کہانی ذوالنورین کی
از: مفتی ڈاکٹر محمد سبطین رضا مرتضوی
از: مفتی ڈاکٹر محمد سبطین رضا مرتضوی
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ازل سے ابد تک پھیلی کائنات کی وسعتوں میں جہاں ستارے کہکشاؤں کے جھرمٹ میں رقصاں ہیں اور وقت کی رَو خاموشی سے اپنی ابدی مسافت طے کر رہی ہے کچھ ایسی درخشندہ ہستیاں بھی وجود پاتی ہیں جن کی ضیاء پاشی زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو کر ہر دل کو منور کرتی ہے۔ اسلامی تاریخ کے دشت عرفان میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی ایک ایسے ہی لافانی ستارے کی مانند چمکتا ہے۔ ایک ایسا چراغ جو محض روشنی نہیں بکھیرتا بلکہ حیا کی عطر بیزی، سخاوت کے بے کراں دریاؤں اور نور بصیرت کی گہرائیوں سے عبارت ہے۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جو صرف تاریخ کے اوراق تک محدود نہیں بلکہ ہر اس دل میں زندہ ہے جو تقویٰ، ایثار اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حلاوت سے آشنا ہے۔
سوچئے! ایک ایسے خوش نصیب کا تصور کیجیے جسے کائنات کے سردار، فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ہی جنت کی ابدی بشارت سے سرفراز فرمایا ہو! وہ ’’عشرۂ مبشرہ‘‘ کے حسین جھرمٹ کا ایک درخشاں گوہر تھے، وہ دس نفوس قدسیہ جن کے قدموں تلے جنت کی زمین بچھائی جا چکی تھی۔ ان کا نسب چھٹی پشت میں سید الانبیاء، خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا تھا، جو محض خاندانی شرف نہیں بلکہ روحانی قربت کا ایک ایسا اٹوٹ رشتہ تھا جو انہیں رفعت کی ان بلندیوں تک لے گیا جہاں پہنچنے کی آرزو ہر قلب سلیم میں موجزن ہے۔ وہ قریش کے بنو امیہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، ایک ایسا قبیلہ جو عرب کی ریتلی سرزمین پر علم و فہم کی قندیلیں روشن کیے ہوئے تھا، جہاں سیاسی بصیرت اور تدبر کے چرچے عام تھے۔ لیکن حضرت عثمان کی شخصیت ان مادی تعارفات سے کہیں بلند تھی، وہ تو سراپا نور تھے، ایک ایسا نور جو انہیں ایک ابدی اور منفرد مقام عطا کرنے والا تھا۔ ان کی حیات مبارکہ، اپنے تمام تر جلال اور کمال کے ساتھ انسانیت کے لیے ہمیشہ ایک روشن مینار رہے گی۔
آپ کے تجارتی قافلے شام، یمن اور حبشہ تک جاتے تھے۔ آپ کی دولت محض دکھاوے یا عیش و عشرت کے لیے نہیں تھی بلکہ آپ اسے ہمیشہ نیکی کے کاموں میں صرف کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ لوگوں میں آپ کی نیک نامی اور حسن اخلاق کا چرچا تھا۔ آپ کی شخصیت میں ایک فطری حیا اور وقار تھا جو ہر ملنے والے کو متاثر کرتا تھا۔ شرک و بت پرستی کے اس دور میں بھی آپ کو کبھی کسی برائی میں ملوث نہیں دیکھا گیا۔ آپ معاشرتی رشتوں کا پاس رکھنے والے اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے والے فرد کے طور پر جانے جاتے تھے۔ یہ آپ کی شخصیت کی پختگی اور روحانی پاکیزگی کا ثبوت تھا کہ جب اسلام کی روشنی مکہ کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں پھوٹنے لگی تو آپ نے اسے فوراً پہچان لیا۔
آپ نے دین کی خاطر بے مثال قربانیاں دیں، یہاں تک کہ اپنے وطن کو بھی ترک کرنے سے گریز نہیں کیا۔ آپ ہجرت حبشہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شامل تھے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے راہ حق میں ہر قسم کی مشقتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ پہلی ہجرت حبشہ (5 نبوی) میں آپ اپنی زوجہ محترمہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شریک تھے۔ یہ ایک مشکل سفر تھا جہاں مال و متاع کو قربان کر کے اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ اس ہجرت کا مقصد کفار مکہ کے ظلم و ستم سے بچ کر ایک پرامن جگہ تلاش کرنا تھا جہاں آزادانہ طور پر دین کی عبادتیں کرسکیں۔ جب یہ خبر پھیلی کہ مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کم ہو گیا ہے تو کچھ صحابہ واپس لوٹ آئے، لیکن جب حالات دوبارہ خراب ہوئے تو دوسری ہجرت حبشہ (7 نبوی) میں بھی آپ نے شرکت کی۔ یہ سب حضرت عثمان کے ایمان کی مضبوطی اور دین کے لیے بے پناہ لگن کا مظہر تھا۔
اور پھر آپ کی ذات کو وہ لازوال شرف حاصل ہوا کہ آپ کو ’’ذو النورین‘‘ یعنی دو نوروں والا کہا جانے لگا۔ یہ لقب آپ کو اس لیے عطا ہوا کہ آپ نے ایک کے بعد ایک اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا۔ پہلے آپ کی شادی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی، جن سے آپ کا ایک بیٹا عبداللہ پیدا ہوا، لیکن وہ بچپن میں ہی وفات پا گئے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت رقیہ بیمار ہوئیں اور آپ ان کی تیمارداری میں مصروف رہنے کی وجہ سے غزوہ میں شریک نہ ہو سکے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غازیوں میں شمار کیا اور ان کے لیے غنیمت کا حصہ بھی مقرر فرمایا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی غمگساری کا احساس ہوا اور آپ نے اپنی دوسری صاحبزادی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی آپ سے کر دیا۔ یہ ایسا اعزاز ہے جو تاریخ انسانی میں کسی دوسرے شخص کو میسر نہ آ سکا اور قیامت تک آپ کی عظمت، دین اسلام سے آپ کی گہری وابستگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے قرب و محبت کی دلیل رہے گا۔ یہ صرف ازدواجی رشتہ ہی نہیں تھا بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آپ پر مکمل اعتماد اور خاص شفقت کا اظہار بھی تھا۔ اس لقب نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ایسی منفرد پہچان دی جو ان کی ہستی کو ہمیشہ کے لیے روشن کر دی۔ یہ نور دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کا نور تھا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان کے مقدر میں لکھا تھا۔
