واقعات کربلا کی تحقیق پر ہمارا حرف آخر
:------------------------------------:
از قلم:- حضرت علامہ مولانا مفتی دانش حنفی حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
:----------:
مولانا موصوف کو بات شاید اب بھی سمجھ نہیں آئی ، متعین کرنے کی بات تو آپ اس وقت کرتے جب عبارت میں ہرتال چونا کا ذکر نہ ہوتا، ہرتال چونا کا ذکر ہونا اغتسل کے معنی خود متعین کردے رہا ہے، وہاں نہ تو بالماء کی حاجت نہ بالطیب کی، بالطیب کو فقط اس لیۓ لایا گیا تاکہ معلوم ہو سکے کے خوشبو کا استعمال کیا تھا، اگر یہ بھی محذوف ہوتا تو پتہ کیسے چلتے، اور مولانا موصوف اب پوری بات ہی گھما رہے ہیں، سیدھی اور صحیح بات یہ ہے آپ نے عبارت کو سمجھا نہیں، اور کلمہ بالماء محذوف ہونے پر تیر کمان سے نکال دیا حلانکہ وہ تیر نشانے پر نہیں لگا،،
کربلا کے واقعات میں پانی موجود ہونے پر متعدد روایات موجود ہیں، اتنی واضح روایات ہونے پر بھی کوئی یہ کہے کے تاویل کی جاۓ گی تو ان کا یہ کہنا ہر گز صحیح نہیں ، کوئی ایک بھی ایسی روایت موجود نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہو 3 دن ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا، اس کے بعد بھی کوئی کہے تاویل کی جاۓ گی تو یہ ان کی کم فہمی و کم علمی ہے، یہاں کسی بھی چیز سے کوئی چھیڑ خانی نہیں ہے، ہم نے صرف وہی پیش کیا ہے جو کتب قدیمہ میں لکھا ہوا ہے،
شارح بخاری نے واضح طور پر غسل کے معنی لکھے ہیں، اور یہ بات مسلم ہے جب کسی معنی میں احتمال ہو اور جب وہ احتمال دور ہوجاۓ اس وقت ایک معنی کو ترجیح دی جاتی ہے اور شارح بخاری کا کلمہ غسل لکھنا یہ بتاتا ہے ان کے نزدیک بھی یہاں غسل کا ہی معنی ہے،
البتہ ہم نے یہ نہیں کہا یہ موقف شارح بخاری کا ہے۔۔
اور جب متعدد روایات پانی موجود ہونے پر دلالت کر رہی ہوں، ان روایات کو قبول کرنا ہر گز کسی بررگ کی مخالفت نہیں اور نہ یہ بات مسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف ہے،، جس طرح بعض مسائل میں امام اعظم کے قول کو ترک کردیا گیا اس پر ہم عمل نہیں کرتے اس کے باوجود حنفیت سے خارج نہیں ایسے ہی اس روایت کو قبول کرنے میں نہ تو مسلک کی مخالفت ہے اور نہ ہی کسی بزرگ سے اختلاف،۔
ہدایہ میں ہے
و کذا اذا خاف فوت الوقت لو توضا یتیمم و یتوضا و یقضی ما فاتہ
کہ وقت ختم ہونے کا خوف ہو تو تیمم نہ کرے بلکہ وضو کرے اور جو نماز قضا ہو گئ اس کو ادا کرے،۔۔، یہی امام اعظم کامذہب
امام اہلسنت اور صدر الشریعتہ نے کہا تیمم کرلے اور بعد میں دوبارا پڑھے،
اسی طرح جامع صغیر میں امام محمد نے از ابو یوسف از امام ابو حنیفہ سے عقیقہ نہ کرنے کی روایت کی ہے اور بعض کتب میں اس کے مکروہ کا اشارہ ہے، حالانکہ اس کو بھی چھوڑ کر عقیقہ کو سنت و مستحب کہا جاتا ہے۔، امام اہلسنت کا بھی یہی موقف ہے،
