امامت کا تنخواہ لینا کیسا ہے ؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ نماز پڑھانے کا یعنی امامت کی تنخواہ لینا ناجائز ہے یا جائز ۔اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
سائل:- شریف پرواز ضلع گڑھوا جھارکھنڈ۔
_________(👇)_________
سائل:- شریف پرواز ضلع گڑھوا جھارکھنڈ۔
_________(👇)_________
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اس زمانے میں امامت ،اذان دینے ،قرآن و حدیث اور دیگر دینی علوم پڑھانے پرتنخواہ لینا جائز ہے،البتہ اگر کوئی فقط پیسے کمانے کے لیے یہ کام کرتاہے توان امور کا جو ثواب بیان ہو ا ،وہ اسے حاصل نہ ہوگا ہاں اگر اصل مقصد دین کی خدمت ہے تنخواہ اس لیے لیتا ہے کہ اپنا اور اہل وعیال کا گزر بسر کر سکے اگر یہ مجبوری نہ ہوتی تو فی سبیل اللہ کام کرتا اس صورت میں اللہ عزوجل کی رحمت سے امید ہے کہ ثواب کا بھی حقدار ہو گا ۔
ابوداؤشریف میں حدیث مبارکہ ہے :’’عن رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : العامل علی الصدقۃ بالحق کالغازی فی سبیل اللہ حتی یرجع الی بیتہیعنی رافع بن خدیج سے روایت ہے وہ فرماتےہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ عزوجل کی رضا کی کے لئے حق کے مطابق صدقہ وصول کرنے والا اپنے گھر لوٹنے تک اللہ عزوجل کی راہ ميں جہاد کرنے والے غازی کی طرح ہے۔‘‘(سنن ابوداؤد جلد2، صفحہ59،مطبوعہ لاہور)
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اس زمانے میں امامت ،اذان دینے ،قرآن و حدیث اور دیگر دینی علوم پڑھانے پرتنخواہ لینا جائز ہے،البتہ اگر کوئی فقط پیسے کمانے کے لیے یہ کام کرتاہے توان امور کا جو ثواب بیان ہو ا ،وہ اسے حاصل نہ ہوگا ہاں اگر اصل مقصد دین کی خدمت ہے تنخواہ اس لیے لیتا ہے کہ اپنا اور اہل وعیال کا گزر بسر کر سکے اگر یہ مجبوری نہ ہوتی تو فی سبیل اللہ کام کرتا اس صورت میں اللہ عزوجل کی رحمت سے امید ہے کہ ثواب کا بھی حقدار ہو گا ۔
ابوداؤشریف میں حدیث مبارکہ ہے :’’عن رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : العامل علی الصدقۃ بالحق کالغازی فی سبیل اللہ حتی یرجع الی بیتہیعنی رافع بن خدیج سے روایت ہے وہ فرماتےہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ عزوجل کی رضا کی کے لئے حق کے مطابق صدقہ وصول کرنے والا اپنے گھر لوٹنے تک اللہ عزوجل کی راہ ميں جہاد کرنے والے غازی کی طرح ہے۔‘‘(سنن ابوداؤد جلد2، صفحہ59،مطبوعہ لاہور)
اس کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’اس حدیث سے معلوم ہوا اگر نیت خیر ہو تو دینی خدمت پر تنخواہ لینے کی وجہ سے اس کا ثواب کم نہیں ہوتا،دیکھو ان عاملوں کو پوری اُجرت دی جاتی تھی مگر ساتھ میں یہ ثواب بھی تھا۔ چنانچہ مجاہد کو غنیمت بھی ملتی ہے اور ثواب بھی،حضرات خلفائے راشدین سوائے حضرت عثمان غنی(رضی اللہ عنھم) کے سب نے خلافت پر تنخواہیں لیں مگر ثواب کسی کا کم نہیں ہوا،ایسے ہی وہ علماء یا امام و مؤذن جو تنخواہ لے کر تعلیم،اذان،امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اگر ان کی نیت خدمت دین کی ہے ان شاءاللہ عزوجل ثواب بھی ضرور پائیں گے۔‘‘ (مراۃ المناجیح،جلد3،صفحہ 18، ضیاء القران)
علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ رد المحتار میں اجرت لینے والے مؤذن کو اذان دینے کا ثواب ملنے یا نہ ملنے کی بحث میں فرماتے ہیں :’’ قد يقال إن كان قصده وجه الله تعالى لكنه بمراعاته للأوقات والاشتغال به يقل اكتسابه عما يكفيه لنفسه وعياله فيأخذ الأجرة لئلا ليمنعه الاكتساب عن إقامة هذه الوظيفة الشريفة ولولا ذلك لم يأخذ أجرا فله الثواب المذكور بل يكون جمع بين عبادتين وهما الأذان والسعي على العيال وإنما الأعمال بالنيات یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ (مؤذن ) رضائے الہٰی کا قصد کرے لیکن اوقات کی پابندی اور اس کام میں مصروفیت کی بنا پر اپنے عیال کے لئے قدرِ کفایت روزی نہ کماسکے ۔ چنانچہ وہ اس لئے اجرت لے کہ روزی کمانے کی مصروفیت کہیں اسے اِس سعادتِ عظمیٰ سے محروم نہ کروا دے اور اگر اسے مذکورہ مجبوری نہ ہوتی تو وہ اجرت نہ لیتا توایسا شخص بھی مؤذن کے لئے ذکرکردہ ثواب کا مستحق ہوگا بلکہ وہ دوعبادتوں کا جامع (یعنی جمع کرنے والا)ہوگا ،ایک اذان دینا اور دوسری عیال کی کفالت کے لئے سعی کرنا ،اور اعمال کا ثواب نیتوں کے مطابق ہوتا ہے ۔‘‘
(رد المحتار مع درمختار ، جلد2،صفحہ74)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ:
اجرت امامت اگر اس شخص سے قرار پا گئی ہے کہ فی جمعہ یا ماہوار یا سالانہ اس قدر دیں گے یا خاص قرار داد نہ ہوا مگر وہاں اس امامت کی تنخواہ معین ہے اسے بھی معلوم تھی یہ اسی لئے امام بنا اور امام بنانے والوں نے بھی جانا اور مقبول رکھا غرض صراحتاً یا دلالۃ تعین اجرت ہو لیا تو یہ اجرت اسے حلال ہے۔
پون سطر بعد ہے کہ:
امامت و اذان و;تعلیم فقہ و قرآن پر اجرت لینے کو ائمہ نے بضرورت زمانہ جائز قرار دیا ہے
"کمانصوا علیہ فی الکتب انظر ردالمحتارکتاب الاجارۃباب الاجارۃ الفاسدۃ مطلب فی الاستجار علی الطاعات"
(ج 5صفحہ34/35)
قاطبۃ اور جب تعین ہولیا تو اجارہ صحیحہ ہوا جس میں کوئی مضائقہ نہیں
(فتاویٰ رضویہ جلد پنجم کتاب الصلاۃ باب الامامۃ صفحہ 336/337 مطبوعہ امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف)
فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد الامجــــــدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
نماز پڑھانا خالص عبادت ہے اور کسی عبادت پر اجرت لینا جائز نہیں. لیکن جس شخص کو امام مقرر کر دیا جائے تو ا.س کو امامت کے سلسلے میں پابندی وقت کی تنخواہ لینا قطعاً جائز ہے (ماخوذ از فتاویٰ فیض الرسول جلد 1 صفحہ 269)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
_________(✍️)_________
علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ رد المحتار میں اجرت لینے والے مؤذن کو اذان دینے کا ثواب ملنے یا نہ ملنے کی بحث میں فرماتے ہیں :’’ قد يقال إن كان قصده وجه الله تعالى لكنه بمراعاته للأوقات والاشتغال به يقل اكتسابه عما يكفيه لنفسه وعياله فيأخذ الأجرة لئلا ليمنعه الاكتساب عن إقامة هذه الوظيفة الشريفة ولولا ذلك لم يأخذ أجرا فله الثواب المذكور بل يكون جمع بين عبادتين وهما الأذان والسعي على العيال وإنما الأعمال بالنيات یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ (مؤذن ) رضائے الہٰی کا قصد کرے لیکن اوقات کی پابندی اور اس کام میں مصروفیت کی بنا پر اپنے عیال کے لئے قدرِ کفایت روزی نہ کماسکے ۔ چنانچہ وہ اس لئے اجرت لے کہ روزی کمانے کی مصروفیت کہیں اسے اِس سعادتِ عظمیٰ سے محروم نہ کروا دے اور اگر اسے مذکورہ مجبوری نہ ہوتی تو وہ اجرت نہ لیتا توایسا شخص بھی مؤذن کے لئے ذکرکردہ ثواب کا مستحق ہوگا بلکہ وہ دوعبادتوں کا جامع (یعنی جمع کرنے والا)ہوگا ،ایک اذان دینا اور دوسری عیال کی کفالت کے لئے سعی کرنا ،اور اعمال کا ثواب نیتوں کے مطابق ہوتا ہے ۔‘‘
(رد المحتار مع درمختار ، جلد2،صفحہ74)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ:
اجرت امامت اگر اس شخص سے قرار پا گئی ہے کہ فی جمعہ یا ماہوار یا سالانہ اس قدر دیں گے یا خاص قرار داد نہ ہوا مگر وہاں اس امامت کی تنخواہ معین ہے اسے بھی معلوم تھی یہ اسی لئے امام بنا اور امام بنانے والوں نے بھی جانا اور مقبول رکھا غرض صراحتاً یا دلالۃ تعین اجرت ہو لیا تو یہ اجرت اسے حلال ہے۔
پون سطر بعد ہے کہ:
امامت و اذان و;تعلیم فقہ و قرآن پر اجرت لینے کو ائمہ نے بضرورت زمانہ جائز قرار دیا ہے
"کمانصوا علیہ فی الکتب انظر ردالمحتارکتاب الاجارۃباب الاجارۃ الفاسدۃ مطلب فی الاستجار علی الطاعات"
(ج 5صفحہ34/35)
قاطبۃ اور جب تعین ہولیا تو اجارہ صحیحہ ہوا جس میں کوئی مضائقہ نہیں
(فتاویٰ رضویہ جلد پنجم کتاب الصلاۃ باب الامامۃ صفحہ 336/337 مطبوعہ امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف)
فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد الامجــــــدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
نماز پڑھانا خالص عبادت ہے اور کسی عبادت پر اجرت لینا جائز نہیں. لیکن جس شخص کو امام مقرر کر دیا جائے تو ا.س کو امامت کے سلسلے میں پابندی وقت کی تنخواہ لینا قطعاً جائز ہے (ماخوذ از فتاویٰ فیض الرسول جلد 1 صفحہ 269)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
_________(✍️)_________
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد صدام حسین قادری امجدی رضوی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔
مورخہ 24/محرم الحرام 1445ھ مطابق 12/اگست 23 0 2 ء۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔
خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔
مورخہ 24/محرم الحرام 1445ھ مطابق 12/اگست 23 0 2 ء۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