(سوال نمبر 269)
میری کرسمس کہنا جائز ہے یا کفر نہیں
.....................................
السلام عليكم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوشل میڈیا پر یہ خبر بہت تیزی سے وائرل ہو رہی ہے کہ
میری کرسمس کا مطلب ہے . اللہ کا بیٹا ہوا ہے، مبارک ہو.
اور اس وجہ سے کسی مسلم کو یا عیسائی کو "میری کرسمس" کہنا کفر ہے؟
اس کی حقیقت کیا ہے؟ کیا سچ میں ایسا کہنا کفر ہے؟؟ اور کیا اس لفظ کا ترجمہ یہی ہوتا ہے؟رہنمائی فرمائیں
سائل:- غلام مصطفیٰ مقام بستپور ہریپوروا نگر پالیکا ۹ ضلع سرلاہی نیپال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں میری کرسمس کا معنی ہے عیسی علیہ السلام کا یوم پیدائش مبارک ہو،
میرے تحقیق کے مطابق میری کرسمس کا معنی، اللہ کا بیٹا ہوا ہے، مبارک ہو، نعوذ باللہ من ذلک کسی معتبر لغت سے ثابت نہیں ہے ،اس لئے کوئی مسلمان کا میری کرسمس کہنا کفر نہیں، بلکہ جائز ہے، کیونکہ یہ جملہ عیسی علیہ السلام کی پیدائش پر کہا جاتاہے اور آپ کی ولادت قرآن حدیث سے ثابت ہے، اور اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں، اور آپ کی ولادت بھی غیر معمولی طریق پر ہوئی ہے،لہذا آپ کا میلاد منانا شرعا جائز ہے۔اس میں کوئی قباحت نہیں البتہ عیسائیوں کے وہ تمام امور جو شرعا جائز نہیں ان سے یک سر پاک و منزہ ہونا ضروری ہے ۔ اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جسکے بنا پر اسے کفر کہا جائے ،
علامہ مولانا مفتی منیب صاحب قبلہ فرماتے ہیں، ہیپی کرسمس ،عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر خوشی منانا‘ پس اگر کوئی اپنے پڑوس میں رہنے والے یا دفتر میں ساتھ کام کرنے والے کسی پاکستانی مسیحی کو عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی مبارک باد دیتا ہے، تو اِس میں کوئی ایسی شرعی قباحت نہیں ہے کہ اُس پر کوئی فتویٰ صادر کیا جائے۔ جب یہ مان لیا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے، تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ آپ مخلوق ہیں، حادِث ہیں اور اللہ کے بندے ہیں، جبکہ خالق کی ذات ازلی و ابدی ہے، قدیم ہے، اپنے آپ سے ہے، اُس کے تمام کمالات ذاتی ہیں، مخلوق خالق کا جز نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات باپ، بیٹے اور بیٹی کی نسبت سے پاک ہے۔ الغرض پیدائش کی نسبت سے ہی خدا ہونے یا اِبنُ اللہ ہونے کی نفی ہوجاتی ہے۔ سو فی نفسہٖ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی منانے میں شرعاً کوئی عیب نہیں ہے۔
البتہ میری ایسٹر کہنا حرام ہے۔ کیونکہ عیسائیوں کا جو عقیدہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے ہے کہ آپ کو صلیب پر چڑھا دیا گیا ہے، یہ غلط ہے اور باطل عقیدہ ہے۔ دین اسلام اس عقیدے کی تردید کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان کی طرف اٹھا لیا ہے، اور وہ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔ میری ایسٹر کہنا حرام ہے، کیونکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وفات نہیں ہوئی، اور ان کی وفات کا دن کیسے منایا جا سکتا ہے؟ لہذا ان کے وصال کا دن منانا جائز نہیں، یہ حرام ہے۔
قرآن مجید میں واضح طور پر فرمان باری تعالیٰ موجود ہے۔
وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًاo وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًاo بَل رَّفَعَهُ اللّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًاo وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًاo
اور (مزید یہ کہ) ان کے (اس) کفر اور قول کے باعث جو انہوں نے مریم (علیہا السلام) پر زبردست بہتان لگایا اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعوٰی) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اﷲ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لئے (کسی کو عیسٰی علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بیشک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں)، اور انہوں نے عیسٰی (علیہ السلام) کو یقیناً قتل نہیں کیا بلکہ اﷲ نے انہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھا لیا، اور اﷲ غالب حکمت والا ہے
اور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسٰی (علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحيح طریقے سے) ایمان لے آئے گا، اور قیامت کے دن عیسٰی (علیہ السلام) ان پر گواہ ہوں گےo
نیو ایئر ہیپی کہنا کیسا ہے؟
سراج الفقہاء محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین صاحب قبلہ اس سوال
(عیسوی نئے سال کی آمد پر کسی کو نی و ایئر ہیپی کہنا کیسا ہے؟)کے جواب میں فرماتے ہیں ۔نئے سال کی مبارک بادی دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ سال آپ کے لئے مبارک ہو، باخیر و عافیت اور خوشی سے گزرے ۔یہ جائز ہے دعاء خیر ہے .
(سراج الفقہاء کی دینی مجالس کتاب الحضر ولاباحة ص١٤٤)
اسی طرح علامہ مفتی قاسم عطاری صاحب قبلہ فرماتے ہیں، شرعی حدود میں رہ کر نئے سال کی آمد پر خوشی منانا جائز ہے ۔
(دار الافتاء اہل سنت ص 1دعوت اسلامی )
والله ورسوله اعلم بالصواب
میری کرسمس کہنا جائز ہے یا کفر نہیں
.....................................
السلام عليكم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوشل میڈیا پر یہ خبر بہت تیزی سے وائرل ہو رہی ہے کہ
میری کرسمس کا مطلب ہے . اللہ کا بیٹا ہوا ہے، مبارک ہو.
اور اس وجہ سے کسی مسلم کو یا عیسائی کو "میری کرسمس" کہنا کفر ہے؟
اس کی حقیقت کیا ہے؟ کیا سچ میں ایسا کہنا کفر ہے؟؟ اور کیا اس لفظ کا ترجمہ یہی ہوتا ہے؟رہنمائی فرمائیں
سائل:- غلام مصطفیٰ مقام بستپور ہریپوروا نگر پالیکا ۹ ضلع سرلاہی نیپال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسئلہ مسئولہ میں میری کرسمس کا معنی ہے عیسی علیہ السلام کا یوم پیدائش مبارک ہو،
میرے تحقیق کے مطابق میری کرسمس کا معنی، اللہ کا بیٹا ہوا ہے، مبارک ہو، نعوذ باللہ من ذلک کسی معتبر لغت سے ثابت نہیں ہے ،اس لئے کوئی مسلمان کا میری کرسمس کہنا کفر نہیں، بلکہ جائز ہے، کیونکہ یہ جملہ عیسی علیہ السلام کی پیدائش پر کہا جاتاہے اور آپ کی ولادت قرآن حدیث سے ثابت ہے، اور اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں، اور آپ کی ولادت بھی غیر معمولی طریق پر ہوئی ہے،لہذا آپ کا میلاد منانا شرعا جائز ہے۔اس میں کوئی قباحت نہیں البتہ عیسائیوں کے وہ تمام امور جو شرعا جائز نہیں ان سے یک سر پاک و منزہ ہونا ضروری ہے ۔ اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جسکے بنا پر اسے کفر کہا جائے ،
علامہ مولانا مفتی منیب صاحب قبلہ فرماتے ہیں، ہیپی کرسمس ،عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر خوشی منانا‘ پس اگر کوئی اپنے پڑوس میں رہنے والے یا دفتر میں ساتھ کام کرنے والے کسی پاکستانی مسیحی کو عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی مبارک باد دیتا ہے، تو اِس میں کوئی ایسی شرعی قباحت نہیں ہے کہ اُس پر کوئی فتویٰ صادر کیا جائے۔ جب یہ مان لیا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے، تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ آپ مخلوق ہیں، حادِث ہیں اور اللہ کے بندے ہیں، جبکہ خالق کی ذات ازلی و ابدی ہے، قدیم ہے، اپنے آپ سے ہے، اُس کے تمام کمالات ذاتی ہیں، مخلوق خالق کا جز نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات باپ، بیٹے اور بیٹی کی نسبت سے پاک ہے۔ الغرض پیدائش کی نسبت سے ہی خدا ہونے یا اِبنُ اللہ ہونے کی نفی ہوجاتی ہے۔ سو فی نفسہٖ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشی منانے میں شرعاً کوئی عیب نہیں ہے۔
البتہ میری ایسٹر کہنا حرام ہے۔ کیونکہ عیسائیوں کا جو عقیدہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے ہے کہ آپ کو صلیب پر چڑھا دیا گیا ہے، یہ غلط ہے اور باطل عقیدہ ہے۔ دین اسلام اس عقیدے کی تردید کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان کی طرف اٹھا لیا ہے، اور وہ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔ میری ایسٹر کہنا حرام ہے، کیونکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وفات نہیں ہوئی، اور ان کی وفات کا دن کیسے منایا جا سکتا ہے؟ لہذا ان کے وصال کا دن منانا جائز نہیں، یہ حرام ہے۔
قرآن مجید میں واضح طور پر فرمان باری تعالیٰ موجود ہے۔
وَبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًاo وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًاo بَل رَّفَعَهُ اللّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًاo وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًاo
اور (مزید یہ کہ) ان کے (اس) کفر اور قول کے باعث جو انہوں نے مریم (علیہا السلام) پر زبردست بہتان لگایا اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعوٰی) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اﷲ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو قتل کر ڈالا ہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لئے (کسی کو عیسٰی علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بیشک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں)، اور انہوں نے عیسٰی (علیہ السلام) کو یقیناً قتل نہیں کیا بلکہ اﷲ نے انہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھا لیا، اور اﷲ غالب حکمت والا ہے
اور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسٰی (علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحيح طریقے سے) ایمان لے آئے گا، اور قیامت کے دن عیسٰی (علیہ السلام) ان پر گواہ ہوں گےo
نیو ایئر ہیپی کہنا کیسا ہے؟
سراج الفقہاء محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین صاحب قبلہ اس سوال
(عیسوی نئے سال کی آمد پر کسی کو نی و ایئر ہیپی کہنا کیسا ہے؟)کے جواب میں فرماتے ہیں ۔نئے سال کی مبارک بادی دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ سال آپ کے لئے مبارک ہو، باخیر و عافیت اور خوشی سے گزرے ۔یہ جائز ہے دعاء خیر ہے .
(سراج الفقہاء کی دینی مجالس کتاب الحضر ولاباحة ص١٤٤)
اسی طرح علامہ مفتی قاسم عطاری صاحب قبلہ فرماتے ہیں، شرعی حدود میں رہ کر نئے سال کی آمد پر خوشی منانا جائز ہے ۔
(دار الافتاء اہل سنت ص 1دعوت اسلامی )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/12/2020