئی کراہت نہ ہوگی،اگر قوم نا پسندکرتی ہو تو کراہت ان لوگوں پر ہوئی جو ناپسند کررہے ہیں اور امام اور امامت دونوں اس (کراہت) سے بری ہوں گے،باقی تینوں کا بھی یہی حکم ہے۔“
والکراھۃ علی القوم و ھو ظاھر لانھا ناشئۃ عن الاخلاق الذمیمۃ
اور کراہت قوم پر ہو گی اور یہی ظاہر ہے، کیونکہ یہ ناپسندیدگی برے اخلاق سے پیدا ہوئی (بحر الرائق ج1ص 609، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوٰی رضویہ میں ہے
اگر قوم کی کراہت شرعی عذر کے بغیر ہو جیسا صالح اور عالم کی امامت کو اپنے بعض دنیوی تنازعے کی وجہ سے مکروہ سمجھتے ہوں یاغلام، نابینا وغیرہ کی امامت کو مکروہ سمجھتے ہوں ،حالانکہ وہ قوم سے افضل ہوں،تو ایسی صورت میں قوم کی اپنی ناپسندیدگی کوئی معنی نہیں رکھتی، لہذا ان افراد کی امامت میں وہ اثرانداز نہ ہوگی ، اگر کراہت کسی شرعی عذر سے ہو ،مثلاً: امام فاسق یا بدعتی ہو یا مذکورچار افراد غلام، اعرابی ،ولد زنا اور نابینا دوسروں سے افضل واعلم نہ ہوں یا قوم میں کوئی ایساشخص موجود ہو ،جس میں شرعی ترجیحات ہوں ،مثلاً :علم زیادہ رکھتا ہے،تجوید وقراءت کا ماہر ہے ،تو یہ خود امامت کےزیادہ لائق اور حقدار ہے،ایسی صورت میں جس شخص کو امام بنانا قوم مکروہ جانے اس شخص کو امام بننا ممنوع اور مکروہ تحریمی ہے۔۔۔الغرض کراہت کا سبب دوطرح پر ہے ،ایک ذاتی کہ اس شخص کے اندر ایسی بات پائی جاتی ہو کہ اس کی امامت مطلقاً یا جماعت حاضرہ میں ممنوع یا خلافِ اولی ہو ،جیسا کہ اس کی مثالیں گزریں ۔دوم سبب خارجی ہے، وہ یہ کہ قوم خاص اس کے امام بننے کو ناپسند جانتی ہو، پھر ذاتی کی دوصورتیں ہیں۔ ایک حق شرع کی بنا پر مثلاً :فاسق ہونا ،بدعتی ہونا اور جاہل ہونا۔دوم غیر کے حق کی وجہ سے، مثلاً: صاحب خانہ، امام محلہ ،قاضی یاسلطان کاموجود ہونا ،کیونکہ اس صورت میں یہ شخص اس اضافی چیز سے خالی ہے، جو دوسرے میں ہے، لہذا اس وجہ سے کراہت آئے گی ،اس وجہ سے یہ ذاتی ہے اور اس کی وجہ حق غیر کی رعایت ہے۔۔۔ذاتی کااثر نماز پر پڑتا ہے،خارجی کا اثر ذاتِ امام یا قوم پر ہوگا نماز پر نہیں ، خارجی کا وقوع ِاثر امام پر وجودِ اول سے مشروط ہے ،ورنہ خودقوم پراثر لوٹ جائے گا۔۔۔ نابینا مثلاً: جو قوم سے زیادہ عالم نہ ہو اورقوم اس کے تقدم پر راضی نہ ہو، تو اس کا امام بننا مکروہ تحریمی ہوگا اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تنزیہی ہوگی، اگر قوم اس کے تقدم پر راضی ہو ،تو پہلی کراہت ساقط دوسری باقی رہے گی۔ اوراگر قوم سے زیادہ عالم ہو، تو قوم کی رضا کی صورت میں کوئی کراہت نہ ہوگی،اگر قوم نا پسندکرتی ہو تو کراہت ان لوگوں پر ہوئی جو ناپسند کررہے ہیں اور امام اور امامت دونوں اس (کراہت) سے بری ہوں گے،باقی تینوں کا بھی یہی حکم ہے۔“
(فتاویٰ رضویہ ج 6، ص 471، 475، مطبوعہ رضا فاونڈیشن، لاھور)
مزید ایک مقام پر فتاوی رضویہ میں ہے
اگر اس میں کوئی قصور شرعی نہیں تو اس کی امامت میں کوئی حرج نہیں اور ان رنج والوں پر وبال ہے
مزید ایک مقام پر فتاوی رضویہ میں ہے
اگر اس میں کوئی قصور شرعی نہیں تو اس کی امامت میں کوئی حرج نہیں اور ان رنج والوں پر وبال ہے
(فتاویٰ رضویہ، ج 6 ص575، مطبوعہ رضا فاونڈیشن، لاھور)
فتاوی امجدیہ میں ہے
محض دنیاوی عداوت ہے اور زید قابل امامت ہے، تو بکر زید کے پیچھے نماز پڑھے، کچھ کراہت نہیں۔بلکہ محض دنیاوی عداوت کی بنا پر ، اس کے پیچھے نماز چھوڑ دینے سے خود بکر پر ، الزام ہے۔۔۔دنیاوی عداوت کی بنا پر تین دن سے زیادہ جدائی اور قطع تعلق جائز بھی نہیں نہ کہ اس حد کی کہ جس مسجد میں وہ نماز پڑھے،یہ اس کے ساتھ بھی نماز نہ پڑھےاس کی اقتداء تو در کنار ۔۔۔لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ باہمی عداوت کو دور کریں اور مل کر رہیں کہ اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔
فتاوی امجدیہ میں ہے
محض دنیاوی عداوت ہے اور زید قابل امامت ہے، تو بکر زید کے پیچھے نماز پڑھے، کچھ کراہت نہیں۔بلکہ محض دنیاوی عداوت کی بنا پر ، اس کے پیچھے نماز چھوڑ دینے سے خود بکر پر ، الزام ہے۔۔۔دنیاوی عداوت کی بنا پر تین دن سے زیادہ جدائی اور قطع تعلق جائز بھی نہیں نہ کہ اس حد کی کہ جس مسجد میں وہ نماز پڑھے،یہ اس کے ساتھ بھی نماز نہ پڑھےاس کی اقتداء تو در کنار ۔۔۔لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ باہمی عداوت کو دور کریں اور مل کر رہیں کہ اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔
(فتاویٰ امجدیہ، جلد1، ح 1، ص111، 112، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)
فتاوی فیض الرسول، میں ہے
اگر امام فاسق معلن نہیں ہے، تو برائی کرنے والا سخت گنہگار حق العباد میں گرفتار ،مگر اس کی نماز اس کے پیچھے ہوجائے گی۔
فتاوی فیض الرسول، میں ہے
اگر امام فاسق معلن نہیں ہے، تو برائی کرنے والا سخت گنہگار حق العباد میں گرفتار ،مگر اس کی نماز اس کے پیچھے ہوجائے گی۔
(فتاویٰ فیض الرسول،ج 1ص272، شبیر برادرز )
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
21/09/2023
21/09/2023