(سوال نمبر 2091)
حضرت علی کو مولا علی اور مشکل کشا کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
حضرت علی کو مولا علی اور مشکل کشا کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مولا علی مُشکِل کشا کہنا کیسا ہے؟
سائل:- محمد وسیم اکرم رضوی پھلودی راجستھان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
١/ حضرت علی کو مولا علی اور مشکل کشا کہنا جائز ہے
کچھ لوگ حضرت علی کو مولا علی کہنے سے کتراتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ مولا اللہ کی صفت ہے پھر بندوں کے لئے استعمال کرنا کیوں کر جائز ہوگا یہ نرا جہالت ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو صفت اللہ کے لئے مختص ہے وہ صفت بندوں کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے جیسے اللہ یہ اس کے لئے خاص ہے دیگر کسی مخلوق کے لئے اب استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔مولا یہ صفت عامہ ہے اور اس کے کئی معانی ہیں اس لئے حضرت علی کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ہر پڑھے لکھے عالم کو ہم مولانا کہتے ہیں اور یہ کہنا جائز ہے ۔دلیل بعد میں آئے گی ۔
٢/اسی طرح مشکل کشا بھی کہنا جائز ہے بلکہ ہر بندہ خدا کو مشکل کشا بننا چاہئے اس کا معنی ہے مشکل کو حل کرنے والا، مشکل کو کھولنے والا ہمیں جتنی استطاعت ہے دوسرے کے مشکل کو حل کریں جیسے حاکم یہ اللہ کی صفت ہے اور ہم دنیا میں لوگوں کے لئے بھی استعمال کر تے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے بس یہ فرق ہے کہ وہ بالذات ہے اور ہم بالعطا ہیں ۔
٣/حضرت علی کو یہ لقب پہلے کس نے دیا اور کیسے ملا بسیار تلاش کے بعد بھی میرے علم میں نہ آیا البتہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ مشکل سے مشکل مقدمات اور پیچیدہ معاملات میں فیصلہ فرماکر بہت آسانی سے حل فرمادیا کرتے تھے، اسی لیے حضرت رضی اللہ عنہ کو حلّال المعضلات کے لقب سے ملقب کیا جاتا تھا، جس کا ترجمہ بزبان فارسی مشکل کشا ہے، اس معنی کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابرین پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے، شرعاً یا عقلاً اس میں کچھ استبعاد یا مانع نہیں ہے،
نبر ١ کی دلائل جیسے عالم، علیم، حلیم، روف، رحیم، سمیع، بصیر، شہید، حاکم، حکم، شکور، مالک، ملک، مولی، ولی، نور، ھادی، ذارع وغیرہ وغیرہ یہ تمام اسماء حسنی قرآن پاک میں ذات باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ اس حقیقت میں کسی کو شک نہیں ہے
اور یہی اسما بندوں کے لیے بھی قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں مثلاً
الْعَالِمُوْنَ۔ (العنکبوت، 29 : 43)
سائل:- محمد وسیم اکرم رضوی پھلودی راجستھان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
١/ حضرت علی کو مولا علی اور مشکل کشا کہنا جائز ہے
کچھ لوگ حضرت علی کو مولا علی کہنے سے کتراتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ مولا اللہ کی صفت ہے پھر بندوں کے لئے استعمال کرنا کیوں کر جائز ہوگا یہ نرا جہالت ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو صفت اللہ کے لئے مختص ہے وہ صفت بندوں کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے جیسے اللہ یہ اس کے لئے خاص ہے دیگر کسی مخلوق کے لئے اب استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔مولا یہ صفت عامہ ہے اور اس کے کئی معانی ہیں اس لئے حضرت علی کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ہر پڑھے لکھے عالم کو ہم مولانا کہتے ہیں اور یہ کہنا جائز ہے ۔دلیل بعد میں آئے گی ۔
٢/اسی طرح مشکل کشا بھی کہنا جائز ہے بلکہ ہر بندہ خدا کو مشکل کشا بننا چاہئے اس کا معنی ہے مشکل کو حل کرنے والا، مشکل کو کھولنے والا ہمیں جتنی استطاعت ہے دوسرے کے مشکل کو حل کریں جیسے حاکم یہ اللہ کی صفت ہے اور ہم دنیا میں لوگوں کے لئے بھی استعمال کر تے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے بس یہ فرق ہے کہ وہ بالذات ہے اور ہم بالعطا ہیں ۔
٣/حضرت علی کو یہ لقب پہلے کس نے دیا اور کیسے ملا بسیار تلاش کے بعد بھی میرے علم میں نہ آیا البتہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ مشکل سے مشکل مقدمات اور پیچیدہ معاملات میں فیصلہ فرماکر بہت آسانی سے حل فرمادیا کرتے تھے، اسی لیے حضرت رضی اللہ عنہ کو حلّال المعضلات کے لقب سے ملقب کیا جاتا تھا، جس کا ترجمہ بزبان فارسی مشکل کشا ہے، اس معنی کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابرین پر اس لفظ کا اطلاق درست ہے، شرعاً یا عقلاً اس میں کچھ استبعاد یا مانع نہیں ہے،
نبر ١ کی دلائل جیسے عالم، علیم، حلیم، روف، رحیم، سمیع، بصیر، شہید، حاکم، حکم، شکور، مالک، ملک، مولی، ولی، نور، ھادی، ذارع وغیرہ وغیرہ یہ تمام اسماء حسنی قرآن پاک میں ذات باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ اس حقیقت میں کسی کو شک نہیں ہے
اور یہی اسما بندوں کے لیے بھی قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں مثلاً
الْعَالِمُوْنَ۔ (العنکبوت، 29 : 43)
’علم والے بندے‘‘
آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا۔ (يوسف 12 : 22)
’’ہم نے اسے حکمِ (نبوت) اور علم (تعبیر)عطا فرمایا‘‘
قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّـکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی۔ (طه 20 : 68)
’’ہم نے (موسیٰ علیہ السلام سے) فرمایا : خوف مت کرو بے شک تم ہی غالب رہوگے۔‘‘
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۔ (النحل، 16 : 90)
’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو
اللہ تعالیٰ حاکم ہے حاکموں کا حاکم ہے مگر اس نے اپنے بندوں کو بھی حکومت دی ہے وہ بھی حاکم ہیں
بس یہ یاد رہے کہ وہ بالذات حاکم ہے اور بندہ اسکی عطا سے حاکم ہے
مولا کسے کہتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا
فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ
(التحريم 66 : 4)
’’سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔‘‘
اس ایت میں چار مولا ہیں
١/ اللہ تعالیٰ
٢/ جبریل علیہ السلام
٣/ نیک مسلمان
٤/ تمام فرشتے
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے
مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللّهِ. قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اﷲِ
اس نے کہا: اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں،(آل عمران، 3 : 52)
اسی طرح النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔
رب (پرورش کرنیوالا)
مالک۔ سردار
انعام کرنیوالا
آزاد کرنیوالا
مدد گار
محبت کرنیوالا
تابع (پیروی کرنے والا)
پڑوسی
ابن العم (چچا زاد)
حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا )
عقید (معاہدہ کرنے والا )
صھر (داماد، سسر )
غلام
آزاد شدہ غلام
جس پر انعام ہوا
جو کسی چیز کا مختار ہو۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے۔
جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ۔(ابن اثير، النهايه، 5 : 228)
نمبر ٢کے دلائل
مشکل کشا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی نہیں ہر مسلمان کو مشکل کشا ہونا فرض ہے تاکہ بوقت ضرورت وہ مظلوم، مجبور، مسکین، مسافر، بیوہ، یتیم، فقیر کی حسب توفیق مشکل حل کرسکے کیا بھوکے پیاسے کو کھانا پانی نہ دو گے اور اسے بھوک و پیاس سے یہ کہہ کے مار و گے کہ کھلانے پلانے والا وہی رزاق ہے اسی سے مانگو۔
هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِo(الشعراء، 26 : 79)
’جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘
کیا مریض کی عیادت نہ کرو گے۔ ہسپتال نہ پہنچاؤگے دوا لے کر نہ دو گے یہ کہہ کر کہ
وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ۔ (الشعراء، 26 : 80)
’’جب بیمار پڑتا ہوں وہی شفا دیتا ہے۔‘‘
مومن حاجت روا مشکل کشا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
من قضی لأحد من أمتي حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر اﷲ ومن سر اﷲ أدخله اﷲ الجنه
(ديلمی، مسند الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 546، رقم : 5702)
’جو میرے کسی امتی کو خوش کرنے کے لیے اس کی حاجت پوری کرے اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
’’من أغاث ملهوفا کتب اﷲ له ثلاثا و سبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمة‘‘(بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670)
’’جس نے کسی بیچارے مظلوم کی فریاد رسی کی اللہ پاک اس کے لیے تہتر بخششیں لکھتا ہے جن میں ایک کے سبب اس کے تمام معاملات سدھر جاتے ہیں اور بہتر درجے اس کو قیامت کے دن ملیں گے۔‘‘
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
’’من نفس عن مؤمن کربة من کرب الدنيا نفس اﷲ عنه کربة من کرب يوم القيمة ومن يسر علی معسر يسر اﷲ عليه فی الدنيا والآخرة ومن ستر مسلما ستره اﷲ فی الدنيا والآخرة واﷲ فی عون العبد ما کان العبد في عون أخيه و من سلک طريقا يلتمس فيه علما سهل اﷲ له به طريقا إلی الجنة وما اجتمع قوم في بيت من بيوت اﷲ يتلون کتاب اﷲ ويتدا رسونه بينهم إلا نزلت عليهم السکينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملآئکة و ذکر هم اﷲ فيمن عنده ومن بطأ به عمله لم يسرع به نسبه.‘‘(مسلم، الصحيح، 4 : 2074، رقم : 2699)
’’جس نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی مشکل حل فرمائے گا اور جس نے تنگ دست پر آسانی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائے گا اور اللہ پاک اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے اور جو علم حاصل کرنے کے رستے پر چل نکلتا ہے اللہ پاک اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے اور جب بھی کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے پڑھانے کے لیے جمع ہوتی ہے ان پر سکینہ (سکون و راحت) نازل ہوتی ہے رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے فرشتے اس پر چھا جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حضور حاضر فرشتوں کی مجلس میں ان بندوں کا فخریہ انداز میں ذکر فرماتا ہے اور جس کو عمل نے بلند تر مقام و مرتبہ پر پہنچنے میں ڈھیلا و موخر رکھا اسے نام و نسب جلد نہیں پہنچا سکتا۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
’’من ولا ه اﷲ شيأ من أمر المسلمين فاحتجب دون حاجتهم وخلتهم وفقرهم احتجب اﷲ دون حاجته و خلته و فقره فجعل معاوية رجلا علی حوائج الناس‘‘(ابوداؤد، السنن، 3 : 135، رقم : 2948)
’’اللہ تعالیٰ نے جس آدمی کو مسلمانوں کے کسی عمل کا ولی (ذمہ دار، عہدیدار) بنایا اور اس نے ان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادئیے (اور حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دیا) اللہ پاک اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادے گا (اس کی مدد نہیں فرمائے گا) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی حاجت روائی کے لیے ایک شخص مقر ر فرمایا تھا۔‘‘
مزید فرماتے ہیں
’’من ولي من امر الناس شيا ثم اغلق بابه دون المسکين اوالمظلوم أوذی الحاجة اغلق اﷲ دونه أبواب رحمته عند حاجته و فقره أفقر ما يکون إليها‘‘
(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 441، رقم : 15689)
’’جو لوگوں کے کسی درجہ کے معاملات کا حاکم بنایا گیا پھر اپنا دروازہ مسلمانوں کے آگے یا مظلوم یا حاجت مند کے آگے بند رکھا اللہ تعالیٰ اس کے سامنے اس کی حاجت اور طویل محتاجی کے وقت (قیامت کو) اپنی رحمت کے دروازے بند کردے گا۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عامل بناتے وقت عامل (حاکم) پر شرط رکھتے کہ
ولا تغلقوا أبوابکم دون حوائج الناس فإن فعلتم شيئا من ذلک فقد حلت بکم العقوبة ثم يشيعهم۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 24، رقم : 7394)
’’لوگوں کی حاجت برداری کے آگے اپنے دروازے بند نہ کرنا اگر تم نے ان میں سے کوئی کام کیا تو سزا پاؤ گے پھر ان کے ہمراہ چل کر انہیں رخصت فرماتے۔‘‘
حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اکثر صفاتی نام در حقیقت اس کی صفات ہیں جو اس کی ذاتی مستقل اور دائمی ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں۔ حادث نہیں۔ عارضی نہیں وقتی نہیں مگر وہ ذات با برکات کریم ہے جواد ہے، سخی ہے، عطا کرنے والی ہے اسی نے اپنے بندوں کو سننے دیکھنے، کرم، سخاوت، عطا، علم، قدرت اور حسن وغیرہ صفات عالیہ کا صدقہ عطا فرمایا ہے لہذا بندے صاحبان قدرت، صاحبان سمع و بصر، صاحبان کرم و سخاوت، عالم، حلیم، حکیم، علیم، رؤف، (شفیق) ہیں مگر سب کچھ اس کی عطاسے ہے مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ نیک بندوں کے لئے مولا اور مشکل کشا کہنا جائز ہے۔جب دیگر کے لئے جائزہے تو حضرت علی باب علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان کے لئے بدرجہ اتم و اولی جائز ہے ۔
دلائل اور بھی ہے بس اسی پر بس کرتا ہوں ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا۔ (يوسف 12 : 22)
’’ہم نے اسے حکمِ (نبوت) اور علم (تعبیر)عطا فرمایا‘‘
قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّـکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی۔ (طه 20 : 68)
’’ہم نے (موسیٰ علیہ السلام سے) فرمایا : خوف مت کرو بے شک تم ہی غالب رہوگے۔‘‘
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۔ (النحل، 16 : 90)
’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو
اللہ تعالیٰ حاکم ہے حاکموں کا حاکم ہے مگر اس نے اپنے بندوں کو بھی حکومت دی ہے وہ بھی حاکم ہیں
بس یہ یاد رہے کہ وہ بالذات حاکم ہے اور بندہ اسکی عطا سے حاکم ہے
مولا کسے کہتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا
فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ
(التحريم 66 : 4)
’’سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔‘‘
اس ایت میں چار مولا ہیں
١/ اللہ تعالیٰ
٢/ جبریل علیہ السلام
٣/ نیک مسلمان
٤/ تمام فرشتے
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے
مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللّهِ. قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اﷲِ
اس نے کہا: اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں،(آل عمران، 3 : 52)
اسی طرح النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔
رب (پرورش کرنیوالا)
مالک۔ سردار
انعام کرنیوالا
آزاد کرنیوالا
مدد گار
محبت کرنیوالا
تابع (پیروی کرنے والا)
پڑوسی
ابن العم (چچا زاد)
حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا )
عقید (معاہدہ کرنے والا )
صھر (داماد، سسر )
غلام
آزاد شدہ غلام
جس پر انعام ہوا
جو کسی چیز کا مختار ہو۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے۔
جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ۔(ابن اثير، النهايه، 5 : 228)
نمبر ٢کے دلائل
مشکل کشا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی نہیں ہر مسلمان کو مشکل کشا ہونا فرض ہے تاکہ بوقت ضرورت وہ مظلوم، مجبور، مسکین، مسافر، بیوہ، یتیم، فقیر کی حسب توفیق مشکل حل کرسکے کیا بھوکے پیاسے کو کھانا پانی نہ دو گے اور اسے بھوک و پیاس سے یہ کہہ کے مار و گے کہ کھلانے پلانے والا وہی رزاق ہے اسی سے مانگو۔
هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِo(الشعراء، 26 : 79)
’جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘‘
کیا مریض کی عیادت نہ کرو گے۔ ہسپتال نہ پہنچاؤگے دوا لے کر نہ دو گے یہ کہہ کر کہ
وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ۔ (الشعراء، 26 : 80)
’’جب بیمار پڑتا ہوں وہی شفا دیتا ہے۔‘‘
مومن حاجت روا مشکل کشا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
من قضی لأحد من أمتي حاجة يريد أن يسره بها فقد سرني ومن سرني فقد سر اﷲ ومن سر اﷲ أدخله اﷲ الجنه
(ديلمی، مسند الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 546، رقم : 5702)
’جو میرے کسی امتی کو خوش کرنے کے لیے اس کی حاجت پوری کرے اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا ‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
’’من أغاث ملهوفا کتب اﷲ له ثلاثا و سبعين مغفرة واحدة فيها صلاح أمره کله وثنتان وسبعون له درجات يوم القيمة‘‘(بيهقی، شعب الايمان، 6 : 120، رقم : 7670)
’’جس نے کسی بیچارے مظلوم کی فریاد رسی کی اللہ پاک اس کے لیے تہتر بخششیں لکھتا ہے جن میں ایک کے سبب اس کے تمام معاملات سدھر جاتے ہیں اور بہتر درجے اس کو قیامت کے دن ملیں گے۔‘‘
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
’’من نفس عن مؤمن کربة من کرب الدنيا نفس اﷲ عنه کربة من کرب يوم القيمة ومن يسر علی معسر يسر اﷲ عليه فی الدنيا والآخرة ومن ستر مسلما ستره اﷲ فی الدنيا والآخرة واﷲ فی عون العبد ما کان العبد في عون أخيه و من سلک طريقا يلتمس فيه علما سهل اﷲ له به طريقا إلی الجنة وما اجتمع قوم في بيت من بيوت اﷲ يتلون کتاب اﷲ ويتدا رسونه بينهم إلا نزلت عليهم السکينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملآئکة و ذکر هم اﷲ فيمن عنده ومن بطأ به عمله لم يسرع به نسبه.‘‘(مسلم، الصحيح، 4 : 2074، رقم : 2699)
’’جس نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی مشکل حل فرمائے گا اور جس نے تنگ دست پر آسانی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائے گا اور اللہ پاک اس وقت تک بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے اور جو علم حاصل کرنے کے رستے پر چل نکلتا ہے اللہ پاک اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے اور جب بھی کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے پڑھانے کے لیے جمع ہوتی ہے ان پر سکینہ (سکون و راحت) نازل ہوتی ہے رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے فرشتے اس پر چھا جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے حضور حاضر فرشتوں کی مجلس میں ان بندوں کا فخریہ انداز میں ذکر فرماتا ہے اور جس کو عمل نے بلند تر مقام و مرتبہ پر پہنچنے میں ڈھیلا و موخر رکھا اسے نام و نسب جلد نہیں پہنچا سکتا۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
’’من ولا ه اﷲ شيأ من أمر المسلمين فاحتجب دون حاجتهم وخلتهم وفقرهم احتجب اﷲ دون حاجته و خلته و فقره فجعل معاوية رجلا علی حوائج الناس‘‘(ابوداؤد، السنن، 3 : 135، رقم : 2948)
’’اللہ تعالیٰ نے جس آدمی کو مسلمانوں کے کسی عمل کا ولی (ذمہ دار، عہدیدار) بنایا اور اس نے ان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادئیے (اور حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دیا) اللہ پاک اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے آگے پردے لٹکادے گا (اس کی مدد نہیں فرمائے گا) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی حاجت روائی کے لیے ایک شخص مقر ر فرمایا تھا۔‘‘
مزید فرماتے ہیں
’’من ولي من امر الناس شيا ثم اغلق بابه دون المسکين اوالمظلوم أوذی الحاجة اغلق اﷲ دونه أبواب رحمته عند حاجته و فقره أفقر ما يکون إليها‘‘
(احمد بن حنبل، المسند، 3 : 441، رقم : 15689)
’’جو لوگوں کے کسی درجہ کے معاملات کا حاکم بنایا گیا پھر اپنا دروازہ مسلمانوں کے آگے یا مظلوم یا حاجت مند کے آگے بند رکھا اللہ تعالیٰ اس کے سامنے اس کی حاجت اور طویل محتاجی کے وقت (قیامت کو) اپنی رحمت کے دروازے بند کردے گا۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عامل بناتے وقت عامل (حاکم) پر شرط رکھتے کہ
ولا تغلقوا أبوابکم دون حوائج الناس فإن فعلتم شيئا من ذلک فقد حلت بکم العقوبة ثم يشيعهم۔ (بيهقی، شعب الايمان، 6 : 24، رقم : 7394)
’’لوگوں کی حاجت برداری کے آگے اپنے دروازے بند نہ کرنا اگر تم نے ان میں سے کوئی کام کیا تو سزا پاؤ گے پھر ان کے ہمراہ چل کر انہیں رخصت فرماتے۔‘‘
حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اکثر صفاتی نام در حقیقت اس کی صفات ہیں جو اس کی ذاتی مستقل اور دائمی ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں۔ حادث نہیں۔ عارضی نہیں وقتی نہیں مگر وہ ذات با برکات کریم ہے جواد ہے، سخی ہے، عطا کرنے والی ہے اسی نے اپنے بندوں کو سننے دیکھنے، کرم، سخاوت، عطا، علم، قدرت اور حسن وغیرہ صفات عالیہ کا صدقہ عطا فرمایا ہے لہذا بندے صاحبان قدرت، صاحبان سمع و بصر، صاحبان کرم و سخاوت، عالم، حلیم، حکیم، علیم، رؤف، (شفیق) ہیں مگر سب کچھ اس کی عطاسے ہے مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ نیک بندوں کے لئے مولا اور مشکل کشا کہنا جائز ہے۔جب دیگر کے لئے جائزہے تو حضرت علی باب علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان کے لئے بدرجہ اتم و اولی جائز ہے ۔
دلائل اور بھی ہے بس اسی پر بس کرتا ہوں ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
18/3/2022
18/3/2022