سلسلہ وار تیسری قسط
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حیلہ شرعی کیا ہے؟ حیلہ شرعی کسے کہتے ہیں؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
حیلہ شرعی کا لغوی تعریف حیلہ کا معنی لغت میں مکر وفریب ہے اور ایک دوسرا معنی نوکری و روزی بھی ہے
حیلہ شرعی کی اصطلاحی تعریف فقہائے کرام کی اصطلاح میں حیلہ نام ہے مقصود کو حاصل کرنے کے لئے طریق حرام کو ترک کرکے طریق حلال کو اختیار کرنا : شیخ الاسلام و المسلمین ابو بکر محمد بن احمد سرخسی کی عبارت سے یہی مفہوم ہے : مایتخلص بہ الرجل من الحرام و یتوصل بہ الی الحلال
حیلہ شرعی کی اصطلاحی تعریف فقہائے کرام کی اصطلاح میں حیلہ نام ہے مقصود کو حاصل کرنے کے لئے طریق حرام کو ترک کرکے طریق حلال کو اختیار کرنا : شیخ الاسلام و المسلمین ابو بکر محمد بن احمد سرخسی کی عبارت سے یہی مفہوم ہے : مایتخلص بہ الرجل من الحرام و یتوصل بہ الی الحلال
(المبسوط 30/230)
یعنی جس کے ذریعہ حرام سے چھٹکارا پاکر حلال تک پہنچے
فرمان الٰہی ہے :
فرمان الٰہی ہے :
لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا (البقرہ)
یعنی اللہ تعالیٰ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر ۔اسی سورہ میں دوسری جگہ فرمان الٰہی ہے :
یرید اللہ بکم الیسر ولا یریدیکم العسر
یعنی اللہ تعالیٰ آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا ۔
یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ضرورت شرعی کے تحقق کے وقت ممنوعات کے ارتکاب کی اجازت دی گئی ۔جس پر قرآن کریم ناطق و شاہد ہے ۔
یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ضرورت شرعی کے تحقق کے وقت ممنوعات کے ارتکاب کی اجازت دی گئی ۔جس پر قرآن کریم ناطق و شاہد ہے ۔
انما حرم علیکم المیتۃوالدم و لحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ فمن اضطر غیر باغ ولاعاد فلا اثم علیہ ان اللہ غفور رحیم (البقرہ 2/173)
یعنی اس نےتم پر یہی حرام کئے ہیں مردار ۔خون ۔سور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا تو جوناچار ہو۔ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کے ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں ۔بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
سورہ مائدہ میں ہے
سورہ مائدہ میں ہے
فمن اضطرفی مخصمۃ غیر متجانف لاثم فان اللہ غفور رحیم
(المائدہ 6/3)
یعنی تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچار ہو یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے تو بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے اسی تسہیل یتسیر کا نام فقہائے کرام کے یہاں رخصت ہے ۔حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ والرضوان اپنی معرکۃ الآرا تصنیف :المستصغی :میں فرماتے ہیں:والرخصۃ فی اللسان عبادۃ عن الیسر والسھولۃ و فی الشریعۃ عبادۃ عما وسع اللمکلف فی فعلہ لعذر و عجز عنہ مع قیام السبب المحرم یعنی لغت میں رخصت نام ہے یسر و سہولت کا اور شریعت میں نام ہے سبب حرمت کے باوجود مکلف کو کسی عذر کی وجہ سے فعل میں اختیار (وسعت)دینا۔
(ماہنامہ کنزالایمان مئی 2011ص15)
ارشاد قرآنی مبارک و لغوی و اصطلاحی تصریحات سے پتہ چلا کہ :حیلہ شرعی نام ہے اپنے مقصود کو پانے کے لئے :طریق حرام: کو ترک کرکے :طریق حلال اختیار کرنا ۔دوسرے لفظوں میں چونکہ صدقات واجبہ کو :مدرسہ میں ۔تنخواہ مدرسین میں ۔ مطبخ میں براہ راست خرچ کرنا ناجائز و حرام ہے حالانکہ علم دین کی اشاعت کے لئے اعانت مدرسہ کرنے والے اور جو لوگ اس اعانت پر مؤید ہوئے سب کے لئے اجر جزیل و ثواب جمیل ہے جبکہ وہ مدرسہ دینیہ اور دینے والے کی نیت محمود ہو کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ رسولِ خدا صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ علم دین سیکھنا ہر مون و مومنات پر فرض ہے حدیث شریف میں ہے کہ ۔علم عبادت سے افضل ہے ۔علم عمل سے بہتر ہے لیکن مدرسہ مصارف زکوۃ میں سے نہیں ہے اس لئے علماء کرام نے تحفظ علم و دین کی بقاء کے لئے حیلہ شرعی کے ذریعہ مدرسہ میں صدقات واجبہ خرچ کرنے کی اجازت دی ۔اب کسی مدرسہ میں اس کی: حاجت و ضرورت :ہے تو اس مقصد کو پانے کے لئے طریق حرام یعنی براہ راست دینا اور خرچ کرنا : کو چھوڑ کر :طریق حلال یعنی حیلہ شرعی کرکے دینا جائز ہوگا
