Type Here to Get Search Results !

کیا کوئی مسلم غریب اپنی غربت کی وجہ سے بھیک مانگ سکتا ہے؟

 (سوال نمبر 232)
کیا کوئی مسلم غریب اپنی غربت کی وجہ سے بھیک مانگ سکتا ہے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
علماء کرام کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہے کہ کیا بھیک مانگنا اور دینا اسلام میں دونوں حرام ہیں؟اور اگر کوئی غریب مانگنے آتا ہے اللہ کے نام پر مانگتا ہے تو کیا نہیں دینا چاہیئے ؟اور یہ بھی عرض ہے کہ کیا کوئی غریب اپنی غربت کی وجہ سے بھیک مانگ سکتاہے یا نہیں؟ لہٰذا علماء کرام سے گزارش ہے کی مکمل وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں فقط والسلام 
سائل:- محمد نورالدین قادری یوپی ضلع بہرائچ شریف 
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
مسلئہ مسئولہ میں بھیک مانگنا اور دینا دونوں اسلام میں مطلق حرام نہیں ہے بلکہ بوقت ضرورت دینا اور لینا دونوں جائز ہے۔ البتہ غنی اور قوی و تندرست کو مانگنا حرام ہے 
اگر کوئی شخص حقیقت میں اتنا غریب ہے کہ اس کے پاس ایک وقت کا بھی کھانے پینے کو نہیں اور وہ تندرست بھی نہیں اور آپ کو معلوم بھی ہے تو اسے دینا جائز ہے، بلکہ دینا چاہئے۔
کسی بھی شخص کو اپنی غربت کی وجہ سے اس وقت تک سوال کرنا جائز نہیں ہے جب تک اس کے پاس ایک دن کا کھانے پینے کا سامان موجود ہو۔ 
 بھیک مانگنا بہت ذلّت کی بات ہے بغیر ضرورت سوال نہ کرے اور حالت ضرورت میں  بھی اُن امور کا لحاظ رکھے، جن سے ممانعت وارد ہے اور سوال کی اگر حاجت ہی پڑ جائے تو مبالغہ ہرگز نہ کرے کہ بے لیے پیچھا نہ چھوڑے کہ اس کی بھی ممانعت آئی ہے۔
 آج کل ایک عام بلا یہ پھیلی ہوئی ہے کہ اچھے خاصے تندرست چاہیں تو کما کر اوروں کو کھلائیں ،مگر انہوں  نے اپنے وجود کو بیکار قرار دے رکھا ہے، کون محنت کرے مصیبت جھیلے،بے مشقت جو مل جائے تو تکلیف کیوں برداشت کرے، ناجائز طور پر سوال کرتے اور بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں اور بہتیرے ایسے ہیں کہ مزدوری تو مزدوری، چھوٹی موٹی تجارت کو ننگ و عار خیال کرتے اور بھیک مانگنا کہ حقیقۃً ایسوں کے لیے بے عزتی و بے غیرتی ہے مایۂ عزت جانتے ہیں اور بہتوں  نے تو بھیک مانگنا اپنا پیشہ ہی بنا رکھا ہے، گھر میں  ہزاروں روپے ہیں سود کا لین دین کرتے زراعت وغیرہ کرتے ہیں مگر بھیک مانگنا نہیں  چھوڑتے، اُن سے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشہ ہے واہ صاحب واہ! کیا ہم اپنا پیشہ چھوڑ دیں،حالانکہ ایسوں کو سوال حرام ہے اور جسے اُن کی حالت معلوم ہو، اُسے جائز نہیں،کہ ان کو دے۔
ایسے سائلوں  کے بارے میں میری نظر سے ٢٥ احادیث مبارکہ گزری ہے ان میں سے دو حدیث ملاحظہ کریں  
آقا علیہ السلام نے فرمایا،
جسے فاقہ پہنچا اور اُس نے لوگوں کے سامنے بیان کیا تو اُس کا فاقہ بند نہ کیا جائے گا اور اگر اس نے ﷲ تعالیٰ سے عرض کی تو ﷲ عزوجل جلد اُسے بے نیاز کر دے گا، خواہ جلد موت دے دے یا جلد مالدار کر دے۔
 اور طبرانی کی روایت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا،جو بھوکا یا محتاج ہوا اور اس نے آدمیوں سے چھپایا اور اﷲ تعالیٰ کے حضور عرض کی تو اﷲ تعالیٰ پر حق ہے کہ ایک سال کی حلال روزی اس پر کشادہ فرمائے۔ (بحوالہ بہار شریعت ح ٥ ص ٩٥١دعوت اسلامی)(سنن أبي داود،کتاب الزکاۃ، باب في الاستعفاف، الحدیث ۱۶۴۵،ج ۲،ص۱۷۰)(المعجم الصغیر للطبرانی الحدیث،۲۱۴ ،ج ۱ ، ص ۱۴۱)
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں 
قَوی، تندرست، قابلِ کسب جو بھیک مانگتے پھرتے ہیں ان کو دینا گناہ ہے کہ ان کا بھیک مانگنا حرام ہے اور ان کو دینے میں اس حرام پر مدد، اگر لوگ نہ دیں تو جَھک ماریں اور کوئی پیشہ حلال اختیار کریں۔ درِّمختار میں ہے: 
یہ حلال نہیں کہ آدمی کسی سے روزی وغیرہ کا سوال کرے جبکہ اس کے پاس ایک دن کی روزی موجود ہو یا اس میں اس کے کمانے کی طاقت موجود ہو، جیسے تندرست کمائی کرنے والا اور اسے دینے والا گنہگار ہوتا ہے اگر اس کے حال کو جانتا ہے کیونکہ اس نے حرام پر اس کی مدد کی۔ (در مختار مع ردالمحتار،ج 3،ص357)(بحوالہ فتاویٰ رضویہ،ج 23،ص464 دعوت اسلامی)
والله ورسوله أعلم بالصواب 
________(💚)________
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨ سرها نیپال ۔٥/١٢/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area