Type Here to Get Search Results !

کیا سب مدرسہ میں رقم زکوۃ دے سکتے ہیں؟


سلسلہ وار قسط دوم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆  
(1)مدرسہ میں رقم زکوۃ دینا جائز کیوں نہیں ہے ؟
(2) اور حیلہ شرعی کے بعد دینا کیوں جائز ہوگا؟ اور حیلہ شرعی کے لغوی تعریف کیا ہے ؟
(3) کیا سب مدرسہ میں رقم زکوۃ دے سکتے ہیں؟
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
الجواب  قسط اول میں اس بات کی تفصیل سے گفتگو کی گئی کہ مکتب ومدرسہ دارالعلوم  جاگیری بچے کامطلب کیا ہے اور اس کا لغوی و اصطلاحی معنی کیا ہے اب سوال ہورہا ہے کہ کیا ان مدارس میں صدقات واجبہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ تو صحیح مسئلہ یہی ہے کہ ان میں صدقات واجبہ دو وجوہات کی بنا پر دینا جائز نہیں ہے
(1) ارشاد ربانی کی وجہ سے مکتب مدرسہ دارالعلوم دارالقرات یا مدرسہ بنات یعنی لڑکیوں کا مدرسہ وغیرہ مصارف زکوۃ میں شامل نہیں ہے۔
(2) اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں تملیک کی اہلیت نہیں ہے اور ادائے زکوۃ کے لئے تملیک شرط ہے اور وہ یہاں مفقود ہے اسلئے جائز نہیں ہے اور مصارف زکوۃ جن کا ذکر قرآن میں ذکر ہے وہ سب میں تملیک کی اہلیت ہے اسی لئے اسے براہ راست رقم زکوٰۃ دے کر قبضہ کراسکتے ہیں اور وہ بآسانی قابض ہوجائیں گے ہاں بعد حیلہ شرعی کے دے سکتے ہیں کیونکہ حیلہ شرعی کے بعد اب وہ زکوۃ نہیں رہا بلکہ ھدیہ ہوجاتا ہے جو سب کے لئے حلال ہے حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی چیز پیش کی جاتی تو آپ پوچھتے کیا یہ صدقہ ہے یا ھدیہ یعنی تحفہ ؟اگر لوگ بتاتے کہ یہ صدقہ ہے تو آپ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اسے نہ کھاتے اگر بتاتے کہ تحفہ ہے تو کھالیتے حضور آمین شریعت مفتی عبد الواجد علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ۔اسکول ۔و مدارس ۔میں عیدگاہ و مساجد میں تملیک کہ اہلیت نہیں اور ادائے زکوۃ کے لئے تملیک مسلم شرط ہے لہذا ان عمارتوں میں زکوۃ کی رقم نہیں لگ سکتی ہے ہاں جہاں دینی ضرورت داعی ہو وہاں حیلہ کیا جاسکتا ہے (فتاوی یوروپ ص 283 خیال رہے کہ مدرسہ بنانا مستحب ہے مگر علم دین سیکھنا فرض ہے اور اس کو سیکھنے اور سکھانے کے لئے مدرسہ ایک ذریعہ ہے اس لئے بعد حیلہ شرعی کے اس میں خرچ کرنا جائز ہے ورنہ حرام ہے ہاں براہ راست طلباء جو صاحب نصاب نہ ہوں انہیں دینا جائز ہے لیکن مدرسہ میں براہ راست خرچ کرنا جائز نہیں ہے 
صدقات کے دو اقسام ہیں 
(1) صدقہ واجبہ ۔۔:جیسے زکوۃ ۔عشرہ ۔صدقہ فطر ۔کفارہ ۔نذر شرعی اس کے براہ راست لینے کے متعلق قرآن شریف کی ارشاد سے اٹھ اقسام کے لوگ ہیں اب اس زمانہ میں صرف سات ہیں جو مستحق مصارف زکوۃ ہے اس میں مدارس کا نام کا ذکر نہیں ہے اسی لئے مکتب یا مدرسہ یا دارالعلوم میں دینا جائز نہیں ہے اگر کسی نے غیر مستحق کو دیا تو زکوۃ دینے والے پر ضروری ہے کہ ۔وہ زکوۃ کا اعادہ کریں اور خود مستحق تک پہنچیں ۔اگر کسی نے اراکین مدرسہ یا مدرس کو دیا اور وہ بغیر حیلہ شرعی خرچ کردیا تو جو زکوۃ دی وہ کس گنتی میں نہیں کیونکہ اس کی ادائیگی صرف اس وقت تک صحیح ہوگی جب مستحقین میں سے کسی کو زکوۃ دینے والا زکوۃ کے مال کا مالک بنائے گا اور مذکورہ صورت میں زکوۃ مستحقین تک پہنچی ہی نہیں ناظم مدرسہ بھی صرف زکوۃ کا مال جمع کرسکتا ہے تاکہ ایک ضابطہ (حیلہ شرعی کے بعد )کے تحت مصارف میں خرچ کریں اور حقدار کا حق اس تک پہنچ سکے صدقہ واجبہ غنی کو ہاشمی کو دینا جائز نہیں ہے ۔یہ لوگوں کا میل کچیل ہوتا ہے ۔حدیث شریف میں ہے ان رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قال تحل الصدقۃ لال محمد انما ھی من اوساخ الناس یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ؛ال محمد پر صدقہ حلال نہیں کیونکہ یہ لوگوں کے میل کچیل سے ہے     
۔
(2) صدقہ نافلہ :ہر نیک کام صدقہ نافلہ ہے یعنی صدقات واجبہ جو خود نیکی ہے بلکہ اس کی ادائیگی فرض ہے اور صدقہ نافلہ وہ نیک کام ہے جو ہم سب فرض نہیں ہے اس لیے صدقہ واجبہ کے علاوہ ہر نیک کام صدقہ نافلہ ہے یعنی جس چیز کو خدا تعالیٰ نے بندوں پر واجب فرما دیا یا بندہ منت شرعی مان کر اپنے اوپر لازم کرلیا یہ صدقہ واجبہ ہے یعنی اس کو دینا واجب و فرض ہےحضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجتے وقت حکم دیا تھا کہ وہاں کے لوگوں کو بتانا کہ ان اللہ قد فرض علیھم الصدقۃ توخذ من اغنیائھم و تقسم علی فقرانھم یعنی صدقہ اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کیا ہے جوان کے غنیوں سے لیا جائے گا اور ان کے فقیروں پر تقسیم کیا جائے گا اس کے مصارف صرف سات ہیں اور صدقہ نافلہ بندوں پر واجب و فرض نہیں ہے اس لئے یہ صدقہ نافلہ ہے  
  ۔جیسے چرم قربانی ۔وغیرہ اور نفلی صدقہ طہارت علی الطہارت کہ مانند ہے اس میں کسی قسم کی (گناہوں کی ) گندگی نہیں ہوتی بلکہ اس میں: ھبہ:کا معنی ہوتا ہے اسی لئے اپنی اولادوں کو کھلانا بھی صدقہ ہے کیونکہ یہ بدن کا میل نہیں ہے یہ امیر و غریب سب کے لئے جائز ہے اور مدرسہ وغیرہ سب میں بغیر حیلہ شرعی کے خرچ کرنا بھی جائز ہے 
احکام ۔صدقات واجبہ سے حاصل رقم نہ مدرسہ میں ۔نہ مسجد میں ۔نہ قبرستان میں ۔نہ جلسہ جلوس میں ۔نہ نعتیہ پروگرام میں ۔نہ کسی غنی کو ۔نہ میت کے کفن وغیرہ میں دینا جائز ہے یعنی یہ مستحق زکوہ نہیں ہے جن کو قرآن مجید نے بیان فرمایا ۔انما الصدقات للفقراء والمساکین ۔والعملین علیھا والمولفۃ قلوبھم وفی الرقاب والغارمین و فی سبیل اللہ وابن السبیل فرضیۃ من اللہ واللہ علیم حکیم یعنی زکوۃ تو انہیں لوگوں کے لئے محتاج۔ اور نرےنادار۔ اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت فی جائے اور گردنیں چھڑانے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو ۔یہ ٹھرایا ہوا ہے اللہ کا اور اللہ علم و حکمت والا ہے ۔فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ۔ زکوۃ کے مصارف آٹھ قسم کے لوگ قرار دیئے گئے ہیں ان میں سے :مولفۃالقلوب ؛باجماع صحابہ ساقط ہوگئے کیونکہ جب اللہ تعالٰی نے اسلام کو غلبہ دیا تو اب اس کی حاجت نہ رہی ۔یہ اجماع زمانہ صدیق میں منعقد ہوا تالیف قلوب کے سقوط کے بعد سات مصارف زکوۃ رہ جاتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔(1) فقیر ۔ فقیر وہ ہے جس کے پاس ادنی چیز ہو اور جب تک اس کے پاس ایک وقت کے لئے کچھ ہو اس کو سوال حلال نہیں دوسرے لفظوں میں فقیر وہ شخص کہ جس کے پاس کچھ مال ہو لیکن نصاب کامل بھر نہ ہو ۔اور اسی کو محتاج کہتے ہیں فتاوی رضویہ جلد جدید9ص 599 پر ہے :محتاج جو مالک نصاب نہ ہوشرعا اسے محتاج کہتے ہیں ایک یہ بھی تعریف ہے کہ ۔فقیر وہ ہے جو اپنے گھر میں رہے اور کسی سے سوال نہ کرے جبکہ مسکین وہ ہے جو گھر سے باہر جاکر لوگوں سے سوال کرے ۔ہہ تعریف امام زہری علیہ الرحمہ سے مروی ہے  
(2) مسکین :مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ سوال کرسکتا ہے
ان دونوں کے متعلق ایک اور تعریف ہے کہ ۔فقیر وہ ہے جس کے پاس مال نہ ہو لیکن عزیز و اقارب ہوں ۔اور مسکین وہ ہے جس کے پاس مال نہ ہو اور نہ ہی خویش و اقارب ہوں ۔یہ تعریف حضرت مجاہد سے مروی ہے بہار شریعت میں ہے کہ مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یہاں تک کہ کھانے اور بدن چھپانے کے لئے اس کا محتاج ہے کہ لوگوں سے سوال کرے اور اسے سوال حلال ہے ۔مگر فقیر کو سوال ناجائز کہ جس کے پاس کھانے اور بدن چھپانے کو ہو اسے بغیر ضرورت و مجبوری سوال حرام ہے 
(3) عاملین (4)رقاب (5): مدیون یعنی جس پر قرض ہوں (6) فی سبیل اللہ (7) ابن سبیل 
قرآن شریف کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ مدرسہ مصارف زکوۃ میں سے نہیں ہے ہاں علماء کرام نے فی سبیل اللہ میں طلباء بھی مراد لیا ہے فتاوی رضویہ میں ہے کہ ۔فی سبیل اللہ ھو منقطع الغزاوۃ وقیل الحاج وقیل طلبۃ العلم خصوصا یعنی فی سبیل اللہ سے مراد وہ غازی ہیں جن کے پاس خرچہ واسلحہ نہ ہو۔ بعض نے کہا حاجی اور بصض نے کہا اس سے خصوصا طالب علم مراد ہیں (جلد جدید 10ص306) یہاں طلباء سے مراد دینی علم حاصل کرنے والے ہیں نہ کہ دنیاوی علوم حاصل کرنے والے اور نہ صرف جاگیری بچے مراد ہے بلکہ جاگیری و غیر جاگیری تمام مرادیں ہیں حضور سیدی سرکار اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :طلباء صاحب نصاب نہ ہوں انہیں زکوۃ دی جاسکتی ہے جبکہ وہ طلباء علم دین بطور دین پڑھتے ہوں (فتاوی رضویہ جلد جدید 10ص 252)۔ اور فتاوی فیض رسول میں ہے کہ :غرباء و مساکین جو علم دین حاصل کرتے ہیں ان کو دینے میں ایک کے بدلہ کم سے کم سات سو کا ثواب ہے (جلد اول ص 486) اس سے معلوم ہوا کہ جو طلباء صاحب نصاب نہیں ہوں انہیں براہ راست زکوۃ دینے میں زیادہ ثواب ہے دوسری بات معلوم ہوئی کہ علم دین حاصل کرنے والے طلباء کا جاگیری بچہ ہونا ضروری شرط نہیں ہے خواہ۔ وہ طلباء مکتب میں یا مدرسہ میں یا دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرتا ہوں یا مدرسہ کے مطبخ میں یا اپنے جیب خاص سے ہوٹل میں یا اپنے کمرہ میں بناکر کھاتا ہے یا اپنے والدین کے گھر میں کھاتا ہو یا کسی محلہ والے کے گھر میں کھاتا ہو یا کہی مسجد میں امامت کرکے کھاتا ہوں یہ سب طلباء مراد ہے اسی طرح فقیر جاہل سے افضل ہے فقیر عالم کو دینا اگر فقیر عالم ہو ان کو دینافقیر جاہل سے بہتر ہے فتاوی عالمگیری میں ہے کہ التصدق علی الفقیر العالم افضل من التصدق علی الجاھل یعنی فقیر عالم پر تصدق فقیر جاہل سے افضل ہے اور معراج میں ہے کہ التصدق علی عالم الفقراء افضل یعنی فقیر عالم پر صدقہ کرنا افضل ہے مگر عالم کو دے تو اس کا لحاظ رکھے کہ ان کا اعزاز مدنظر ہو ادب کے ساتھ دے جیسے چھوٹے بڑوں کو نذر دیتے ہیں اور معاذ اللہ عالم دین کی حقارت سے اگر قلب میں آئی تو یہ ہلاکت اور بہت سخت ہلاکت ہے ہاں بعد حیلہ شرعی مکتب مدرسہ دارالعلوم میں دینا جائز ہے خواہ اس میں جاگیری بچے ہوں یا نہ ہوں اگر کسی نے زکوۃ ناظم یا مدرس یا وصول کرنے والے حوالے کردی تو اس کی ادائیگی اس وقت معتبر ہوگی جب حیلہ شرعی کرلیا جائے اگر بغیر حیلہ شرعی مدرسہ میں خرچ کیا تو اس کی ادائیگی معتبر نہیں ہوگی اور دوبارہ زکوۃ دینے کا پابند ہوگا کہ وہ اس فریضہ سے سبکدوش ہو  
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 28 رمضان المبارک 1444
بمطابق 30 اپریل 2022)
پیش کردہ عالی جناب محمد محب اللہ خان ناظم اعلی مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ اذاد چوک سیتامڑھی بہار 
از قلم حضور مفتی اعظم بہار مصباح ملت حضرت مولانا مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار 
بانی تحقیق مسائل جدیدہ نے اکیڈمی دارالعلوم امجدیہ ثناءالمصطفی مرپاشریف و خانقاہ ثنائیہ مرپا شریف 
مورخہ 29 رمضان المبارک 1443

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area