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حیلہ شرعی کے جواز کے لیے تین چیزیں لازم ہے (1) حاجت ( 2)ضرورت (3)تملیک یعنی اگر کسی مکتب یا مدرسہ یا۔ دارالعلوم کو اس کی حاجت نہیں ہے اور وہاں کے لوگ و امراء اغنیاء حضرات اپنے صدقات نافلہ سے مدرسہ کی ضروریات پوری کررہے ہیں تو اب خواہ مخواہ حیلہ شرعی کو اختیار کرکے مصارف زکوۃ کے حقدار کے حق میں حق تلفی کرنا ہوگا اس لئے خواہ مخواہ غیر ضروری و غیر حاجت کے لئے حیلہ شرعی کا استعمال نہیں کرنا چایئے
حیلہ شرعی کا جواز قرآن واحادیث سے ثابت ہے حضرت ایوب علیہ السلام کے متعلق ہے کہ ایک بار اپنی اہلیہ محترمہ سے ناراض ہوگئے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی زوجہ محترمہ کو سو (100) کوڑے مارنے کی قسم کھائی ۔بہرحال جب وہ تندرست ہوگئے تو قسم ہوری کرنے کا ارادہ کیا ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ قسم پوری کرنے کے لئے کھجور کی ایک ٹہنی لے لیں جس میں سو سینجیں ہوں اور ایک بار انہیں مار دو ۔اس طرح آپ کی قسم پوری ہوجانے گی اور آپ حانث ہونے سے بھی محفوظ ہو جائیں گے ۔یہی حیلہ شرعی ہے کیونکہ قسم پوری کرنے کے لئے سو بار مارنا پڑتا لیکن وہ ایسی نیک سیرت خاتون تھی کہ اس سزا کے قابل نہیں تھی ۔اسی لئے ایک ہی مرتبہ کھجور کی ٹہنی سے جس میں سو سینجیں تھیں مارنے سے پوری ہوگئی ۔
حدیث شریف سے حیلہ ثابت ہے ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے مروی ہے کہ حضرت بریرہ رضی آللہ تعالیٰ عنھما کو کچھ گوشت صدقہ دیا گیا حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نے پوچھا تمہارے پاس کچھ ہے (یعنی کھانے کی چیز )۔ تو فرمایا نہیں سوائے اس کے جو نسیبہ نے اس بکری سے بھیجا ہے تو فرمایا :لاؤ: وہ اپنی جگہ پہنچ گئی انہوں نے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیا ۔اپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ گوشت بریرہ کے لئے صدقہ تھا اور ہمارے لئے ہدیہ ہے حدیث کے الفاظ ہے کہ :
ارشاد قرآنی مبارک و لغوی و اصطلاحی تصریحات سے پتہ چلا کہ :حیلہ شرعی نام ہے اپنے مقصود کو پانے کے لئے :طریق حرام: کو ترک کرکے :طریق حلال اختیار کرنا ۔دوسرے لفظوں میں چونکہ صدقات واجبہ کو :مدرسہ میں ۔تنخواہ مدرسین میں ۔ مطبخ میں براہ راست خرچ کرنا ناجائز و حرام ہے حالانکہ علم دین کی اشاعت کے لئے اعانت مدرسہ کرنے والے اور جو لوگ اس اعانت پر مؤید ہوئے سب کے لئے اجر جزیل و ثواب جمیل ہے جبکہ وہ مدرسہ دینیہ اور دینے والے کی نیت محمود ہو کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ رسولِ خدا صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ علم دین سیکھنا ہر مون و مومنات پر فرض ہے حدیث شریف میں ہے کہ ۔علم عبادت سے افضل ہے ۔علم عمل سے بہتر ہے لیکن مدرسہ مصارف زکوۃ میں سے نہیں ہے اس لئے علماء کرام نے تحفظ علم و دین کی بقاء کے لئے حیلہ شرعی کے ذریعہ مدرسہ میں صدقات واجبہ خرچ کرنے کی اجازت دی ۔اب کسی مدرسہ میں اس کی: حاجت و ضرورت :ہے تو اس مقصد کو پانے کے لئے طریق حرام یعنی براہ راست دینا اور خرچ کرنا : کو چھوڑ کر :طریق حلال یعنی حیلہ شرعی کرکے دینا جائز ہوگا
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ حیلہ شرعی کے جواز کے لیے تین چیزیں لازم ہے (1) حاجت ( 2)ضرورت (3)تملیک یعنی اگر کسی مکتب یا مدرسہ یا۔ دارالعلوم کو اس کی حاجت نہیں ہے اور وہاں کے لوگ و امراء اغنیاء حضرات اپنے صدقات نافلہ سے مدرسہ کی ضروریات پوری کررہے ہیں تو اب خواہ مخواہ حیلہ شرعی کو اختیار کرکے مصارف زکوۃ کے حقدار کے حق میں حق تلفی کرنا ہوگا اس لئے خواہ مخواہ غیر ضروری و غیر حاجت کے لئے حیلہ شرعی کا استعمال نہیں کرنا چایئے
