Type Here to Get Search Results !

کیا قبرستان کی گھاس کو ختم کرنے کے لیے دوا ڈالنا جائز ہے ؟

 (سوال نمبر 193)
کیا قبرستان کی گھاس کو ختم کرنے کے لیے دوا ڈالنا جائز ہے ؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ قبرستان کی گھاس کو ختم کرنے کے لیے جو دوا ڈالی جاتی ہے کیا کسی صورت دوا ڈالنا جائز ہے جب کہ گھاس کاٹنے سے بھی ختم نہیں ہوتی ہے ؟؟؟ 
سائل:- رياض رضا رضوی مہاراشٹر انڈیا 
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته. 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
مسئولہ میں قبرستان کی خشک گھاس شرعا کاٹنے کی اجازت ہے اگر قبروں اور قبرستان میں گھاس ہے اور قبر کھودنے یا یا میت لے جانے میں اذیت ہو تو گھاس کاٹنے والی مشین یا کسی آلہ سے گھاس کاٹ سکتے ہیں پر آگ لگا کر یا دوا ڈال کر کہ جڑ سے نکل جائے یاد رہے قبرستان میں آگ لگانا ممنوع ہے اور گھاس والے قبر کو آگ لگانا مکروہ تحریمی ناجائز و گناہ ہے کہ اس سے میت کو اذیت پہونچے گی اسی طرح دوا کہ اس میں بدبو ہوگی یا دوا میں کیمیکل ہوگی اور گھاس جڑ سے ختم ہوگی اور دوبارہ نہ اگے گی جبکہ اگنے میں میت کو فائدہ ہے کہ وہ تسبیح پڑھتی ہے لہذا خشک گھاس اکھیڑ اور کاٹ بھی سکتے ہیں اور تر گھاس بوجہ اذیت کاٹ سکتے ہیں اکھیڑ نہیں سکتے کیونکہ خودرو ہری گھاس کی تسبیح سے میت کو انس ہوتا ہے پس اس کو کاٹنا رواں نہیں 
 کما في الفتاوی رد المحتار (تتمہ) یکرہ أیضًا قطع البنات الرطب من المقبرة دون الیابس کما في البحر والدرر وشرح المنیة وعللہ في الإمداد بأنہ ما دام رطبًا یسبح اللہ تعالی فیوٴنس المیت وتنزل بذکرہ الرَّحمة اھ (ج۱ ص۶۰۶، ) 
 الغرض خود رو ہری گھاس وغیرہ کی تسبیح سے میت کو انس ہوتا ہے اور اس کی تسبیح کی برکت سے اللہ پاک کی خاص رحمت نازل ہوتی ہے، پس اس کو کاٹنا گویا کہ میت کا حق فوت کردینا ہے۔
فتاوی فیض الرسول میں ہے:’قبروں پرلگی ہوئی گھاسوں کو جلاناممنوع ہے لما فیہ من التفاؤل القبیح بالناروایذاءالمیت۔ 
 (کیونکہ اس میں آگ کی وجہ سے بری فال  اور میت کو اذیت دینا ہے)      
(فتاوی فیض الرسول،ج1،ص،466،شبیربرادرز،لاھور) 
مصنف بہارِ شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قبرستان میں آگ جلانا بھی مکروہِ تنزیہی ہے،جب کہ قبر پر نہ ہو۔‘
(فتاوی امجدیہ،ج1،ص362،مکتبہ رضویہ،کراچی)
اس کےتحت حاشیے میں شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ فرماتےہیں:
اوراگر قبرو پر آگ جلائیں،تو ناجائز و گناہ 
(فتاوی امجدیہ،ج1،ص362، مکتبہ رضویہ،کراچی) 
والله ورسوله أعلم بالصواب 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
الجواب صحیح والمجیب فقط محمد محمود اختر مصباحی شہر مفتی راے بریلی
الجواب صحيح ،محمد عابد حسين افلاك المصباحي .12/11/2020

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area