(سوال نمبر 268)
کسی عالم دین سے حسد و بغض رکھنا کیسا ہے؟ کیا حاسد کی اس کی اقتداء میں نماز درست ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کا امام عالم ہے اور زید عالم سے حسد بغض و عناد رکھتا ہے اور کسی طرح سے رابطہ نہیں رکھتا ہے پھر اسی حالت میں زید اسکے پیچھے نماز بھی پڑھتا ہے تو کیا زید کی نماز اپنے عالم امام کے پیچھے درست ہوگی کہ نہیں۔
المستفتی:- محمد رحمت قادری قنوجی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں زید کومعلوم ہونی چاہئے کہ علم اللہ سبحانہ و تعالی کی صفت ہے اور اللہ رب العزت اپنے پسندیدہ بندوں میں جسے چاہے اپنی اس صفت سے نواز تاہے اور اسی صفت سے متصف ہونے کی وجہ سے اس شخص کو نائب رسول کہتے ہیں اور وہ صاحب علم نائب رسول بن کر دین کی خدمت اور لوگوں کو طریق شریعت بتلاتے ہیں، بدون سبب شرعی عالم دین کی اہانت اصلا علم دین کی اہانت ہے اور علم دین کی اہانت کو کفر قرار دیا گیا ہے، البتہ اگر زید امام صاحب سے کسی دنیاوی وجوہ سے عداوت و بغض رکھتا ہے اور اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھتا ہے،یہ ناجائز ہے اور منشہ اسلام کے خلاف ہے اپنے اس فعل سے مکمل اجتناب لازم ہے البتہ شرائط امامت اگر امام میں موجود ہے تو زید کی نماز ان کی اقتداء میں ہو جائے گی اس میں کوئی قباحت نہیں ۔
کما فی البحر الرائق
ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده، (البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 134)
کما فی المجمع الأنهر
وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً"
(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 695)
بطور نصیحت کچھ عرض کئے دیتا ہوں
حضرت عون بن عبد اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
میں نے امیر المومنین عمر بن عبد العزیز سے عرض کیا:
کہا جاتا ہے کہ اگر تم میں ایک عالم بننے کی صلاحیت ہو تو جہاں تک ممکن ہو عالم بننے کی کوشش کرو، اور اگر تم عالم نہیں بن سکتے تو پھر ایک طالب علم بنو، اور اگر طالب علم بننے کی بھی صلاحیت نہیں ہے تو پھر ان سے (علماء و طالب علم) سے محبت کرو، اگر تم ان سے محبت کے قابل بھی نہیں ہو تو پھر (کم از کم) ان سے نفرت مت کرو،
عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا:
سبحان اللہ ،اللہ نے اس (آخری ) بندے کو بھی مہلت دی ہے،
[ ابن عبدالبر جامع بيان العلم وفضله ، ١.١٤٢-١٤٣]
اس روایت کی رو سے مسلمان بندے کو چاہیے کہ
١/ یا تو وہ عالم بنے،
٢/ یا طالبِ علم بنے
٣/ یا ان سے محبت کرنے والا،
٤/ اور آخری صورت گنجائش کی یہ دی گئی ہے کہ کم از کم علماء و طلبہ دین سے نفرت نہ رکھے۔
٥/ اگر پانچویں قسم بنے گا تو ہلاک ہوجائے گا۔
حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
یہ بات درست ہے کہ ایک عقل مند شخص تین طرح کے لوگوں کی بے قدری نہ کرےگا
١/ علماء کی،
٢/ حکم رانوں کی
٣/ اور اپنے مسلمان بھائی کی.
جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا، جو شخص بھی حکم رانوں کی بے قدری کرے گا وہ دنیوی زندگی سے محروم رہے گا اور جو شخص بھی اپنے بھائی کی بے قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم رہے گا‘
[الذهبي، سير أعلام النبلاء ١٧:٢٥١]
والله ورسوله اعلم بالصواب
کسی عالم دین سے حسد و بغض رکھنا کیسا ہے؟ کیا حاسد کی اس کی اقتداء میں نماز درست ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کا امام عالم ہے اور زید عالم سے حسد بغض و عناد رکھتا ہے اور کسی طرح سے رابطہ نہیں رکھتا ہے پھر اسی حالت میں زید اسکے پیچھے نماز بھی پڑھتا ہے تو کیا زید کی نماز اپنے عالم امام کے پیچھے درست ہوگی کہ نہیں۔
المستفتی:- محمد رحمت قادری قنوجی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں زید کومعلوم ہونی چاہئے کہ علم اللہ سبحانہ و تعالی کی صفت ہے اور اللہ رب العزت اپنے پسندیدہ بندوں میں جسے چاہے اپنی اس صفت سے نواز تاہے اور اسی صفت سے متصف ہونے کی وجہ سے اس شخص کو نائب رسول کہتے ہیں اور وہ صاحب علم نائب رسول بن کر دین کی خدمت اور لوگوں کو طریق شریعت بتلاتے ہیں، بدون سبب شرعی عالم دین کی اہانت اصلا علم دین کی اہانت ہے اور علم دین کی اہانت کو کفر قرار دیا گیا ہے، البتہ اگر زید امام صاحب سے کسی دنیاوی وجوہ سے عداوت و بغض رکھتا ہے اور اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھتا ہے،یہ ناجائز ہے اور منشہ اسلام کے خلاف ہے اپنے اس فعل سے مکمل اجتناب لازم ہے البتہ شرائط امامت اگر امام میں موجود ہے تو زید کی نماز ان کی اقتداء میں ہو جائے گی اس میں کوئی قباحت نہیں ۔
کما فی البحر الرائق
ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده، (البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 134)
کما فی المجمع الأنهر
وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً"
(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 695)
بطور نصیحت کچھ عرض کئے دیتا ہوں
حضرت عون بن عبد اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
میں نے امیر المومنین عمر بن عبد العزیز سے عرض کیا:
کہا جاتا ہے کہ اگر تم میں ایک عالم بننے کی صلاحیت ہو تو جہاں تک ممکن ہو عالم بننے کی کوشش کرو، اور اگر تم عالم نہیں بن سکتے تو پھر ایک طالب علم بنو، اور اگر طالب علم بننے کی بھی صلاحیت نہیں ہے تو پھر ان سے (علماء و طالب علم) سے محبت کرو، اگر تم ان سے محبت کے قابل بھی نہیں ہو تو پھر (کم از کم) ان سے نفرت مت کرو،
عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا:
سبحان اللہ ،اللہ نے اس (آخری ) بندے کو بھی مہلت دی ہے،
[ ابن عبدالبر جامع بيان العلم وفضله ، ١.١٤٢-١٤٣]
اس روایت کی رو سے مسلمان بندے کو چاہیے کہ
١/ یا تو وہ عالم بنے،
٢/ یا طالبِ علم بنے
٣/ یا ان سے محبت کرنے والا،
٤/ اور آخری صورت گنجائش کی یہ دی گئی ہے کہ کم از کم علماء و طلبہ دین سے نفرت نہ رکھے۔
٥/ اگر پانچویں قسم بنے گا تو ہلاک ہوجائے گا۔
حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
یہ بات درست ہے کہ ایک عقل مند شخص تین طرح کے لوگوں کی بے قدری نہ کرےگا
١/ علماء کی،
٢/ حکم رانوں کی
٣/ اور اپنے مسلمان بھائی کی.
جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا، جو شخص بھی حکم رانوں کی بے قدری کرے گا وہ دنیوی زندگی سے محروم رہے گا اور جو شخص بھی اپنے بھائی کی بے قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم رہے گا‘
[الذهبي، سير أعلام النبلاء ١٧:٢٥١]
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
29/12/2020