Type Here to Get Search Results !

فرض نماز کے بعد دعاء مانگنے والا بدعتی اور گمراہ ہے؟

 فرض نماز کے بعد دعاء مانگنے والا بدعتی اور گمراہ ہے؟

السلام عليكم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ جن فرض نمازوں کےبعد سنن ہیں تو کیا فرض نمازوں کی دعا کے بعد اور سنن سے پہلے کچھ اور وظاءف پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟اور یہ بھی کہ اگر کوئی کچھ پڑھتا ہے تو کیا وہ گمراہ اور بدعتی ہے؟قرآن وحدیث واقوال فقہاء کی روشنی میں مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں عین کرم ونوازش ہوگی۔

المستفتی محمد ساجدرضا افضل القادری آسوی ضیائی حنفی، خادم مدرسہ اسلامیہ غوثیہ رضا ء العلوم پٹھن پو رہ۔


نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين. 

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته.


الجواب بعونه تعالى عز وجل 


صورت مستفسره میں آپ کا جواب بالترتیب حسب ذیل ہے،

فرض نماز کے بعد اور سنت سے قبل بلکل دعاء ماثورہ اور ذکر و اذکار پڑھ سکتے ہیں، بلکہ سنت ہے، حدیث پاک میں فرض نماز کے بعد بہت سی دعائیں مذکور ہیں، کچھ طویل اور کچھ مختصر حسب ضرورت پڑھنے کی اجازت ہے، ہاں جن نمازوں کے بعد سنن ہیں تو طویل ذکر و اذکار اور وظائف نہ پڑھیں یہی افضل ہے،فرض نماز پڑھ کر مختصر دعاء کرکے سنت ادا کی جائے، بعد سنت بقیہ وضائف و اذکار پڑھیں ۔اور وہ بھی بعد الفرص ہی شمار ہوتے ہیں، یاد رہے کہ جن فرائض کے بعد سنن مؤکدہ نہیں تو الہم انت السلام الی اخرہ، و ایة الکرسی تین بار استغفار، اور معوذات اور تسبیح و تحمید و تکبیر ٣٣،٣٣ بار پڑھنا مستحب ہے ۔کما فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 

ويكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ. قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد واختاره الكمال. قال الحلبي: إن أريد بالكراهة التنزيهية ارتفع الخلاف قلت: وفي حفظي حمله على القليلة؛ ويستحب أن يستغفر ثلاثاً ويقرأ آية الكرسي والمعوذات ويسبح ويحمد ويكبر ثلاثاً وثلاثين؛ ويهلل تمام المائة ويدعو ويختم بسبحان ربك.

(قوله: إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لايقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة.

وقول عائشة بمقدار لايفيد أنه كان يقول ذلك بعينه، بل كان يقعد بقدر ما يسعه ونحوه من القول تقريباً، فلاينافي ما في الصحيحين من «أنه صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولاينفع ذا الجد منك الجد» وتمامه في شرح المنية، وكذا في الفتح من باب الوتر والنوافل (قوله: واختاره الكمال) فيه أن الذي اختاره الكمال هو الأول، وهو قول البقالي. ورد ما في شرح الشهيد من أن القيام إلى السنة متصلا بالفرض مسنون، ثم قال: وعندي أن قول الحلواني لا بأس لا يعارض القولين لأن المشهور في هذه العبارة كون خلافه أولى، فكان معناها أن الأولى أن لايقرأ قبل السنة، ولو فعل لا بأس، فأفاد عدم سقوط السنة بذلك، حتى إذا صلى بعد الأوراد تقع سنة لا على وجه السنة، ولذا قالوا: لو تكلم بعد الفرض لاتسقط لكن ثوابها أقل، فلا أقل من كون قراءة الأوراد لا تسقطها اهـ.