حیلہ شرعی کا جواز قرآن واحادیث سے ثابت ہے حضرت ایوب علیہ السلام کے متعلق ہے کہ ایک بار اپنی اہلیہ محترمہ سے ناراض ہوگئے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی زوجہ محترمہ کو سو (100) کوڑے مارنے کی قسم کھائی ۔بہرحال جب وہ تندرست ہوگئے تو قسم ہوری کرنے کا ارادہ کیا ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ قسم پوری کرنے کے لئے کھجور کی ایک ٹہنی لے لیں جس میں سو سینجیں ہوں اور ایک بار انہیں مار دو ۔اس طرح آپ کی قسم پوری ہوجانے گی اور آپ حانث ہونے سے بھی محفوظ ہو جائیں گے ۔یہی حیلہ شرعی ہے کیونکہ قسم پوری کرنے کے لئے سو بار مارنا پڑتا لیکن وہ ایسی نیک سیرت خاتون تھی کہ اس سزا کے قابل نہیں تھی ۔اسی لئے ایک ہی مرتبہ کھجور کی ٹہنی سے جس میں سو سینجیں تھیں مارنے سے پوری ہوگئی ۔
حدیث شریف سے حیلہ ثابت ہے ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے مروی ہے کہ حضرت بریرہ رضی آللہ تعالیٰ عنھما کو کچھ گوشت صدقہ دیا گیا حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نے پوچھا تمہارے پاس کچھ ہے (یعنی کھانے کی چیز )۔ تو فرمایا نہیں سوائے اس کے جو نسیبہ نے اس بکری سے بھیجا ہے تو فرمایا :لاؤ: وہ اپنی جگہ پہنچ گئی انہوں نے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیا ۔اپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ گوشت بریرہ کے لئے صدقہ تھا اور ہمارے لئے ہدیہ ہے حدیث کے الفاظ ہے کہ :
ھو علیھا صدقۃ و ھو لنا ھدیۃ یعنی وہ بریرہ کے لئے صدقہ ہے اور بریرہ نے ہمیں دیا تو یہ اس کی طرف سے ہدیہ ہے حیلہ شرعی کی یہ حدیث بھی اصل ہے اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ دے کر اس پر قبضہ بھی کرایا جائے چونکہ حضرت بریرہ نے اس صدقہ لے کر اس پر قابض ہوگئی پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی اسی لئے آپ نے فرمایا :
فقد بلغت محلھا یعنی وہ اپنی جگہ پہنچ چکی ۔ان تمام تصریحات سے معلوم ہوا کہ
(1) زکوۃ غیر مصارف کو دینے کے لئے حیلہ شرعی لازم ہے لیکن دنیاوی کام کے لئے نہیں صرف دینی کام کے لئے وقت ضرورت حیلہ شرعی کی اجازت ہے حضور شرح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ۔بلا ضرورت شرعیہ زکوۃ و فطرے کی رقم مستحقین کے علاوہ میں صرف کرنا سخت مذموم ہے
(2) اور حیلہ شرعی اس وقت کیا جائے جب اس غیر مستحق کو اس رقم کی سخت حاجت و ضرورت ہے ورنہ اجازت نہیں ہے اور مدرسہ کو ضرورت و حاجت ہونے پر حیلہ شرعی کرکے خرچ کرنے کی اجازت ہے اگر حاجت و ضرورت نہیں ہے تو خواہ مخواہ حیلہ شرعی کا سہارا لے کر مستحقین زکوۃ کی حق تلفی کرنا ہوگا جیسے اسکول کھولنے کے لئے یا مدرسہ میں کمپیوٹر کورس کے لئے کیونکہ یہ دینی کام نہیں ہے اور نہ یہ مدرسہ کی ضروریات میں سے ہے اور نہ اس سے علم دین مراد ہے اور نہ اس سے علم کی دین کی تحفظ ہے کیونکہ کمپییوٹر سے صحیح و غلط دونوں کام بھی ہوتے ہیں چونکہ اس میں جائز وناجائز پروگرام بھی دیکھ سکتے ہیں بلکہ تجربہ ہے کہ دیکھتے اور سنتے بھی ہیں اور نہ یہ علم دین ہے اور نہ علم دین سیکھنے کا ذریعہ ہے اور نہ اس میں کوئی دینی ضرورت داعی ہے ہاں مدرسہ میں کمپیوٹر لگانا جائز ہے لیکن اس کے لئے لوگوں سے چندے کریں نہ کہ صدقات واجبہ سے خریدیں اور نہ اس میں صدقات واجبہ کے رقم کو لگائیں اور چندہ کرنے کے لئے باہر سفر کرنے میں ناجائز خرچ نہ کریں مثلا جہاں ٹرین سے سفر ہوسکتا ہے اور لوگ کرتے بھی ہیں وہاں جانے کے لئے ٹرین سے سفر کریں نہ کہ ہوائی جہاز سے سفر کریں اور اس کی ٹکٹ کے لئے صدقات واجبہ سے خرچ نہ کریں ہاں ہوائی جہاز سے سفر جائز ہے لیکن وہ دوسرے فنڈ سے کریں یعنی صدقات واجبہ کے علاوہ سے اور جس مدرسہ کو اس کی سخت ضرورت اور حاجت ہے وہاں صرف علم دین کے لئے حیلہ شرعی جائز ہے نہ کہ دنیاوی علوم سیکھنے کے لئے حیلہ شرعی کرکے صدقات واجبہ خرچ کریں جیسا کہ حضور شرح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ :
(1) زکوۃ غیر مصارف کو دینے کے لئے حیلہ شرعی لازم ہے لیکن دنیاوی کام کے لئے نہیں صرف دینی کام کے لئے وقت ضرورت حیلہ شرعی کی اجازت ہے حضور شرح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ۔بلا ضرورت شرعیہ زکوۃ و فطرے کی رقم مستحقین کے علاوہ میں صرف کرنا سخت مذموم ہے
