Type Here to Get Search Results !

کیا جو لوگ اچانک مرجاتے ہیں انکی موت کمثل موت حمار ہوتی ہے؟

 (سوال نمبر 252)
 کیا جو لوگ اچانک مرجاتے ہیں انکی موت کمثل موت حمار ہوتی ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ زید نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں تقریر کیا اور یہ حدیث بیان کیا ،عن ابن مسعود قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفس المومن تخرج رشحا ولا احب موتا کموت الحمار قیل وما موت الحمار قال موت الفجاءت قال وروح الکافر تخرج من اشداقہ رواہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط بضعف 
 مذکورہ بالا حدیث شریف کا فقط اتنا حصہ بیان کیا کہ حدیث شریف میں ہے ،لا احب موتا کموت الحمار قیل وما موت الحمار قال موت الفجاءت ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں گدھا کی طرح مرنا پسند نہیں کرتا حضور سے پوچھا گیا گدھا کی طرح مرنا کیا ھے حضور نے فرمایا اچانک مرجانا 
ترجمہ کے بعد زید نے کہا کہ جو لوگ اچانک مرجاتے ہیں گویا کہ وہ گدھا کی موت مرا اور جو لوگ موت سے پہلے کسی بیماری یا پریشانی میں مبتلا ہو کر مرتے ہیں وہ گدھا کی طرح نہیں مرا بلکہ انسان کی طرح مرا اور مرنے سے پہلے جو لوگ کسی بیماری یا پریشانی میں مبتلا ہو کر مرتے ہیں اس کو توبہ واستغفار وصیت ونصیحت اور ایک دوسرے سے معافی مانگنے اور معاف کر نے کی مہلت مل جاتی ھے اور جو لوگ اچانک مرجاتے ہیں اسکو ان چیزوں کی مہلت نہیں مل پاتی ہے اس پر بکر نے زید سے پوچھا کہ جو لوگ ڈوب کر یا جلکر یا کسی حادثہ میں مرجاتے ہیں کیا وہ بھی گدھے کی موت مرا تو زید نے کہا کہ یہ لوگ اس حدیث مصداق نہیں ہے بلکہ یہ لوگ شھید ہیں تو بکر نے زید سے کہا کہ آپنے مطلق کہا ہے کہ جو اچانک مرجاتے ہیں وہ لوگ گدھے کی طرح مرتے ہیں لھاذا اپنے یہ جملہ مطلق کہکر شھید کا انکار کیا ہے سوال میں مذکورہ جملہ سے کسی شھید کا انکار لازم آتا ہے یا نہیں بینوا توجروا
المستفتی محمد ظہیر احمد نعمانی ساکن پرسنڈی تھانہ پریہار ضلع سیتامڑھی بہار انڈیا۔
_________(❤️)_________
 نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعونه تعالى عز وجل
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنِ تَخْرُجُ رَشْحًا ، وَلَا أُحِبُّ مَوْتًا كَمَوْتِ الْحِمَارِ ،قِيلَ : وَمَا مَوْتُ الْحِمَارِ ؟ قَالَ مَوْتُ الْفَجْأَةِ "قَالَ :وَرُوحُ الْكَافِرِ تَخْرُجُ من اشداقه،
(المعجم الأوسط للطبراني حديث رقم 6064)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے:'مومن کی جان تھوڑاتھوڑا کرکے نکلتی ہے جیسے جسم سے پسینہ نکلتاہے اور مجھے گدھے جیسی موت پسندنہیں ۔عرض کیاگیا: گدھے کی موت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:''اچانک موت ،اور فرما یا روح کافر نہایت شدت کرب کے ساتھ نکلتی ہے ۔
مذکورہ بالا حدیث مجمل ہے 
اس کی توضیح دوسری حدیث بیان کر کرہی ہے ۔
یعنی ہر انسان کی اچانک موت کمثل موت حمار نہیں ہوتی اور اچانک موت بری بھی نہیں ہوتی 
آقا علیہ السلام نے فرمایا 
ناگہانی موت غضب کی پکڑ ہے (ابوداؤد)
اوربیہقی نے شعب الایمان میں اور رزین نے اپنی کتاب میں یہ بڑھایا کہ کافر کے لیئے غضب کی پکڑہے اور مؤمن کے لیئے رحمت۔
