Type Here to Get Search Results !

غیر اللہ مدد مانگنے کی شرعی حیثیت


غیر اللہ مدد مانگنے کی شرعی حیثیت
________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمة الله تعالیٰ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید یہ کہتا ہے کہ انبیاء کرام و اولیاء عظام سے مدد مانگا تو جائز ہے مگر کیا ہمارے نبی صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ تم لوگ مجھ سے مدد مانگو ؟ یا غوث پاک رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہوکہ تم لوگ مجھ سے مدد مانگو ؟
سائل:- محمد تہذیب عالم کندھے لا پوسٹ سودھانی ضلع کٹیہار بہار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب:-
 انبیائے کرام علیھم الصلاۃ و السلام اور اولیائے عظام علیھم الرحمہ سے مدد طلب کرنا بلاشبہ جائز ہے، اور یہ ایک مستحسن کام ہے بشرطیکہ عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی مددگار تو فقط اللہ عزوجل کی ذات ہے اور انبیاء ،اولیاء و صالحین وغیرہم اللّٰہ کی عطا اور اس کی دی ہوئی طاقت وقوت سے امداد فرماتے ہیں اور یہی سمجھ کر جان کر مسلمان مدد طلب کرتے ہیں کوئی بھی انہیں خدا سمجھ کر نہیں پکارتا کما ظہر لی 
 اس کے اثبات پر قرآن وحدیث میں بہت سے دلائل موجود ہیں چند بطور ثبوت پیش کئے جاتے ہیں 
 اللہ ارشاد فرماتا ہے :
"فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَذٰلِكَ ظَهِيْرُُ"
ترجمہ : _تو بے شک اللہ ان کا (یعنی اپنے نبی کا) مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔ (پارہ 28، سورہ تحریم : 4)
ایک جگہ فرمایا :
"اِنَّمَاوَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُہ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا "
ترجمہ : _(اے مسلمانو) تمہارا مددگار نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے۔
(پارہ 6، سورہ مائدہ : 55)
فائدہ:- 
 ان دونوں آیتوں میں اللہ عزوجل نے واضح طور فرمایا کہ مددگار اللہ بھی ہے اور اس کے پیارے رسول علیہ السلام بھی ہیں ,نیک اور ایمان والے بندے اور فرشتے بھی مدد پہنچا سکتے ہیں۔
 ایک اور جگہ ارشاد فرمایا 
"قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰهِ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰهِ" 
ترجمہ : (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) بولے کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف
دیکھیں اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ نبینا علیہ السلام کا اپنے حواریوں سے مدد طلب کرنا ثابت ہے
حدیث نبوی شریف میں ہے : حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے, آپ فرماتے ہیں :
"قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ وسلم) سَلْ فَقُلْتُ اَسْئَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ فَقَالَ اَوْ غَیْرَ ذٰلِکَ فَقُلْتُ ھُوَ ذَاکَ، قَالَ فَاَعِنِّیْ عَلیٰ نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْد "
یعنی (ایک مرتبہ ) مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
 مانگ کیا مانگتا ہے پس میں نے عرض کی یارسول اللہ
"میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں اپنی رفاقت (اپنا پڑوس) عطا فرمائیں۔" پھر فرمایا : کچھ اور (مانگ) !
تو میں نے عرض کی "صرف یہی (چاہیے )"
آپ علیہ السلام نےفرمایا :
"توکثرتِ سجود کے ساتھ اپنے نفس کے خلاف میری مدد کر۔"
(صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، باب فضل السجود، ج: 1، ص: 193، سننِ ابی داؤد، ج:1 ، المعجم الکبیر، ج: 5)
حدیثِ مبارکہ کی تشریح :
اس حدیثِ مبارکہ سے یہ بات اَظْہَرُ مِنَ الشَّمْسِ وَاَبْیَنُ مِنَ الْاَمْس ہوگئی کہ غیراللہ (انبیاء و اولیاء) سے مدد مانگنا بالکل جائز ہے اور شرک ہرگز نہیں، اگر غیراللہ سے مدد مانگنا شرک ہوتا تو کبھی بھی حضور علیہ السلام حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ سے اپنے بارے میں یہ نہ فرماتے کہ مجھ سے مانگو اور نہ حضرت ربیعہ جنت میں پڑوس (رفاقت) مانگتے۔ 
اس حدیثِ مبارکہ کے تحت چند معتبر علماءکی تشریحات ملاحظہ کریں چنانچہ :
شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: 
"از اطلاق سوال کہ فرمودش بخواہ تخصیص نکرد بمطلوبے خاص معلوم میشود کہ کار ھمہ بدست ھمت و کرامت اوست صلی اللہ علیہ وسلم ھرچہ خواھد وکراخواھد باذن پروردگار خود دھد"
یعنی مطلق سوال سے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا : مانگ، اور کسی خاص شئی کو مانگنے کی تخصیص نہیں فرمائی، معلوم ہوتا ہے کہ تمام معاملہ آپ کے دستِ اقدس میں ہے، جو چاہیں جسے چاہیں جب چاہیں اللہ عزوجل کی اجازت سے عطا فرمائیں۔
(اشعۃاللمعات، ج:1، ص: 396، مکتبہ نوریہ رضویہ)
امامِ اہلسنت، مجددِ دین و ملت، الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"الحمدللہ یہ جلیل و نفیس حدیث صحیح اپنے ہر ہر جملے سے وہابیت کش ہے، حضور اقدس خلیفۃ اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلقاً بلاقید و بلاتخصیص ارشاد فرمانا : سَلْ؛ مانگ کیا مانگتا ہے، جانِ وہابیت پر کیسا پہاڑ ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام ہر قسم کی حاجت روائی فرما سکتے ہیں، دنیا و آخرت کی سب مرادیں حضور علیہ السلام کے اختیار میں ہیں جب بلاتقیید ارشاد ہوا :
مانگ کیا مانگتا ہے یعنی جو جی میں آئے مانگو کہ ہماری سرکار میں سب کچھ ہے،
گر خیریت دنیا و عقبیٰ آرزو داری
بدرگاھش بیا و ھرچہ میخواھی تمناکن
( اگر تو دنیا و آخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کی بارگاہ میں آ اور جو چاہتا ہے مانگ لے.) 
یہ شعر حضرت شیخ محقق علیہ الرحمہ کا ہےکہ قصیدہ نعتیہ حضور پرنور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا ہے. 
پھر اس حدیثِ جلیل میں سب سے بڑھ کر جانِ وہابیت پر یہ کیسی آفت کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پرحضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ خود حضور سے جنت مانگتے ہیں کہا :
"اسئلک مرافقتک فی الجنۃ "
میں حضور سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں رفاقتِ والا عطا ہو.
وہابی صاحبو؛ یہ کیسا کھلا شرکِ وہابیت ہے جسے حضور مالکِ جنت علیہ افضل الصلوۃ و التحیۃ قبول فرما رہے ہیں. 
(ملخصاً فتاتوی رضویہ، ج: 30، ص:494، 995، 996، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے 
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 
"اُطْلُبُوْا الْخَیْرَ وَالْحَوَائِجَ مِنْ حِسَانِ الْوُجُوْہ "
یعنی تم بھلائی اور حاجتیں ان لوگوں سے مانگو جن کے چہرے (اللہ کی عبادت سے ) روشن ہیں۔(المعجم الکبیر، ج:11، ص: 81، مکتبہ القاہرہ)
اس حدیثِ مبارکہ میں خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روشن چہرے والوں سے بھلائی اور حاجتیں مانگنے کا حکم دیا، اگر غیراللہ سے مدد اور حاجتیں مانگنا شرک و بدعت ہو تو معاذاللہ حضور علیہ السلام پر الزام آئے گا کہ آپ علیہ السلام نے اپنے امتیوں کو شرک کی تعلیم دی ہے حالانکہ آپ علیہ السلام اس سے معصوم ہیں.
"الحصن الحصین من کلام سید المرسلین" میں ہے :
و ان اراد عونا فلیقل یا عباد اللہ اعینونی یا عباد اللہ اعینونی یا عباد اللہ اعینونی "ترجمہ : جب مدد لینا چاہے تو کہے کہ اللہ کے بندو میری مدد کرو الخ۔(صفحہ نمبر:۲۰۲)
اس کی شرح "الحرز الثمین "میں ملا علی قاری فرماتے ہیں : 
اذا انفلتت دابّۃ احدکم بارض فلاۃ فلیناد یا عباد اللہ احبسوا"
 یعنی جنگل میں کسی کا جانور بھاگ جاۓ تو آواز دے اے اللہ کے بندو اسے روک دو ۔اور عباد اللہ کے ماتحت فرماتے ہیں :
المراد بھم الملٰئکۃ او المسلمون من الجن او رجال الغیب المسمون بابدال "
 یعنی بندوں سے یا تو فرشتے یا مسلمان یا جن یا رجال الغیب یعنی ابدال مراد ہیں ۔پھر فرماتے ہیں : ه‍ذا حدیث حسن یحتاج الیہ المسافرون و انّہ مجرّب " یہ حدیث حسن ہے مسافروں کو اس حدیث کی سخت ضرورت ہے اور یہ آزمودہ ہے ۔
 لِہذا ثابت ہوا کہ انبیاء و اولیاء سے مدد مانگنا قرآن و حدیث کے عین موافق ہے ہرگز شرک وبدعت نہیں جو اس عقیدے کو مانتے ہیں وہی برحق ہیں اور وہی حقیقی اہلسنت ہیں 
تفصیل کے لیے جاء الحق و زھق الباطل مصنفہ مفتی احمد یار خاں نعیمی رضی اللہ عنہ کا مطالعہ کریں آپ نے باضابطہ ایک باب ہی ندائے غیر اللّٰہ کے ثبوت پر قائم کیا ہے اور دلائل عقلیہ نقلیہ سے مبرھن فرمایا ہے 
اب رہی بات حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے کہیں استغاثہ کا حکم دیا ہے کہ نہیں تو آپ کی سیرت مبارکہ پر نظر عمیق رکھنے والے کے لئے مخفی نہیں کہ بہت سارے ایسے واقعات ولمحات ہیں جن میں آپ کے قول وفعل سے استغاثہ واستعانت کا پتہ چلتا ہے۔
چنانچہ :"نزه‍ۃ الخاطر" میں
 علامہ ملا علی قاری نے حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل فرمایا : 
من استغاث بی فی کربۃ کُشفت عنہ ومن نادانی باسمی فی شدّۃ فُرجت عنہ ومن توسل بی الی اللہ فی حاجۃ قُضیت"
 ترجمہ : جو کوئی رنج وغم میں مجھ سے مدد مانگے تو اس کا رنج وغم دور ہوگا اور جو سختی کے وقت میرا نام لے کر مجھے پکارے تو وہ شدت دفع ہوگی اور جو کسی حاجت میں رب کی طرف مجھے وسیلہ بناۓ تو اس کی حاجت پوری ہوگی ۔( نزه‍ۃ الخاطر ص:٦١)
واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلی اعلم
________(❤️)_________
کتبہ: محمد رضی احمد منظری 
_🔹🔶🔹____

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area