جب ہم امام ابو حنیفہ کے قول کو ترک کرکے حنفیت سے خارج نہ ہوئے، اور نہ ہی امام اہلسنت یا دیگر پر اعتراضات کرتے ہیں، تو پھر کیا وجہ ہے پانی موجود ہونے پر متعدد روایات کو نہ مانا جائے ، اور جن لوگوں نے اپنی آنکھوں کو بند، کانوں کو بہرا، کیا ہوا ہے وہ اپنی بند آنکھیں اور بہرے کونوں کو کھولیں یہی اعلیٰ حضرت امام اھلسنت کی تربیت و تعلیم ہے،
متعدد واضح روایات ہونے کے بعد اگر کوئی یہ کہتا ہے ، ہم اس کی تردید کرتے ہیں، تو ایسا شخص ہٹ دھرم ہے اور خود امام اہلسنت کی تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے، اور دوسورں کو بھی وہی عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، جو شخص یہ کہتا ہے ہم ایک انچ بھی نہیں ہٹیں گے تو
ایسا شخص بے باک نڈر بے احتیاط ہے۔
واضح رہے ہم مبلغ ہیں شارع نہیں لہٰذا کسی ایک قول پر جم جانا کہ یہی صحیح ہے یا تو اس کے پاس وحی آئی ہے یا اس کو غیب کا علم ہوا ہے،
امام اہلسنت فرماتے ہیں
جو کوئی ان تمام باتوں کے باوجود کسی ایک طرف پختہ یقین دکھاۓ تو وہ بے باک نڈر بے احتیاط ہے، پس راسخ علماء اور محتاط حضرات کی یہی پہچان ہے کہ وہ مختلف مسائل میں کسی ایک کی طرف یقین نہیں رکھتے۔
ہمارا یہ مشن ہے اس امت محمدیہ تک موضوع روایات کو نکالا جائے اور صحیح روایات پر عمل کیا جاۓ، قرآن وحدیث کے مطابق ہماری جو بھی تحقیق ہوگی ہم اسے دوسروں تک پہنچایں گے اگر
ہمیں مزید واقعات کربلا پر تحقیق جاری رکھنی پڑی تو ہم جاری رکھیں گے، اور جو موضوع روایات ہیں ان کو اس میں سے نکال باہر کریں گے،
اہلبیت کی شان موضوع روایات کی محتاج نہیں ہیں، یہی تعلیم اعلیٰ حضرت اور یہی مسلک اعلیٰ حضرت ہے ، جھوٹی و موضوع روایات بیان کرنا اور انہی روایات پر جم جانا یہ نہ تو مسلک اعلیٰ حضرت اور نہ ہی تعلیم اعلیٰ حضرت ہے ،۔بلکہ ایسا شخص مسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف عمل کرنے والا ہے۔
کربلا کے واقعات میں پانی موجود ہونے پر متعدد روایات موجود ہیں، اتنی واضح روایات ہونے پر بھی کوئی یہ کہے کے تاویل کی جاۓ گی تو ان کا یہ کہنا ہر گز صحیح نہیں ، کوئی ایک بھی ایسی روایت موجود نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہو 3 دن ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا، اس کے بعد بھی کوئی کہے تاویل کی جاۓ گی تو یہ ان کی کم فہمی و کم علمی ہے، یہاں کسی بھی چیز سے کوئی چھیڑ خانی نہیں ہے، ہم نے صرف وہی پیش کیا ہے جو کتب قدیمہ میں لکھا ہوا ہے،
شارح بخاری نے واضح طور پر غسل کے معنی لکھے ہیں، اور یہ بات مسلم ہے جب کسی معنی میں احتمال ہو اور جب وہ احتمال دور ہوجاۓ اس وقت ایک معنی کو ترجیح دی جاتی ہے اور شارح بخاری کا کلمہ غسل لکھنا یہ بتاتا ہے ان کے نزدیک بھی یہاں غسل کا ہی معنی ہے،
البتہ ہم نے یہ نہیں کہا یہ موقف شارح بخاری کا ہے۔۔