 یعنی ہارٹ فیل کی موت غضب رب کی علامت ہےکیونکہ اس میں بندے کوتوبہ،نیک عمل،اچھی وصیت کا موقعہ نہیں ملتا مگر یہ کافر کے لیے ہے،مؤمن کے لیے یہ بھی نعمت ہے کیونکہ مؤمن کسی وقت رب سے غافل رہتا ہی نہیں، حضرت سلیمان ویعقوب علیہما السلام کی وفات اچانک ہی ہوئی،حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ
اچانک موت مؤمن کے لیئے راحت ہے اور کافر کے لیئے پکڑ۔
(لمعات ومرقات) 
مؤمن اس موت میں بیماریوں کی مصیبت سے بچ جاتا ہے۔
(المرأة المناجيح ج ٢ص ٨٣٥)
اسی طرح ایک حدیث میں ہے 
کہ عبدالرحمن ابن ابوبکر سوتے میں وفات پاگئے ان کی بہن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انکی طرف سے بہت غلام آزاد کیے(مالک)
آپ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سگے بھائی تھے حضرت ام رومان کے شکم شریف سے، اچانک وفات پائی،کوئی وصیت وغیرہ نہ کرسکے اس لیے آپ نے علاوہ اور صدقات کے ان کی طرف سے بہت سے غلام بھی آزاد فرمائے۔ معلوم ہوا کہ اچانک موت غافل کے لیے اﷲ کی پکڑ ہے کہ اسے توبہ کا وقت نہیں ملتا،عاقل و نیک کار کے لیے اﷲ کی رحمت کہ رب اسے بیماری کی تکالیف سے بچالیتا ہے،حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات اچانک ہی ہوئی بحالت نماز جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔
اسے طرح مرآة میں ہے (المرأة المناجيح ج ٥ص ٣١٨)
زید نے جو حدیث کی تشریح کی ہے درست نہیں ہے بلکہ گدہے کی موت سے مراد بوقت نزع شدت تکلیف ہے اور اسی تکلیف کا ذکر کرتے ہوئے آقا علیہ السلام بچنے کی التجاء فرما رہیں ہیں، چونکہ تکلیف دہ موت کفار کا خاصہ ہے جیسا کہ اگے کی متن حدیث سے معلوم ہو رہا ہے ۔۔و روح الكافر تخرج من اشداقه..
اچانک موت اگر مطلق بری مان لی جائے تو بہت سے صلحاء اولیاء صحابہ حتی انبیاء اس زد میں آئیں گے ۔۔جبکہ ایسا نہیں ہے ۔اس لئے زید اپنے قول سے رجوع کرے شرح الحدیث کی غلط بیانی کی وجہ سے ۔
یہ بات درست ہے کہ حالت مرض و مصیبت میں مرنے والے کے گناہ ختم ہوتے ہیں 
غافل انسان کی اچانک موت بہتر نہیں پر صالحین کی اچانک موت بہتر ہے کہ بوقت موت بہت سے تکالیف سے بچ گئے ۔
زید کے قول سے بالخصوص شہید کا انکار لازم نہیں آتا بلکہ ہر اچانک موت پانے والے اس زد میں آگئے ۔۔
جوکہ درست نہیں ہے ۔۔
جیسا کہ طبرانی فی الکبیر میں ہے 
وجبهته ترشح رشحاً وفيه يا عائشة إن نفس المؤمن تخرج بالرشح ونفس الكافر تخرج من شدقه كنفس الحمار 
رواه الطبراني في الكبير ومن طريقه أبو نعيم في الحلية من حديث ابن مسعود نفس المؤمن تخرج رشحاً وإن نفس الكافر سيل كما تسيل نفس الحمار ورواه في الأوسط بلفظ نفس المؤمن تخرج رشحاً ولا أحب موتاً كموت الحمار موت الفجأة وروح الكافر تخرج من أشداقه وفي رواية له قيل له وما موت الحمار قال روح الكافر تخرج من أشداقه وروى الترمذي وابن ماجة والحاكم وصححه والبيهقي في الشعب من حديث بريرة المؤمن يموت بعرق الجبين وتقدم حديث سلمان ارقبوا الميت عند موته ثلاثاً إن رشحت جبينه الحديث وروى البيهقي في الشعب من طريق علقمة بن قيس حدثني ابن مسعود عن النبي - صلّى الله عليه وسلم - قال موت المؤمن برشح الجبين قال عبد الله ولا أحب موتاً كموت الحمار وروى ابن أبي شيبة والبيهقي من هذا الوجه عن علقمة عن ابن مسعود من قوله إن نفس المؤمن تخرج رشحاً وإن نفس الكافر أوالفاجر تخرج من شدقه كما تخرج نفس الحمار.
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
١٩/١٢/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area