وتبعه على ذلك تلميذه في الحلية، وقال: فتحمل الكراهة في قول البقالي على التنزيهية لعدم دليل التحريمية، حتى لو صلاها بعد الأوراد تقع سنة مؤداة، لكن لا في وقتها المسنون، ثم قال: وأفاد شيخنا أن الكلام فيما إذا صلى السنة في محل الفرض لاتفاق كلمة المشايخ على أن الأفضل في السنن حتى سنة المغرب المنزل أي فلا يكره الفصل بمسافة الطريق (قوله قال الحلبي إلخ) هو عين ما قاله الكمال في كلام الحلواني من عدم المعارضة ط (قوله: ارتفع الخلاف) لأنه إذا كانت الزيادة مكروهة تنزيهاً كانت خلاف الأولى الذي هو معنى لا بأس (قوله: وفي حفظي إلخ) توفيق آخر بين القولين، المذكورين، وذلك بأن المراد في قول الحلواني لا بأس بالفصل بالأوراد: أي القليلة التي بمقدار " اللهم أنت السلام إلخ " لما علمت من أنه ليس المراد خصوص ذلك، بل هو أو ما قاربه في المقدار بلا زيادة كثيرة فتأمل. وعليه فالكراهة على الزيادة تنزيهية لما علمت من عدم دليل التحريمية فافهم وسيأتي في باب الوتر والنوافل ما لو تكلم بين السنة والفرض أو أكل أو شرب، وأنه لا يسن عندنا الفصل بين سنة الفجر وفرضه بالضجعة التي يفعلها الشافعية (قوله: والمعوذات) فيه تغليب، فإن المراد الإخلاص والمعوذتان ط (قوله: ثلاثاً وثلاثين) تنازع فيه كل من الأفعال الثلاثة قبل"(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 525/4257 البرقي )


اسی طرح 

امام شمس الأئمة الحلواني

،رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں،  

لا بأس بقراءة الأوراد بين الفريضة والسنة ويستحب للإمام بعد سلامه أني يتحول الى يساره لتطوع بعد الفرض

 وأن يستقبل بعده الناس ويستغفرون الله ثلاثا ويقرءون آية الكرسي والمعوذات ويسبحون الله ثلاثا وثلاثين ويحمدونه كذلك ويكبرونه كذلك ثم يقولون لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير

 ثم يدعون لأنفسهم وللمسلمين رافعي أيديهم ثم يمسحون بها وجوههم في آخره‏.‏۔

(کتاب الصلوۃ 

فصل في الأذكار الواردة بعد الفرض/نور الایضاح البرقی )


بعد صلاة المکتوبة ذکر و اذکار پڑھ نے والا گمراہ نہیں بلکہ عامل سنت ہے ۔پڑھ نے والے کو بدعتی اور گمراہ نہیں کہ سکتے، اگرکوئی کہتا ہے تو لاعلم اور نرا جاہل ہے، اسے اپنی بات سے رجوع کرنی چاہئے اور سنت منصوصہ کے عامل کو بدعتی کہنا دین میں جری کرنا ہے، اسے توبہ بھی کرنی چاہئے ۔کہ بعد صلاة المکتوبہ ذکر و اذکار سنت متوارثہ سے ثابت ہے، اور کئی احادیث اس پر دال ہیں ۔۔

بدعت کسے کہتے ہیں؟

اور بدعت کی تعریف کیا ہے؟

بدعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’بَدَعَ‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا معنی ہے : کسی سابقہ مادہ، اَصل، مثال، نمونہ یا وجود کے بغیر کوئی نئی چیز ایجاد کرنا؛ یعنی کسی شے کو عدمِ محض سے وجود میں لانے کو عربی زبان میں ’’اِبداع‘‘ کہتے ہیں۔

ابنِ حجر عسقلانی، بدعت کی لُغوی تعریف یوں کرتے ہیں :

البدعة أصلها : ما أحدث علی غير مثال سابق.

’’بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔‘‘

 ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 4 : 253 البرقی 

قرآن مجید میں آنے والے بدعت کے مختلف مشتقات سے ان معانی کی توثیق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کائنات کو کسی مثال کے بغیر وجود عطا کیا تو لُغوی اعتبار سے یہ بھی ’’بدعت‘‘ کہلائی اور اس بدعت کا خالق خود اللہ تعالی ہے جو اپنی شانِ تخلیق بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتا ہے :

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُO

’’وہی آسمانوں اور زمین کو (عدم سے) وجود میں لانے والا ہے اور جب وہ کسی چیز (کی اِیجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہےo‘‘

البقره، 2 : 117

 اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی بدعت کے گمراہی قرار پانے کے لئے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے :

1۔ دین میں اس کی سرے سے کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔

2۔ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور احکام سنت کو توڑے۔

بدعت کا اِصطلاحی مفہوم واضح کرتے ہوئے فقہاءِ اُمت اور ائمۂ حدیث نے اس کی مختلف تعریفات پیش کی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اﷲ علیہ بدعت کا اِصطلاحی مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

المحدثه والمراد بها ما أحدث، وليس له أصلٌ في الشرع ويسمي في عرف الشرع ’’بدعة‘‘، وما کان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللّغة : فإن کل شيء أحدث علي غير مثال يسمي بدعة، سواء کان محمودًا أو مذمومًا

’’محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو۔ اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں لغوی بدعت کو نہیں۔ پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ۔‘‘

 ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 13 : 253۔ البرقی ۔

والله ورسوله أعلم بالصواب

حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خ

ادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال. 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area