اور جب متعدد روایات پانی موجود ہونے پر دلالت کر رہی ہوں، ان روایات کو قبول کرنا ہر گز کسی بررگ کی مخالفت نہیں اور نہ یہ بات مسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف ہے،، جس طرح بعض مسائل میں امام اعظم کے قول کو ترک کردیا گیا اس پر ہم عمل نہیں کرتے اس کے باوجود حنفیت سے خارج نہیں ایسے ہی اس روایت کو قبول کرنے میں نہ تو مسلک کی مخالفت ہے اور نہ ہی کسی بزرگ سے اختلاف،۔
ہدایہ میں ہے
و کذا اذا خاف فوت الوقت لو توضا یتیمم و یتوضا و یقضی ما فاتہ
کہ وقت ختم ہونے کا خوف ہو تو تیمم نہ کرے بلکہ وضو کرے اور جو نماز قضا ہو گئ اس کو ادا کرے،۔۔، یہی امام اعظم کامذہب
امام اہلسنت اور صدر الشریعتہ نے کہا تیمم کرلے اور بعد میں دوبارا پڑھے،
اسی طرح جامع صغیر میں امام محمد نے از ابو یوسف از امام ابو حنیفہ سے عقیقہ نہ کرنے کی روایت کی ہے اور بعض کتب میں اس کے مکروہ کا اشارہ ہے، حالانکہ اس کو بھی چھوڑ کر عقیقہ کو سنت و مستحب کہا جاتا ہے۔، امام اہلسنت کا بھی یہی موقف ہے،
جب ہم امام ابو حنیفہ کے قول کو ترک کرکے حنفیت سے خارج نہ ہوئے، اور نہ ہی امام اہلسنت یا دیگر پر اعتراضات کرتے ہیں، تو پھر کیا وجہ ہے پانی موجود ہونے پر متعدد روایات کو نہ مانا جائے ، اور جن لوگوں نے اپنی آنکھوں کو بند، کانوں کو بہرا، کیا ہوا ہے وہ اپنی بند آنکھیں اور بہرے کونوں کو کھولیں یہی اعلیٰ حضرت امام اھلسنت کی تربیت و تعلیم ہے،
متعدد واضح روایات ہونے کے بعد اگر کوئی یہ کہتا ہے ، ہم اس کی تردید کرتے ہیں، تو ایسا شخص ہٹ دھرم ہے اور خود امام اہلسنت کی تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے، اور دوسورں کو بھی وہی عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، جو شخص یہ کہتا ہے ہم ایک انچ بھی نہیں ہٹیں گے تو
ایسا شخص بے باک نڈر بے احتیاط ہے۔
واضح رہے ہم مبلغ ہیں شارع نہیں لہٰذا کسی ایک قول پر جم جانا کہ یہی صحیح ہے یا تو اس کے پاس وحی آئی ہے یا اس کو غیب کا علم ہوا ہے،
امام اہلسنت فرماتے ہیں
جو کوئی ان تمام باتوں کے باوجود کسی ایک طرف پختہ یقین دکھاۓ تو وہ بے باک نڈر بے احتیاط ہے، پس راسخ علماء اور محتاط حضرات کی یہی پہچان ہے کہ وہ مختلف مسائل میں کسی ایک کی طرف یقین نہیں رکھتے۔
ہمارا یہ مشن ہے اس امت محمدیہ تک موضوع روایات کو نکالا جائے اور صحیح روایات پر عمل کیا جاۓ، قرآن وحدیث کے مطابق ہماری جو بھی تحقیق ہوگی ہم اسے دوسروں تک پہنچایں گے اگر
ہمیں مزید واقعات کربلا پر تحقیق جاری رکھنی پڑی تو ہم جاری رکھیں گے، اور جو موضوع روایات ہیں ان کو اس میں سے نکال باہر کریں گے،
اہلبیت کی شان موضوع روایات کی محتاج نہیں ہیں، یہی تعلیم اعلیٰ حضرت اور یہی مسلک اعلیٰ حضرت ہے ، جھوٹی و موضوع روایات بیان کرنا اور انہی روایات پر جم جانا یہ نہ تو مسلک اعلیٰ حضرت اور نہ ہی تعلیم اعلیٰ حضرت ہے ،۔بلکہ ایسا شخص مسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف عمل کرنے والا ہے۔
___________________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی ہلدوانی نینیتال
14 محرم الحرام 1445 ھ مطابق 2 اگست 2023