(سوال نمبر 2253)
کیا ویران وقف شدہ قدیم مسجد کی زمین کو غیر مسلم کی زمین سے بدل سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ایک گاؤں ھے جس میں ایک قدیم مسجد ھے اور اس مسجد کی دیوار سے بالکل متصل مندر ہے اب صورت حال یہ ھے کہ اس گاؤں سے تمام مسلمان نقلِ مکانی کرچکے ہیں اور مسجد ویران ہے اب اس گاؤں کے غیر مسلم لو گوں کا کہنا ہے کہ
ہم لوگ مندر کی توسیع کرنا چاہتے ہیں تو اگر مسلم حضرات اس مسجد کی جگہ کو مندر کے لئے دے دیں تو ہم لوگ مسلمانوں کو جہاں وہ چاہیں گے اس جگہ اپنے روپئے سے مکمل مسجد کی تعمیر کر دیں گے صورت مسؤلہ میں شرعی رہنمائی فر مائیں تفصیلی
جواب بحوالہ عنایت فر مائیں
المستفتی:- سید محمد سلیم شاہ کچھ گجرات انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مذکورہ سوال میں قدیم ویران کر کو یا مسجد کی زمین کو غیر مسلم کے حوالے کرنا اور بدلے میں زمین سمیت دوسری جگہ کفار سے بنی ہوئی مسجد لینا کسی صورت قطعا جائز نہیں ہے کیوں کہ وہ مسجد شرعی ہے جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے
واضحرہے کہ جو جگہ مسجد ہوگئی وہ اب ہمیشہ ہمیش کے لیے مسجد ہی رہے گی، اس کو دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جاسکتا، اس میں وراثت نہیں اس کی بیع و شراع جائز نہیں ہے اور مسجد کی عمارت اگر ختم بھی ہوجائے تب بھی اس جگہ کا مسجد کی طرح احترام ضروری ہوگا، اور اس جگہ کے لیے مسجد کے احکام ثابت رہیں گے۔کیوں کہ مسجد درودیوار اور منبر ومحراب کا نام نہیں ہے اور نہ ہی یہ چیزیں مسجد ہونے کے لیے ضروری ہیں، بلکہ مسجد اس زمین کو کہتے ہیں جو نماز کے لیے وقف ہو۔
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
مسجد صرف اس زمین کا نام ہے جو نماز کیلئے وقف ہو یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اپنی نری خالی زمین مسجد کر دے مسجد ہوجائے گی، مسجد کا احترام اس کےلئے فرض ہوجائے گا۔
فتاوٰی عالمگیری میں ہے
رجل لہ ساحۃ لابناء فیہا امر قوما ان یصلوافیہا بجماعۃ ابدا او امرھم بالصلٰوۃ مطلقا ونوی الابد صارت الساحۃ مسجد اکذافی الذخیرۃ وھکذا فی فتاوٰی قاضی خان۔(فتاوی رضویہ ج ٦ص٣٩٠)
اس لیے جو لوگ اس قدیم مسجد کے ویران ہونے کی وجہ سے اس مسجد کو شہید کرکے اس کے بدلے میں کافر سے زمین سمیت بنی ہوئی مسجد لینا چاہتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں، انھیں یہ سمجھایا جائے کہ جو جگہ مسجد ہوگئی اب وہ ہمیشہ مسجد رہے گی، اس کو شہید کرکے غیر آباد چھوڑ دینا بہت بڑا ظلم ہے.
