(سوال نمبر ١٢٨)
فناء مصر سے جڑے قریہ کی وضاحت
(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:
الأول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء،
(قوله وعليه فتوى أكثر الفقهاء إلخ) وقال أبو شجاع: هذا أحسن ما قيل فيه. وفي الولوالجية وهو صحيح بحر، وعليه مشى في الوقاية ومتن المختار وشرحه وقدمه في متن الدرر على القول الآخر وظاهره ترجيحه وأيده صدر الشريعة،
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 793/4257)
فیصل بورڈ میں مقتضاء حال کے مطابق ہمارے مذہب کو ترک کر تے ہوئے ائمہ ثلاثہ کے قول کو لینے کا جواز ثابت ہے اور فتوی دینے کی گنجائش رکھی ہے ۔اور عموم بلوی کو بھی پاس و لحاظ رکھا گیا ہے ،
جہاں تک بات ہے،اس دوسری تعریف کی حاجت کیوں ؟اور حدود کیا ہے ؟۔تو حاجت یہ ہے کہ ہمارے اکثر پالکائوں سے جڑے قریہ میں عوام و خواص ظہر با جماعت نہیں پڑھتے ۔پھر تو عوام و خواص عاصم ہوئے اور جماعت کرنے میں فتنہ و فساد کا خدشہ ہے، اور اس کی حد یہ ہے کہ مصر یا فناء مصر سے جڑنے قریہ ہوں اور اس میں تعداد کی حد متعین ہوں ۔نہ کہ پانچ دس گھر والے قریہ ۔۔۔
دوسری تعریف سے بھی آگر ہم وہی کچھ مراد لیں جو مصر میں پائے جاتے ہیں ۔پھر دوسری تعریف کی مفاد کیا ۔؟
۔۔اسی لئے میری ناقص رائے یہ ہے کہ روایت نادرہ امام ابو یوسف کےقول کو لے لیا جائے اس صورت میں ہم اپنے مذہب سے ہٹے بھی نہیں اور در مختار اور مرغیناني، الہدایۃ کی جزئیہ بھی موجود ہے، اب اس میں کم سے کم سو یا ڈیڑھ سو کی شرط لگا دی جائے، نئے جمعہ قائم کرنے کے لئے اگرچہ اس گائوں کے سب نہ پڑھتے ہوں ۔پر مذکورہ لوگ ہوں کہ اس پر جمعہ فرض ہوں ۔اور روایت نادرہ کی تعریف میں یہی قرینہ قیاس ہے،
باقی جو صورت قدیم جگہوں پر ہے وہ باقی رکھ سکتے ہیں ۔پر قدیم ظہر کی جماعت کو ترک کر نے کے لئے سو ڈھیر سو کی تخصیص ہونی چاہئے ۔اور رہا دیہات کا شہر سے جڑنے کی بات تو نیپال کے کوئی بھی دیہات شہر یعنی پالکائوں سے دس کلو میٹر کے اندر جڑے ہوتے ہیں ۔
اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
بعض کے نزدیک یہ صاحب وقایہ اور صدرالشریعۃ وغیرہ کا قول ہے اور شہر کی یہ تعریف ) کہ اگر اس کی بڑی مسجد میں اہل شہر جمع ہوں تو وہ ان کی گنجائش نہ رکھے، یہ امام ثلجی کا مختار ہے۔
(فتاوی رضویہ )
عن أبي حنیفة أنه بلدة کبیرة فیها سکک وأسواق ولها رساتیق وفیها وال یقدر علی انصاف المظلوم من الظالم بحکمه وعلمه أو علم غیره والناس یرجعون الیه في الحوادث وهو الأصح.
امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے: وہ بڑا شہر جس میں گلیاں بازار اور محلے ہوں اور جہاں ایسا حاکم ہو جو مظلوم کا ظالم سے انصاف کر سکے اپنے رعب، اپنے علم یا دوسروں کے علم سے لوگ اپنے گونا گوں مسائل میں اس کی طرف رجوع کرتے ہوں، یہ صحیح تر تعریف ہے۔
کاساني، بدائع الصنائع، 1: 260، دار الکتاب العربي بیروت
ابن نجیم، البحر الرائق، 2: 152، دار المعرفۃ بیروت
ابن عابدین شامي، رد المختار، 2: 137، دار الفکر للطباعۃ والنشر بیروت
سمرقندي، تحفۃ الفقہا، 1:162، دار الکتب العلمیۃ بیروت
المصر وهو ما لا یسع أکبر مساجده أهله المکلفین بها وعلیه فتوی أکثر الفقهاء.
’’مصر (شہر) سے مراد وہ بستی جس کی سب سے بڑی مسجد میں وہاں کے مکلف (عاقل بالغ مقیم مرد) نہ سما سکیں۔ اکثر فقہاء کا فتوی اسی پر ہے‘‘۔
حصفکي، الدر المختار، 2: 137، دار الفکر بیروت
عند أبي یوسف رحمه اﷲ وعنه أنهم اذا اجتمعوا في أکبر مساجد هم لم یسعهم.
’’امام ابو یوسف رحمہ اﷲ کے نزدیک جامع مصر وہ جگہ ہے کہ جب وہاں کے لوگ سب سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو سما نہ سکیں‘‘۔
مرغیناني، الہدایۃ، 1: 82، المکتبۃ الاسلامیۃ
لہٰذا ایسے گاؤں میں اگر عاقل بالغ مردوں کی تعداد اتنی ہے کہ وہ سب آجائیں تو بڑی مسجد میں نہیں سما سکیں گے خواہ وہ سب مسجد میں نہیں آتے تو پھر بھی ایسی جگہ جمعہ کی نماز اپنے گاؤں میں ہی ادا کر سکتے ہیں۔ کوشش کرنی چاہئےکم از کم سو سے ڈیڑھ سو افراد تو مسجد میں آئیں۔
نئے نماز جمعہ کو بڑے قریہ میں علاقے کے معتمد مفتی یا قاضی کے اذن کے بغیر جمعہ قائم نہیں کیا جا سکتا ہے ۔۔
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی مجیب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18نیپال
13 9/2020