Type Here to Get Search Results !

فرشتہ کی کتنی قسمیں ہیں اور کون کون؟ نیز ابلیس فرشتوں میں شامل ہے یا نہیں؟

 (سوال نمبر ١٦٦)

فرشتہ کی کتنی قسمیں ہیں اور کون کون؟
نیز ابلیس فرشتوں میں شامل ہے یا نہیں؟
:::-----------------------------------------:::
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ فرشتہ کی کتنی قسمیں ہیں اور کون کون ؟ نیز ابلیس فرشتوں میں شامل ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل محمد اسرائیل احمد رضوی سرہا نیپال۔
:::-----------------------------------------:::
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل

صورت مسئولہ میں کام کے اعتبار سے فرشتوں کی لا تعداد قسمیں ہیں جن کا احاطہ مشکل ہے، فرشتہ ایک نوری مخلوق ہے ،پر فرشتوں کی تعداد بے شمار ہیں، اللہ تعالی کے حکم سے مختلف امور پر مامور ہیں وہ معصوم عن الخطاء ہیں ۔
ابلیس فرشتوں میں داخل ہے یا نہیں اس میں ہمارے سلف کے نزدیک بہت اختلاف ہے پر مفتی بہ قول یہی ہے کہ وہ فرشتہ نہیں اور نہیں کبھی فرشتہ تھا بلکہ انکار سجدہ آدم علیہ السلام سے قبل فرشتوں میں ملا ہوا تھا ۔اب ہم ہم فرشتہ اور ابلیس کے بابت کچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔ فرشتوں کی تعداد بے شمار ہیں حدیث پاک میں ہے آسمان میں چار انگل جگہ نہیں جہاں فرشتوں نے سجدے میں پیشانی نہ رکھی ہو (جامع ترمذی کتاب الجہد باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الخ حدیث ٢٣١٩ ج ٤ ص ١٤١)
اندازہ لگائیں کس قدر فرشتے ہیں ۔
اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے، وما يعلم جنود ربك الا هو.
اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا (پ  ٢٩ المدثر ٣١)
اللہ تعالی فرماتا ہے ۔(پ ٣ البقره ٨)  میں کہ سب نے مانا اللہ اور فرشتوں کو اللہ تعالی نے کوئی تعداد مقرر نہیں فرمائی تمام فرشتوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا جیسے کتبہ فرمایا گیا تمام کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے ۔(تفسير كبير البقره تحت آيه ٢٨٥ ج ٣ ص ١٠٧ تا ١٠٩  بحواله ملفوظات اعلي حضرت ج ٤ ص ٤٤٠ )
چند فرشتوں کے نام  بیان کرتے ہیں ۔جبریل و میکائیل و اسرافیل علیہم  السلام ۔ ملک الموت عزرائیل علیہ السلام ۔منکر نکیر کراما کاتبین ۔مختلف فرشتے مختلف امور پر مامور ہیں
کچھ فرشتے مجالس ذکر کی سیر کرتے ہیں ۔کچھ موکل بالجبال ہیں، کجھ بیت المعمور پر ہیں کچھ فرشتے قیام کچھ رکوع کچھ سجدے میں ہیں کچھ فرشتے سجدے میں ہیں اس وقت سے جب آسمان و زمین کو پیدا کیا قیامت کے دن سر اٹھا ئیں گے، جب سر اٹھائیں گے اللہ تعالی کا دیدار ہوگا ۔ایک حدیث میں ہے آقا علیہ السلام نے فرما یا فرشتے نور عرش سے پیدا کئے گئے اور جن مارج نار سے اور  انسان مٹی سے، کچھ حمل العرش کا موکل ہیں کچھ پہاڑ کا کچھ جنت جہم کا دروغہ کچھ حفظ اعمال عباد کے موکل ہیں کچھ قبض روح مومن و کافر اور کچھ مومنوں کے لئے استغفار اور ان پر سلامتی کی دعائیں کرتے ہیں کچھ مجالس ذکر اور کچھ حلقات ذکر کو اپنے پروں سے ڈھانپے ہوتے ہیں،
کچھ بندوں کو فعل خیر کی طرف بلاتے ہیں کچھ صالحین کے جنازے میں شرکت کرتے ہیں کچھ مومنوں کے ساتھ جہاد میں اعداء اللہ سے جہاد کرتے ہیں کچھ حمایت صالحین میں لگے رہتے ہیں، کچھ عذاب کے موکل ہیں
والملائكة كثيرون لا يعلم عددهم إلا الله عز وجل. قال تعالى: {وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلاَّ هُوَ وَمَا هِيَ إِلاَّ ذِكْرَى لِلْبَشَرِ} [المدثر:31]. وقد حجبهم الله تعالى عنَّا؛ فلا نراهم في صورهم التي خلقوا عليها، ولكن كشفهم لبعض عباده، كما رأى النبي صلى الله عليه وسلم جبريل على صورته التي خلقه الله عليها مرتين، قال الله تبارك وتعالى: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى . عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى} [النجم:13-14]. وقال: {وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ . وَلَقَدْ رَآهُ بِالأُفُقِ الْمُبِينِ} [النجم:22-23]. وقد دلَّ الكتاب والسنة على أصناف الملائكة، وأنها موكّلة بأصناف المخلوقات، وأنه سبحانه وكّل بالجبال ملائكة، ووكّل بالسحاب والمطر ملائكة، ووكّل بالرحم ملائكة تُدبِّر أمر النطفة حتى يتم خلقها، ثم وكّل بالعبد ملائكة لحفظ ما يعمله وإحصائه وكتابته، ووكّل بالموت ملائكة، ووكّل بالسؤال في القبر ملائكة، ووكّل بالأفلاك ملائكة يحركونها، ووكّل بالشمس والقمر ملائكة، ووكّل بالنار وإيقادها وتعذيب أهلها وعمارتها ملائكة، ووكّل بالجنة وعمارتها وغرسها وعمل آلاتها ملائكة. فالملائكة أعظم جنود الله ومنهم:
{وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا . فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفًا . وَالنَّاشِرَاتِ نَشْرًا} [المرسلات:1-3]، {فَالْفَارِقَاتِ فَرْقًا فَالْمُلْقِيَاتِ ذِكْرًا} [المرسلات:4-5]، ومنهم: {وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا . وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا . وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا . فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًاً} [النازعات:1-4].
ومنهم: {وَالصَّافَّاتِ صَفًّا . فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا . فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا} [الصافات:1-3]،
فرقة وطائفة وجماعة، ومنهم ملائكة الرحمة، وملائكة العذاب، وملائكة قد وُكِّلوا بحمل العرش، وملائكة قد وُكِّلوا بعمارة السماوات بالصلاة والتسبيح والتقديس، إلى غير ذلك من أصناف الملائكة التي لا يحصيها إلا الله.الدرر السنية)
صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ، ابلیس شعلے مارنے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جس کا بیان تمہارے سامنے کر دیا گیا ہے ۔ (صحیح مسلم:2996) ظاہر ہے کہ ہر چیز اپنی اصلیت پر آ جاتی ہے اور وقت پر برتن میں جو ہو ، وہی ٹپکتا ہے ۔ گو ابلیس فرشتوں کے سے اعمال کر رہا تھا ، انہی کی مشابہت کرتا تھا اور اللہ کی رضا مندی میں دن رات مشغول تھا ، اسی لیے ان کے خطاب میں یہ بھی آ گیا ، لیکن یہ سنتے ہی وہ اپنی اصلیت پر آ گیا ، تکبر اس کی طبیعت میں سما گیا اور صاف انکار کر بیٹھا ۔ اس کی پیدائش ہی آگ سے تھی جیسے اس نے خود کہا کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے ۔ ابلیس کبھی بھی فرشتوں میں سے نہ تھا ، وہ جنات کی اصل ہے جیسے کہ آدم علیہ السلام انسان کی اصل ہیں ۔ یہ بھی منقول ہے کہ یہ جنات ایک قسم تھی فرشتوں کی ، جو تیز آگ سے پیدا کیے گئے تھے ۔ اس کا نام حارث تھا ، جنت کا دارو‌‏غہ تھا ۔ اس جماعت کے سوا اور فرشتے نوری تھے ۔ جنات کی پیدائش آگ کے شعلے سے تھی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابلیس شریف فرشتوں میں سے تھا اور بزرگ قبیلے کا تھا ، جنتوں کا داروغہ تھا ، آسمان دنیا کا بادشاہ تھا ، زمین کا بھی سلطان تھا ۔ اس سے کچھ اس کے دل میں گھمنڈ آ گیا تھا کہ وہ تمام اہل آسمان سے شریف ہے ، وہ گھمنڈ بڑھتا جا رہا تھا ، اس کا صحیح اندازہ اللہ ہی کو تھا ۔ پس اس کے اظہار کے لیے آدم کو سجدے کرنے کا حکم ہوا تو اس کا گھمنڈ ظاہر ہو گیا ، از روئے تکبر کے صاف انکار کر دیا اور کافروں میں جا ملا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں وہ جن تھا یعنی جنت کا خازن تھا جیسے لوگوں کو شہروں کی طرف نسبت کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں مکی ، مدنی ، بصریٰ ، کوفی ۔ یہ جنت کا خازن آسمان دنیا کے کاموں کا مدبر تھا ، یہاں کے فرشتوں کا رئیس تھا ۔ اس معصیت سے پہلے وہ ملائکہ میں داخل تھا ، لیکن زمین پر رہتا تھا ۔ سب فرشتوں سے زیادہ کوشش سے عبادت کرنے والا اور سب سے زیادہ علم والا تھا ، اسی وجہ سے پھول گیا تھا ۔ اس کے قبیلے کا نام جن تھا ، آسمان و زمین کے درمیان آمد و رفت رکھتا تھا ۔ رب کی نافرمانی سے غضب میں آ گیا اور شیطان رجیم بن گیا اور ملعون ہو گیا ۔ پس متکبر شخص سے توبہ کی امید نہیں ہو سکتی ۔ ہاں تکبر نہ ہو اور کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس سے ناامید نہ ہونا چاہیئے ۔ کہتے ہیں کہ یہ تو جنت کے اندر کام کاج کرنے والوں میں تھا ۔ (تفسیر ابن کثیر تحت سورة الکہف )

والله ورسوله أعلم بالصواب ۔

کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی  محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی ١٨ خادم البرقي دار الإفتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال،
٨، ربیع الاول ۱۴۴۲ ہجری. ٢٥ اکتوبر ۲۰۲۰عیسوی بروز .یکشنبہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصدقين مفتيان عظام و علماء كرام، أركان سني شرعي بور ڈ آف نیپال ۔

(١) قاضی نیپال حضرت علامہ مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی جنکپور
(٢) مفتی ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی صاحب ۔
(٣) مفتی محمد رضا قادری مصباحی مدرس الجماعة الأشرفية مبارك پور اعظم گڑھ یوپی ۔
(٤) مفتی محمد عابد حسین افلاك المصباحی صاحب ۔
(٥) مفتی محمد کلام الدین نعمانی مصباحی صاحب
(٦)  حضرت مولانا محمد شہاب الدین حنفی صاحب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر سرپرستی قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صاحب قبلہ جنکپور ۔
المشتسہر، سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
٢٥،أكتوبر ٢٠٢٠ء /٨،،ربيع الأول ، ١٤٤٢ھ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area