کیا ان اللہ علی کل شیئ قدیر کے تحت جھوٹ بھی شامل ہے؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان عظام اس مسئلے میں کہ اہلسنت.کا یہی عقیدہ ہیکہ اللہ تعالی جھوٹ نہیں بول سکتا یہ محال ہے ,لیکن اللہ تعالی نے ہی قرآن میں ارشاد فرمایا ہیکہ ان اللہ علی کل شیء قدیر تو ہم نے جھوٹ کو اس سے کیسے مستثنی کیا حالانکہ ان اللہ علی کل شیء قدیر میں تو جھوٹ بھی شامل ہے؟ مفصل و مدلل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔تحریری جواب عنایت فرمائیں تو بہت بہتر ہوگا شکریہ
سائل:- الطاف حسین رضا ڈوڈہ کاہرہ جموں کشمیر انڈیا۔
سائل:- الطاف حسین رضا ڈوڈہ کاہرہ جموں کشمیر انڈیا۔
••────────••⊰❤️⊱••───────••
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
صورت مستفسره میں جھوٹ چونکہ قبیح ہے، اس لیے اللہ تعالی سے اُس کا صدور نہ کبھی ہوا اور نہ کبھی ہوگا، جو شخص اللہ تعالی سے صدورِ کذب کا قائل ہوگا وہ کافر ہوگا ۔اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر ممکن پر قادر ہے، کوئی ممکن اس کی قدرت سے باہر نہیں۔جو چیز محال ہے، اﷲ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اس کی قدرت اسے شامل ہو، کہ محال اسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہوسکے اور جب مقدور ہوگا تو موجود ہوسکے گا، پھر محال نہ رہا۔ اسے یوں سمجھو کہ دوسرا خدا محال ہے یعنی نہیں ہوسکتا تو یہ اگر زیر قدرت ہو تو موجود ہوسکے گا تو محال نہ رہا اور اس کو محال نہ ماننا وحدانیت کا انکار ہے۔ یو ہیں فنائے باری محال ہے، اگر تحت قدرت ہو تو ممکن ہوگی اور جس کی فنا ممکن ہو وہ خدا نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ محال پر قدرت ماننا اﷲ عزوجل کی الوہیت سے ہی انکار کرنا ہے۔ ہر مقدور کے لیے ضرور نہیں کہ موجود ہو جائے، البتہ ممکن ہونا ضروری ہے اگرچہ کبھی موجود نہ ہو۔
وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر ا س چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے، یعنی عیب ونقصان کا اس میں ہونا محال ہے، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو، نہ نقصان، وہ بھی اس کے لیے محال، مثلا جھوٹ، دغا، خیانت، ظلم، جھل، بے حیائی وغیرہا عیوب اس پر قطعا محال ہیں اوریہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھو ٹ بول سکتا ہے، محال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور یہ سمجھنا کہ محا لات پر قادر نہ ہو گا تو قدرت ناقص ہو جائے گی باطل محض ہے، کہ اس میں قدرت کا کیا نقصان نقصان تو اس محال کا ہے کہ تعلق قدرت کی اس میں صلاحیت نہیں۔
إن اللہ علی کل شیء قدیر (پ۱، البقرۃ:۲۰.)
في حاشیۃ الصاوي' ج۱،ص۳۸ تحت ہذہ الآیۃ: وقولہ: (قدیر) من القدرۃ وہو صفۃ أزلیۃ قائمۃ بذاتہ تعالی تتعلق بالممکنات إیجادا أو إعداما علی وفق الإرادۃ والعلم
في ''التفسیر الکبیر' پ ۱۵، الکہف:۲۵:(أنہ تعالی قادر علی کل الممکنات)ج۷،ص۴۵۴.
في ''المسایرۃ''، ص۳۹۱: (وقدرتہ علی کل الممکنات).
انظر للتفصیل: ''الفتاوی الرضویۃ''،سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح'' ج۱۵، ص۳۲۲.في ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، ص۳۹۳: (یستحیل علیہ) سبحانہ (سمات النقص کالجھل والکذب) بل یستحیل علیہ کل صفۃ لاکمال فیہا ولا نقص؛ لأن کلا من صفات الإلہ صفۃ کمال)، انظر للتفصیل: ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، واتفقوا علی أن ذلک غیر واقع، ص۲۰۴ ۔۲۱۰، و''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۵، ص۳۲۰۔۳۲۲.
(اللہ لا إلہ إلا ہو الحی القیوم) پ۳، ال عمران:۲.
(وہو علی کل شیء قدیر) پ۷، المائدۃ:۱۲۰.
(إن اللہ ہو السمیع البصیر) پ۲۴، المؤمن: ۲۰.
(وکلم اللہ موسی تکلیما) پ۶، النساء:۱۶۴.
( ان اللہ قد احاط بکل شیء علما) پ۲۸، الطلاق:۱۲.
(ان اللہ یحکم ما یرید) پ۶، المائدۃ:۱. (ان ربک فعال لما یرید) پ۱۲، ہود: ۱۰۷.
في ''فقہ الأکبر''، ص۱۵۔۱۹:
لم یزل ولا یزال بأسمائہ وصفاتہ الذاتیۃ والفعلیۃ، أما الذاتیۃ فالحیاۃ والقدرۃ والعلم والکلام والسمع والبصر والإرادۃ).
في ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، ص۳۹۱۔۳۹۲:
وصفات ذاتہ حیاتہ بلا روح حالۃ، وعلمہ وقدرتہ وإرادتہ وسمعہ بلا صماخ لکل خفي کوقع أرجل النملۃ) علی الأجسام اللینۃ (وکلام النفس) فإنہ تعالی یسمع کلا منھما (وبصرہ بلا حدقۃ یقلبہا، تعالی رب العالمین عن ذلک) أي: عن الصماخ والحدقۃ ونحوھما من صفات المخلوقین (لکل موجود) متعلق بقولہ وبصرہ، فہو متعلق بکل موجود، قدیم أو حادث، جلیل أو دقیق (کأرجل النملۃ السوداء علی الصخرۃ السوداء في اللیلۃ الظلماء، ولخفایا السرائر، متکلم بکلام قائم بنفسہ أزلا وأبدا) ملتقطا۔
وفي 'الحدیقۃ الندیۃ''، ج۱، ص۲۵۳۔۲۵۶: (لہ) سبحانہ وتعالی (صفات قدیمۃ قائمۃ بذاتہ، لا ہو ولا غیرہ، ہي الحیاۃ، والعلم، والقدرۃ، والسمع) وہو صفۃ أزلیۃ قائمۃ بذاتہ تعالی تتعلق بالمسموعات أوالموجودات فتدرک إدراکا تاما لا علی سبیل التخیل والتوہم، ولا علی طریق تأثر حاسۃ ووصول ہوائ، (و) الخامسۃ (البصر) وعرفہ اللاقاني أیضا بأنہ صفۃ أزلیۃ
( بہار 1ج/ص6/7دعوت اسلامی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
صورت مستفسره میں جھوٹ چونکہ قبیح ہے، اس لیے اللہ تعالی سے اُس کا صدور نہ کبھی ہوا اور نہ کبھی ہوگا، جو شخص اللہ تعالی سے صدورِ کذب کا قائل ہوگا وہ کافر ہوگا ۔اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر ممکن پر قادر ہے، کوئی ممکن اس کی قدرت سے باہر نہیں۔جو چیز محال ہے، اﷲ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اس کی قدرت اسے شامل ہو، کہ محال اسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہوسکے اور جب مقدور ہوگا تو موجود ہوسکے گا، پھر محال نہ رہا۔ اسے یوں سمجھو کہ دوسرا خدا محال ہے یعنی نہیں ہوسکتا تو یہ اگر زیر قدرت ہو تو موجود ہوسکے گا تو محال نہ رہا اور اس کو محال نہ ماننا وحدانیت کا انکار ہے۔ یو ہیں فنائے باری محال ہے، اگر تحت قدرت ہو تو ممکن ہوگی اور جس کی فنا ممکن ہو وہ خدا نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ محال پر قدرت ماننا اﷲ عزوجل کی الوہیت سے ہی انکار کرنا ہے۔ ہر مقدور کے لیے ضرور نہیں کہ موجود ہو جائے، البتہ ممکن ہونا ضروری ہے اگرچہ کبھی موجود نہ ہو۔
وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر ا س چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے، یعنی عیب ونقصان کا اس میں ہونا محال ہے، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو، نہ نقصان، وہ بھی اس کے لیے محال، مثلا جھوٹ، دغا، خیانت، ظلم، جھل، بے حیائی وغیرہا عیوب اس پر قطعا محال ہیں اوریہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھو ٹ بول سکتا ہے، محال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور یہ سمجھنا کہ محا لات پر قادر نہ ہو گا تو قدرت ناقص ہو جائے گی باطل محض ہے، کہ اس میں قدرت کا کیا نقصان نقصان تو اس محال کا ہے کہ تعلق قدرت کی اس میں صلاحیت نہیں۔
إن اللہ علی کل شیء قدیر (پ۱، البقرۃ:۲۰.)