اس کا ایک خوبصورت اور لازوال ثبوت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ملتا ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران مبارک کھلی ہوئی تھی، اسی اثنا میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں بیٹھے رہے (یعنی ران مبارک نہیں ڈھانپی) پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر بھی اسی حالت میں بیٹھے رہے، لیکن جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اندر تشریف لائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اپنی ران مبارک ڈھانپ لی، بعد میں جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں؟‘‘۔ [مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، رقم الحدیث:۶۲۰۹] یہ حدیث اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیا کا درجہ کتنا بلند تھا ۔
ایک اور مشہور واقعہ بئر رومہ (رومہ کنواں) کا ہے۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو میٹھے پانی کی شدید قلت کا سامنا تھا، کیونکہ شہر میں میٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا جس پر ایک یہودی کا قبضہ تھا اور وہ مہنگے داموں پانی فروخت کرتا تھا۔ مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا، اس کے لیے جنت میں ایک کنواں ہو گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فوراً اس پیشکش پر لبیک کہا۔ انہوں نے یہ کنواں اس یہودی سے بڑی بھاری قیمت (بتیس ہزار درہم) میں خریدا اور اسے مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ تھا جس نے اس وقت کی شدید ضرورت کو پورا کیا اور آج بھی اس کی اہمیت برقرار ہے۔ آج بھی سعودی عرب میں حضرت عثمان کے نام پر یہ کنواں وقف چلا آ رہا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حضرت عثمان کے نام پر قائم ایک بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے جس سے فلاحی کام کیے جاتے ہیں اور وہاں کے ایک کھجور کے باغ کو بھی اسی آمدنی سے سیراب کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ، آپ نے مسجد نبوی کی توسیع کے لیے بے پناہ مال خرچ کیا۔ جب جگہ کی تنگی محسوس ہوئی اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے مسجد میں جگہ کم پڑنے لگی تو آپ نے اپنے مال سے ملحقہ اراضی خریدی اور اسے مسجد میں شامل کر دیا۔ آپ نے کئی ہزار غلاموں کو آزاد کر کے جنت میں اپنے لیے اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ دن رات راہ خدا میں خرچ کرنے میں لگے رہتے اور اس میں کوئی بخل نہ کرتے۔ آپ نے دکھاوے یا شہرت کے لیے کبھی خرچ نہیں کیا بلکہ خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنی دولت کو قربان کرتے رہے۔ آپ کا یہ عمل مالی ایثار کی ایک عظیم مثال ہے جو ہر دور کے مالدار افراد کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ دولت کو کیسے اللہ کی رضا کے لیے استعمال کیا جائے۔
افریقہ: آپ کے دور میں افریقہ کا ایک بڑا حصہ فتح ہوا، جس میں شمالی افریقہ کے اہم علاقے تونس، الجزائر اور لیبیا شامل تھے۔ مشہور جرنیل حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے اس مہم میں نمایاں کردار ادا کیا۔
خراسان اور وسطی ایشیا: مشرق کی جانب خراسان (موجودہ ایران، افغانستان کے کچھ حصے) مکمل طور پر اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ اس کے علاوہ، سندھ (برصغیر) کے کچھ سرحدی علاقوں تک بھی اسلامی فتوحات کا آغاز ہوا۔
آرمینیا اور آذربائیجان: شمالی علاقوں میں آرمینیا اور آذربائیجان بھی اسلامی فوجوں کے زیر نگین آئے۔
قبرص: سب سے اہم پیش رفت بحری فتوحات کا آغاز تھا۔ آپ کے حکم سے اسلامی تاریخ کا پہلا منظم بحری بیڑہ تیار کیا گیا، جس نے ۲۸؍ ہجری میں قبرص کے جزیرے کو فتح کیا۔ یہ مسلمانوں کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی کیوں کہ اس نے بحیرہ روم میں رومیوں کی بحری بالادستی کو چیلنج کیا اور اسلامی سلطنت کے لیے نئے تجارتی راستے کھولے۔
ان فتوحات نے نہ صرف اسلامی ریاست کو وسیع جغرافیائی وسعت دی بلکہ دین اسلام کو نئے خطوں تک پہنچانے کا بھی ذریعہ بنے۔ یہ حضرت عثمان کی سیاسی بصیرت اور ان کے مقرر کردہ ماہر جرنیلوں کی شجاعت کا نتیجہ تھا کہ اسلامی سلطنت ایک عظیم عالمی طاقت کے طور پر ابھری۔
آپ کے دور خلافت کا سب سے بڑا، سب سے اہم اور امت پر سب سے عظیم احسان قرآن مجید کو ایک مصحف کی صورت میں جمع کرنا اور اسے مختلف علاقوں میں بھجوانا ہے۔ جب اسلامی ریاست دور دراز علاقوں میں پھیل گئی اور مختلف لہجوں اور قرأتوں کی وجہ سے قاریوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوا، تو یہ مسئلہ حضرت عثمان تک پہنچا۔ خاص طور پر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے آرمینیا اور آذربائیجان کی فتوحات کے دوران اس صورتحال کو دیکھا اور اس کی نزاکت سے حضرت عثمان کو آگاہ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ مختلف علاقوں کے مسلمان مختلف لہجوں میں قرآن پڑھ رہے ہیں اور اس سے آپس میں تنازعات پیدا ہو رہے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فوری کارروائی کی۔ آپ نے ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے وہ صحائف طلب کیے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ان کے حکم پر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جمع کیے تھے۔ آپ نے ایک نہایت باصلاحیت اور علمی کمیٹی تشکیل دی جس کا سربراہ آپ نے حضرت زید بن ثابت ہی کو بنایا۔ کمیٹی کے دیگر ارکان میں حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سعید بن العاص اور حضرت عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ قریش کے لہجے (جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا لہجہ تھا) کے مطابق قرآن کو ایک مصحف میں نقل کریں اور اگر کسی لفظ میں اختلاف ہو تو قریش کے لہجے کو ترجیح دی جائے۔
اس کمیٹی نے دن رات ایک کر کے نہایت احتیاط سے قرآن کے متعدد نسخے تیار کیے۔ جب کام مکمل ہو گیا تو آپ نے اس کی متعدد معیاری کاپیاں تیار کروائیں (جو مصاحف عثمانی کہلاتی ہیں)اور انہیں اسلامی مملکت کے بڑے مراکز مثلاً مکہ، کوفہ، بصرہ، دمشق، یمن اور بحرین بھیجا۔ ایک نسخہ اپنے پاس مدینہ میں رکھا گیا۔ ان نسخوں کے ساتھ ایک قاری بھی بھیجا گیا تاکہ وہ لوگوں کو صحیح قرأت سکھا سکے۔ اس کے بعد امت کو مزید تفرقے سے بچانے کے لیے آپ نے باقی تمام شخصی اور غیر معیاری مصاحف کو جلوا دیا جو ان معیاری نسخوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ یہ عظیم الشان کارنامہ قرآن کی حفاظت کو یقینی بنایا اور امت مسلمہ کو ایک قرأت پر جمع کر کے تفرقے کے دروازے بند کر دیے۔ یہ آپ کی دور اندیشی، دین کی بے مثال خدمت اور بصیرت کا ایک لاجواب اور بے مثال نمونہ ہے۔ آج جو قرآن ہمارے پاس ہے وہ انہی مصاحف عثمانی کی نقل ہے، جس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔
امراء اور گورنروں کا تقرر: آپ نے صحابۂ کرام میں سے اہل اور قابل افراد کو مختلف علاقوں کا والی (گورنر) مقرر کیا اور انہیں مکمل خود مختاری دی۔ آپ نے انہیں ہدایت دی کہ وہ عدل و انصاف قائم کریں اور عوام کی شکایات سنیں۔
عدلیہ کی خود مختاری: آپ کے دور میں عدلیہ کو انتظامیہ سے آزاد کر کے مکمل خود مختاری دی گئی تاکہ فیصلے خالصتاً قرآن و سنت کی روشنی میں کیے جاسکیں۔ ہر شہری کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا اور حکمران بھی عدالتی فیصلوں کے پابند تھے۔
بیت المال کا استعمال: آپ نے بیت المال کو ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کیا، جس سے عوام کی فلاح و بہبود میں اضافہ ہوا۔ فوجیوں کی تنخواہیں بڑھائی گئیں اور غریبوں و ضرورت مندوں کے لیے وظائف مقرر کیے گئے۔ نئے شہر آباد کیے گئے، نہریں کھدوائی گئیں اور عمارتیں تعمیر کروائی گئیں۔
پولیس اور فوج کی تنظیم: پولیس اور فوج کے نظام کو مزید منظم کیا گیا تاکہ امن و امان قائم رہے اور سرحدی علاقوں کا دفاع مضبوط ہو۔
آپ کو مشورہ دیا گیا کہ باغیوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے، کیوں کہ صحابۂ کرام کی ایک بڑی تعداد آپ کے دفاع کے لیے تیار تھی، جن میں حضرت امام حسن، حضرت امام حسین، حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔ لیکن آپ نے مسلمانوں کے درمیان خونریزی سے بچنے کے لیے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے اپنے گھر کا محاصرہ ہونے کے باوجود بھی اندر موجود لوگوں کو پانی اور کھانا فراہم کرنے کی اجازت دی، حتیٰ کہ آپ نے اپنے محافظوں کو بھی اس بات کی تاکید کی کہ وہ تلوار نہ اٹھائیں تاکہ کسی مسلمان کا خون نہ بہے۔ پانی کی شدید قلت کے باوجود آپ نے اپنی ذات پر تکلیف برداشت کی مگر مسلمانوں کا خون بہانے سے گریز کیا۔ یہ آپ کی نرمی، امت سے محبت اور اتحادامت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کا وہ عظیم ترین مظاہرہ تھا جو قیامت تک یاد رکھا جائے گا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت محض خلافت کے عہدے تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ اپنی ذات میں اخلاق حسنہ کا ایک مکمل پیکر تھے۔ آپ کی زندگی ایک کامل مسلمان کی بہترین مثال ہے جس میں ایمان کی پختگی، حیا کا اعلیٰ ترین معیار، سخاوت کی انتہا، عدل و انصاف کی پاسداری اور امت کے لیے بے پناہ محبت و شفقت شامل تھی۔ حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ کا وہ روشن ستارہ ہیں جن کی ضیاء پاشی کبھی ماند نہیں پڑے گی اور جو ہمیشہ مسلمانوں کے دلوں کو ایمان و تقویٰ کے نور سے منور کرتی رہے گی۔ جب تک اس دنیا میں نور و حیا کی قدر باقی ہے جب تک ’’کہانی ذوالنورین‘‘ کی ہر دل میں باقی رہے گی۔دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سیرتِ طیبہ سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی قربانی کے پیغام کو ہمیشہ اپنے دلوں میں زندہ رکھنے والا بنائے، آمین! بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
ازل سے ابد تک پھیلی کائنات کی وسعتوں میں جہاں ستارے کہکشاؤں کے جھرمٹ میں رقصاں ہیں اور وقت کی رَو خاموشی سے اپنی ابدی مسافت طے کر رہی ہے کچھ ایسی درخشندہ ہستیاں بھی وجود پاتی ہیں جن کی ضیاء پاشی زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو کر ہر دل کو منور کرتی ہے۔ اسلامی تاریخ کے دشت عرفان میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی ایک ایسے ہی لافانی ستارے کی مانند چمکتا ہے۔ ایک ایسا چراغ جو محض روشنی نہیں بکھیرتا بلکہ حیا کی عطر بیزی، سخاوت کے بے کراں دریاؤں اور نور بصیرت کی گہرائیوں سے عبارت ہے۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جو صرف تاریخ کے اوراق تک محدود نہیں بلکہ ہر اس دل میں زندہ ہے جو تقویٰ، ایثار اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حلاوت سے آشنا ہے۔
سوچئے! ایک ایسے خوش نصیب کا تصور کیجیے جسے کائنات کے سردار، فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ہی جنت کی ابدی بشارت سے سرفراز فرمایا ہو! وہ ’’عشرۂ مبشرہ‘‘ کے حسین جھرمٹ کا ایک درخشاں گوہر تھے، وہ دس نفوس قدسیہ جن کے قدموں تلے جنت کی زمین بچھائی جا چکی تھی۔ ان کا نسب چھٹی پشت میں سید الانبیاء، خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا تھا، جو محض خاندانی شرف نہیں بلکہ روحانی قربت کا ایک ایسا اٹوٹ رشتہ تھا جو انہیں رفعت کی ان بلندیوں تک لے گیا جہاں پہنچنے کی آرزو ہر قلب سلیم میں موجزن ہے۔ وہ قریش کے بنو امیہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، ایک ایسا قبیلہ جو عرب کی ریتلی سرزمین پر علم و فہم کی قندیلیں روشن کیے ہوئے تھا، جہاں سیاسی بصیرت اور تدبر کے چرچے عام تھے۔ لیکن حضرت عثمان کی شخصیت ان مادی تعارفات سے کہیں بلند تھی، وہ تو سراپا نور تھے، ایک ایسا نور جو انہیں ایک ابدی اور منفرد مقام عطا کرنے والا تھا۔ ان کی حیات مبارکہ، اپنے تمام تر جلال اور کمال کے ساتھ انسانیت کے لیے ہمیشہ ایک روشن مینار رہے گی۔
ولادت، ابتدائی زندگی اور قریشی پس منظر:
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے تقریباً چھ سال بعد (576 عیسوی) مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کا تعلق قریش کے معروف قبیلے بنو امیہ سے تھا جو نہ صرف مکہ کے بااثر اور مالدار قبائل میں سے ایک تھا بلکہ علم و فہم، تجارت اور سیاسی تدبر کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا تھا۔ بنو امیہ عرب کے مختلف علاقوں میں تجارتی قافلے بھیجتے۔ ان کی خوشحالی ضرب المثل تھی، حضرت عثمان نے اسی خوشحال اور بااثر ماحول میں آنکھیں کھولی۔ آپ کے والد کا نام عفان بن ابی العاص تھا اور والدہ کا نام ارویٰ بنت کریز تھا۔ بچپن سے ہی حضرت عثمان کی شخصیت میں سادگی، بردباری اور شرافت کے آثار نمایاں تھے۔ آپ کو علم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ آپ قریش میں انگلیوں پر گنے جانے والےان چند افراد میں سے تھے جنہیں لکھنا پڑھنا آتا تھا۔آپ نے جوانی میں ہی تجارت کا پیشہ اختیار کیا اور اپنی دیانت، امانت اور کاروباری بصیرت کی وجہ سے جلد ہی مکہ کے متمول ترین افراد میں شمار ہونے لگے۔آپ کے تجارتی قافلے شام، یمن اور حبشہ تک جاتے تھے۔ آپ کی دولت محض دکھاوے یا عیش و عشرت کے لیے نہیں تھی بلکہ آپ اسے ہمیشہ نیکی کے کاموں میں صرف کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ لوگوں میں آپ کی نیک نامی اور حسن اخلاق کا چرچا تھا۔ آپ کی شخصیت میں ایک فطری حیا اور وقار تھا جو ہر ملنے والے کو متاثر کرتا تھا۔ شرک و بت پرستی کے اس دور میں بھی آپ کو کبھی کسی برائی میں ملوث نہیں دیکھا گیا۔ آپ معاشرتی رشتوں کا پاس رکھنے والے اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے والے فرد کے طور پر جانے جاتے تھے۔ یہ آپ کی شخصیت کی پختگی اور روحانی پاکیزگی کا ثبوت تھا کہ جب اسلام کی روشنی مکہ کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں پھوٹنے لگی تو آپ نے اسے فوراً پہچان لیا۔
آغازاسلام اور ذو النورین کا انمول لقب:
