(سوال نمبر ١٦٩)
کیا شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو مہر معاف کر نا ضروری ہے؟اسی طرح بیٹا کے انتقال کے بعد ماں کو دودہ معاف کر نا ضروری؟
:::-----------------------------------------:::
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
علماء کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں ادبا عرض ہےکہ میرے سوال کا جواب عنایت فرمائیں کرم نوازی ہوگی ۔۔۔۔۔۔
سوال ١شوہر کے انتقال پر بیوی کے مہر کا کیا مسئلہ ہے؟
بیت الباڑی سوئے گاوں میں رسم عام ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد جب جنازہ تیار ہوجاتا ہے تو مرحوم کی بیوی کو میت کے قریب لاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ مہر معاف کردو ،شریعت میں اس کا کیسا حکم ہے؟
سوال نمبر ۲
اگر بیٹا مر جائے تو ماں اگر زندہ ہے تو ماں کو مرحوم بیٹے کے پاس لاکر دوھ معاف کراتے ہیں کیا ایسا کرنا ضروری ہے؟ اگر مہر اور دودھ نہیں معاف کرائے تو کیا حکم ہے۔۔
سائل:- اجمل حسین برکاتی نیپال
:::-----------------------------------------:::
نحمد و نصلي على رسوله الأمين....
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
صورت مسئولہ میں
(3) مہر کی تین قسمیں ہیں
(1) مہر معجل کہ خلوت سے پہلے مہر دینا قرار پایا ہو ۔اور (2) مہر مؤجل جس کے لئے کوئی میعاد مقرر ہو۔ اور(3) مہر مطلق جس میں بعد الطلاق یا قبل الموت ادا کرنا ضروری ہے ۔اسی طرح بہار شریعت میں ہے(بہار شریعت ح ٧ ص ٧٥)
یہ ایک جاہلانہ رواج ہے کہ شوہر کے انتقال ہو جانے پر جنازہ گھر سے نکلنے سے قبل بیوی سے مہر کی معافی کا اقرار کرواتے ہیں جس کا شرعا کوئی اعتبار نہیں،
تقسیم وراثت سے قبل بیوی کا مہر ادا کیا جائے گا کہ شوہر کے ذمہ یہ قرض ہے اور قرض کی ادائیگی وراثت کی تقسیم پر مقدم ہوتی ہے،
پراگرچہ یہ رواج مہر بخشوانے کا نا پسند و نا محمود اور ذلت آمیز ہے با ایں ہمہ اگر بیوی دل سے معاف کر دے تو معاف ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ مہر بیوی کا شرعی حق ہے اس لئے حسب استطاعت بوقت نکاح مقرر کرنی چاہئے پھر بوقت نکاح یا جتنا جلد ہوسکے ادا کردینی چاہئے ۔ اسی طرح عورت مہر کی رقم سونے چاندی زیورات چھوڑ کر وفات پائی تو مہر کی رقم مرحومہ کے ترکہ میں شامل ہوگی اور اس ترکہ کو ازروئے شرع تقسیم کردیا جائے گا جس میں شوہر بھی اپنا مقررہ حصہ پائے گا۔اور اگر عورت نے وصیت کی ہو کہ رقم مہر فلاں کو دینی ہے تو وصیت پوری کی جائے گی کہ یہ اس کا حق ہے ۔
جیسا کہ درمختار میں ہے ۔
ویتأ کدا عند وطئی او خلوۃ صحت اور موت احدھما۔
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 1384/4257)۔
(٢) بیٹے کے مرجانے پر ماں کو بیٹے کا دودھ معاف کر نا
یہ ایک محاوراتی بات ہے۔ بچے کو پیٹ میں اٹھانے سے لے کر جنم دینے اور سالوں تک پروش کرنے میں ایک ماں جو مشکلات برداشت کرتی ہے، بچہ ساری زندگی ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اسی لیے شریعت اسلامیہ نے ایک ماں کو بےشمار حقوق عطا کرتے ہوئے جنت کو ماں کے قدموں تلے تلاش کرنے کا حق دیا۔ جب ماں یہ محارہ بولتی ہے کہ میں نے اپنے فلاں بچے کو دودھ بخش دیا‘ تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس نے اپنے حقوق میں کم پیشی کو معاف کر دیا۔ اور اگر محاورہ اِس کے برعکس بولا تو مراد ہے کہ ماں نے اپنے حقوق میں کم پیشی کو معاف نہیں کیا۔یعنی حقوق والدہ کے کمی کے باعث مواخذہ کیا جائے گا،
معلوم ہوا کہ مہر کا معاف کروانا یا دودھ کا معاف کر نا ایک رسم ہے ۔پر عورت مہر لینے سے قبل مرگئی اور اپنی زندگی میں معاف بھی نہیں کیا تو قیامت میں حقوق العباد کے تحت شوہر سے مواخذہ ہوگا ،یونہی حقوق والدین کے تحت بھی مواخذہ ہوگا ۔۔
والله ورسوله أعلم بالصواب ،
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨،خادم ،البرقي دار الإفتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
٨، ربیع الاول ۱۴۴۲ ہجری. ٢٥ اکتوبر ۲۰۲۰عیسوی بروز .یکشنبہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصدقين مفتيان عظام و علماء كرام، أركان سني شرعي بور ڈ آف نیپال۔
(١) قاضي نیپال حضرت علامہ مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی قاضي القضاة مرکزی ادارہ شرعیہ پنج کشمیری تکیہ جامع مسجد کاٹھمانڈو نیپال۔
(٢) مفتي ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی صاحب ۔
(٣) مفتي محمد عابد حسين افلاك المصباحي صاحب ۔
(٤) مفتي محمد کلام الدین نعمانی مصباحی صاحب
(ه) حضرت مولانا محمد شہاب الدین حنفی صاحب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر سرپرستی قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صاحب قبلہ جنکپور ۔
المشتسہر، سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
٢٥،أكتوبر ٢٠٢٠ء /٨،،ربيع الأول ، ١٤٤٢ھ