(سوال نمبر ١٢٩)
ملك نيپال دار الإسلام،يا دار الكفر، يا دار الحرب، یا دار الأمن و عہد كیا ہے؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے کہ ملک نیپال دارالحرب یا دارالاسلام کس بنا پر نہیں ہے ؟ وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیں۔۔
سائل ۔ محمد مجاہد رضا جلیشور وارڈ نمبر 6 مہوتری نیپال۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين..
الجواب بعونہ تعالیٰ عز وجل
آقا علیہ السلام کے عہد مبارک میں تین قسم کے ملک تھے۔۱۔ مکہ مکرمہ جہاں ابتداء میں عبادات بجا لانا تو در کنار اسلام کا اظہار کرنا تکلیف دہ تھا۔ دارالکفر تھا۔ اس کے مقابل میں ملک حبشہ میں اسلام پر عمل کرنا منع نہیں تھا ۔ مسلمانوں کو وہاں جان و مال کا تحفظ اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی تھی، یہ مسلمانوں کیلئے دارالامن تھا لیکن یہ دونوں ملک غیر اسلامی تھے کیونکہ وہاں بحیثیت مجموعی اقتدار و غلبہ مسلمانوں کو حاصل نہیں تھا، اسلامی قوانین اور حدود نافذ نہیں کئے جاتے تھے۔ ان دونوں کے مقابل میں مدینہ منورہ تیسرا ملک تھا جہاں ابتداء مخلوط حکومت قائم ہوئی جس میں اہل کتاب، مشرک اور مسلمان شریک تھے اور ان سب کے سربراہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ بعد ازاں یہ ملک دارالاسلام میں تبدیل ہوگیا،
اب ہم اس بابت کچھ تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں،
کسی ملک کے بابت جب ہم مطالعہ کرتے ہیں، تو باعتبار نفاذ قوانین حکومت کی دو قسمیں ہمیں ملتا ہے ۔١،دارالاسلام ٢،دارالكفر
پھر اول کی دو قسمیں ہیں ١،حقيقي ٢،حكمی
١،دارالاسلام حقيقي جهاں دستوری طور پر اور قانونی طور پر اسلامی احکام نافذ ہوں، اور ملک کے حکام مسلمان ہوں ۔
امام الجوزی فرماتے ہیں
: دارالاسلام ہی التی نزلہا المسلمون وجرت علیہا احکام الاسلام. (احکام اہل الذمہ ج۲،ص ۷۲۸)
اور امام ابو یوسف رحمة الله عليه فرماتے ہیں: تعبر الدار دارالاسلام بظہور احکام الاسلام فیہا وان کان جل اہلھا من الکفار. (المبسوط:ج۱۰، ص ۱۴۴)
٢،دار الاسلام حکمی:
ایسا ملک جہاں مسلمانوں کو، اپنے بعض شعائر پر عمل کی اجازت ہو، مثلاً :نماز، اذان، جمعہ وغیرہ، اگرچہ وہاں عالمی وضعی (خود ساختہ یعنی انسان کے بنائے ہوئے نہ کہ اللہ کے نازل کردہ) قانون نافذ ہو، البتہ وہاں کے قائدین اور حکومتی کارندے مسلمان ہوں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک اسی حکم میں ہیں، کوئی ملک حقیقی دار الاسلام کا مصداق ومجاز نہیں ہے۔ اللہ تعالی خیر فرمائے ایسے مسلم ممالک پر ۔
کما فی الدر المختار
لو اجریت احکام المسلمین فی بلد واحکام اھل الشرک فلاتکون دار حرب ما دامت تحت سلطة ولاتنا. (شامی:ج۴،ص۱۷۵)
ان دارالفسق ہی دار الاسلام. ( نیل الاوطار:ج۸، ص ۲۷)
اب سوال یہ ہے، کہ جب اسلامی قوانین کا نفاذ، ان ممالک میں نہیں ہے، تو پھر ان ممالک کو دار الاسلام کیوں کہا جاتا ہے؟ تو اس کا یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ اس میں حرج لازم آتا ہے، کیوں کہ اگر باوجود کثرت و اغلبیت مسلمین کے، اس کو”دارالکفر“ کہا جائے، تو یہ خرابی لازم آئے گی،کہ دشمن آسانی سے اسلامی ممالک پر قابض ہو جائے گا، کیوں کہ”دارالکفر“ ہونے کی وجہ سے ،مسلمانوں کے لیے اگر کوئی باطل طاقت حملہ آور ہو، تو دفاع لازم نہ ہوگا، اور یوں ایک ایک کرکے، تمام اسلامی ریاستیں دشمنوں کے ہاتھ چلی جائے گی۔ ہاں البتہ اس کو ”دارالاسلام الفاسقہ“ کہا جائے، تو کوئی حرج نہیں،یا صرف ”دارالفسق“ کہا جائے،
لواعتبرنا ہذہ الدیار من دارالکفر او الحرب فہذا یعنی ان المسلمین علی کثرتہم سیغدون من غیر اوطان ولا دیار وفی ہذا تمکین لاعداء اللہ منا اضافة الی ا نہ لایجب علی المسلمین الدفاع عنہا فی حال الاعتداء علیہا من الکفار. (فقہ الاقلیات:ص۹۷)
اسی طرح دارالکفر کے بھی دو قسمیں ہیں:
١، حقیقی ۔٢، حکمی۔
١،دارالکفر حقیقی:
وہ ہے جہاں پر زمام حکومت غیرمسلموں کے ہاتھ میں ہو، اور وہاں کا دستورِ اساسی بھی انہیں کا ہو، اور مسلمانوں کو شعائر اسلام بجالانے کا قطعاً حق نہ ہو، بل کہ حکومت مسلمانوں کو ہلاک کرنے اور نقصان پہنچانے کے درپے ہو، مثلاً :رشیا جو ۱۹۹۲ء سے پہلے اسلام اور مسلمانوں کا کٹر دشمن رہا ، اور اس وقت اسر ائیل ۔
جیسا کہ تقسیم العالم میں ہے
دارالکفر حقیقةً : وھی التی قصدھا الفقہاء فی تعریفہم لدار الکفر وہی التی تظہر فیہا احکام الکفر و یحکمہا الکفار و انعدمت فیہا مظاہر الدین تمامًا بحیث لم یعد لہا وجود متمیز و لا یوجد فیہا مسلمون یوٴدون واجبا تہم الدینیة. (تقسیم العالم:ص۲۵)
٢،دارالکفر حکمی: وہ ہے جہاں حکومت تو غیرمسلموں کی ہو، دستور بھی ان کا ہو، مگر مسلمانوں کو اپنے شعائر کے بجا لانے کی اجازت ہو، مثلاً :بعض یوروپی ممالک، بعض ایشیائی ممالک ، جیسے ہمارے ملک نیپال بعض افریقی ممالک ، جہاں مذکورہ صورت حال ہو، اس کو دارالاسلام اور دارالعہد بھی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ بحر العلوم مفتی عبد المنان صاحب قبلہ نے ہمارے ملک نیپال کو ایک سوال کے جواب میں دارلاسلام قرار دیا ہے ۔(یعنی دار الکفر حکمی )(فتاوی بحر العلوم ج ٤ص ٤٥٧)
کما فی الشعراوی
والعلة فی الذھاب الی الحبثة ان ہناک ملکا لا یظلم عندہ احد و کان العدل فی ذاتہ و سامًا لذالک الملک و سماھا المسلمون دار امن و ان لم تکن دار ایمان. (تفسیر الشعراوی: ۴/۲۵۸)
دارکی ایک تقسیم وجود امن اور عدم امن کے اعتبار سے بھی ہے، جس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں، حالت جنگ اور حالت امن کے اعتبار سے بھی دو قسمیں ہیں:
١،دارالحرب:
جہاں حکومت مسلمانوں کے ساتھ برسرِپیکار ہو، ان کے مال ان کے املاک ، اور ان کی جان کو ختم کرنے یا نقصان پہنچانے کے درپے ہو، اور وہاں اسلامی دعوت کو ممنوع قرار دیا گیا ہو، اس کوملک کو ”دارالحرب“ کہا جائے گا، اور اس کو ”دارالکفر، دار الشرک، دار المخالفین“ بھی کہا جاسکتا ہے ۔
٢ ،دارالامن والعھد:
جہاں حکومت تو اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہو، مگر وہ مسلمانوں کے ساتھ امن کا معاہدہ کر چکی ہو، تو پھر اسے ”دارالامن یا دارالکفر الآمن یا دارالعہد یا دار الکفر المعہودة“ کہا جائیگا۔
بعض حضرات ”دار حیاد“ بھی ایک قسم قرار دیتے ہیں، ”دار حیاد“ اس ملک کو کہتے ہیں، جو مسلمانوں کے ساتھ مصالحت کرے، کہ نہ وہ ان سے قتال کریں گے ۔ نہ مسلمانوں کے خلاف کسی کا تعاون کریں گے۔ ابوزہرہ رضی اللہ عنہ اور وہبہ زحیلی نے یہ قسم الگ شمار کی ہے۔ (العلاقات الدولیة فی الاسلام: ص۸۴ ، آثار الحرب :ص۱۹۷)
یہاں ایک وضاحت کردینا مناسب ہوگا کہ دارالاسلام اور دارالکفر قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور نہیں، لہٰذا ”دار“ کی یہ تقسیم توقیفی نہیں، یعنی منصوص نہیں ہے، بل کہ مجتہد فیہ، لہٰذا اس میں اختلاف کی گنجائش ہے، جیسے فقہاء متقدمین تقسیم ثنائی کے قائل تھے، اور ان میں بھی امام شافعی رحمة الله عليه ثلاثی کے قائل تھے، یعنی ان کے یہاں دار کی تین قسمیں ہیں: ١، دارالاسلام ٢، دارالکفر، اور ٣،العہد یا دارالہدنة یا دارالصلح، جیسا کہ امام نووی رحمة الله عليه نے روضة الطالبین ج:۵، ص۴۳۲۔ پر ذکر کیا ہے، جیسے جیسے زمانہ کے احوال بدلتے گئے، اس کی تقسیم میں بھی اضافہ یا ردّ وبدل ہوتا گیا،
پس مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ ملک نیپال دارالاسلام حکمی بقول فتاوی بحر العلوم اور دارالکفر حکمی وہ تو ہیے ہی اور دار الامن بھی کہا جا سکتا ہے ۔۔
فقط والسلام
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال.
١١/٩/٢٠٢٠