(2) اور حیلہ شرعی اس وقت کیا جائے جب اس غیر مستحق کو اس رقم کی سخت حاجت و ضرورت ہے ورنہ اجازت نہیں ہے اور مدرسہ کو ضرورت و حاجت ہونے پر حیلہ شرعی کرکے خرچ کرنے کی اجازت ہے اگر حاجت و ضرورت نہیں ہے تو خواہ مخواہ حیلہ شرعی کا سہارا لے کر مستحقین زکوۃ کی حق تلفی کرنا ہوگا جیسے اسکول کھولنے کے لئے یا مدرسہ میں کمپیوٹر کورس کے لئے کیونکہ یہ دینی کام نہیں ہے اور نہ یہ مدرسہ کی ضروریات میں سے ہے اور نہ اس سے علم دین مراد ہے اور نہ اس سے علم کی دین کی تحفظ ہے کیونکہ کمپییوٹر سے صحیح و غلط دونوں کام بھی ہوتے ہیں چونکہ اس میں جائز وناجائز پروگرام بھی دیکھ سکتے ہیں بلکہ تجربہ ہے کہ دیکھتے اور سنتے بھی ہیں اور نہ یہ علم دین ہے اور نہ علم دین سیکھنے کا ذریعہ ہے اور نہ اس میں کوئی دینی ضرورت داعی ہے ہاں مدرسہ میں کمپیوٹر لگانا جائز ہے لیکن اس کے لئے لوگوں سے چندے کریں نہ کہ صدقات واجبہ سے خریدیں اور نہ اس میں صدقات واجبہ کے رقم کو لگائیں اور چندہ کرنے کے لئے باہر سفر کرنے میں ناجائز خرچ نہ کریں مثلا جہاں ٹرین سے سفر ہوسکتا ہے اور لوگ کرتے بھی ہیں وہاں جانے کے لئے ٹرین سے سفر کریں نہ کہ ہوائی جہاز سے سفر کریں اور اس کی ٹکٹ کے لئے صدقات واجبہ سے خرچ نہ کریں ہاں ہوائی جہاز سے سفر جائز ہے لیکن وہ دوسرے فنڈ سے کریں یعنی صدقات واجبہ کے علاوہ سے اور جس مدرسہ کو اس کی سخت ضرورت اور حاجت ہے وہاں صرف علم دین کے لئے حیلہ شرعی جائز ہے نہ کہ دنیاوی علوم سیکھنے کے لئے حیلہ شرعی کرکے صدقات واجبہ خرچ کریں جیسا کہ حضور شرح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ :
دین کی بقاء دینی مدارس سے ہے اور دینی مدارس کی بقا زکوۃ اور فطرے پر ہے پھر فرماتے ہیں کہ میرے ابتدائی ایام تعلیم میں دینی مدارس کا حال بہت ابتر تھا اعلی سے اعلی مدرسین کی تنخواہ بیس پچیس روپئے تھی مگر مدارس وہ بھی نہیں دے پاتے تھے ۔سال دو سال کی تنخواہیں چڑھ جاتی تھیں ۔دینی مدارس کا چلانا جوئے شیر لانے کے مرادف تھا۔ تو علماء نے بدرجہ مجبوری حیلہ شرعی کرکے زکوۃ و فطرے کی رقم مدارس میں صرف کرنے کی اجازت دی ۔اور آج اسی کی بدولت سب سے آسان کام مدرسہ قائم کرنا اور چلانا ہوگیا ہے۔
(نزہۃالقاری جلد 4ص 190)
(3) حیلہ شرعی میں فقیر غیر مالک نصاب کا قبضہ ملک و ملکیت ضروری ہے اس کے بغیر حیلہ شرعی صحیح نہیں ہے جیسا کہ حضرت بریرہ نے اس گوشت کو لے کر اپنے قبضہ میں رکھی اور اس کے بعد حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کی
سوال ۔ اگر کسی نے بغیر حیلہ شرعی کئے زکوۃ مدرسے میں خرچ کردی یا بغیر حیلہ شرعی کے سے حاصل غلے مطبخ میں کھانا پکاکر بچے کو کھلایا تو کیا حکم ہے ؟
الجواب ۔ اگر کسی نے رقوم زکوۃ و اجناس زکوۃ بغیر حیلہ شرعی کئے مکتب ۔یا مدرسہ یادارالعلوم یا جامعہ میں زکوۃ خرچ کردی تو اب وہ خرچ زکوۃ میں شمار نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ اس صورت میں ادائیگی زکوۃ کی شرائط(یعنی تملیک فقیر مسلم ) موجود پائی نہیں گئی۔ اور جس نے وہ خرچ کیا خواہ تنخواہ مدرسین و ملازمین اور مطبخ میں وہ خرچ کرنے والے کی طرف سے ہوا ۔اس پر وہ گنہگار ہوا اور اس پر توبہ لازم اور اس کے ساتھ اس پر یہ بھی لازم ہے کہ اس تمام رقم کا تاوان دے (اتنی رقم اپنے پاس سے زکوۃ دینے والے کو ادا کرے ) الحاصل بغیر حیلہ شرعی کے خرچ کرنے سے مندرجہ ذیل نقصانات ہوگا
(1) خرچ کرنے والا سخت گنہگار ہوگا
(2) اس پر توبہ لازم ہے اور توبہ کے ساتھ ساتھ حقوق بھی ادا کرنا ہوگا تب توبہ قبول ہوگا
(3) ایسا شخص مستحق عذاب و نار ہوگا
(4) وہ امانت میں خیانت کرنے والا خائن کہلائےگا
(5) جتنے سالوں سے خرچ کرتا ارہا ہے اتنے سالوں کا وہ تمام رقم تاوان میں وہ اپنے پاس سے زکوۃ دینے والے کو واپس کرنا ہوگا تاکہ وہ پھرسے مصارف زکوۃ کو زکاۃ دے دیں اگر واپس نہیں کیا تو اس کی زکوۃ ادا نہ ہوگی اور اس کا وبال خرچ کرنے والے پر ہوگا مثلا ایک ماہ میں ایک کوئیٹل گیہوں بغیر حیلہ شرعی کے خرچ کیا اور اسی طرح تقریبا دس سال خرچ کیا تو ایک سال میں بارہ کوئیٹل گیہوں ہوا اس خرچ کرنے والے کو یہ بارہ کوئنثل گیہوں زکوۃ دینے والے کو دینا ہوگا اگر نقدی دینا چاہتا ہے وہ حساب جوڑ لین مثلا اگر ایک کوئنٹل کا دام 2000ہے تو بارہ کوئیٹل کی قیمت ایک سال میں 24000 روپیہ ہوا اور دس سال تقریبا دو لاکھ چالیس ہزار ہوا اتنا روپئے اپنے پاس سے دینا ہوگا اسی پر چاول ۔سبزی وغیرہ قیاس کرکے حساب بنائیں لاکھوں سے زائد ہو جائے گا وہ زکوۃ دینے والے کو واپس کرنا ہوگا اگر واپس نہیں کیا تو قیامت میں آپ کی نیکیاں اس کو دی جائے گی اور اس کا گناہ آپ کے نامہ اعمال میں کھا جائے گا آپ ایک ایک نیکی کا محتاج بن جائیں گے دنیا و آخرت میں خسارہ ہی خسارا ہوگا اس لئے حقوق اللہ و حقوق العباد ادا کریں پھر صدق دل سے توبہ کریں کہ آئندہ یہ کام نہیں کرونگا اسی طرح نقدی روپیہ کا حساب لگانا ہے کہ کتنا لاکھ واپس کرنا ہوگا اگر واپس نہیں کیا تو اس کی بھرپائی قیامت کے دن کی جائے گی اس کے بدلے آپ کی نیکیاں اسے دی جائین گی اس لئے اس وعید اور نقصان سے بچنے کے لئے یہاں واپس کردی جائیں تانکہ وہ اشخاص بھی مستحقین زکوۃ کو دے کر محفوظ ہو جائیں اور فرض کی ادائیگی کرلیں نہیں تو زکوۃ اس پر باقی رہ جائیں گی
(6) بغیر حیلہ شرعی کئے خرچ کرنے سے کسی کا زکوۃ ۔عشرہ ۔صدقہ فطر ادا نہیں ہوا اسے حقوقِ اللہ و حقوق العباد کے عذاب میں وہ گرفتار ہوگا چونکہ زکوۃ دینے والے کی زکوۃ کی ادائیگی نہیں ہوئی اس لئے وہ گنہگار ہے اور جس شخص کو معلوم ہے کہ فلاں مدرسہ میں بغیر حیلہ شرعی کے صدقات واجبہ خرچ کیا جاتا اس میں زکوۃ و فطرے یعنی تمام صدقات واجبہ دینا جائز نہیں اگر معلوم ہونے کے باوجود دیا تو دینے والا بھی گنہگار ہوگا
اراکین مدرسہ یا مدرسہ کا مال رکھنے اور خرچ کرنے والے کا یہ بہانا بنانا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے اس لئے حیلہ شرعی نہیں کیا تو یہ عذر شرعی نہیں ہے کیونکہ علم دین سیکھنا فرض ہے کیوں نہیں سیکھا حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۔مسائل واجب کا سیکھنا واجب واجب کہ جب تک علم نہ ہو عمل کیونکر ۔اور جب واجب کو ترک کرے گا گنہگار ہوگا اور سنت کا سیکھنا سنت ( فتاوی امجدیہ ج 4ص 52) لہذا ہر مسلمان کو بقدر ضرورت علم سیکھنا ہوگا جتنا سے فرض و واجب کا ترک نہ ہو اور حرام سے بچے اسی لئے علماء فرماتے ہیں کہ ۔عالم کا ایک گناہ ایک ہی گناہ ہوگا اور جاہل کا ایک گناہ دوگنا گناہ ہوگا ایک گناہ علم نہ سیکھنے کا اور دوسرا گناہ عمل نہ کرنے کا یعنی گناہ کرنے کا
(7) مدرسین کو بھی گناہ ہوگا اگر جس مدرسہ میں باضبطہ حیلہ شرعی کا کام نہ ہوتا ہے وہاں کی نوکری سے استعفی دےدیں تاکہ ائندہ گناہ سے بچ جائے اس حدیث شریف کو غور سے پڑھیں اور عمل کریں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔ترک ذرۃ مما نھی اللہ عنہ افضل من عبادک الثقلین یعنی ایک ذرہ ممنوع شرعی کا چھوڑ دینا جن و انس کی عبادت سے افضل ہے یاد رکھیں کہ (مدرسہ ) : :: !مدرسہ کھول لینا ۔جاگیری بچے رکھ لینا ۔زکوۃ ۔عشرہ فطرہ وصول کرکے بغیر حیلہ شرعی کئے خرچ کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ مدرسہ کھولنا بہت بڑی نیکی ہے ملت اسلامیہ پر مدارس دینیہ کا احسان عظیم ہے کہ آج مسلمان کسی حد تک اسلام کے اصول و فروع سے واقفیت رکھتا ہے آج مدرسہ اہل سنت تمام ذرائع میں ایک واحد ذریعہ ہے کہ اس کی علمی فروغ کی وجہ سے مسلمانوں کے عمل و عقائد بحمدہ تعالیٰ محفوظ ہیں لیکن یہ سب کام ایک دینی اصول کے تحت کرنا چاہئے
سوال ۔یہ بات مشہور ہے کہ جو مدرس یا محصل مدرسہ کے لئے زکوۃ و فطرہ کی وصولی کے لئے ممبئی یا دہلی وغیرہ شہروں میں جاتے ہیں وہ عامل ہے اسے اس رقم سے خرچ کی اجازت ہے ؟
جواب ۔وہ وہ عامل نہیں ہے جس کو وقت حاجت زکوۃ دینا جائز ہے بلکہ وہ وکیل ہے اور اسے جائز نہیں ہے ۔فتاوی فقیہ ملت میں ہے کہ: جہان حاکم اسلام نہ ہو وہاں مدارس عربیہ کے ذمہ داران حاکم اسلام نہیں قرار دیئے جائیں گے اور نہ ان کے مقرر کرنے سے زکوۃ وغیرہ وصول کرنے والے عالم ہوں گے بلکہ ایسی جگہ میں ضلع کا سب سے بڑا سنی صحیح العقیدہ عالم اس کے قائم مقام ہے ۔لہذا وہ وکیل ہوتے ہیں اور انہیں اجازت نہیں بلکہ بلا تملیک حق المحنت لیں ۔یا زائد لے کر بعد میں اپنی تنخواہ سے مدرسہ کو وضع کرائیں اگر ایسا کرتے ہیں تو یہ خیانت ہوگی جو حرام ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔یایھا الذین آمنوا لاتخونوا للہ والرسول و تخونوا امنتکم وانتم تعلمون یعنی اے ایمان والوں آللہ و رسول سے دغا نہ کرو اور نہ امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کرو (پارہ سورہ انفال آیت 27) اور اس طرح کرنے سے زکوۃ بھی ادا نہیں ہوگی بلکہ انہیں زکاۃ دینے والوں کو تاوان دینا ہوگا
حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں۔:اگر وکیل نے پہلے اس روپیہ کو خود خرچ کر ڈالا بعد کو اپنا روپیہ زکاۃ میں دیا تو زکوۃ ادا نہ ہوئی بلکہ یہ تبرع ہے اور موکل (زکاۃ دینے والے )کو وہ تاوان دے گا ( بہار شریعت جلد پنجم ص 23)
لہذا چندہ وصول کرنے والے پر لازم ہے کہ اپنا خاص روپیہ یا جن روپیون کو شرعاً تصرف کرنے کی اجازت حاصل ہے انہیں اپنی ضروریات میں خرچ کریں اور چندہ کے سب روپئے مدرسہ میں جمع کریں پھر بعد تملیک جو حق المحنت انہیں ملے اسے اپنے خرچ میں لائین (فتاوی فقیہ ملت ج اول ص 327) اس سے واضح ہوا کہ جو مدرس یا محصل چندہ کرنے علاقہ یا باہر میں جاتے ہیں یا اپنے ہی گاؤں میں کرتے ہیں یعنی جہاں کریں
وہ عامل نہیں بلکہ وکیل ہے اسے اس روپیہ سے گھر کا سامان یا اپنے لئے سامان خریدنا و اپنی ذات پر خرچ کرنا اس نیت سے کہ میں تنخواہ میں کٹوالونگا یا کمیشن میں منہا کرونگا کہ سب ناجائز و حرام ہے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
(3) حیلہ شرعی میں فقیر غیر مالک نصاب کا قبضہ ملک و ملکیت ضروری ہے اس کے بغیر حیلہ شرعی صحیح نہیں ہے جیسا کہ حضرت بریرہ نے اس گوشت کو لے کر اپنے قبضہ میں رکھی اور اس کے بعد حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کی
سوال ۔ اگر کسی نے بغیر حیلہ شرعی کئے زکوۃ مدرسے میں خرچ کردی یا بغیر حیلہ شرعی کے سے حاصل غلے مطبخ میں کھانا پکاکر بچے کو کھلایا تو کیا حکم ہے ؟
الجواب ۔ اگر کسی نے رقوم زکوۃ و اجناس زکوۃ بغیر حیلہ شرعی کئے مکتب ۔یا مدرسہ یادارالعلوم یا جامعہ میں زکوۃ خرچ کردی تو اب وہ خرچ زکوۃ میں شمار نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ اس صورت میں ادائیگی زکوۃ کی شرائط(یعنی تملیک فقیر مسلم ) موجود پائی نہیں گئی۔ اور جس نے وہ خرچ کیا خواہ تنخواہ مدرسین و ملازمین اور مطبخ میں وہ خرچ کرنے والے کی طرف سے ہوا ۔اس پر وہ گنہگار ہوا اور اس پر توبہ لازم اور اس کے ساتھ اس پر یہ بھی لازم ہے کہ اس تمام رقم کا تاوان دے (اتنی رقم اپنے پاس سے زکوۃ دینے والے کو ادا کرے ) الحاصل بغیر حیلہ شرعی کے خرچ کرنے سے مندرجہ ذیل نقصانات ہوگا
(1) خرچ کرنے والا سخت گنہگار ہوگا
(2) اس پر توبہ لازم ہے اور توبہ کے ساتھ ساتھ حقوق بھی ادا کرنا ہوگا تب توبہ قبول ہوگا
(3) ایسا شخص مستحق عذاب و نار ہوگا
(4) وہ امانت میں خیانت کرنے والا خائن کہلائےگا
(5) جتنے سالوں سے خرچ کرتا ارہا ہے اتنے سالوں کا وہ تمام رقم تاوان میں وہ اپنے پاس سے زکوۃ دینے والے کو واپس کرنا ہوگا تاکہ وہ پھرسے مصارف زکوۃ کو زکاۃ دے دیں اگر واپس نہیں کیا تو اس کی زکوۃ ادا نہ ہوگی اور اس کا وبال خرچ کرنے والے پر ہوگا مثلا ایک ماہ میں ایک کوئیٹل گیہوں بغیر حیلہ شرعی کے خرچ کیا اور اسی طرح تقریبا دس سال خرچ کیا تو ایک سال میں بارہ کوئیٹل گیہوں ہوا اس خرچ کرنے والے کو یہ بارہ کوئنثل گیہوں زکوۃ دینے والے کو دینا ہوگا اگر نقدی دینا چاہتا ہے وہ حساب جوڑ لین مثلا اگر ایک کوئنٹل کا دام 2000ہے تو بارہ کوئیٹل کی قیمت ایک سال میں 24000 روپیہ ہوا اور دس سال تقریبا دو لاکھ چالیس ہزار ہوا اتنا روپئے اپنے پاس سے دینا ہوگا اسی پر چاول ۔سبزی وغیرہ قیاس کرکے حساب بنائیں لاکھوں سے زائد ہو جائے گا وہ زکوۃ دینے والے کو واپس کرنا ہوگا اگر واپس نہیں کیا تو قیامت میں آپ کی نیکیاں اس کو دی جائے گی اور اس کا گناہ آپ کے نامہ اعمال میں کھا جائے گا آپ ایک ایک نیکی کا محتاج بن جائیں گے دنیا و آخرت میں خسارہ ہی خسارا ہوگا اس لئے حقوق اللہ و حقوق العباد ادا کریں پھر صدق دل سے توبہ کریں کہ آئندہ یہ کام نہیں کرونگا اسی طرح نقدی روپیہ کا حساب لگانا ہے کہ کتنا لاکھ واپس کرنا ہوگا اگر واپس نہیں کیا تو اس کی بھرپائی قیامت کے دن کی جائے گی اس کے بدلے آپ کی نیکیاں اسے دی جائین گی اس لئے اس وعید اور نقصان سے بچنے کے لئے یہاں واپس کردی جائیں تانکہ وہ اشخاص بھی مستحقین زکوۃ کو دے کر محفوظ ہو جائیں اور فرض کی ادائیگی کرلیں نہیں تو زکوۃ اس پر باقی رہ جائیں گی
(6) بغیر حیلہ شرعی کئے خرچ کرنے سے کسی کا زکوۃ ۔عشرہ ۔صدقہ فطر ادا نہیں ہوا اسے حقوقِ اللہ و حقوق العباد کے عذاب میں وہ گرفتار ہوگا چونکہ زکوۃ دینے والے کی زکوۃ کی ادائیگی نہیں ہوئی اس لئے وہ گنہگار ہے اور جس شخص کو معلوم ہے کہ فلاں مدرسہ میں بغیر حیلہ شرعی کے صدقات واجبہ خرچ کیا جاتا اس میں زکوۃ و فطرے یعنی تمام صدقات واجبہ دینا جائز نہیں اگر معلوم ہونے کے باوجود دیا تو دینے والا بھی گنہگار ہوگا
اراکین مدرسہ یا مدرسہ کا مال رکھنے اور خرچ کرنے والے کا یہ بہانا بنانا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے اس لئے حیلہ شرعی نہیں کیا تو یہ عذر شرعی نہیں ہے کیونکہ علم دین سیکھنا فرض ہے کیوں نہیں سیکھا حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۔مسائل واجب کا سیکھنا واجب واجب کہ جب تک علم نہ ہو عمل کیونکر ۔اور جب واجب کو ترک کرے گا گنہگار ہوگا اور سنت کا سیکھنا سنت ( فتاوی امجدیہ ج 4ص 52) لہذا ہر مسلمان کو بقدر ضرورت علم سیکھنا ہوگا جتنا سے فرض و واجب کا ترک نہ ہو اور حرام سے بچے اسی لئے علماء فرماتے ہیں کہ ۔عالم کا ایک گناہ ایک ہی گناہ ہوگا اور جاہل کا ایک گناہ دوگنا گناہ ہوگا ایک گناہ علم نہ سیکھنے کا اور دوسرا گناہ عمل نہ کرنے کا یعنی گناہ کرنے کا
(7) مدرسین کو بھی گناہ ہوگا اگر جس مدرسہ میں باضبطہ حیلہ شرعی کا کام نہ ہوتا ہے وہاں کی نوکری سے استعفی دےدیں تاکہ ائندہ گناہ سے بچ جائے اس حدیث شریف کو غور سے پڑھیں اور عمل کریں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔ترک ذرۃ مما نھی اللہ عنہ افضل من عبادک الثقلین یعنی ایک ذرہ ممنوع شرعی کا چھوڑ دینا جن و انس کی عبادت سے افضل ہے یاد رکھیں کہ (مدرسہ ) : :: !مدرسہ کھول لینا ۔جاگیری بچے رکھ لینا ۔زکوۃ ۔عشرہ فطرہ وصول کرکے بغیر حیلہ شرعی کئے خرچ کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ مدرسہ کھولنا بہت بڑی نیکی ہے ملت اسلامیہ پر مدارس دینیہ کا احسان عظیم ہے کہ آج مسلمان کسی حد تک اسلام کے اصول و فروع سے واقفیت رکھتا ہے آج مدرسہ اہل سنت تمام ذرائع میں ایک واحد ذریعہ ہے کہ اس کی علمی فروغ کی وجہ سے مسلمانوں کے عمل و عقائد بحمدہ تعالیٰ محفوظ ہیں لیکن یہ سب کام ایک دینی اصول کے تحت کرنا چاہئے
سوال ۔یہ بات مشہور ہے کہ جو مدرس یا محصل مدرسہ کے لئے زکوۃ و فطرہ کی وصولی کے لئے ممبئی یا دہلی وغیرہ شہروں میں جاتے ہیں وہ عامل ہے اسے اس رقم سے خرچ کی اجازت ہے ؟
جواب ۔وہ وہ عامل نہیں ہے جس کو وقت حاجت زکوۃ دینا جائز ہے بلکہ وہ وکیل ہے اور اسے جائز نہیں ہے ۔فتاوی فقیہ ملت میں ہے کہ: جہان حاکم اسلام نہ ہو وہاں مدارس عربیہ کے ذمہ داران حاکم اسلام نہیں قرار دیئے جائیں گے اور نہ ان کے مقرر کرنے سے زکوۃ وغیرہ وصول کرنے والے عالم ہوں گے بلکہ ایسی جگہ میں ضلع کا سب سے بڑا سنی صحیح العقیدہ عالم اس کے قائم مقام ہے ۔لہذا وہ وکیل ہوتے ہیں اور انہیں اجازت نہیں بلکہ بلا تملیک حق المحنت لیں ۔یا زائد لے کر بعد میں اپنی تنخواہ سے مدرسہ کو وضع کرائیں اگر ایسا کرتے ہیں تو یہ خیانت ہوگی جو حرام ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔یایھا الذین آمنوا لاتخونوا للہ والرسول و تخونوا امنتکم وانتم تعلمون یعنی اے ایمان والوں آللہ و رسول سے دغا نہ کرو اور نہ امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت کرو (پارہ سورہ انفال آیت 27) اور اس طرح کرنے سے زکوۃ بھی ادا نہیں ہوگی بلکہ انہیں زکاۃ دینے والوں کو تاوان دینا ہوگا
حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں۔:اگر وکیل نے پہلے اس روپیہ کو خود خرچ کر ڈالا بعد کو اپنا روپیہ زکاۃ میں دیا تو زکوۃ ادا نہ ہوئی بلکہ یہ تبرع ہے اور موکل (زکاۃ دینے والے )کو وہ تاوان دے گا ( بہار شریعت جلد پنجم ص 23)
لہذا چندہ وصول کرنے والے پر لازم ہے کہ اپنا خاص روپیہ یا جن روپیون کو شرعاً تصرف کرنے کی اجازت حاصل ہے انہیں اپنی ضروریات میں خرچ کریں اور چندہ کے سب روپئے مدرسہ میں جمع کریں پھر بعد تملیک جو حق المحنت انہیں ملے اسے اپنے خرچ میں لائین (فتاوی فقیہ ملت ج اول ص 327) اس سے واضح ہوا کہ جو مدرس یا محصل چندہ کرنے علاقہ یا باہر میں جاتے ہیں یا اپنے ہی گاؤں میں کرتے ہیں یعنی جہاں کریں
وہ عامل نہیں بلکہ وکیل ہے اسے اس روپیہ سے گھر کا سامان یا اپنے لئے سامان خریدنا و اپنی ذات پر خرچ کرنا اس نیت سے کہ میں تنخواہ میں کٹوالونگا یا کمیشن میں منہا کرونگا کہ سب ناجائز و حرام ہے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
27 رمضان المبارک 1443
بمطابق 29 اپریل 2022
پیش کردہ:-محمد محب اللہ خاں
ناظم اعلی:- مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک مہسول۔سیتامڑھی بہار
بانی:-تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی دارالعلوم امجدیہ ثناءالمصطفی مرپاشریف مرپاوی سیتا مڑھی بہار مورخہ 30 رمضان المبارک 1443
بواسطہ ۔۔تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی دارالعلوم امجدیہ ثناءالمصطفی مرپاشریف
سربراہ اعلی:-حضور تاج السنہ ولی ابن ولی خطیب عرب و ایشیاء حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان بریلوی شریف
نائب گدی نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ بریلی شریف
صدر رکن ۔شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی شہر ممبئی مصنف تصانیف کثیرہ حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی صاحب
رکن اکیڈمی ۔ماہر درس وتدریس خطیب باکمال مقررشیریں بیان ساحراللسان حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ صاحب بریلوی
رکن اکیڈمی ۔حضرت علامہ مفتی عبد الغفار صاحب نوری صدرالمدرسین مدرسہ ھذا
رکن اکیڈمی۔ استادالعلماء ناشر مسلک اعلی حضرت ماہر چترودی حضرت علامہ مولانا محمد جمیل اختر صاحب مصباحی
ناظم اعلی ۔دارالعلوم ھذا
رکن اکیڈمی:- ماہر علم وسخن ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد جنید رضا مصباحی بیتاہی فی الوقت ناسک
27 رمضان المبارک 1443
بمطابق 29 اپریل 2022
پیش کردہ:-محمد محب اللہ خاں
ناظم اعلی:- مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک مہسول۔سیتامڑھی بہار
بانی:-تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی دارالعلوم امجدیہ ثناءالمصطفی مرپاشریف مرپاوی سیتا مڑھی بہار مورخہ 30 رمضان المبارک 1443
بواسطہ ۔۔تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی دارالعلوم امجدیہ ثناءالمصطفی مرپاشریف
سربراہ اعلی:-حضور تاج السنہ ولی ابن ولی خطیب عرب و ایشیاء حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان بریلوی شریف
نائب گدی نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ بریلی شریف
صدر رکن ۔شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی شہر ممبئی مصنف تصانیف کثیرہ حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی صاحب
رکن اکیڈمی ۔ماہر درس وتدریس خطیب باکمال مقررشیریں بیان ساحراللسان حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ صاحب بریلوی
رکن اکیڈمی ۔حضرت علامہ مفتی عبد الغفار صاحب نوری صدرالمدرسین مدرسہ ھذا
رکن اکیڈمی۔ استادالعلماء ناشر مسلک اعلی حضرت ماہر چترودی حضرت علامہ مولانا محمد جمیل اختر صاحب مصباحی
ناظم اعلی ۔دارالعلوم ھذا
رکن اکیڈمی:- ماہر علم وسخن ناشر مسلک اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا محمد جنید رضا مصباحی بیتاہی فی الوقت ناسک