Type Here to Get Search Results !

طعام میت بنظر ایصال ثواب میں غیرمسلم کی شرکت ہوسکتی ہے؟

 (سوال نمبر ١٢٠)

طعام میت بنظر ایصال ثواب میں غیرمسلم کی شرکت ہوسکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور مفتی صاحب قبلہ........ سلام مسنون خیریت طرفین نیک مطلوب استفسار مسئلہ کو ملاقات کا ذریعہ بنا رہا ہوں اللہ رب العزت آپ کو دارین کی نعمتیں عطا فرمائے آمین مسئلہ  طعام میت بنظر ایصال ثواب میں غیرمسلم کی شرکت ہوسکتی ہے؟ جواز  عدم جواز کی تعلیل بیان کریں۔
فقط والسلام مع الاکرام ۔طالب دعا بارگاہ امجدی بہاء الحق شمسی کشی نگر یوپی۔٢٣ محرالحرام ١٤٤٢۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين..

الجواب بعونه تعالى عز وجل
صورت مستفسره میں
اصلا اس کا حقدار تو فقط فقراء ہیں پر تیجہ یا بسواں یا چالیسواں وغیرہ میں برائے ایصال ثواب میت جو دعوت طعام کرتے ہیں، وہ معروف ہے کہ غنی و فقیر، خیش و اقارب سب شامل دعوت ہوتے ہیں ۔بلحاظ انسانیت یا پڑوسی وہ شرکت کرے تو حرج نہیں،پر احسن نہیں کہ ہم غرباء و مساکین کم نہیں انھیں شامل کیا جائے ۔
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں،
میت کے گھر والے تیجہ وغیرہ کے دن دعوت کریں تو ناجائز و بدعت قبیحہ ہے کہ دعوت تو خوشی کے وقت مشروع ہے نہ کہ غم کے وقت اور اگر فقرا کو کھلائیں تو بہتر ہے۔ جن لوگوں سے قرآن مجید یا کلمۂ طیبہ پڑھوایا، ان کے لئے بھی کھانا تیار کرنا ناجائز ہے۔ یعنی جب کہ ٹھہرا لیا ہو یا معروف ہو یا وہ اغنیا ہوں۔تیجے وغیرہ کا کھانا اکثر میت کے ترکہ سے کیا جاتا ہے، اس میں یہ لحاظ ضروری ہے کہ ورثہ میں کوئی نابالغ نہ ہو ورنہ سخت حرام ہے۔ يو ہيں اگر بعض ورثہ موجود نہ ہوں جب بھی ناجائز ہے، جبکہ غیر موجودیں سے اجازت نہ لی ہو اور سب بالغ ہوں اور سب کی اجازت سے ہو یا کچھ نابالغ یا غیر موجود ہوں مگر بالغ موجود اپنے حصہ سے کرے تو حرج نہیں۔
(بہار 4/203 دعوت اسلامی )

قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
O
’’جو لوگ اﷲ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور اﷲ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہےo‘‘
 (البقرة، 2 : 261)
’حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’’جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر‘‘
 بخاری، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب اتقو النار و لو لبشق تمرة والقليل من الصدقة، 2 : 514، رقم : 1351 البرقی
یہ صدقہ نافلہ کا ذکر ہے اس کے مصرف مخصوص نہیں البتہ زکوة اور صدقہ واجبہ فقط انھیں  کا حق ہے جو شرعا لینے کے لائق ہیں، ۔
عن إبراهیم بن مهاجر قال: سألت إبراهیم عن الصدقة علی غیر أهل الإسلام، فقال: أما الزکاة فلا، وأما إن شاء رجل أن یتصدق فلا بأس۔ (المصنف لابن أبي شیبة / ما قالوا في الصدقة یعطي منها أهل الذمة، البرقية )

والله ورسوله أعلم بالصواب

كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال.
١٦/٩/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area