اللہ جل شانہ کا فرمان ہے وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔ (سورہ بقرہ: ١١۴)
یعنی اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے ذکر سے روکیں اور اس کے ویران کرنے میں کوشاں ہوں، ان کو تو یہی پہونچتا تھا کہ اس میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
مسجد کو اس لئے شہید کرنا کہ وہ جگہ ترک کردیں گے اور دوسری جگہ مسجد بنائیں گے مطلقاً حرام ہے
قال تعالٰی ومن اظلم ممن منع مسٰجد ﷲ ان یذکر فیہا اسمہ وسعٰی فی خرابھا
کیا ویران وقف شدہ قدیم مسجد کی زمین کو غیر مسلم کی زمین سے بدل سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ایک گاؤں ھے جس میں ایک قدیم مسجد ھے اور اس مسجد کی دیوار سے بالکل متصل مندر ہے اب صورت حال یہ ھے کہ اس گاؤں سے تمام مسلمان نقلِ مکانی کرچکے ہیں اور مسجد ویران ہے اب اس گاؤں کے غیر مسلم لو گوں کا کہنا ہے کہ
ہم لوگ مندر کی توسیع کرنا چاہتے ہیں تو اگر مسلم حضرات اس مسجد کی جگہ کو مندر کے لئے دے دیں تو ہم لوگ مسلمانوں کو جہاں وہ چاہیں گے اس جگہ اپنے روپئے سے مکمل مسجد کی تعمیر کر دیں گے صورت مسؤلہ میں شرعی رہنمائی فر مائیں تفصیلی
جواب بحوالہ عنایت فر مائیں
المستفتی:- سید محمد سلیم شاہ کچھ گجرات انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مذکورہ سوال میں قدیم ویران کر کو یا مسجد کی زمین کو غیر مسلم کے حوالے کرنا اور بدلے میں زمین سمیت دوسری جگہ کفار سے بنی ہوئی مسجد لینا کسی صورت قطعا جائز نہیں ہے کیوں کہ وہ مسجد شرعی ہے جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے
واضحرہے کہ جو جگہ مسجد ہوگئی وہ اب ہمیشہ ہمیش کے لیے مسجد ہی رہے گی، اس کو دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جاسکتا، اس میں وراثت نہیں اس کی بیع و شراع جائز نہیں ہے اور مسجد کی عمارت اگر ختم بھی ہوجائے تب بھی اس جگہ کا مسجد کی طرح احترام ضروری ہوگا، اور اس جگہ کے لیے مسجد کے احکام ثابت رہیں گے۔کیوں کہ مسجد درودیوار اور منبر ومحراب کا نام نہیں ہے اور نہ ہی یہ چیزیں مسجد ہونے کے لیے ضروری ہیں، بلکہ مسجد اس زمین کو کہتے ہیں جو نماز کے لیے وقف ہو۔
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
مسجد صرف اس زمین کا نام ہے جو نماز کیلئے وقف ہو یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اپنی نری خالی زمین مسجد کر دے مسجد ہوجائے گی، مسجد کا احترام اس کےلئے فرض ہوجائے گا۔
فتاوٰی عالمگیری میں ہے
رجل لہ ساحۃ لابناء فیہا امر قوما ان یصلوافیہا بجماعۃ ابدا او امرھم بالصلٰوۃ مطلقا ونوی الابد صارت الساحۃ مسجد اکذافی الذخیرۃ وھکذا فی فتاوٰی قاضی خان۔(فتاوی رضویہ ج ٦ص٣٩٠)
اس لیے جو لوگ اس قدیم مسجد کے ویران ہونے کی وجہ سے اس مسجد کو شہید کرکے اس کے بدلے میں کافر سے زمین سمیت بنی ہوئی مسجد لینا چاہتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں، انھیں یہ سمجھایا جائے کہ جو جگہ مسجد ہوگئی اب وہ ہمیشہ مسجد رہے گی، اس کو شہید کرکے غیر آباد چھوڑ دینا بہت بڑا ظلم ہے.