جب مکہ کی سرزمین پر جہالت اور ظلمت کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے، ہر سو کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ تاریکی تھی اور نور اسلام کی کرنیں ابھی پھوٹ ہی رہی تھیں، ایسے پرآشوب دور میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت حق پر بلاجھجک لبیک کہا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کی تعداد مٹھی بھر تھی اور کفار مکہ کا جور و ستم اپنے عروج پر تھا۔ نئے مسلمانوں کو شدید آزمائشوں کا سامنا تھا، ستم گروں کی تلواریں سونتیاں تھیں، سماجی بائیکاٹ کی بیڑیاں تھیں اور مالی نقصانات کی دھمکیاں عام تھیں۔ حضرت عثمان ایک مالدار اور بااثر شخص ہونے کے باوجود اپنے خاندان (بنو امیہ) کی شدید مخالفت کا شکار ہوئے۔ ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے انہیں باندھ دیا اور مار پیٹ کا نشانہ بنایا تاکہ وہ دین اسلام سے پھر جائیں، لیکن آپ نے یہ سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور کبھی اپنے ایمان پر آنچ نہ آنے دی۔ یہ ثابت قدمی اس بات کی غماز ہے کہ آپ کا ایمان نہ صرف راسخ تھا بلکہ وہ بصیرت اور یقین کامل سے بھرپور تھا۔آپ نے دین کی خاطر بے مثال قربانیاں دیں، یہاں تک کہ اپنے وطن کو بھی ترک کرنے سے گریز نہیں کیا۔ آپ ہجرت حبشہ اولیٰ اور ثانیہ دونوں میں شامل تھے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے راہ حق میں ہر قسم کی مشقتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ پہلی ہجرت حبشہ (5 نبوی) میں آپ اپنی زوجہ محترمہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شریک تھے۔ یہ ایک مشکل سفر تھا جہاں مال و متاع کو قربان کر کے اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ اس ہجرت کا مقصد کفار مکہ کے ظلم و ستم سے بچ کر ایک پرامن جگہ تلاش کرنا تھا جہاں آزادانہ طور پر دین کی عبادتیں کرسکیں۔ جب یہ خبر پھیلی کہ مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کم ہو گیا ہے تو کچھ صحابہ واپس لوٹ آئے، لیکن جب حالات دوبارہ خراب ہوئے تو دوسری ہجرت حبشہ (7 نبوی) میں بھی آپ نے شرکت کی۔ یہ سب حضرت عثمان کے ایمان کی مضبوطی اور دین کے لیے بے پناہ لگن کا مظہر تھا۔
اور پھر آپ کی ذات کو وہ لازوال شرف حاصل ہوا کہ آپ کو ’’ذو النورین‘‘ یعنی دو نوروں والا کہا جانے لگا۔ یہ لقب آپ کو اس لیے عطا ہوا کہ آپ نے ایک کے بعد ایک اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا۔ پہلے آپ کی شادی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی، جن سے آپ کا ایک بیٹا عبداللہ پیدا ہوا، لیکن وہ بچپن میں ہی وفات پا گئے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت رقیہ بیمار ہوئیں اور آپ ان کی تیمارداری میں مصروف رہنے کی وجہ سے غزوہ میں شریک نہ ہو سکے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غازیوں میں شمار کیا اور ان کے لیے غنیمت کا حصہ بھی مقرر فرمایا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی غمگساری کا احساس ہوا اور آپ نے اپنی دوسری صاحبزادی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی آپ سے کر دیا۔ یہ ایسا اعزاز ہے جو تاریخ انسانی میں کسی دوسرے شخص کو میسر نہ آ سکا اور قیامت تک آپ کی عظمت، دین اسلام سے آپ کی گہری وابستگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے قرب و محبت کی دلیل رہے گا۔ یہ صرف ازدواجی رشتہ ہی نہیں تھا بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آپ پر مکمل اعتماد اور خاص شفقت کا اظہار بھی تھا۔ اس لقب نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ایسی منفرد پہچان دی جو ان کی ہستی کو ہمیشہ کے لیے روشن کر دی۔ یہ نور دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کا نور تھا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان کے مقدر میں لکھا تھا۔
حضرت عثمان حیا کا پیکر جمیل:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا سب سے نمایاں اور دلکش وصف ان کی بے مثال حیا تھی۔ یہ حیا محض ظاہری شرم و لحاظ نہ تھی بلکہ ان کی باطنی پاکیزگی، روحانی طہارت اور خدا خوفی کا عکس تھی۔ ان کی حیا اس قدر شدید تھی کہ وہ صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ فرشتوں کے لیے بھی قابل رشک تھی۔ یہ حیا دراصل آپ کی ہر حرکت اور ہر قول میں نظر آتی تھی، جو آپ کی شخصیت کو ایک خاص روحانی وقار عطا کرتی تھی۔اس کا ایک خوبصورت اور لازوال ثبوت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ملتا ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران مبارک کھلی ہوئی تھی، اسی اثنا میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں بیٹھے رہے (یعنی ران مبارک نہیں ڈھانپی) پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر بھی اسی حالت میں بیٹھے رہے، لیکن جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اندر تشریف لائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اپنی ران مبارک ڈھانپ لی، بعد میں جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں؟‘‘۔ [مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، رقم الحدیث:۶۲۰۹] یہ حدیث اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیا کا درجہ کتنا بلند تھا ۔