في حاشیۃ الصاوي' ج۱،ص۳۸ تحت ہذہ الآیۃ: وقولہ: (قدیر) من القدرۃ وہو صفۃ أزلیۃ قائمۃ بذاتہ تعالی تتعلق بالممکنات إیجادا أو إعداما علی وفق الإرادۃ والعلم
في ''التفسیر الکبیر' پ ۱۵، الکہف:۲۵:(أنہ تعالی قادر علی کل الممکنات)ج۷،ص۴۵۴.
في ''المسایرۃ''، ص۳۹۱: (وقدرتہ علی کل الممکنات).
انظر للتفصیل: ''الفتاوی الرضویۃ''،سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح'' ج۱۵، ص۳۲۲.في ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، ص۳۹۳: (یستحیل علیہ) سبحانہ (سمات النقص کالجھل والکذب) بل یستحیل علیہ کل صفۃ لاکمال فیہا ولا نقص؛ لأن کلا من صفات الإلہ صفۃ کمال)، انظر للتفصیل: ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، واتفقوا علی أن ذلک غیر واقع، ص۲۰۴ ۔۲۱۰، و''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۵، ص۳۲۰۔۳۲۲.
(اللہ لا إلہ إلا ہو الحی القیوم) پ۳، ال عمران:۲.
(وہو علی کل شیء قدیر) پ۷، المائدۃ:۱۲۰.
(إن اللہ ہو السمیع البصیر) پ۲۴، المؤمن: ۲۰.
(وکلم اللہ موسی تکلیما) پ۶، النساء:۱۶۴.
( ان اللہ قد احاط بکل شیء علما) پ۲۸، الطلاق:۱۲.
(ان اللہ یحکم ما یرید) پ۶، المائدۃ:۱. (ان ربک فعال لما یرید) پ۱۲، ہود: ۱۰۷.
في ''فقہ الأکبر''، ص۱۵۔۱۹:
لم یزل ولا یزال بأسمائہ وصفاتہ الذاتیۃ والفعلیۃ، أما الذاتیۃ فالحیاۃ والقدرۃ والعلم والکلام والسمع والبصر والإرادۃ).
في ''المسامرۃ بشرح المسایرۃ''، ص۳۹۱۔۳۹۲:
وصفات ذاتہ حیاتہ بلا روح حالۃ، وعلمہ وقدرتہ وإرادتہ وسمعہ بلا صماخ لکل خفي کوقع أرجل النملۃ) علی الأجسام اللینۃ (وکلام النفس) فإنہ تعالی یسمع کلا منھما (وبصرہ بلا حدقۃ یقلبہا، تعالی رب العالمین عن ذلک) أي: عن الصماخ والحدقۃ ونحوھما من صفات المخلوقین (لکل موجود) متعلق بقولہ وبصرہ، فہو متعلق بکل موجود، قدیم أو حادث، جلیل أو دقیق (کأرجل النملۃ السوداء علی الصخرۃ السوداء في اللیلۃ الظلماء، ولخفایا السرائر، متکلم بکلام قائم بنفسہ أزلا وأبدا) ملتقطا۔
وفي 'الحدیقۃ الندیۃ''، ج۱، ص۲۵۳۔۲۵۶: (لہ) سبحانہ وتعالی (صفات قدیمۃ قائمۃ بذاتہ، لا ہو ولا غیرہ، ہي الحیاۃ، والعلم، والقدرۃ، والسمع) وہو صفۃ أزلیۃ قائمۃ بذاتہ تعالی تتعلق بالمسموعات أوالموجودات فتدرک إدراکا تاما لا علی سبیل التخیل والتوہم، ولا علی طریق تأثر حاسۃ ووصول ہوائ، (و) الخامسۃ (البصر) وعرفہ اللاقاني أیضا بأنہ صفۃ أزلیۃ
( بہار 1ج/ص6/7دعوت اسلامی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال