(سوال نمبر 7059)
کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہے یا نہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہے یا نہیں ؟
برائے کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں
سائل:- شعیب رضا برکاتی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
کریڈٹ کارڈ بجائے ڈیبٹ کارڈ استعمال کرنا چاہیے کیونکہ اس میں آپ بینک سے قرضہ نہیں لے رہے ہوتے بلکہ دکان دار کو بینک کے ذریعے اپنے ہی پیسے کی فوری ادائیگی کر رہے ہوتے ہیں اورڈیبٹ کارڈ میں آپ کو کسی قسم کا سودی معاہدہ نہیں کرنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے بینک یہ سہولت دیتا ہے کہ آپ ادھار میں اشیاء کی خریداری کر سکتے ہیں اور دکان دار کو بینک فوری ادائیگی کرے گا لیکن کارڈ ہولڈر بینک کو جو بھی انتہائی مدت مقرر ہے ،تیس دن یا چالیس دن اس وقت سے پہلے پہلے ادائیگی کرے گا اور مقررہ انتہائی وقت سے پہلے ادائیگی کرنے پر تو کوئی سود لازم نہیں ہوگا لیکن تاخیر سے ادائیگی کرنے پر یومیہ کے حساب سے سود لگنا شروع ہو جائے گا۔ یہ سب باتیں کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت فریقین طے کرتے ہیں جب ہی کارڈ جاری ہوتا ہے ۔
کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت آپ بینک سے یہ معاہدہ کرچکے ہیں کہ اگر ادائیگی میں تاخیر ہوئی تو میں سود ادا کروں گا لہٰذا سود دینے پر رضا مندی تو ثابت ہوچکی ہے اور یہ بھی گناہ ہے۔ مزید یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات لوگ وقت پر کسی وجہ سے ادائیگی نہیں کر پاتے تو پھر بینک سود ڈالنا شروع کر دیتا ہے یہ دوسرا گناہ ہوگا۔ پہلا گناہ تو اس وقت ہوا جب آپ نے کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت فارم پردستخط کیے کہ اگر آپ لیٹ ہوں گے تو سود دینا پڑے گا۔ دوسرا گناہ اس وقت ہوگا جب آپ سود کی ادائیگی کریں گے اور بعض اوقات ایسی نوبت آ بھی جاتی ہے۔ اگر بالفرض یہ نوبت نہ بھی آئے تب بھی کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے کہ اس میں سودی معاہدہ لازمی طور پر کرنا پڑتا ہے۔ (ایسا ہی فتاوٰی اہل سنت دعوت اسلامی میں ہے)
البتہ کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کے لیے جواز کی یہ صورت نکل سکتی ہے۔
ا١/ پہلی صورت اگر کوئی بینک یا ادارہ غیرسودی معاہدے کی بناء پر کریڈٹ کارڈ جاری کرے تو اس کا استعمال بلاشبہ جائز ہے
٢/ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی ادارہ ایسے معاہدے کی بناء پر کریڈٹ کارڈ جاری کرتا ہے جس میں معین وقت تک قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں کارڈ ہولڈر کو اضافی رقم ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے، اور کارڈ ہولڈر معین وقت سے پہلے قرض کی واپسی کو یقینی بنائے تاکہ سود عائد ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اس
٣/ تیسری صورت یہ ہے کہ اگر بینک یا ادارہ ایسا معاہدہ کرتا ہے جس میں کارڈ ہولڈر کو ہر صورت میں سودی معاملہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں بلاحالتِ اضطرار کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہے یا نہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہے یا نہیں ؟
برائے کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں
سائل:- شعیب رضا برکاتی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
کریڈٹ کارڈ بجائے ڈیبٹ کارڈ استعمال کرنا چاہیے کیونکہ اس میں آپ بینک سے قرضہ نہیں لے رہے ہوتے بلکہ دکان دار کو بینک کے ذریعے اپنے ہی پیسے کی فوری ادائیگی کر رہے ہوتے ہیں اورڈیبٹ کارڈ میں آپ کو کسی قسم کا سودی معاہدہ نہیں کرنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے بینک یہ سہولت دیتا ہے کہ آپ ادھار میں اشیاء کی خریداری کر سکتے ہیں اور دکان دار کو بینک فوری ادائیگی کرے گا لیکن کارڈ ہولڈر بینک کو جو بھی انتہائی مدت مقرر ہے ،تیس دن یا چالیس دن اس وقت سے پہلے پہلے ادائیگی کرے گا اور مقررہ انتہائی وقت سے پہلے ادائیگی کرنے پر تو کوئی سود لازم نہیں ہوگا لیکن تاخیر سے ادائیگی کرنے پر یومیہ کے حساب سے سود لگنا شروع ہو جائے گا۔ یہ سب باتیں کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت فریقین طے کرتے ہیں جب ہی کارڈ جاری ہوتا ہے ۔
کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت آپ بینک سے یہ معاہدہ کرچکے ہیں کہ اگر ادائیگی میں تاخیر ہوئی تو میں سود ادا کروں گا لہٰذا سود دینے پر رضا مندی تو ثابت ہوچکی ہے اور یہ بھی گناہ ہے۔ مزید یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات لوگ وقت پر کسی وجہ سے ادائیگی نہیں کر پاتے تو پھر بینک سود ڈالنا شروع کر دیتا ہے یہ دوسرا گناہ ہوگا۔ پہلا گناہ تو اس وقت ہوا جب آپ نے کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت فارم پردستخط کیے کہ اگر آپ لیٹ ہوں گے تو سود دینا پڑے گا۔ دوسرا گناہ اس وقت ہوگا جب آپ سود کی ادائیگی کریں گے اور بعض اوقات ایسی نوبت آ بھی جاتی ہے۔ اگر بالفرض یہ نوبت نہ بھی آئے تب بھی کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے کہ اس میں سودی معاہدہ لازمی طور پر کرنا پڑتا ہے۔ (ایسا ہی فتاوٰی اہل سنت دعوت اسلامی میں ہے)
البتہ کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کے لیے جواز کی یہ صورت نکل سکتی ہے۔
ا١/ پہلی صورت اگر کوئی بینک یا ادارہ غیرسودی معاہدے کی بناء پر کریڈٹ کارڈ جاری کرے تو اس کا استعمال بلاشبہ جائز ہے
٢/ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی ادارہ ایسے معاہدے کی بناء پر کریڈٹ کارڈ جاری کرتا ہے جس میں معین وقت تک قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں کارڈ ہولڈر کو اضافی رقم ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے، اور کارڈ ہولڈر معین وقت سے پہلے قرض کی واپسی کو یقینی بنائے تاکہ سود عائد ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اس
٣/ تیسری صورت یہ ہے کہ اگر بینک یا ادارہ ایسا معاہدہ کرتا ہے جس میں کارڈ ہولڈر کو ہر صورت میں سودی معاملہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں بلاحالتِ اضطرار کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
13/08/2023