قرآنی علم و حکمت قسط نمبر 3
________(❤️)_________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورتوں کے آغاز میں یہ خاص حکمت نمایاں طور پر نظر آتی ہے کہ ان میں سے نصف تعداد یعنی سات سورتوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایجابی اور اثباتی پہلو موجود ہے اور باقی سات میں سلبی اور تنزیہی صفاتِ الٰہیہ کاذکر ہے۔
پہلی قسم کی سات سورتوں کے بابت بیان ہو چکا۔
سورتوں کے آغاز میں یہ خاص حکمت نمایاں طور پر نظر آتی ہے کہ ان میں سے نصف تعداد یعنی سات سورتوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایجابی اور اثباتی پہلو موجود ہے اور باقی سات میں سلبی اور تنزیہی صفاتِ الٰہیہ کاذکر ہے۔
پہلی قسم کی سات سورتوں کے بابت بیان ہو چکا۔
اور دوسری قسم کی سات سورتیں جن میں صفاتِ الٰہیہ کا سلبی وتنزیہی پہلو ظاہر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب ونقص سے پاک ہے۔ وہ لفظ سُبْحٰن (مصدر)
سَبَّحَ (فعل ماضی) یُسَبِّحُ (فعل مضارع) اور سَبِّحْ(فعل امر) سے شروع ہوتی ہیں:
۱/ لفظ سُبْحٰن سے سورۃ بنی اسرائیل کا آغاز ہوا ہے سُبحٰنَ الَّذى أَسرىٰ بِعَبدِهِ
۲/ سَبَّحَ (فعل ماضی) سے تین سورتوں: الحدید، الحشر اور الصّف کی ابتدا ہوتی ہے۔ سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ کے الفاظ سے مذکورہ تینوں سورتوں کا آغاز ہوا ہے۔
۳ / يُسَبِّحُ (فعل مضارع) سے دو سورتیں الجمعہ اور التغابن شروع ہوتی ہیں۔يُسَبِّحُ لِلّٰهِ کے الفاظ کے ساتھ۔
۴/ سَبِّحْ (فعل امر) سے ایک ہی سورت الاعلیٰ کا آغاز یوں ہوتا ہے سَبِّحِ اسمَ رَبِّكَ
الأَعلَى، پھر مذکورہ سورتوں کی اس الہامی ترتیب میں یہ خاص حکمت پوشیدہ ہے کہ پہلے لفظ سُبحٰن استعمال ہوا جو کہ مصدر ہے اور اصل شے ہے پھر سَبَّحَ کا فعل ماضی آ گیا پھر يُسَبِّحُ کافعل مضارع اور آخر میں سَبِّحْ کا فعل امر مستعمل ہوا۔ گویا اس ترتیب نے ہر اعتبار اور ہر جہت سے بلکہ زمان ومکان کے ہر لمحے اور گوشے میں صفاتِ الٰہیہ کا سلبی اور تنزیہی پہلو اُجاگر کر دیا ہے کلامِ الٰہی کا یہی وہ اعجاز ہے جس کے آگے انسانی کلام کی فصاحت وبلاغت سرنگوں ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
سَبَّحَ (فعل ماضی) یُسَبِّحُ (فعل مضارع) اور سَبِّحْ(فعل امر) سے شروع ہوتی ہیں:
۱/ لفظ سُبْحٰن سے سورۃ بنی اسرائیل کا آغاز ہوا ہے سُبحٰنَ الَّذى أَسرىٰ بِعَبدِهِ
۲/ سَبَّحَ (فعل ماضی) سے تین سورتوں: الحدید، الحشر اور الصّف کی ابتدا ہوتی ہے۔ سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ کے الفاظ سے مذکورہ تینوں سورتوں کا آغاز ہوا ہے۔
۳ / يُسَبِّحُ (فعل مضارع) سے دو سورتیں الجمعہ اور التغابن شروع ہوتی ہیں۔يُسَبِّحُ لِلّٰهِ کے الفاظ کے ساتھ۔
۴/ سَبِّحْ (فعل امر) سے ایک ہی سورت الاعلیٰ کا آغاز یوں ہوتا ہے سَبِّحِ اسمَ رَبِّكَ
الأَعلَى، پھر مذکورہ سورتوں کی اس الہامی ترتیب میں یہ خاص حکمت پوشیدہ ہے کہ پہلے لفظ سُبحٰن استعمال ہوا جو کہ مصدر ہے اور اصل شے ہے پھر سَبَّحَ کا فعل ماضی آ گیا پھر يُسَبِّحُ کافعل مضارع اور آخر میں سَبِّحْ کا فعل امر مستعمل ہوا۔ گویا اس ترتیب نے ہر اعتبار اور ہر جہت سے بلکہ زمان ومکان کے ہر لمحے اور گوشے میں صفاتِ الٰہیہ کا سلبی اور تنزیہی پہلو اُجاگر کر دیا ہے کلامِ الٰہی کا یہی وہ اعجاز ہے جس کے آگے انسانی کلام کی فصاحت وبلاغت سرنگوں ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال