Type Here to Get Search Results !

اُمید اور تمنا میں فرق قرآن وحدیث کی روشنی

 اُمید اور تمنا میں فرق:
:---------------------:
       یاد رکھو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سےحسْنِ ظن کا مطلب ہے تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی سے بچو، اس کی پکڑ سے ڈرو اور اس کی عبادت میں خوب کوشش کرو ورنہ یہ رجا(یعنی اُمید) نہیں صرف تمنا(یعنی آرزو) کہلائے گی، 
اسے یوں سمجھو کہ ایک شخص بیج ڈالے، اس کی دیکھ بھال میں کوشش اور محنت کرے پھر فصل کاٹے اور کہے :
”مجھے امید ہے کہ سو بوری فصل ہوجائے گی۔“
 تو یہ اُمید ہے  اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے زمین میں بیج ڈالا نہ دیکھ بھال کی بلکہ سویا رہا اور سارا سال غفلت میں گزار دیا پھر جب فصل کاٹنے کا وقت آئے کہے:
” اُمید ہے مجھے سو بوری غلّہ حاصل ہو جائے گا۔“
اب تم اس سے کہو گے:
تُو یہ امید کیسے کر سکتا ہے یہ تو فقط آرزو ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
 ٹھیک اِسی طرح جو بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت میں خوب کوشش کرے اور نافرمانی سے بچے پھر کہے: 
مجھے امید ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ میرے اس تھوڑے عمل کو قبول فرمائے گا،کمی  کوتاہی کو پورا فرمائے گا،عظیم ثواب عطا کرے گا اور لغزشوں کو معاف فرمادے گا، مجھے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سےاچھا گمان ہے۔
 یہ اس کی جانب سے حقیقی اُمید ہے اور اس کے برعکس اگر وہ غافل ہو، عبادات کو چھوڑ دے، گناہوں کا ارتکاب کرے، اللہ   عَزَّ    وَجَلَّ کی رضا و ناراضی اور اس کے وعدہ اور وعید کی پروا نہ کرے پھر یہ کہنا شروع کر دے کہ
’’میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اُمید کرتا ہوں کہ وہ مجھے جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ عطا فرمائے گا۔“
تو یہ فقط اس کی آرزو ہے جس کے تحت کچھ حاصل نہیں ہوتا  مگر وہ اسے حسن ظن اور اُمید کا نام دیتا ہے جوکہ خطا اور گمراہی ہے۔
چنانچہ اُمید اور آرزو کا یہ فرق پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنےاس فرمانِ عالی سے یوں واضح فرمایا ہے:
’’اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ نَفْسَہٗ ھَوَاھَا وَ تَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ اَلْاَمَانِیَّ
 یعنی عقلمند وہ ہے جو اپنا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور احمق وہ ہے جو نفسانی خواہشات کی پیروی کرے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے بے جا آرزوئیں لگا بیٹھے۔
   حضرت سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:
کچھ لوگوں کےخدا مغفرت کی آرزوئیں ہیں حتّٰی کہ جب وہ دنیا سے جاتے ہیں تو ان کے پاس ایک نیکی بھی نہیں ہوتی، بندہ کہتا ہے:
 میں اپنے ربّ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھتا ہوں۔ مگر وہ جھوٹا ہوتاہے کہ اگروہ اچھا گمان رکھتا تو اچھا عمل بھی کرتا، پھر آپ نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کی:
وَ ذٰلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِیۡ ظَنَنۡتُمۡ بِرَبِّکُمْ اَرْدٰىکُمْ فَاَصْبَحْتُمۡ مِّنَ الْخٰسِرِیۡنَ﴿۲۳﴾(پ۲۴،حٰمٓ السجدة:۲۳)
ترجمۂ کنز الایمان:"اور یہ ہے تمہارا وہ گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا اور اس نے تمہیں ہلاک کردیاتواب رہ گئےہارے ہوؤں میں۔"
(اردو ترجمہ مختصر منہاج العابدین صفحہ آن لائن -١٩٠_١٩٢)
:--------------------------:
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا نسیم حجازی مصباحی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area