حضرت عثمان سخاوت کا دریا:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سخاوت کے قصے اسلامی تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھے ہوئے ہیں۔ آپ مدینہ کے متمول ترین صحابہ میں سے تھے، لیکن آپ کی دولت کبھی آپ کے دل پر غالب نہ آئی بلکہ وہ اسے راہِ خدا میں خرچ کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے۔ آپ کی سخاوت محض مالی نہ تھی بلکہ اس میں فراخ دلی، ایثار اور بے غرضی شامل تھی۔ آپ نے اپنی زندگی میں بارہا یہ ثابت کیا کہ دنیاوی مال و دولت کی کوئی حیثیت نہیں اگر وہ اللہ کی رضا کے حصول میں خرچ نہ ہو جائے۔ غزوۂ تبوک (جیش عسرت) کا موقع مسلمانوں کے لیے شدید آزمائش کا وقت تھا۔ یہ غزوہ ۹؍ ہجری میں پیش آیا، جب مسلمانوں کو روم کی عظیم سلطنت سے مقابلے کے لیے مدینہ سے بہت دور شمال کی جانب نکلنا تھا۔ موسم شدید گرم تھا، پانی کی قلت تھی اور سفر بہت طویل تھا، مالی وسائل کی بے پناہ ضرورت تھی۔ اس نازک گھڑی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی۔ صحابہ نے اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی سخاوت کا وہ مظاہرہ کیا جو تاریخ اسلام میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نےتقریباً ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے، اور ایک ہزار دینار (اس وقت کی بہت بڑی رقم) پیش کیے۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ آپ نے اتنی زیادہ رقم پیش کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج کے بعد عثمان کو کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا‘‘۔[ترمذی، کتاب المناقب، رقم الحدیث:۳۷۰۰] یہ الفاظ آپ کی سخاوت کے مقام کو واضح کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو آپ کا یہ عمل کس قدر پسند آیا۔ اس سخاوت نے اسلامی لشکر کی کمر سیدھی کر دی اور یہ مسلمانوں کی فتح کا ایک اہم سبب بنی۔ایک اور مشہور واقعہ بئر رومہ (رومہ کنواں) کا ہے۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو میٹھے پانی کی شدید قلت کا سامنا تھا، کیونکہ شہر میں میٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا جس پر ایک یہودی کا قبضہ تھا اور وہ مہنگے داموں پانی فروخت کرتا تھا۔ مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا، اس کے لیے جنت میں ایک کنواں ہو گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فوراً اس پیشکش پر لبیک کہا۔ انہوں نے یہ کنواں اس یہودی سے بڑی بھاری قیمت (بتیس ہزار درہم) میں خریدا اور اسے مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ تھا جس نے اس وقت کی شدید ضرورت کو پورا کیا اور آج بھی اس کی اہمیت برقرار ہے۔ آج بھی سعودی عرب میں حضرت عثمان کے نام پر یہ کنواں وقف چلا آ رہا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حضرت عثمان کے نام پر قائم ایک بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے جس سے فلاحی کام کیے جاتے ہیں اور وہاں کے ایک کھجور کے باغ کو بھی اسی آمدنی سے سیراب کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ، آپ نے مسجد نبوی کی توسیع کے لیے بے پناہ مال خرچ کیا۔ جب جگہ کی تنگی محسوس ہوئی اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے مسجد میں جگہ کم پڑنے لگی تو آپ نے اپنے مال سے ملحقہ اراضی خریدی اور اسے مسجد میں شامل کر دیا۔ آپ نے کئی ہزار غلاموں کو آزاد کر کے جنت میں اپنے لیے اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ دن رات راہ خدا میں خرچ کرنے میں لگے رہتے اور اس میں کوئی بخل نہ کرتے۔ آپ نے دکھاوے یا شہرت کے لیے کبھی خرچ نہیں کیا بلکہ خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنی دولت کو قربان کرتے رہے۔ آپ کا یہ عمل مالی ایثار کی ایک عظیم مثال ہے جو ہر دور کے مالدار افراد کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ دولت کو کیسے اللہ کی رضا کے لیے استعمال کیا جائے۔
خلافت، فتوحات اور قرآن کی جمع و تدوین:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کو ایک نئے خلیفہ کے انتخاب کا چیلنج درپیش تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے قبل چھ رکنی شوریٰ تشکیل دی تھی، جس میں حضرت عثمان غنی، حضرت علی، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبید اللہ، اور حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ اس شوریٰ نے طویل مشاورت کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو اختیار دیا کہ وہ امت کی اکثریت کے مشورے سے خلیفہ کا انتخاب کریں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے مدینہ کے ہر فرد یہاں تک کہ باہر سے آنے والے قبائلی سرداروں اور خواتین سے بھی رائے لی۔ جب اکثریت کی رائے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں سامنے آئی تو ۲۳؍ ہجری میں آپ کو مسلمانوں کا تیسرا خلیفہ منتخب کیا گیا۔ آپ کی خلافت کا دور تقریباً بارہ سال پر محیط ہے (۲۳؍ ہجری سے ۳۵؍ ہجری تک)، جو اسلامی فتوحات، استحکام اور انتظامی تنظیم کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔ آپ کے دور میں اسلامی سلطنت کی حدود میں غیر معمولی وسعت آئی، اور دین اسلام نے مشرق و مغرب میں اپنا پرچم لہرایا۔افریقہ: آپ کے دور میں افریقہ کا ایک بڑا حصہ فتح ہوا، جس میں شمالی افریقہ کے اہم علاقے تونس، الجزائر اور لیبیا شامل تھے۔ مشہور جرنیل حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے اس مہم میں نمایاں کردار ادا کیا۔
