Type Here to Get Search Results !

کافر کا دیا ہوا روپیہ یا کوئی سامان مسجد و مدرسہ عید گاہ و قبرستان میں لگانا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 6062)
کافر کا دیا ہوا روپیہ یا کوئی سامان مسجد و مدرسہ عید گاہ و قبرستان میں لگانا کیسا ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا کافر کا دیا ہوا روپیہ یا کوئی سامان مسجد یا مدرسہ یا عیدگاہ یا قبرستان میں لگانا کیسا ہے؟ دلیل کے ساتھ بیان فرمائیں
سائل:- محمد زاہد سیمری مہراجگنج انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عزوجل 
ہندو کا دیا ہوا نفس سامان مسجد و مدرسہ عید گاہ قبرستان میں لگانا جائز نہیں ہے اسی طرح تعمیر مسجد میں ہندو کا دیا ہوا سیمنٹ ریت، ایٹا لگانا جائز نہیں ہے ۔البتہ اگر وہ سامان اور پیسہ مسلمان کو ہدیہ کر دے اور مسلمان اپنی طرف سے مسجد میں وقف کر دے تو جائز ہے ۔
مزید شرط اینکہ 
١/ وہ کافر مسلمانوں پر احسان نہ جتلا تاہو،
٢/ اور مستقبل میں کافر کی طرف سے کوئی خطرہ و خدشہ نہ ہو،
٣/ اور وہ نیاز مندانہ طور پر دیتا ہو 
٤/ اور کافر کی طرف سے خریری گئی کوئی چیز مسجد میں نہ لگائی جائے، 
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں 
 کافر اگر زمین اپنی ملک رکھ کر مسلمانوں کو اس پر مسجد بنانے کی اجازت دے تو وہ مسجد مسجد ہی نہ ہوگی فان الکافر لیس اھلا لوقف المسجد(کیونکہ کافر وقف مسجد کی اہلیت نہیں رکھتا۔) ہاں اگر کافر کسی مسلمان کو اپنی زمین ہبہ کرکے قبضہ دے دے کہ مسلمان مالک ہوجائے اور وہ مسلمان اپنی طرف سے اسے مسجد کرے تو صحیح ہے سامان اگرکافر نے ایسادیا کہ بعینہٖ مسجد میں لگایا جائے گا جیسے کڑیاں یا اینٹیں تو جائزنہیں کہ وہ مسجد کےلئے وقف کا اہل نہیں وہ مال اسی کی ملک رہے گا اور مسجد میں ملک غیر کا خلط صحیح نہیں، ہاں یہاں بھی اگر مسلمان کو تملیک کردے اور مسلمان اپنی طرف سے لگائے تو حرج نہیں، مسجد میں لگانے کو روپیہ اگراس طور پردیتا ہے کہ مسجد یا مسلمانوں پر احسان رکھتا ہے یا اس کے سبب مسجد میں اس کی کوئی مداخلت رہے گی تو لینا جائز نہیں اور اگر نیاز مندانہ طور پر پیش کرتا ہے تو حرج نہیں جب کہ اس کے عوض کوئی چیز کافر کی طرف سے خرید کر مسجد میں نہ لگائی جائے بلکہ مسلمان بطور خود خریدیں یاراجوں مزدوروں کی اجرت میں دیں اور اس میں بھی اسلم وہی طریقہ ہے کہ کافر مسلمان کو ہبہ کردے مسلمان اپنی طرف سے لگائے۔
( الفتاوي الرضوية ج ١٦ ص ٨٨المكتبة المدينة)
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ کافر سامان یا پیسہ مسلمان کو ہبہ کردے اور مسلمان پھر مسجد کے لئے وقف کر دے تو جائز ہے،
غیر مسلم مسلمانوں کا کبھی دوست نہیں ہو سکتا بالخصوص موجودہ دور میں 
اس لئے اپنا ہی پنکھا لگائے تو زیادہ انسب ہے ۔
حدیث پاک میں ہے 
حضرت ابو ہریرہؓ سے مسلم شریف میں مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
ان الله طیب لا یقبل الا طیبا‘‘
(مسلم مترجم ج۳ کتاب الذکاة باب بیان ان اسم الصدقة یقع علی کل نوع من المعروف ص ۴۳)
 اللہ پاک ہے اور پاک چیزیں قبول کرتا ہے،
اس لئے کسی بھی دینی عمارت مسجد و مدرسہ عیدگاہ قبرستان کسی بھی بے ایمان کافر ومشرک سے ان سب کی تعمیر میں چندہ لینا ناجائز وگناہ ہے
قرآن کریم رہنمائی کرتے ہوے فرماتا ہے 
ماکان للمشرکین ان یعمروامساجداللہ 
یعنی نہیں ہے روا مشرکوں کے لئے کہ وہ آباد کریں اللہ کی مسجدوں کو
( پارہ نمبر۱۰،سورہ توبہ،ص ۸،)
دوسری جگہ ارشاد فرماتاہے 
انما یعمروامساجداللہ من اٰمن باللہ والیوم الآخر"
صرف وہی آباد کرسکتاہے اللہ کی مسجدوں کو جو ایمان لایا ہو اللہ پر اور روز قیامت پر،،(پارہ نمبر ۱۰،سورہ توبہ،ص ۸)
سنن ابن ماجہ میں ہے
 انالانستعین بمشرک
ہمیں جائز نہیں کہ مشرکوں سے مددطلب کریں
(ابواب الجھاد الاستعانۃ بالمشرکین،ص۲۰۸،)
البتہ کافر ومشرک اگرچہ از خود روپیہ وغیرہ دیں تو اس کے لینے کی دو صورتیں ہیں،،
١/ کافر اگر اس طور پر روپیہ دیتاہے کہ مسجد یامسلمانوں پر احسان رکھتا ہے یا اس کے سبب مسجد میں کوئی مداخلت رہے گی تو لینا جائز نہیں،
٢/ اور اگر نیاز مندانہ طور پر پیش کرتاہے تو حرج نہیں ۔جبکہ اس کے عوض کافر کی طرف سے کوئی چیز خرید کر نہ لگائی جاے بلکہ مسلمان بطور خود خریدیں یا راہبوں مزدوروں کی اجرت میں دیں اور اس میں اسلم طریقہ یہ ہے کہ کافر مسلمان کو ہبہ کردے اور مسلمان اپنی طرف سے لگاے
(فتاویٰ رضویہ،ج ششم ،ص ۴۸۴،)
هذا ما ظهر لي واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجیب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی خادم دارالافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن سرہا نیپال۔
02/07/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area