اللہ جل شانہ کا فرمان ہے وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔ (سورہ بقرہ: ١١۴)
یعنی اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے ذکر سے روکیں اور اس کے ویران کرنے میں کوشاں ہوں، ان کو تو یہی پہونچتا تھا کہ اس میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
مسجد کو اس لئے شہید کرنا کہ وہ جگہ ترک کردیں گے اور دوسری جگہ مسجد بنائیں گے مطلقاً حرام ہے
قال تعالٰی ومن اظلم ممن منع مسٰجد ﷲ ان یذکر فیہا اسمہ وسعٰی فی خرابھا
(فتاویٰ رضویہ ج٦ص۴٢٢)
آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
مسجد بیچ آبادی میں تعمیر کریں ثواب عظیم پائیں گے، اور اُس پہلی مسجد کا بھی آباد رکھنا فرض ہے اس کنارے والے پانچوں وقت اس میں نماز پڑھیں
(فتاویٰ رضویہ ج٣ص۵٨٩)
حاصل یہ ہے کہ اس قدیم مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنا حرام ہے
(اسی طرح مفتی حضرت محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔یوپی مسائل ورلڈ مسلک اعلی حضرت سلامت رہے
٨/ذو القعدہ ١۴۴٢ھ//٢٠/جون ٢٠٢١ء میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے)
یاد رہے کہ قیامت میں مسجدوں کے علاوہ ساری زمینیں فنا ہوجائیں گی، اورمسجدیں ایک دوسری سے مل جائیں گی‘
مسجد کی سرزمین کی اسی حیثیت کی وجہ سے اور اس پر اصل مالک حقیقی کی ملکیت کے ثابت ہوجانے کی وجہ سے اس میں کسی قسم کا تصرف بیع، تبادلہ، ہبہ وغیرہ کا اختیار کسی انسان کو نہیں رہتا؛ کیونکہ وہ زمین اب کسی انسان کی ملکیت میں نہیں کہ اس پر اس کا تصرف نافذہواور اس پر فقہاء کاتقریبا اجماع ہےکہ اگر اس زمین پر مسجد باقی نہ بھی رہے اور ویران ہوجائے تو بھی اس کی شان مسجدیت باقی رہتی ہے،
کما فی الدر المختار
ولو خرب ماحولہ واستغنی عنہ یبقی مسجد عند الامام والثانی ابدا الی یوم القیامۃ وبہ یفتی
(در مختارمع الرد: ۴؍۳۵۸)
اگر مسجد کے اطراف کی جگہ ویران ہوجائے اور لوگوں کو اس کی حاجت باقی نہ رہے تب بھی امام اعظم اور امام ابویوسف علیہما الرحمۃ کے نزدیک وہ جگہ ہمیشہ قیامت تک مسجد باقی رہے گی، اور اسی پر فتوی ہے۔
علامہ شامی لکھتے ہیں
لوخرب ماحوله ولیس ما یعمر به وقد استغنی الناس عنه لبناء مسجد آخر فلایعود میراثا ولایجوز نقل ماله الی مسجد آخر سواء کانوا یصلون فیه اولا (ردالمحتار ۶؍۸۴۵، وکذا فی فتح القدیر ۶؍۵۱۲، والبحر : ۵؍۳۲۲)
اگر مسجد خراب ہوگئی، اس کی تعمیر کے لیے کچھ ہے نہیں اور دوسری مسجد کے بن جانے کی وجہ سے لوگوں کو اس مسجد کی ضرورت بھی نہیں رہی پھر بھی وہ (جگہ) نہ وراثت میں لوٹے گی اور نہ ہی اس کے سامان کو دوسری مسجد میں منتقل کرنا جائز ہے، چاہے لوگ اس میں نماز پڑھتے ہوں یا نہ پڑھتے ہوں۔
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے
جمهور الفقهاء على أن المسجد لا يباع، وفي هذا يقول الحنفية: من اتخذ أرضه مسجدا واستوفى شروط صحة وقفه لم يكن له أن يرجع فيه ولا يبيعه ولا يورث عنه، لأنه تجرد عن حق العباد وصار خالصا لله تعالى۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۳۷؍۲۲۵)
جمہور فقہاء کا اتفاق ہے کہ مسجد بیچی نہیں جاسکتی، اس سلسلہ میں احناف کہتے ہیں کہ جس کسی نےاپنی زمین پر مسجد بنادی اور مسجدکے وقف کے صحیح ہونے کی ساری شرطیں پائی گئیں تو اب اس کے لیے اس بات کی اجازت نہیں ہے وہ اسے واپس لے اور وہ اسے بیچ نہیں سکتا اور نہ اس میں اس کا کوئی وارث ہوگا، اس لیے کہ وہ زمین بندہ کے حق سے نکل کر خالص اللہ تعالی کے لیے ہوگئی۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
مسجد بیچ آبادی میں تعمیر کریں ثواب عظیم پائیں گے، اور اُس پہلی مسجد کا بھی آباد رکھنا فرض ہے اس کنارے والے پانچوں وقت اس میں نماز پڑھیں
(فتاویٰ رضویہ ج٣ص۵٨٩)
حاصل یہ ہے کہ اس قدیم مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنا حرام ہے
(اسی طرح مفتی حضرت محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔یوپی مسائل ورلڈ مسلک اعلی حضرت سلامت رہے
٨/ذو القعدہ ١۴۴٢ھ//٢٠/جون ٢٠٢١ء میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے)
یاد رہے کہ قیامت میں مسجدوں کے علاوہ ساری زمینیں فنا ہوجائیں گی، اورمسجدیں ایک دوسری سے مل جائیں گی‘
مسجد کی سرزمین کی اسی حیثیت کی وجہ سے اور اس پر اصل مالک حقیقی کی ملکیت کے ثابت ہوجانے کی وجہ سے اس میں کسی قسم کا تصرف بیع، تبادلہ، ہبہ وغیرہ کا اختیار کسی انسان کو نہیں رہتا؛ کیونکہ وہ زمین اب کسی انسان کی ملکیت میں نہیں کہ اس پر اس کا تصرف نافذہواور اس پر فقہاء کاتقریبا اجماع ہےکہ اگر اس زمین پر مسجد باقی نہ بھی رہے اور ویران ہوجائے تو بھی اس کی شان مسجدیت باقی رہتی ہے،
کما فی الدر المختار
ولو خرب ماحولہ واستغنی عنہ یبقی مسجد عند الامام والثانی ابدا الی یوم القیامۃ وبہ یفتی
(در مختارمع الرد: ۴؍۳۵۸)
اگر مسجد کے اطراف کی جگہ ویران ہوجائے اور لوگوں کو اس کی حاجت باقی نہ رہے تب بھی امام اعظم اور امام ابویوسف علیہما الرحمۃ کے نزدیک وہ جگہ ہمیشہ قیامت تک مسجد باقی رہے گی، اور اسی پر فتوی ہے۔
علامہ شامی لکھتے ہیں
لوخرب ماحوله ولیس ما یعمر به وقد استغنی الناس عنه لبناء مسجد آخر فلایعود میراثا ولایجوز نقل ماله الی مسجد آخر سواء کانوا یصلون فیه اولا (ردالمحتار ۶؍۸۴۵، وکذا فی فتح القدیر ۶؍۵۱۲، والبحر : ۵؍۳۲۲)
اگر مسجد خراب ہوگئی، اس کی تعمیر کے لیے کچھ ہے نہیں اور دوسری مسجد کے بن جانے کی وجہ سے لوگوں کو اس مسجد کی ضرورت بھی نہیں رہی پھر بھی وہ (جگہ) نہ وراثت میں لوٹے گی اور نہ ہی اس کے سامان کو دوسری مسجد میں منتقل کرنا جائز ہے، چاہے لوگ اس میں نماز پڑھتے ہوں یا نہ پڑھتے ہوں۔
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے
جمهور الفقهاء على أن المسجد لا يباع، وفي هذا يقول الحنفية: من اتخذ أرضه مسجدا واستوفى شروط صحة وقفه لم يكن له أن يرجع فيه ولا يبيعه ولا يورث عنه، لأنه تجرد عن حق العباد وصار خالصا لله تعالى۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۳۷؍۲۲۵)
جمہور فقہاء کا اتفاق ہے کہ مسجد بیچی نہیں جاسکتی، اس سلسلہ میں احناف کہتے ہیں کہ جس کسی نےاپنی زمین پر مسجد بنادی اور مسجدکے وقف کے صحیح ہونے کی ساری شرطیں پائی گئیں تو اب اس کے لیے اس بات کی اجازت نہیں ہے وہ اسے واپس لے اور وہ اسے بیچ نہیں سکتا اور نہ اس میں اس کا کوئی وارث ہوگا، اس لیے کہ وہ زمین بندہ کے حق سے نکل کر خالص اللہ تعالی کے لیے ہوگئی۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٨/٣/٢٠٢٢
٨/٣/٢٠٢٢