خراسان اور وسطی ایشیا: مشرق کی جانب خراسان (موجودہ ایران، افغانستان کے کچھ حصے) مکمل طور پر اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ اس کے علاوہ، سندھ (برصغیر) کے کچھ سرحدی علاقوں تک بھی اسلامی فتوحات کا آغاز ہوا۔
آرمینیا اور آذربائیجان: شمالی علاقوں میں آرمینیا اور آذربائیجان بھی اسلامی فوجوں کے زیر نگین آئے۔
قبرص: سب سے اہم پیش رفت بحری فتوحات کا آغاز تھا۔ آپ کے حکم سے اسلامی تاریخ کا پہلا منظم بحری بیڑہ تیار کیا گیا، جس نے ۲۸؍ ہجری میں قبرص کے جزیرے کو فتح کیا۔ یہ مسلمانوں کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی کیوں کہ اس نے بحیرہ روم میں رومیوں کی بحری بالادستی کو چیلنج کیا اور اسلامی سلطنت کے لیے نئے تجارتی راستے کھولے۔
ان فتوحات نے نہ صرف اسلامی ریاست کو وسیع جغرافیائی وسعت دی بلکہ دین اسلام کو نئے خطوں تک پہنچانے کا بھی ذریعہ بنے۔ یہ حضرت عثمان کی سیاسی بصیرت اور ان کے مقرر کردہ ماہر جرنیلوں کی شجاعت کا نتیجہ تھا کہ اسلامی سلطنت ایک عظیم عالمی طاقت کے طور پر ابھری۔
آپ کے دور خلافت کا سب سے بڑا، سب سے اہم اور امت پر سب سے عظیم احسان قرآن مجید کو ایک مصحف کی صورت میں جمع کرنا اور اسے مختلف علاقوں میں بھجوانا ہے۔ جب اسلامی ریاست دور دراز علاقوں میں پھیل گئی اور مختلف لہجوں اور قرأتوں کی وجہ سے قاریوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوا، تو یہ مسئلہ حضرت عثمان تک پہنچا۔ خاص طور پر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے آرمینیا اور آذربائیجان کی فتوحات کے دوران اس صورتحال کو دیکھا اور اس کی نزاکت سے حضرت عثمان کو آگاہ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ مختلف علاقوں کے مسلمان مختلف لہجوں میں قرآن پڑھ رہے ہیں اور اس سے آپس میں تنازعات پیدا ہو رہے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فوری کارروائی کی۔ آپ نے ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے وہ صحائف طلب کیے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ان کے حکم پر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جمع کیے تھے۔ آپ نے ایک نہایت باصلاحیت اور علمی کمیٹی تشکیل دی جس کا سربراہ آپ نے حضرت زید بن ثابت ہی کو بنایا۔ کمیٹی کے دیگر ارکان میں حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سعید بن العاص اور حضرت عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ قریش کے لہجے (جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا لہجہ تھا) کے مطابق قرآن کو ایک مصحف میں نقل کریں اور اگر کسی لفظ میں اختلاف ہو تو قریش کے لہجے کو ترجیح دی جائے۔
اس کمیٹی نے دن رات ایک کر کے نہایت احتیاط سے قرآن کے متعدد نسخے تیار کیے۔ جب کام مکمل ہو گیا تو آپ نے اس کی متعدد معیاری کاپیاں تیار کروائیں (جو مصاحف عثمانی کہلاتی ہیں)اور انہیں اسلامی مملکت کے بڑے مراکز مثلاً مکہ، کوفہ، بصرہ، دمشق، یمن اور بحرین بھیجا۔ ایک نسخہ اپنے پاس مدینہ میں رکھا گیا۔ ان نسخوں کے ساتھ ایک قاری بھی بھیجا گیا تاکہ وہ لوگوں کو صحیح قرأت سکھا سکے۔ اس کے بعد امت کو مزید تفرقے سے بچانے کے لیے آپ نے باقی تمام شخصی اور غیر معیاری مصاحف کو جلوا دیا جو ان معیاری نسخوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ یہ عظیم الشان کارنامہ قرآن کی حفاظت کو یقینی بنایا اور امت مسلمہ کو ایک قرأت پر جمع کر کے تفرقے کے دروازے بند کر دیے۔ یہ آپ کی دور اندیشی، دین کی بے مثال خدمت اور بصیرت کا ایک لاجواب اور بے مثال نمونہ ہے۔ آج جو قرآن ہمارے پاس ہے وہ انہی مصاحف عثمانی کی نقل ہے، جس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔
انتظامی و عدالتی اصلاحات:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت نہ صرف فتوحات کے لحاظ سے بلکہ انتظامی اور عدالتی لحاظ سے بھی مستحکم اور ترقی یافتہ تھا۔ آپ نے حکومتی ڈھانچے کو مزید منظم کیا اور عوام کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دی۔ آپ نے وسیع اسلامی سلطنت کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے کئی اہم انتظامی اصلاحات کیں۔امراء اور گورنروں کا تقرر: آپ نے صحابۂ کرام میں سے اہل اور قابل افراد کو مختلف علاقوں کا والی (گورنر) مقرر کیا اور انہیں مکمل خود مختاری دی۔ آپ نے انہیں ہدایت دی کہ وہ عدل و انصاف قائم کریں اور عوام کی شکایات سنیں۔
عدلیہ کی خود مختاری: آپ کے دور میں عدلیہ کو انتظامیہ سے آزاد کر کے مکمل خود مختاری دی گئی تاکہ فیصلے خالصتاً قرآن و سنت کی روشنی میں کیے جاسکیں۔ ہر شہری کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا اور حکمران بھی عدالتی فیصلوں کے پابند تھے۔
