(سوال نمبر 7056)
قضا نمازیں کب اور کیسے ادا کریں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ قضاء نمازیں کس طرح ادا کی جائیں ۔وقت نماز سے پہلے قضاء نماز ضروری ہے
سائل:- محمد عثمان پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
اوقات مکروہہ کے سوا کسی بھی وقت قضا نماز ادا کر سکتے ہیں
قضا نمازوں کو ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے لے کر اب تک جتنی نمازیں چھوٹ گئی ہیں اُن کاحساب کریں اگر قضا نمازوں کی تعداد معلوم ومتعین ہو تو ترتیب سے ان نمازوں کو قضا کرنا چاہیے اور اگر متعین طور پر قضاشدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہواور یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازا اور تخمینہ لگالیں اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں احتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا کرنا شروع کردیں، جو فرض نماز فوت ہوئی ہو اس کو قضا کرتے وقت اتنی ہی رکعتیں قضا کرنی ہوں گی جتنی فرض یا واجب رکعتیں اس نماز میں ہیں، مثلاً فجر کی قضا دو رکعت ظہر اور عصر کی چار چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی عشاء کی نماز قضا کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا کرنی ہوگی، قضا صرف فرض نمازوں اور وتر کی ہوتی ہے۔
قضا نماز یں اگر متعین ہیں تو ان کی نیت میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا پڑھی جا رہی ہے اس کی مکمل تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا کی ہیں ان میں سے پہلی فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے۔
ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔ نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں،مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ ہوجائے گی۔
بہار شریعت میں ہے
اوقاتِ مکروہہ طلوع و غروب و نصف النہار، ان تینوں وقتوں میں کوئی نماز جائز نہیں، نہ فرض، نہ واجب، نہ نفل، نہ ادا، نہ قضا، یوہیں سجدۂ تلاوت و سجدۂ سہو بھی ناجائز ہے، البتہ اس روز اگر عصر کی نماز نہیں پڑھی تو اگرچہ آفتاب ڈوبتا ہو پڑھ لے ،مگر اتنی تاخیر کرنا حرام ہے ۔ حدیث میں اس کو منافق کی نماز فرمایا۔ طلوع سے مراد آفتاب کا کنارہ ظاہر ہونے سے اس وقت تک ہے کہ اس پر نگاہ خیرہ ہونے لگے، جس کی مقدار کنارہ چمکنے سے ۲۰ منٹ تک ہے اور اس وقت سے کہ آفتاب پر نگاہ ٹھہرنے لگے ڈوبنے تک غروب ہے، یہ وقت بھی ۲۰ منٹ ہے، نصف النہار سے مراد نصف النہار شرعی سے نصف النہار حقیقی یعنی آفتاب ڈھلکنے تک ہے جس کو ضحوۂ کبریٰ کہتے ہیں، یعنی طلوع فجر سے غروب آفتاب تک آج جو وقت ہے، اس کے برابر ، برابر دو حصے کریں، پہلے حصہ کے ختم پر ابتدائے نصف النہار شرعی ہے اور اس وقت سے آفتاب ڈھلنے تک وقت استوا و ممانعت ہر نماز ہے ان اوقات میں قضا نماز ناجائز ہے۔(بھار شریعت، ح 3، ج 1 ، ص 454، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
خطبے کے وقت قضا نماز پڑھنے کے متعلق فتح باب العنایہ میں ہے:
(تکرہ) ای الصلاۃ وسجدۃ التلاوۃ وصلاۃ الجنازۃ الا الفائتۃ لصاحب الترتیب (اذا خرج) ای صعد (الامام) المنبر (للخطبۃ) ای خطبۃ الجمعۃ او العیدین او الحج او الکسوف او الاستسقاء‘
جب امام خطبے کے لیے منبر پہ آ جائے، تو نماز، سجدہ تلاوت اور نمازِ جنازہ ادا کرنا مکروہ ہے، مگر صاحبِ ترتیب کے لیے فوت شدہ نماز پڑھنا مکروہ نہیں، خطبہ جمعہ کا ہو یا عیدین کا یا پھر حج کا یا نمازِ کسوف یا نمازِ استسقاء کا ہو۔
(فتح باب العنایہ شرح نقایہ، کتاب الصلوۃ، ص 192، مطبوعہ بیروت)
بہار شریعت میں ہے:
عین خطبہ کے وقت اگرچہ پہلا ہو یا دوسرا اور جمعہ کا ہو یا خطبۂ عیدین یا کسوف و استسقا و حج و نکاح کا ہو، ہر نماز حتیٰ کہ قضا بھی ناجائز ہے، مگر صاحب ترتیب کے ليے خطبہ جمعہ کے وقت قضا کی اجازت ہےفرض کا وقت تنگ ہو، تو ہر نماز یہاں تک کہ سنت فجر و ظہر مکروہ ہے۔(بھار شریعت، ح 3، ج 1 ، ص 456،457، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہار میں ہے
جب چھوٹی ہوئی نمازوں کو قضاء پڑھیں گے تو پانچوں فرضوں میں باہم اور فرض و وتر میں ترتیب ضروری ہے کہ پہلے فجر پھر ظہر پھر عصر پھر مغرب پھر عشا پھر وتر پڑھے، خواہ یہ سب قضا ہوں یا بعض ادا بعض قضا، مثلاً ظہر کی قضا ہوگئی تو فرض ہے کہ اسے پڑھ کر عصر پڑھے یا وتر قضا ہوگیا تو اُسے پڑھ کر فجر پڑھے اگر یاد ہوتے ہوئے عصر یا وتر کی پڑھ لی تو ناجائز ہے۔ (بہار شریعت،ج 1،ص 705)
چھ نمازیں جس کی قضا ہو گئیں کہ چھٹی کا وقت ختم ہوگیا اس پر(اوپر بیان کی ہوئی) ترتیب فرض نہیں۔
( بہار شریعت،ج 1 ص 703،)
والله ورسوله اعلم بالصواب
قضا نمازیں کب اور کیسے ادا کریں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ قضاء نمازیں کس طرح ادا کی جائیں ۔وقت نماز سے پہلے قضاء نماز ضروری ہے
سائل:- محمد عثمان پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
اوقات مکروہہ کے سوا کسی بھی وقت قضا نماز ادا کر سکتے ہیں
قضا نمازوں کو ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے لے کر اب تک جتنی نمازیں چھوٹ گئی ہیں اُن کاحساب کریں اگر قضا نمازوں کی تعداد معلوم ومتعین ہو تو ترتیب سے ان نمازوں کو قضا کرنا چاہیے اور اگر متعین طور پر قضاشدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہواور یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازا اور تخمینہ لگالیں اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں احتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا کرنا شروع کردیں، جو فرض نماز فوت ہوئی ہو اس کو قضا کرتے وقت اتنی ہی رکعتیں قضا کرنی ہوں گی جتنی فرض یا واجب رکعتیں اس نماز میں ہیں، مثلاً فجر کی قضا دو رکعت ظہر اور عصر کی چار چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی عشاء کی نماز قضا کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا کرنی ہوگی، قضا صرف فرض نمازوں اور وتر کی ہوتی ہے۔
قضا نماز یں اگر متعین ہیں تو ان کی نیت میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا پڑھی جا رہی ہے اس کی مکمل تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا کی ہیں ان میں سے پہلی فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے۔
ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔ نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں،مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ ہوجائے گی۔
بہار شریعت میں ہے
اوقاتِ مکروہہ طلوع و غروب و نصف النہار، ان تینوں وقتوں میں کوئی نماز جائز نہیں، نہ فرض، نہ واجب، نہ نفل، نہ ادا، نہ قضا، یوہیں سجدۂ تلاوت و سجدۂ سہو بھی ناجائز ہے، البتہ اس روز اگر عصر کی نماز نہیں پڑھی تو اگرچہ آفتاب ڈوبتا ہو پڑھ لے ،مگر اتنی تاخیر کرنا حرام ہے ۔ حدیث میں اس کو منافق کی نماز فرمایا۔ طلوع سے مراد آفتاب کا کنارہ ظاہر ہونے سے اس وقت تک ہے کہ اس پر نگاہ خیرہ ہونے لگے، جس کی مقدار کنارہ چمکنے سے ۲۰ منٹ تک ہے اور اس وقت سے کہ آفتاب پر نگاہ ٹھہرنے لگے ڈوبنے تک غروب ہے، یہ وقت بھی ۲۰ منٹ ہے، نصف النہار سے مراد نصف النہار شرعی سے نصف النہار حقیقی یعنی آفتاب ڈھلکنے تک ہے جس کو ضحوۂ کبریٰ کہتے ہیں، یعنی طلوع فجر سے غروب آفتاب تک آج جو وقت ہے، اس کے برابر ، برابر دو حصے کریں، پہلے حصہ کے ختم پر ابتدائے نصف النہار شرعی ہے اور اس وقت سے آفتاب ڈھلنے تک وقت استوا و ممانعت ہر نماز ہے ان اوقات میں قضا نماز ناجائز ہے۔(بھار شریعت، ح 3، ج 1 ، ص 454، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
خطبے کے وقت قضا نماز پڑھنے کے متعلق فتح باب العنایہ میں ہے:
(تکرہ) ای الصلاۃ وسجدۃ التلاوۃ وصلاۃ الجنازۃ الا الفائتۃ لصاحب الترتیب (اذا خرج) ای صعد (الامام) المنبر (للخطبۃ) ای خطبۃ الجمعۃ او العیدین او الحج او الکسوف او الاستسقاء‘
جب امام خطبے کے لیے منبر پہ آ جائے، تو نماز، سجدہ تلاوت اور نمازِ جنازہ ادا کرنا مکروہ ہے، مگر صاحبِ ترتیب کے لیے فوت شدہ نماز پڑھنا مکروہ نہیں، خطبہ جمعہ کا ہو یا عیدین کا یا پھر حج کا یا نمازِ کسوف یا نمازِ استسقاء کا ہو۔
(فتح باب العنایہ شرح نقایہ، کتاب الصلوۃ، ص 192، مطبوعہ بیروت)
بہار شریعت میں ہے:
عین خطبہ کے وقت اگرچہ پہلا ہو یا دوسرا اور جمعہ کا ہو یا خطبۂ عیدین یا کسوف و استسقا و حج و نکاح کا ہو، ہر نماز حتیٰ کہ قضا بھی ناجائز ہے، مگر صاحب ترتیب کے ليے خطبہ جمعہ کے وقت قضا کی اجازت ہےفرض کا وقت تنگ ہو، تو ہر نماز یہاں تک کہ سنت فجر و ظہر مکروہ ہے۔(بھار شریعت، ح 3، ج 1 ، ص 456،457، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہار میں ہے
جب چھوٹی ہوئی نمازوں کو قضاء پڑھیں گے تو پانچوں فرضوں میں باہم اور فرض و وتر میں ترتیب ضروری ہے کہ پہلے فجر پھر ظہر پھر عصر پھر مغرب پھر عشا پھر وتر پڑھے، خواہ یہ سب قضا ہوں یا بعض ادا بعض قضا، مثلاً ظہر کی قضا ہوگئی تو فرض ہے کہ اسے پڑھ کر عصر پڑھے یا وتر قضا ہوگیا تو اُسے پڑھ کر فجر پڑھے اگر یاد ہوتے ہوئے عصر یا وتر کی پڑھ لی تو ناجائز ہے۔ (بہار شریعت،ج 1،ص 705)
چھ نمازیں جس کی قضا ہو گئیں کہ چھٹی کا وقت ختم ہوگیا اس پر(اوپر بیان کی ہوئی) ترتیب فرض نہیں۔
( بہار شریعت،ج 1 ص 703،)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
13_08/2023