Type Here to Get Search Results !

بیوی کے انتقال کے بعد دین مہر کی رقم کا حقدار کون ہوں گے ؟

 (سوال نمبر ١٧٠)

بیوی کے انتقال کے بعد دین مہر کی رقم کا حقدار کون ہوں گے ؟

:::-----------------------------------------:::
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بیوی کے انتقال کے بعد دین مہر کی رقم کا حقدار کون لوگ ہونگے جب کہ ایک بچی چھوڑ کر مری ہیں اور یہ جو جا ہلوں میں مشہور ہے کہ دین مہر بخشوا دیجئے کیا یہ صحیح ہے  مکمل جواب بحوالہ عنایت فرمائیں نوازش ہوگی
سائل:- محمد صلاح الدین  سیتا مڑھی بہار۔
:::-----------------------------------------:::
نحمد و نصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل

صورت مسئولہ میں مہر کی رقم بیوی کا حق ہے جب تک ادا نہ کرے یا بیوی خوشدلی سے معاف نہ کرے واجب اعادہ رہتا ہے۔ بوقت نکاح اگر مہر مؤجل مقرر کیا تھا تو دونوں میں سے کسی ایک کی موت سے قطعی واجب اعادہ ہوجاتا ہے ۔
آگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ مرحومہ کے بوقت انتقال فقط بیٹی زندہ ہے(بیٹا، شوہر، والدین، پوتا، پوتی، بہن، چچا، بھتیجا یا چچا زاد بھائی وغیرہ کوئی نہیں ہے، تو اس صورت میں کل ترکہ کا مالک مرحومہ کی بیٹی ہوگی، مرحومہ کی تجہیز و تکفین قرض میں صرف کرنے کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو تہائی ترکہ میں سے نکالنے کے بعد باقی سارا مال مرحومہ کی بیٹی کا ہے ۔
جیسا کہ رد المختار میں ہے
ثم مسائل الرد أربعة أقسام، لأن المردود عليه إما صنف أو أكثر وعلى كل إما أن يكون من لا يرد عليه أو لا يكون(ف) الأول (إن اتحد جنس المردود عليهم) كبنتين أو أختين أو جدتين (قسمت المسألة من عدد رءوسهم) ابتداء قطعا للتطويل۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين )
درمختار میں ہے ۔
ویتأ کدا عند وطئی او خلوۃ صحت اور موت احدھما۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 1384/4257
اسی طرح بدائع الصنائع میں ہے:
"(وأما) بيان ما يتأكد به المهر فالمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين، سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لايسقط شيء منه بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق".(كتاب النكاح، فصل بيان ما يتأكد به المهر، (2/ 291)،  دار الكتب العلمية، الطبعة: الثانية
مرنے کے بعد شرعا کوئی حکم نہیں ہے کہ مہر بخشوا دیا جائے یہ جاہلون میں ایک رسم ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں ۔البتہ اگر بیوہ نے اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے دل سے معاف کر دے تو معاف سمجھا جائے گا ۔
واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
١٢،ربیع الاول ۱۴۴۲ ہجری. ٢٩. اکتوبر ۲۰۲۰ عیسوی
-------
مصدقين مفتيان عظام و علماء كرام، أركان سني شرعي بور ڈ آف نیپال۔
(١) مفتی ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی صاحب ۔
(٢) مفتی عابد محمد عابد حسین افلاك المصباحی صاحب 
(٣) حضرت مولانا محمد شہاب الدین حنفی صاحب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر سرپرستی قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صاحب قبلہ جنکپور ۔
المشتسہر، سنی شرعی بورڈ آف نیپال۔
٢٦،أكتوبر ٢٠٢٠ء /٩،،ربيع الأول ، ١٤٤٢ھ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area