بیت المال کا استعمال: آپ نے بیت المال کو ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کیا، جس سے عوام کی فلاح و بہبود میں اضافہ ہوا۔ فوجیوں کی تنخواہیں بڑھائی گئیں اور غریبوں و ضرورت مندوں کے لیے وظائف مقرر کیے گئے۔ نئے شہر آباد کیے گئے، نہریں کھدوائی گئیں اور عمارتیں تعمیر کروائی گئیں۔
پولیس اور فوج کی تنظیم: پولیس اور فوج کے نظام کو مزید منظم کیا گیا تاکہ امن و امان قائم رہے اور سرحدی علاقوں کا دفاع مضبوط ہو۔
فتنہ کا آغاز اور استقامت:
آپ کی خلافت کے آخری دور میں کچھ فتنہ پرور عناصر نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ ان میں سب سے سرفہرست ایک یہودی منافق عبداللہ بن سبا تھا جس نے اسلام قبول کرنے کا ڈھونگ رچایا تھا۔ اس نے مختلف اسلامی شہروں کا دورہ کیا اور لوگوں کے دلوں میں خلفا اور صحابۂ کرام کے خلاف بدگمانیاں پیدا کرنا شروع کیں۔ اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف جھوٹے الزامات لگائے جیسے اقربا پروری کا الزام اور یہ دعویٰ کیا کہ حضرت عثمان نے خلافت پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے اور اصل حق دار حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس نے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کیا اور اسلامی ریاست میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی۔ اس فتنے نے کوفہ، بصرہ اور مصر میں خاصی جڑیں پکڑ لیں۔ ان سازشوں کے نتیجے میں مصر اور کوفہ سے باغیوں کے ایک گروہ نے مدینہ کا رخ کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی دن بلکہ ہفتوں تک جاری رہا۔ اس نازک صورتحال میں بھی آپ نے کمال صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ آپ نے باغیوں کے مطالبات کو سنا اور ان کے شبہات دور کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنے ارادوں پر قائم رہے۔آپ کو مشورہ دیا گیا کہ باغیوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے، کیوں کہ صحابۂ کرام کی ایک بڑی تعداد آپ کے دفاع کے لیے تیار تھی، جن میں حضرت امام حسن، حضرت امام حسین، حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔ لیکن آپ نے مسلمانوں کے درمیان خونریزی سے بچنے کے لیے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے اپنے گھر کا محاصرہ ہونے کے باوجود بھی اندر موجود لوگوں کو پانی اور کھانا فراہم کرنے کی اجازت دی، حتیٰ کہ آپ نے اپنے محافظوں کو بھی اس بات کی تاکید کی کہ وہ تلوار نہ اٹھائیں تاکہ کسی مسلمان کا خون نہ بہے۔ پانی کی شدید قلت کے باوجود آپ نے اپنی ذات پر تکلیف برداشت کی مگر مسلمانوں کا خون بہانے سے گریز کیا۔ یہ آپ کی نرمی، امت سے محبت اور اتحادامت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کا وہ عظیم ترین مظاہرہ تھا جو قیامت تک یاد رکھا جائے گا۔
شہادت کا المناک واقعہ:
بالآخر ۱۸؍ ذی الحجہ ۳۵؍ ہجری کو نماز فجر کے بعد باغیوں نے موقع پا کر آپ کے گھر پر حملہ کر دیا۔ آپ اس وقت قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے۔ آپ کو معلوم تھا کہ آپ کی شہادت کا وقت آ گیا ہے، لیکن آپ نے ثابت قدمی دکھائی۔ حملہ آوروں نے آپ کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے ہی شہید کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت آپ سورہ بقرہ کی آیت ۱۳۷؍ کی تلاوت فرما رہے تھے: ’’فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‘‘ (تو اللہ آپ کے لیے ان کے مقابلے میں کافی ہے اور وہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے)۔ آپ کا خون قرآن کے صفحات پر گرا، جو قیامت تک آپ کی مظلومانہ شہادت کی گواہی دے گا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت اگرچہ ایک المناک سانحہ تھا مگر یہ امت مسلمہ کے لیے استقامت، ایثار اور اتحاد کا ایک عظیم سبق چھوڑ گیا۔ آپ کی شہادت نے اسلامی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا، جس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ آپ کا یہ عمل تاریخ میں آپ کی عظیم بردباری، صبر، تقویٰ اور مسلمانوں کے خون کی حرمت کا بہترین نمونہ ہے جسے ہر دور میں یاد رکھا جائے گا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت محض خلافت کے عہدے تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ اپنی ذات میں اخلاق حسنہ کا ایک مکمل پیکر تھے۔ آپ کی زندگی ایک کامل مسلمان کی بہترین مثال ہے جس میں ایمان کی پختگی، حیا کا اعلیٰ ترین معیار، سخاوت کی انتہا، عدل و انصاف کی پاسداری اور امت کے لیے بے پناہ محبت و شفقت شامل تھی۔ حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ کا وہ روشن ستارہ ہیں جن کی ضیاء پاشی کبھی ماند نہیں پڑے گی اور جو ہمیشہ مسلمانوں کے دلوں کو ایمان و تقویٰ کے نور سے منور کرتی رہے گی۔ جب تک اس دنیا میں نور و حیا کی قدر باقی ہے جب تک ’’کہانی ذوالنورین‘‘ کی ہر دل میں باقی رہے گی۔دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سیرتِ طیبہ سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی قربانی کے پیغام کو ہمیشہ اپنے دلوں میں زندہ رکھنے والا بنائے، آمین! بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم