(1) قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا خلاف مستحب ہے یا ناجائز اور ممنوع
تحقیق انیق حضور مفتی اعظم بہار۔
تحقیق انیق حضور مفتی اعظم بہار۔
♦•••••••••••••••••••••••••♦
یہ سوال ناشر مسلک اعلی حضرت خطیب باکمال حضرت مولانا محمد قطب الدین شمیمی ثنائی موہن پور نیپال سرلاہی ملک نیپال میں بانی فیضان مفتی اعظم بہار کے معرفت آیا
مسئلہ کی وضاحت:-
عزیزم بابو حضرت علامہ مولانا مفتی محمد انظارعالم صاحب سلمہ نائب قاضی ادارہ شرعیہ سرلاہی نیپال
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ثم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میرا ایک جواب کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا مممنوع ہے اس پر آپ نے لکھا کہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ کافر حربی کو گوشت دینا خلاف مستحب ہے یعنی آپ کہنا چارہے ہیں کہ جب قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا خلاف مستحب ہے تو ممنوع کیسے ہوگا ؟۔پھر آپ ردالمحتار کی ایک عبارت سے استدلال کرتے ہیں کہ کافر حربی کو صدقہ نفل دینا جائز ہے اور قربانی کا گوشت بھی صدقہ نافلہ ہے تو کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا ممنوع کیوں کر ہوگا ،،؟ ان دونوں قول کے متعلق آپ وضاحت معلوم کرنا چاہتے ہیں آپ لکھتے ہیں کہ حضور جواب عنایت فرماکر اس فقیر کو مطمئن کریں
آپ کی تحریر میرے میرے سامنے ہے آپ تحریر فرماتے ہیں کہ
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ حضور محقق مسائل جدیدہ و مرجع العلما مفتی اعظم بہار مفتی ثناء اللہ صاحب دامت برکاتکم العالیۃ
آپ نے سوال سوم کے جواب میں لکھا ہے کہ :
یہ سوال ناشر مسلک اعلی حضرت خطیب باکمال حضرت مولانا محمد قطب الدین شمیمی ثنائی موہن پور نیپال سرلاہی ملک نیپال میں بانی فیضان مفتی اعظم بہار کے معرفت آیا
مسئلہ کی وضاحت:-
عزیزم بابو حضرت علامہ مولانا مفتی محمد انظارعالم صاحب سلمہ نائب قاضی ادارہ شرعیہ سرلاہی نیپال
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ثم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میرا ایک جواب کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا مممنوع ہے اس پر آپ نے لکھا کہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ کافر حربی کو گوشت دینا خلاف مستحب ہے یعنی آپ کہنا چارہے ہیں کہ جب قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا خلاف مستحب ہے تو ممنوع کیسے ہوگا ؟۔پھر آپ ردالمحتار کی ایک عبارت سے استدلال کرتے ہیں کہ کافر حربی کو صدقہ نفل دینا جائز ہے اور قربانی کا گوشت بھی صدقہ نافلہ ہے تو کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا ممنوع کیوں کر ہوگا ،،؟ ان دونوں قول کے متعلق آپ وضاحت معلوم کرنا چاہتے ہیں آپ لکھتے ہیں کہ حضور جواب عنایت فرماکر اس فقیر کو مطمئن کریں
آپ کی تحریر میرے میرے سامنے ہے آپ تحریر فرماتے ہیں کہ
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ حضور محقق مسائل جدیدہ و مرجع العلما مفتی اعظم بہار مفتی ثناء اللہ صاحب دامت برکاتکم العالیۃ
آپ نے سوال سوم کے جواب میں لکھا ہے کہ :
قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا ممنوع ہے
میں عرض کروں گا کہ قربانی کا گوشت صدقات نافلہ سے ہے کیوں کہ واجب تو اراقۃ الدم لوجہ اللہ لہذا قربانی کے گوشت کا تصدق واجب نہیں ہوا
حدیث میں ہے :
میں عرض کروں گا کہ قربانی کا گوشت صدقات نافلہ سے ہے کیوں کہ واجب تو اراقۃ الدم لوجہ اللہ لہذا قربانی کے گوشت کا تصدق واجب نہیں ہوا
حدیث میں ہے :
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کلوا واطعموا وادخروا اخرجہ الشیخان عن سلمۃ ابن الأکوع رضی اللہ عنہ
یہاں (اطعموا )فرمایا جس سے صدقہ نافلہ مستفاد ہے اگر واجب ہوتا تو (أعطوا ) ارشاد ہوتا
اور فتاوی رضویہ میں ہے: "لایجب التصدق بہ لا بکلہ ولاببعضہ "لھذا قربانی کے گوشت کا تصدق صدقات نافلہ سے ہوا
اور درمختا میں سیر کبیر کے حوالہ سے مذکور ہے صدقات نافلہ کافر حربی کو دینا جائز ہے عبارت یہ ہے : لابأس للمسلم أن یعطی کافرا حربیا أو ذمیا وأن یقبل الھدیۃ منہ لما روی أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعث خمس مأۃ دینار الی مکۃ حین قحطوا وأمر بدفعھا الی ابی سفیان ابن حرب و صفوان ابن أمیۃ لیفرقا علی فقراء اھل مکۃ ولأن صلۃ الرحم محمودۃ فی کل دین والاھداء الی الغیر من مکارم الأخلاق
یعنی کافر حربی کو صدقہ دینے میں حرج نہیں اور جس میں حرج نہ ہو وہ جائز ہے
اور علامہ شامی اس کی توضیح اس طر ح کرتے ہیں:" أن معناہ لایحرم بل ترکہ اولی فلا یکون قربۃ " یعنی مطلقا کافر کو صدقہ دینا حرام نہیں بلکہ خلاف مستحب ہے
اور اعلی حضرت فتاوی رضویہ شریف میں ارشاد فرماتے ہیں :"لھذا انھیں دینا خلاف مستحب ہے اور اپنے مسلمان بھائ کو چھوڑ کر کافر کو دینا حماقت ہے "
تو یہاں پر صرف خلاف مستحب ہے اور خلاف مستحب ناجائز نہیں ہوتا ہے بلکہ جائز ہوتا ہے
شکریہ حضور جواب عنایت فرماکر اس فقیر کو مطمئن کریں گے
(یہاں تک حضرت علامہ مولانا مفتی انظار عالم مصباحی صاحب نائب قاضی ادارہ شرعیہ سرلاہی نیپال صاحب کی تحریر ہے)
♦•••••••••••••••••••••••••♦
الجواب ( فقیر قادری محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار )
کفار کے تین اقسام ہیں
(1) کافر حربی
(2) کافر مستامن
(3) کافر ذمی
اور ہندوستان کے کافر حربی ہے اور حربی کافر کو صدقات واجبہ اور صدقات نافلہ دونوں دینا جائز نہیں ہے اور بے شک قربانی کا گوشت بھی صدقہ نافلہ ہے لہزا قربانی کے گوشت کو بھی کافر حربی کو دینا جائز نہیں ہے اور اگر دیا تو کوئی ثواب حاصل نہیں ہوگا
(دلیل نمبر ایک قرآن شریف سے)
قرآن عظیم میں ہے کہ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلو کم فی الدین واخرجوکم من دیار کم وظاھروا علی اخراجکم ان تولوھم ومن یتولھم فاولئک ھم الظالمون (یعنی تمہیں انہی سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے یا تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا یا تمہارے نکالنے پر مدد کی کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ستمگار ہیں
یہاں (اطعموا )فرمایا جس سے صدقہ نافلہ مستفاد ہے اگر واجب ہوتا تو (أعطوا ) ارشاد ہوتا
اور فتاوی رضویہ میں ہے: "لایجب التصدق بہ لا بکلہ ولاببعضہ "لھذا قربانی کے گوشت کا تصدق صدقات نافلہ سے ہوا
اور درمختا میں سیر کبیر کے حوالہ سے مذکور ہے صدقات نافلہ کافر حربی کو دینا جائز ہے عبارت یہ ہے : لابأس للمسلم أن یعطی کافرا حربیا أو ذمیا وأن یقبل الھدیۃ منہ لما روی أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعث خمس مأۃ دینار الی مکۃ حین قحطوا وأمر بدفعھا الی ابی سفیان ابن حرب و صفوان ابن أمیۃ لیفرقا علی فقراء اھل مکۃ ولأن صلۃ الرحم محمودۃ فی کل دین والاھداء الی الغیر من مکارم الأخلاق
یعنی کافر حربی کو صدقہ دینے میں حرج نہیں اور جس میں حرج نہ ہو وہ جائز ہے
اور علامہ شامی اس کی توضیح اس طر ح کرتے ہیں:" أن معناہ لایحرم بل ترکہ اولی فلا یکون قربۃ " یعنی مطلقا کافر کو صدقہ دینا حرام نہیں بلکہ خلاف مستحب ہے
اور اعلی حضرت فتاوی رضویہ شریف میں ارشاد فرماتے ہیں :"لھذا انھیں دینا خلاف مستحب ہے اور اپنے مسلمان بھائ کو چھوڑ کر کافر کو دینا حماقت ہے "
تو یہاں پر صرف خلاف مستحب ہے اور خلاف مستحب ناجائز نہیں ہوتا ہے بلکہ جائز ہوتا ہے
شکریہ حضور جواب عنایت فرماکر اس فقیر کو مطمئن کریں گے
(یہاں تک حضرت علامہ مولانا مفتی انظار عالم مصباحی صاحب نائب قاضی ادارہ شرعیہ سرلاہی نیپال صاحب کی تحریر ہے)
♦•••••••••••••••••••••••••♦
الجواب ( فقیر قادری محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار )
کفار کے تین اقسام ہیں
(1) کافر حربی
(2) کافر مستامن
(3) کافر ذمی
اور ہندوستان کے کافر حربی ہے اور حربی کافر کو صدقات واجبہ اور صدقات نافلہ دونوں دینا جائز نہیں ہے اور بے شک قربانی کا گوشت بھی صدقہ نافلہ ہے لہزا قربانی کے گوشت کو بھی کافر حربی کو دینا جائز نہیں ہے اور اگر دیا تو کوئی ثواب حاصل نہیں ہوگا
(دلیل نمبر ایک قرآن شریف سے)
قرآن عظیم میں ہے کہ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلو کم فی الدین واخرجوکم من دیار کم وظاھروا علی اخراجکم ان تولوھم ومن یتولھم فاولئک ھم الظالمون (یعنی تمہیں انہی سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے یا تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا یا تمہارے نکالنے پر مدد کی کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ستمگار ہیں
قرآن مجید سورہ ممتحنہ)
اس کے تحت حضرت بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
یعنی اللہ تعالیٰ ان کافروں ( کے ساتھ بروصلہ) سے تم کو روکتا ہے جو تم سے قتال کرتے ہیں
قربانی کا گوشت بر وصلہ کے طور پر ہی دیا جاسکتا ہے جس کو قرآن عظیم محاربین کے ساتھ منع فرماتا ہے اور یہاں کے غیر مسلموں کا محاربہ اہل اسلام سے اس زمانہ میں الم نشرح ہے ۔ایک حدیث میں صاف طور سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مشرکین کو قربانی کا گوشت دینے سے منع فرماتے ہیں ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے سے امام بیہقی اپنی سنن میں روایت کرتے ہیں ۔
ہم نے عرض کی یا رسول اللہ ان کو اپنی قربانیوں میں سے دیں ۔فرمایا کہ مشرکین کو قربانیوں میں سے کچھ نہ دیں۔
اس کے تحت حضرت بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
یعنی اللہ تعالیٰ ان کافروں ( کے ساتھ بروصلہ) سے تم کو روکتا ہے جو تم سے قتال کرتے ہیں
قربانی کا گوشت بر وصلہ کے طور پر ہی دیا جاسکتا ہے جس کو قرآن عظیم محاربین کے ساتھ منع فرماتا ہے اور یہاں کے غیر مسلموں کا محاربہ اہل اسلام سے اس زمانہ میں الم نشرح ہے ۔ایک حدیث میں صاف طور سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مشرکین کو قربانی کا گوشت دینے سے منع فرماتے ہیں ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے سے امام بیہقی اپنی سنن میں روایت کرتے ہیں ۔
ہم نے عرض کی یا رسول اللہ ان کو اپنی قربانیوں میں سے دیں ۔فرمایا کہ مشرکین کو قربانیوں میں سے کچھ نہ دیں۔
(فتاوی بحر العلوم جلد پنجم ص 192)
(دلیل نمبر دوم)
حربی کافر کو نفل صدقہ دینا جائز نہیں ہے:-
صاحب ہدایہ نے باب الوصیۃ میں انہیں آیتوں کی سند سے فرمایا کہ *ذمی کے لئے وصیت جائز ہے اور حربی کے لئے حرام کہ وہ ایک طرح کا احسان ہے اور اسی کے سبب باب الزکواۃ میں فرمایا کہ
نفل صدقہ ذمی کو دینا حلال اور حربی کو دینا حرام۔
نہایہ امام سغناقی و غایۃ البیان امام اتقانی و بحر الرائق و غنیہ علامہ شرنبلالی میں ہے:
زکواۃ کے سوا اور صدقات ذمی کو دے سکتے ہیں ۔اللہ عزوجل فرماتا ہے: تمہیں اللہ ان سے منع نہیں فرماتا جو دین میں تم سے نہ لڑے ذمی کی قید اس لئے لگائی کہ حربی کے لئے جملہ صدقات حرام ہیں فرض ہوں یا واجب یا نفل جیسا کہ غایۃالبیان میں ہے
(دلیل نمبر دوم)
حربی کافر کو نفل صدقہ دینا جائز نہیں ہے:-
صاحب ہدایہ نے باب الوصیۃ میں انہیں آیتوں کی سند سے فرمایا کہ *ذمی کے لئے وصیت جائز ہے اور حربی کے لئے حرام کہ وہ ایک طرح کا احسان ہے اور اسی کے سبب باب الزکواۃ میں فرمایا کہ
نفل صدقہ ذمی کو دینا حلال اور حربی کو دینا حرام۔
نہایہ امام سغناقی و غایۃ البیان امام اتقانی و بحر الرائق و غنیہ علامہ شرنبلالی میں ہے:
زکواۃ کے سوا اور صدقات ذمی کو دے سکتے ہیں ۔اللہ عزوجل فرماتا ہے: تمہیں اللہ ان سے منع نہیں فرماتا جو دین میں تم سے نہ لڑے ذمی کی قید اس لئے لگائی کہ حربی کے لئے جملہ صدقات حرام ہیں فرض ہوں یا واجب یا نفل جیسا کہ غایۃالبیان میں ہے
( تلخیص فتاوی رضویہ جلد چہارم ص 494)
اس سے واضح ہوا کہ نفل صدقہ بھی کافر حربی کو دینا حرام ہے اور قربانی کا گوشت بھی نفل صدقہ ہے لہذا اس کا گوشت دینا بھی ناجائز ہے اسی لئے ہمارے تمام فقہاء نے کہی منع فرمایا کہی ناجائز فرمایا کہی جائز نہیں فرمایا کہی حرام فرمایا کسی نے قربانی کے گوشت کو کافر حربی کو دینے کو جائز نہیں قرار دیا
اگر مفتی موصوف سلمہ کے علم میں کوئی جزیہ ہے تو امید قوی ہے کہ پیش فرمائیں گے۔
(دلیل نمبر سوم حدیث شریف سے)
قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم:الجییران ثلاثۃ فمنھم من لہ ثلاثۃ حقوق و منھم من لہ حقان ومنھم من لہ حق ۔فاما الذی لہ ثلاثۃ حقوق فالجار المسلم القریب لہ حق الجوار وحق الاسلام وحق القربۃ واما الذی حقان فالجار المسلم لہ حق الجوار وحق الاسلام واما الذی لہ حق واحد فالجار الکافر لہ حق الجوار
قلنا یارسول افتطعمھم من نسکنا فقال لاتطعموا المشرکین شیئا من النسک۔
(کنزالعمال جلد پنجم ص 45)
اس سے واضح ہوا کہ نفل صدقہ بھی کافر حربی کو دینا حرام ہے اور قربانی کا گوشت بھی نفل صدقہ ہے لہذا اس کا گوشت دینا بھی ناجائز ہے اسی لئے ہمارے تمام فقہاء نے کہی منع فرمایا کہی ناجائز فرمایا کہی جائز نہیں فرمایا کہی حرام فرمایا کسی نے قربانی کے گوشت کو کافر حربی کو دینے کو جائز نہیں قرار دیا
اگر مفتی موصوف سلمہ کے علم میں کوئی جزیہ ہے تو امید قوی ہے کہ پیش فرمائیں گے۔
(دلیل نمبر سوم حدیث شریف سے)
قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم:الجییران ثلاثۃ فمنھم من لہ ثلاثۃ حقوق و منھم من لہ حقان ومنھم من لہ حق ۔فاما الذی لہ ثلاثۃ حقوق فالجار المسلم القریب لہ حق الجوار وحق الاسلام وحق القربۃ واما الذی حقان فالجار المسلم لہ حق الجوار وحق الاسلام واما الذی لہ حق واحد فالجار الکافر لہ حق الجوار
قلنا یارسول افتطعمھم من نسکنا فقال لاتطعموا المشرکین شیئا من النسک۔
(کنزالعمال جلد پنجم ص 45)
یعنی حضور نے فرمایا کہ پڑوسی تین قسم کے ہیں بعض کے تین حق ہیں بعض کے دو اور بعض کے ایک جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار ہو تو اس کے تین حق ہیں حق جوار ۔حق اسلام اور حق قرابت ۔پڑوسی مسلم کے دو حق ہیں حق جوار ۔حق اسلام اور پڑوسی کافر کا ایک حق ہے ۔حق جوار ۔ہم نے عرض کی
*ضیا رسول اللہ ان کو اپنی قربانیوں کا گوشت دیں فرمایا مشرکین کو قربانیوں میں سے کچھ نہ دو۔
*ضیا رسول اللہ ان کو اپنی قربانیوں کا گوشت دیں فرمایا مشرکین کو قربانیوں میں سے کچھ نہ دو۔
(کنزالعمال)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کو قربانیوں کا گوشت دینے سے منع فرمایا( کنزالعمال) اور یہاں تو کافر حربی اور مشرکین دونوں ہےیعنی کافر بھی ہے اور مشرک بھی ہے اس لئے قربانی کا گوشت دینا منع ہے
(دلیل چہارم)
ابن ابی شیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرسلا روایت کرتے ہیں کہ:
قال رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم لاتصدقوا الا علی اھل دینکم
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کو قربانیوں کا گوشت دینے سے منع فرمایا( کنزالعمال) اور یہاں تو کافر حربی اور مشرکین دونوں ہےیعنی کافر بھی ہے اور مشرک بھی ہے اس لئے قربانی کا گوشت دینا منع ہے
(دلیل چہارم)
ابن ابی شیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرسلا روایت کرتے ہیں کہ:
قال رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم لاتصدقوا الا علی اھل دینکم
یعنی رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسی کو صدقہ نہ دو سوائے اپنے دین والوں کے (ارکان اسلام ص 521)
( دلیل پنجم ) سر کار سیدی مرشدی حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
قرماتے ہیں کہ قربانی اللہ عزوجل کے نام پر اراقت دم سے ادا ہوجاتی ہے گوشت کا یہ مالک و مختار ہے جو چاہے کرے اپنے صرف میں لائے یا اپنے اعزاء و احباب میں تقسیم کرے یا سب فقراء ومساکین کو دے دے ہاں مستحب یہ ہے کہ اس کے تین حصہ کرے ایک گھر کے لئے رکھے ایک اعزاء و احباب میں تقسیم کرے ایک فقراء ومساکین کو بانٹے ۔
کافر ذمی کے ساتھ برواحسان کی اجازت ہے
( دلیل پنجم ) سر کار سیدی مرشدی حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
قرماتے ہیں کہ قربانی اللہ عزوجل کے نام پر اراقت دم سے ادا ہوجاتی ہے گوشت کا یہ مالک و مختار ہے جو چاہے کرے اپنے صرف میں لائے یا اپنے اعزاء و احباب میں تقسیم کرے یا سب فقراء ومساکین کو دے دے ہاں مستحب یہ ہے کہ اس کے تین حصہ کرے ایک گھر کے لئے رکھے ایک اعزاء و احباب میں تقسیم کرے ایک فقراء ومساکین کو بانٹے ۔
کافر ذمی کے ساتھ برواحسان کی اجازت ہے
قال اللہ تعالیٰ لا ینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیار کم ان تبروھم و تقسطواالیھم (سورہ ممتحنہ آیت 8)
یعنی اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ تو ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاو برتو (قرآن مجید) اس سے واضح ہوا کہ کافر ذمی کے ساتھ احسان و انصاف کرنے کا حکم ہے
مگر کافر حربی کے ساتھ منوع ہے
قال اللہ تعالیٰ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین۔
مگر کافر حربی کے ساتھ منوع ہے
قال اللہ تعالیٰ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین۔
یعنی اللہ تمہیں انہی سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے۔
تو حربی کافر کو قربانی کا گوشت دینا چاہیے نہ کوئی اور شئے ۔
تو حربی کافر کو قربانی کا گوشت دینا چاہیے نہ کوئی اور شئے ۔
(فتاوی مصطفویہ ص 450)
سرکار سیدی مرشدی حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کے نزدیک کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا ممنوع ہے اور اس کی دلیل قرآن شریف کی آیت ہے جو اوپر نقل ہے اور ممنوع عدم جواز ہے
(دلیل پنجم )
سرکار سیدی مرشدی حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کے نزدیک کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا ممنوع ہے اور اس کی دلیل قرآن شریف کی آیت ہے جو اوپر نقل ہے اور ممنوع عدم جواز ہے
(دلیل پنجم )
حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی صاحب رضوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
یہاں کے کفار کو قربانی کا گوشت نہ دینا چاہیے کہ یہاں کے کفار حربی ہیں اور حربی کو کسی قسم کا صدقہ دینا جائز نہیں
یہاں کے کفار کو قربانی کا گوشت نہ دینا چاہیے کہ یہاں کے کفار حربی ہیں اور حربی کو کسی قسم کا صدقہ دینا جائز نہیں
(فتاوی امجدیہ جلد 3ص 318)
حضور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے واضح حکم شرعی معلوم ہوا کہ
(الف) کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ہے
(2) اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے کافر حربی ہے اور حربی کو کوئی بھی صدقہ دینا جائز نہیں
(دلیل نمبر ششم)
حضور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے واضح حکم شرعی معلوم ہوا کہ
(الف) کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ہے
(2) اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے کافر حربی ہے اور حربی کو کوئی بھی صدقہ دینا جائز نہیں
(دلیل نمبر ششم)
حضور صدر الشریعہ فرماتے ہیں کہ
قربانی کا گوشت کافر کو نہ دے کہ یہاں کے کفار حربی ہیں۔
قربانی کا گوشت کافر کو نہ دے کہ یہاں کے کفار حربی ہیں۔
(شرح بہار شریعت جلد پانزدہم ص 222)
(دلیل نمبر ہفتم )
فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ
(دلیل نمبر ہفتم )
فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ
کافر کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں خواہ وہ پڑوسی ہو یا نہ ہو
فتاوی تربیت افتاء جلد 2 ص 319)
اس عبارت سے واضح بیان معلوم ہوا کہ کافر حربی کو گوشت دینا جائز نہیں ہے
(دلیل نمبر ہشتم)
(دلیل نمبر ہشتم)
بعض احباب ردمختار کی عبادت پیش کی کہ کافر حربی کو صدقہ نافلہ دینا جائز ہے اور درمختار کی اس عبارت ہر دھیان نہیں دیا کہ
اماالحربی ولو مستامنا فجمیع الصدقات لایجوز اتفاقاًبحر عن الخانیۃ وغیرھا
اماالحربی ولو مستامنا فجمیع الصدقات لایجوز اتفاقاًبحر عن الخانیۃ وغیرھا
یعنی حربی اگرچہ مستامن ہو اس پر اتفاق ہے کہ اسے کوئی صدقہ دینا جائز نہیں ۔ بحر نے خانیہ وغیرہ سے نقل کیا ہے ۔
(درمختار کتاب الزکواۃ جلد ایک ص 141 اور فتویٰ بحر العلوم جلد پنجم ص 204)
درمختار کی اس عبارت سے ظاہر ہے کہ کافر حربی یا مستامن کو بالاتفاق تمام صدقہ دینا جائز نہیں ہے خواہ وہ واجبہ ہو یا نافلہ
(دلیل نہم)
(دلیل نہم)
بحر الرائق میں ہے کہ ۔
صلتہ لایکون بر اشرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ فلم یقع قربۃ
صلتہ لایکون بر اشرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ فلم یقع قربۃ
, یعنی اس سے صلہ شرعا نیکی نہیں اسی لئے اس کو نفلی صدقہ بھی جائز نہیں لہذا عبادت نہ بنے گا (بحر الرائق ۔جلد دوم ص 248)
, درمختار اور بحر الرائق سے واضح حکم شرعی معلوم ہوا کہ کافر حربی کو کوئی صدقہ دینا جائز نہیں ہے اور قربانی کا گوشت بھی صدقہ نافلہ ہے لہزا قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا جائز نہیں
(دلیل نمبر دہم)
فتاوی بریلی شریف میں ہے کہ کافر کو قربانی کا گوشت دینا ناجائز ہے
, درمختار اور بحر الرائق سے واضح حکم شرعی معلوم ہوا کہ کافر حربی کو کوئی صدقہ دینا جائز نہیں ہے اور قربانی کا گوشت بھی صدقہ نافلہ ہے لہزا قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا جائز نہیں
(دلیل نمبر دہم)
فتاوی بریلی شریف میں ہے کہ کافر کو قربانی کا گوشت دینا ناجائز ہے
قال اللہ تعالیٰ والطیبت للطیبین و الطیبون للطیبت
(فتاوی بریلی شریف جلد دوم ص 353)
(دلیل یازدہم)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
*تین حصے کرنا صرف استحابی امر ہے کچھ ضروری نہیں ۔چایے سب اپنے صرف میں کرلے یا سب عزیزوں قریبوں کو دے دے ۔یا سب مساکین کو بانٹ دیں ۔یہاں اگر مسلمان مسکین نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں ۔تو ان کو دینا قربانی ہو خواہ صدقہ ۔اصلا کچھ ثواب نہیں رکھتا۔
(دلیل یازدہم)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
*تین حصے کرنا صرف استحابی امر ہے کچھ ضروری نہیں ۔چایے سب اپنے صرف میں کرلے یا سب عزیزوں قریبوں کو دے دے ۔یا سب مساکین کو بانٹ دیں ۔یہاں اگر مسلمان مسکین نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں ۔تو ان کو دینا قربانی ہو خواہ صدقہ ۔اصلا کچھ ثواب نہیں رکھتا۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 253)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ یہاں کے کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینے میں کوئی ثواب نہیں ہے اور جب ثواب نہیں ہے قربانی کا گوشت کافر حربی کو اصلا نہ دے ۔
( نوٹ) اس فقیر نے اوپر میں گیارہ دلائل سے ثابت کیا کہ کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ہے ممنوع ہے اور یہی میرا موقف ہے
اور ہمارے کچھ احباب کو فتاوی رضویہ کی اس عبارت سے غلط فہمی ہوئی اور بیان دیا کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا خلاف مستحب ہے وہ عبارت یہ ہے
سرکار سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے 1331ھ میں ایک سوال ہوا کہ
گوشت قربانی کا جو بقرعید میں اہل اسلام میں ہوتا ہے وہ اہل ہنود کو دیا جائے یا نہیں ؟ اس مسئلہ کی ہم کو ضرورت ہے ۔جواب سے مطلع فرمایئے گا
المستفتی ۔رحیم بخش منہار از قصبہ حافظ گنج ضلع بریلی
اہل علم حضرات اس سوال کو غور سے پڑھیں کہ اس میں ہے کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دیا جائے یا نہیں اس سوال کے جواب میں امام اہل سنت مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ قربانی اگر فقیر نے کی ہو اس کا گوشت کسی کافر کو دینا جائز نہیں ۔اگر دے گا تو اتنے گوشت کا تاوان دینا لازم ہوگا ۔اور اگر غنی کی تو ذبح کرنے سے اس کا واجب ادا ہوگیا ۔گوشت کا اسے اختیار ہے ۔مگر مستحب یہ ہے کہ اس کے تین حصے کرلے ۔ایک حصہ اپنے لئے ۔ایک عزیزوں ۔خویشوں کے لئے ۔ایک تصدق کے لئے ۔یہاں کے کفار کو دینا ان تینوں مدوں سے خارج ہے ۔لہذا انہیں دینا خلاف مستحب ہے ۔اور اپنے مسلمان بھائی کو چھوڑ کر کافر کو دینا حماقت ہے
اس عبارت سے واضح ہوا کہ یہاں کے کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینے میں کوئی ثواب نہیں ہے اور جب ثواب نہیں ہے قربانی کا گوشت کافر حربی کو اصلا نہ دے ۔
( نوٹ) اس فقیر نے اوپر میں گیارہ دلائل سے ثابت کیا کہ کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ہے ممنوع ہے اور یہی میرا موقف ہے
اور ہمارے کچھ احباب کو فتاوی رضویہ کی اس عبارت سے غلط فہمی ہوئی اور بیان دیا کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا خلاف مستحب ہے وہ عبارت یہ ہے
سرکار سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے 1331ھ میں ایک سوال ہوا کہ
گوشت قربانی کا جو بقرعید میں اہل اسلام میں ہوتا ہے وہ اہل ہنود کو دیا جائے یا نہیں ؟ اس مسئلہ کی ہم کو ضرورت ہے ۔جواب سے مطلع فرمایئے گا
المستفتی ۔رحیم بخش منہار از قصبہ حافظ گنج ضلع بریلی
اہل علم حضرات اس سوال کو غور سے پڑھیں کہ اس میں ہے کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دیا جائے یا نہیں اس سوال کے جواب میں امام اہل سنت مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ قربانی اگر فقیر نے کی ہو اس کا گوشت کسی کافر کو دینا جائز نہیں ۔اگر دے گا تو اتنے گوشت کا تاوان دینا لازم ہوگا ۔اور اگر غنی کی تو ذبح کرنے سے اس کا واجب ادا ہوگیا ۔گوشت کا اسے اختیار ہے ۔مگر مستحب یہ ہے کہ اس کے تین حصے کرلے ۔ایک حصہ اپنے لئے ۔ایک عزیزوں ۔خویشوں کے لئے ۔ایک تصدق کے لئے ۔یہاں کے کفار کو دینا ان تینوں مدوں سے خارج ہے ۔لہذا انہیں دینا خلاف مستحب ہے ۔اور اپنے مسلمان بھائی کو چھوڑ کر کافر کو دینا حماقت ہے
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20ص 456)
بعض لوگ فتاوی رضویہ کی اسی عبارت کو سمجھنے میں غلطی کرجاتے ہیں اور فتویٰ دیتے ہیں کہ کافر کو گوشت دینا خلاف مستحب لیکن وہ فتاوی رضویہ کو غور سے نہیں پڑھتے ہیں اوپر والی عبارت صفہ 456 کی ہے جبکہ ٹھیک اسی صفہ کے بعد صفہ 457 پر ہمارے امام اہل سنت حضور اعلی حضرت عظیم البرکت بریلی شریف قدس سرہ صاف واضح بیان فرماتے ہیں کہ یہاں کے کافروں کو گوشت دینا منع ہے کاش کہ وہ فتویٰ رضویہ کا خوب گہرائی سے مطالعہ کرتے تو خاموش رہتے یہ جواب فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 456 پر ہے اور ٹھیک اسی جلد 20 میں اس صفہ کے بعد ص 457 پر سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
یہاں کے کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں ہے
بعض لوگ فتاوی رضویہ کی اسی عبارت کو سمجھنے میں غلطی کرجاتے ہیں اور فتویٰ دیتے ہیں کہ کافر کو گوشت دینا خلاف مستحب لیکن وہ فتاوی رضویہ کو غور سے نہیں پڑھتے ہیں اوپر والی عبارت صفہ 456 کی ہے جبکہ ٹھیک اسی صفہ کے بعد صفہ 457 پر ہمارے امام اہل سنت حضور اعلی حضرت عظیم البرکت بریلی شریف قدس سرہ صاف واضح بیان فرماتے ہیں کہ یہاں کے کافروں کو گوشت دینا منع ہے کاش کہ وہ فتویٰ رضویہ کا خوب گہرائی سے مطالعہ کرتے تو خاموش رہتے یہ جواب فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 456 پر ہے اور ٹھیک اسی جلد 20 میں اس صفہ کے بعد ص 457 پر سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
یہاں کے کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں ہے
کاش اس صفہ کو بھی پڑھ لیتے تو مسئلہ کی وضاحت سمجھ میں آجاتی
اب میرا سوال ہے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں کہ کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں تو خلاف مستحب ماننے والوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا خلاف مستحب کام کرنا جائز نہیں ہے؟ آج تک کسی فقیہ کا یہ قول نہیں ہے کہ خلاف مستحب کام کرنا جائز نہیں ہے لہزا اس عبارت کا صحیح مفہوم سمجھنا ہوگا
اس عبارت سے واضح ہوا کہ
(1) قربانی اگر فقیر نے کی ہو اس کا گوشت کسی کافر کو دینا جائز نہیں ۔اگر دے گا تو اتنے گوشت کا تاوان دینا لازم ہوگا کیونکہ قربانی فقیر پر واجب نہیں ہے ۔اس سے صاف واضح ہے کہ قربانی غنی کرتے ہیں یا فقیر منت کی وجہ سے یا خریدنے کی وجہ سے اس نے اپنے اوپر واجب کرلیا اگر فقیر کیا تو کسی کافر کو ہر گز گوشت نہیں دے سکتا اگر دے گا تو تاوان دینا ہوگا
درمختار میں ہے ۔تصدق بھا ناذر و فقیر شراھا لوجوبھا علیہ بذلک (ملخصا) یعنی نذر والا اور فقیر جس نے قربانی کی نیت سے خریدا تھا۔یہ صدقہ کریں گے کیونکہ نذر اور خریدنے کی بنا پر ان پر واجب ہوگیا تھا
(2) دوسری بات معلوم ہوئی کہ اور اگر غنی نے کی تو ذبح کرنے سے اس کا واجب ادا ہوگیا ۔گوشت کا اسے اختیار ہے ۔ کیونکہ غنی صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے تو جانور ذبح کرنے سے اس کا وجوب ادا ہو گیا یعنی اس نے واجب ادا کرلیا کیونکہ قربانی کا مقصد ہے خون بہانا ہے جو بہ گیا
(3) تیسری بات معلوم ہوئی کہ جب غنی کا واجب ادا ہوگیا تو سارا گوشت وہ خود رکھ لے یا بانٹ دے یا جس کو دینا چاہے دے اس کو مکمل اختیار ہے
خلاصہ یہ کہ بعد قربانی اس کے اجزاء میں ہر قسم کا تصرف غنی کو حلال ہے ۔مگر وہ جس میں معنی تمول پائے جائیں
(4) مگر مستحب یہ ہے کہ اس کے تین حصے کرلے ۔ایک حصہ اپنے لئے ۔ایک عزیزوں ۔خویشوں کے لئے ۔ایک تصدق کے لئے ۔یعنی فقیروں کو بنیت ثواب بانٹنے کے لیے
یہاں پر لفظ تصدق ہے اور تصدق ہی عام معنی میں مستعمل ہے ۔اور اس سے ہر قسم کا کار خیر مراد ہے اور کافر حربی کے ساتھ کار خیر منع ہے جیسا کہ فقہائے کرام کے اقوال سے واضح معلوم ہوا
(5) یہاں کے کفار کو دیناان تینوں مدوں سے خارج ہے۔ یعنی کفار نہ اپنا ہے نہ عزیز ہے اور نہ مسلم ہے اس لئے ان تینوں مدوں میں وہ داخل نہیں ہے
(6) لہذا انھیں یعنی کافر حربی کو دینا خلاف مستحب ہے ۔ یعنی ان تینوں مدوں سے دینا خلاف مستحب ہے جیسا کہ ہمارے بعض احباب نے سمجھا
جب کافر اہل قربت سے نہیں وہ اہل ثواب سے نہیں تو اس کے لئے گوشت کا چوتھا حصہ نکالنا خلاف مستحب کیسے ہوسکتا ہے،؟ بلکہ ناجائز ہی ہوگا خواہ تقسیم کے لحاظ سے یا دینے کے لئے اور علماء کرام تین ہی حصے لگانے کو مستحب فرمایا نہ کہ تین کے علاؤہ چوتھا حصہ نکالنے کا حکم بھی نہیں ہے درمختار میں ہے کہ (وندب ان لاینقص التصدق عن الثلث) یعنی اور یہ مستحب ہے کہ وہ ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے۔
اب میرا سوال ہے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں کہ کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں تو خلاف مستحب ماننے والوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا خلاف مستحب کام کرنا جائز نہیں ہے؟ آج تک کسی فقیہ کا یہ قول نہیں ہے کہ خلاف مستحب کام کرنا جائز نہیں ہے لہزا اس عبارت کا صحیح مفہوم سمجھنا ہوگا
اس عبارت سے واضح ہوا کہ
(1) قربانی اگر فقیر نے کی ہو اس کا گوشت کسی کافر کو دینا جائز نہیں ۔اگر دے گا تو اتنے گوشت کا تاوان دینا لازم ہوگا کیونکہ قربانی فقیر پر واجب نہیں ہے ۔اس سے صاف واضح ہے کہ قربانی غنی کرتے ہیں یا فقیر منت کی وجہ سے یا خریدنے کی وجہ سے اس نے اپنے اوپر واجب کرلیا اگر فقیر کیا تو کسی کافر کو ہر گز گوشت نہیں دے سکتا اگر دے گا تو تاوان دینا ہوگا
درمختار میں ہے ۔تصدق بھا ناذر و فقیر شراھا لوجوبھا علیہ بذلک (ملخصا) یعنی نذر والا اور فقیر جس نے قربانی کی نیت سے خریدا تھا۔یہ صدقہ کریں گے کیونکہ نذر اور خریدنے کی بنا پر ان پر واجب ہوگیا تھا
(2) دوسری بات معلوم ہوئی کہ اور اگر غنی نے کی تو ذبح کرنے سے اس کا واجب ادا ہوگیا ۔گوشت کا اسے اختیار ہے ۔ کیونکہ غنی صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے تو جانور ذبح کرنے سے اس کا وجوب ادا ہو گیا یعنی اس نے واجب ادا کرلیا کیونکہ قربانی کا مقصد ہے خون بہانا ہے جو بہ گیا
(3) تیسری بات معلوم ہوئی کہ جب غنی کا واجب ادا ہوگیا تو سارا گوشت وہ خود رکھ لے یا بانٹ دے یا جس کو دینا چاہے دے اس کو مکمل اختیار ہے
خلاصہ یہ کہ بعد قربانی اس کے اجزاء میں ہر قسم کا تصرف غنی کو حلال ہے ۔مگر وہ جس میں معنی تمول پائے جائیں
(4) مگر مستحب یہ ہے کہ اس کے تین حصے کرلے ۔ایک حصہ اپنے لئے ۔ایک عزیزوں ۔خویشوں کے لئے ۔ایک تصدق کے لئے ۔یعنی فقیروں کو بنیت ثواب بانٹنے کے لیے
یہاں پر لفظ تصدق ہے اور تصدق ہی عام معنی میں مستعمل ہے ۔اور اس سے ہر قسم کا کار خیر مراد ہے اور کافر حربی کے ساتھ کار خیر منع ہے جیسا کہ فقہائے کرام کے اقوال سے واضح معلوم ہوا
(5) یہاں کے کفار کو دیناان تینوں مدوں سے خارج ہے۔ یعنی کفار نہ اپنا ہے نہ عزیز ہے اور نہ مسلم ہے اس لئے ان تینوں مدوں میں وہ داخل نہیں ہے
(6) لہذا انھیں یعنی کافر حربی کو دینا خلاف مستحب ہے ۔ یعنی ان تینوں مدوں سے دینا خلاف مستحب ہے جیسا کہ ہمارے بعض احباب نے سمجھا
جب کافر اہل قربت سے نہیں وہ اہل ثواب سے نہیں تو اس کے لئے گوشت کا چوتھا حصہ نکالنا خلاف مستحب کیسے ہوسکتا ہے،؟ بلکہ ناجائز ہی ہوگا خواہ تقسیم کے لحاظ سے یا دینے کے لئے اور علماء کرام تین ہی حصے لگانے کو مستحب فرمایا نہ کہ تین کے علاؤہ چوتھا حصہ نکالنے کا حکم بھی نہیں ہے درمختار میں ہے کہ (وندب ان لاینقص التصدق عن الثلث) یعنی اور یہ مستحب ہے کہ وہ ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے۔
(درمختار ۔کتاب الاضحیۃ)
اقول ۔( محمد ثناء اللہ خاں)
فتاوی رضویہ کی تین عبارتوں سے تین باتوں کا واضح علم ہوا
(1) کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا خلاف مستحب ہے یہ فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 456 پر ہے
(2) دوسرا حکم فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 253 سے معلوم ہوا کہ تین حصے کرنا استحابی امر ہے کچھ ضروری نہیں ۔چاہے سب اپنے صرف میں کرلے یا سب عزیزوں کو دے دے یا سب مساکین کو بانٹ دے۔یہاں اگر مسلمان نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں ۔تو ان کو دینا قربانی ہو یا صدقہ ۔اصلا کچھ ثواب نہیں رکھتا ۔
(3) تیسرا فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 457 سے واضح ہوا کہ یہاں کے کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں ۔وہ خالص مسلمانوں کا حق ہے
اب ان تینوں احکام کو سمجھنے کے لیے
فتاوی رضویہ کی ان عبارتوں کا صحیح مفہوم جاننا ضروری ہوگا ملاحظہ فرمائیں
*یہاں خلاف مستحب سے مراد یہ ہے کہ تقسیم گوشت کے لئے تین حصے متعین ہیں چوتھا حصہ عام ازیں کہ وہ کافر کے لئے ہو یا کسی اور کے لئے ۔خلاف مستحب ہے ۔یعنی باعتبار قسمت خلاف مستحب ہے نہ کہ دینے کے اعتبار سے خلاصہ یہ کہ حربی کفار کے ساتھ کسی بھی قسم کا احسان روا نہیں کہ نص قرآنی میں منع وارد ہے ۔قربانی کا گوشت دینا بھی ایک قسم کا احسان ہی ہے فلہذا یہ بھی ناجائز اور دینے والا گنہگار ہوگا*.
فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 456, کی عبارت کا یہی صحیح مفہوم ہے وہ مفہوم کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا خلاف مستحب ہے کو مان لیا جائے تو پھر فتاوی رضویہ کی دوعبارتوں کے خلاف ہوگا جس میں صراحتاً کے ساتھ ذکر ہے کہ کافر حربی کو گوشت دینے میں کوئی ثواب نہیں ہے اور دینا جائز بھی نہیں ہے
(7) اور اپنے مسلم بھائی کو چھوڑ کر کافر کو دینا حماقت ہے ۔یعنی کوئی ثواب نہیں ہے جب ثواب نہیں ہے تو گوشت دینا حماقت کے سوا کیا ہے حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کلوا واد خرووا وائتجروا یعنی کھاؤ اور اٹھا رکھو ۔اور وہ کام کرو جس سے ثواب حاصل ہو اور کافر کو دینے میں نہ قربت ہے نہ کار خیر اور نہ باعث ثواب تو کوئی عقلمند آدمی کے لئے اس گوشت کو کافر کو ان علتوں کی بنا دینا درست نہیں جانے گا اور نہ مسلمانوں کا اس پر عمل ہے کوئی احمق آدمی ہی دے سکتا ہے اور یہ مسلم بھائی کا حق ہے تو اس حق کو مار کر کسی غیر حق والے کو دینا عقلمندی نہیں ہے
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ (قولہ:وندب الخ) البدائع میں کہا:افضل یہ ہے کہ وہ ایک تہائی صدقہ کرے اور ایک تہائی اپنے قریبوں اور دونوں کے لئے ضیافت بنائے اور ایک تہائی ذخیرہ کرلے۔اور یہ مستحب ہے کہ اس میں سے کھائے ۔اگر تمام گوشت اپنے لئے روک لے تو یہ جائز ہے کیونکہ قربت تو خون بہانے میں ہے اور گوشت صدقہ کرنا یہ نفل ہے ( ردالمحتار ۔کتاب الاضحیہ)
اس عبارت سے واضح ہے کہ تین حصے کرنا مستحب اور اس گوشت کو کھانا مستحب اور گوشت صدقہ کرنا نفل ہے کیونکہ خون بہانے سے قربانی ہوگئی اور قربانی کرنے والا اس گوشت خود مالک ہے جسے دے یا نہ دے
فتاوی رضویہ کی اس عبارت سے صاف واضح بیان معلوم ہوا کہ کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں جب جائز نہیں تو کافر کو دینا خلاف مستحب کیسے ہوگا؟ اس لئے صحیح مسئلہ یہی ہے کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا جائز نہیں ہے
اور وہ جو فتاوی رضویہ شریف میں ہے کہ
*” مستحب یہ ہےکہ اگر اسکے تین حصے کرلے ایک حصہ اپنےلئے ایک عزیزوں خویشوں کیلئے ایک تصدق کیلئے ، یہاں کے کفار کو دینا ان تینوں مدوں سے خارج ہے ، لہذا انہیں دینا خلاف مستحب ہے اوراپنے مسلمان بھائی کو چھوڑ کر دینا حماقت ہے “
(ایضا ج٢2 ص456)
اس سے مراد یہ ہےکہ تقسیم گوشت کیلئے تین حصے متعین ہیں چوتھا حصہ عام ازیں کہ وہ کافرکیلئے ہو یا کسی اورکیلئے ، خلاف مستحب ہے ، یعنی باعتبار قسمت خلاف مستحب ہے نہ کہ دینےکے اعتبارسے
اقول( محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی)
کچھ حضرات کی بات مان لی جائے ک فتاوی رضویہ کی اس عبارت سے واضح ہے کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا خلاف مستحب ہے تو پتہ چلا کہ مستحب کام کرنے پر ثواب ملتا ہے اور خلاف مستحب کام کرنے پر نہ ثواب اور نہ گناہ مگر کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینے میں مسلمان کو کتنا نقصان ہوگا وہ ملاحظہ فرمائیں
(1)اضاعت مال جو ناجائز ہے کہ اپنے صحیح محل میں کام نہ آیا
،(2) یہ فعل بھی ناجائز کیونکہ ہمارے تمام علماء نے ناجائز کا حکم دیا ہے کسی نے جائز نہیں کہا
(3) کافر حربی کو دینے سے فقراء ومساکین کو نقصان کہ ان کی حق تلفی ہوئی
(4) قربت کے کام سے محرومی جبکہ قربانی کا گوشت مسلم کو دینا قربت کا کام ہے لاطلاق عموم قولہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم واتجروا یعنی ثواب کماؤ کے اطلاق کی بنا پر امام زیلعی سے گزرا جب کھال کہ قربانی کا جز ہے جس کا حکم صدقہ کرنا ہے اور مستحق صدقہ کو صدقہ دینے کے بعد کھال تقرب کو پہنچ جاتی ہے ۔تو کیا گوشت کافر کو دینے کے بعد صدقہ کا مقصد حاصل ہوجایے گا ؟اور اس صورت میں گوشت تقرب کے مقام پہنچ جائے گا؟ کیا کافر حربی کو دینے سے قربانی کرنے والے کو ثواب مل جائے گا ؟بلکہ کوئی ثواب نہیں ملے گا اسی لئے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لاتطعمعوا المشرکین شیئا من النسک یعنی مشرکین کو قربانیوں میں سے کچھ نہ دو جیسا کہ کنز العمال میں یہ حدیث ہے اور پھر سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے صاف ترین لفظوں میں فرمایا کہ یہاں اگر مسلمان مسکین نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں ہے تو ان کو دینا قربانی ہو یا صدقہ اصلا کچھ ثواب نہیں رکھتا۔
اقول ۔( محمد ثناء اللہ خاں)
فتاوی رضویہ کی تین عبارتوں سے تین باتوں کا واضح علم ہوا
(1) کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا خلاف مستحب ہے یہ فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 456 پر ہے
(2) دوسرا حکم فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 253 سے معلوم ہوا کہ تین حصے کرنا استحابی امر ہے کچھ ضروری نہیں ۔چاہے سب اپنے صرف میں کرلے یا سب عزیزوں کو دے دے یا سب مساکین کو بانٹ دے۔یہاں اگر مسلمان نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں ۔تو ان کو دینا قربانی ہو یا صدقہ ۔اصلا کچھ ثواب نہیں رکھتا ۔
(3) تیسرا فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 457 سے واضح ہوا کہ یہاں کے کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں ۔وہ خالص مسلمانوں کا حق ہے
اب ان تینوں احکام کو سمجھنے کے لیے
فتاوی رضویہ کی ان عبارتوں کا صحیح مفہوم جاننا ضروری ہوگا ملاحظہ فرمائیں
*یہاں خلاف مستحب سے مراد یہ ہے کہ تقسیم گوشت کے لئے تین حصے متعین ہیں چوتھا حصہ عام ازیں کہ وہ کافر کے لئے ہو یا کسی اور کے لئے ۔خلاف مستحب ہے ۔یعنی باعتبار قسمت خلاف مستحب ہے نہ کہ دینے کے اعتبار سے خلاصہ یہ کہ حربی کفار کے ساتھ کسی بھی قسم کا احسان روا نہیں کہ نص قرآنی میں منع وارد ہے ۔قربانی کا گوشت دینا بھی ایک قسم کا احسان ہی ہے فلہذا یہ بھی ناجائز اور دینے والا گنہگار ہوگا*.
فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 456, کی عبارت کا یہی صحیح مفہوم ہے وہ مفہوم کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا خلاف مستحب ہے کو مان لیا جائے تو پھر فتاوی رضویہ کی دوعبارتوں کے خلاف ہوگا جس میں صراحتاً کے ساتھ ذکر ہے کہ کافر حربی کو گوشت دینے میں کوئی ثواب نہیں ہے اور دینا جائز بھی نہیں ہے
(7) اور اپنے مسلم بھائی کو چھوڑ کر کافر کو دینا حماقت ہے ۔یعنی کوئی ثواب نہیں ہے جب ثواب نہیں ہے تو گوشت دینا حماقت کے سوا کیا ہے حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کلوا واد خرووا وائتجروا یعنی کھاؤ اور اٹھا رکھو ۔اور وہ کام کرو جس سے ثواب حاصل ہو اور کافر کو دینے میں نہ قربت ہے نہ کار خیر اور نہ باعث ثواب تو کوئی عقلمند آدمی کے لئے اس گوشت کو کافر کو ان علتوں کی بنا دینا درست نہیں جانے گا اور نہ مسلمانوں کا اس پر عمل ہے کوئی احمق آدمی ہی دے سکتا ہے اور یہ مسلم بھائی کا حق ہے تو اس حق کو مار کر کسی غیر حق والے کو دینا عقلمندی نہیں ہے
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ (قولہ:وندب الخ) البدائع میں کہا:افضل یہ ہے کہ وہ ایک تہائی صدقہ کرے اور ایک تہائی اپنے قریبوں اور دونوں کے لئے ضیافت بنائے اور ایک تہائی ذخیرہ کرلے۔اور یہ مستحب ہے کہ اس میں سے کھائے ۔اگر تمام گوشت اپنے لئے روک لے تو یہ جائز ہے کیونکہ قربت تو خون بہانے میں ہے اور گوشت صدقہ کرنا یہ نفل ہے ( ردالمحتار ۔کتاب الاضحیہ)
اس عبارت سے واضح ہے کہ تین حصے کرنا مستحب اور اس گوشت کو کھانا مستحب اور گوشت صدقہ کرنا نفل ہے کیونکہ خون بہانے سے قربانی ہوگئی اور قربانی کرنے والا اس گوشت خود مالک ہے جسے دے یا نہ دے
فتاوی رضویہ کی اس عبارت سے صاف واضح بیان معلوم ہوا کہ کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں جب جائز نہیں تو کافر کو دینا خلاف مستحب کیسے ہوگا؟ اس لئے صحیح مسئلہ یہی ہے کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا جائز نہیں ہے
اور وہ جو فتاوی رضویہ شریف میں ہے کہ
*” مستحب یہ ہےکہ اگر اسکے تین حصے کرلے ایک حصہ اپنےلئے ایک عزیزوں خویشوں کیلئے ایک تصدق کیلئے ، یہاں کے کفار کو دینا ان تینوں مدوں سے خارج ہے ، لہذا انہیں دینا خلاف مستحب ہے اوراپنے مسلمان بھائی کو چھوڑ کر دینا حماقت ہے “
(ایضا ج٢2 ص456)
اس سے مراد یہ ہےکہ تقسیم گوشت کیلئے تین حصے متعین ہیں چوتھا حصہ عام ازیں کہ وہ کافرکیلئے ہو یا کسی اورکیلئے ، خلاف مستحب ہے ، یعنی باعتبار قسمت خلاف مستحب ہے نہ کہ دینےکے اعتبارسے
اقول( محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی)
کچھ حضرات کی بات مان لی جائے ک فتاوی رضویہ کی اس عبارت سے واضح ہے کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا خلاف مستحب ہے تو پتہ چلا کہ مستحب کام کرنے پر ثواب ملتا ہے اور خلاف مستحب کام کرنے پر نہ ثواب اور نہ گناہ مگر کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینے میں مسلمان کو کتنا نقصان ہوگا وہ ملاحظہ فرمائیں
(1)اضاعت مال جو ناجائز ہے کہ اپنے صحیح محل میں کام نہ آیا
،(2) یہ فعل بھی ناجائز کیونکہ ہمارے تمام علماء نے ناجائز کا حکم دیا ہے کسی نے جائز نہیں کہا
(3) کافر حربی کو دینے سے فقراء ومساکین کو نقصان کہ ان کی حق تلفی ہوئی
(4) قربت کے کام سے محرومی جبکہ قربانی کا گوشت مسلم کو دینا قربت کا کام ہے لاطلاق عموم قولہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم واتجروا یعنی ثواب کماؤ کے اطلاق کی بنا پر امام زیلعی سے گزرا جب کھال کہ قربانی کا جز ہے جس کا حکم صدقہ کرنا ہے اور مستحق صدقہ کو صدقہ دینے کے بعد کھال تقرب کو پہنچ جاتی ہے ۔تو کیا گوشت کافر کو دینے کے بعد صدقہ کا مقصد حاصل ہوجایے گا ؟اور اس صورت میں گوشت تقرب کے مقام پہنچ جائے گا؟ کیا کافر حربی کو دینے سے قربانی کرنے والے کو ثواب مل جائے گا ؟بلکہ کوئی ثواب نہیں ملے گا اسی لئے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لاتطعمعوا المشرکین شیئا من النسک یعنی مشرکین کو قربانیوں میں سے کچھ نہ دو جیسا کہ کنز العمال میں یہ حدیث ہے اور پھر سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے صاف ترین لفظوں میں فرمایا کہ یہاں اگر مسلمان مسکین نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں ہے تو ان کو دینا قربانی ہو یا صدقہ اصلا کچھ ثواب نہیں رکھتا۔
( فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 253)
لانہ قربۃ کا تصدق۔
لانہ قربۃ کا تصدق۔
اس سے واضح ہوگیا قربانی کا گوشت وہاں دیا جائے جہاں قربت و کار خیر وباعث ثواب ہے
(5)؛اور اپنا نقصان کہ قربانی ثواب کے لئے کیا اور کافر حربی کو دینے میں ہمیں کوئی ثواب حاصل نہیں ہوا یہ بہت بڑا خسارہ ہے بلکہ ان کو گوشت دو جن کو دینے میں اجر ملے گا۔.اور لقولہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم واتجروا یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کی بنا پر کہ اجر کماؤ ۔جبکہ کافر حربی کو دینے میں کوئی اجر و ثواب نہیں ہے کیونکہ امام زیلعی نے فرمایا: لانہ قربۃ کالتصدق یعنی کیونکہ یہ صدقہ کی طرح قربت ہے اور کافر حربی کو دینا کار قربت نہیں ہے
(6) ثواب کا کام چھوڑ فضول کام کرنا ہوا
(7) ثواب سے محرومی چونکہ خلاف مستحب کام کرنے پر کوئی ثواب نہیں حضور امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ کافر کو گوشت دینا اصلا ثواب نہیں ہے اور ثواب نہ ملنا بھی ایک نوع ضرر ہے جیسا کہ فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 761 میں ہے کہ ثواب نہ ملنا بھی ایک نوع ضرر ہے ،( فتویٰ رضویہ ) اور ہر ضرر اور ہر حرج سے شرعا بچنے کا حکم ہے
جبکہ قربانی کے گوشت کے تین مقاصد ہیں
(1) اکل یعنی کھانا (2) ادخار یعنی جمع کرنا (3) اتیجار یعنی کار ثواب تو قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینے سے اتیجار کے مقاصد فوت ہوجاتے ہیں اور بے مقصد کام کرنے میں کوئی بھلائی نہیں بلکہ تبذیر کے زمرے میں آتا ہے یعنی بے مقصد کام کے لئے قدم اٹھانا اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ ان المبذر ین کانوا اخوان الشیاطین یعنی مال کو بے مقصد برباد کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ( القرآن )
(8) مال کا ضائع کرنا کہ قربانی کرنے میں کثیر رقم خرچ ہوتا ہے اور کافر کو گوشت دینے میں کوئی ثواب بھی نہیں حاصل ہوا اور نہ ہی تصدق کا مقصد پورا ہوا
(9)! قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا غیر صحیح غیر شرعی مقصود ہے تو یقینا ممنوع ہے اور ہمارے تمام علماء نے ممنوع ہی قرار دیا ہے اگرچہ الفاظ مختلف ہے
خلاصہ یہ کہ حربی کفار کےساتھ کسی بھی قسم کا احسان روا نہیں کہ نص قرآنی میں منع وارد ہے ، قربانی کا گوشت دینا بھی ایک قسم کا احسان ہی ہے فلہذا یہ بھی ناجائز ہے
ردالمحتار کی عبارت کی توضیح:-
،عزیزم بابو حضرت مفتی محمد انظارعالم مصباحی صاحب سلمہ
آپ اپنے موقف کہ صدقہ نافلہ کافر حربی کو دینا جائز ہے اس کی تائید میں درمختار میں سیر کبیر کے حوالے سے مذکور ہے کہ صدقات نافلہ کافر حربی کو دینا جائز ہے اور آپ نے اپنی تحریر میں عربی عبارت نقل فرماچکے ہیں جو آپ کی تحریر میں منقول یے اس کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں ۔
الجواب (فقیر محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی)
اولا یہ کہ آپ نے رد المحتار کتاب کی کس باب سے یہ عبارت لی وہ باب آپ کی تحریر میں منقول نہیں ہے
ثانیا ۔اپ نے ردمختار کی پوری عبارت تحریر نہیں فرمائی
ثالثاً ۔ اپ کی عبارت ردالمحتار کی ہے
چہارم ۔ کتاب الزکواۃ باب المصرف کی عبارت ہے
پنجم ۔درمختار کی عبارت کی تشریح ہے
در مختار اور ردالمحتار کی پوری عبارت اس طرح ہے
درمختار میں ہے کہ
*واما الحربی ولو مستامنا فجمیع الصدقات لاتجوز لہ اتفاقا بحر الغایۃ وغیرھا ۔لکن جزم الزیلعی بجواز التطوع لہ*. یعنی حربی اگر مستامن بھی ہو تو اس کو بھی صدقہ دینا بالاتفاق ناجائز ہے بحر میں خانیہ وغیرہا سے مروی ہے لیکن :
(5)؛اور اپنا نقصان کہ قربانی ثواب کے لئے کیا اور کافر حربی کو دینے میں ہمیں کوئی ثواب حاصل نہیں ہوا یہ بہت بڑا خسارہ ہے بلکہ ان کو گوشت دو جن کو دینے میں اجر ملے گا۔.اور لقولہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم واتجروا یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کی بنا پر کہ اجر کماؤ ۔جبکہ کافر حربی کو دینے میں کوئی اجر و ثواب نہیں ہے کیونکہ امام زیلعی نے فرمایا: لانہ قربۃ کالتصدق یعنی کیونکہ یہ صدقہ کی طرح قربت ہے اور کافر حربی کو دینا کار قربت نہیں ہے
(6) ثواب کا کام چھوڑ فضول کام کرنا ہوا
(7) ثواب سے محرومی چونکہ خلاف مستحب کام کرنے پر کوئی ثواب نہیں حضور امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ کافر کو گوشت دینا اصلا ثواب نہیں ہے اور ثواب نہ ملنا بھی ایک نوع ضرر ہے جیسا کہ فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 761 میں ہے کہ ثواب نہ ملنا بھی ایک نوع ضرر ہے ،( فتویٰ رضویہ ) اور ہر ضرر اور ہر حرج سے شرعا بچنے کا حکم ہے
جبکہ قربانی کے گوشت کے تین مقاصد ہیں
(1) اکل یعنی کھانا (2) ادخار یعنی جمع کرنا (3) اتیجار یعنی کار ثواب تو قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینے سے اتیجار کے مقاصد فوت ہوجاتے ہیں اور بے مقصد کام کرنے میں کوئی بھلائی نہیں بلکہ تبذیر کے زمرے میں آتا ہے یعنی بے مقصد کام کے لئے قدم اٹھانا اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ ان المبذر ین کانوا اخوان الشیاطین یعنی مال کو بے مقصد برباد کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ( القرآن )
(8) مال کا ضائع کرنا کہ قربانی کرنے میں کثیر رقم خرچ ہوتا ہے اور کافر کو گوشت دینے میں کوئی ثواب بھی نہیں حاصل ہوا اور نہ ہی تصدق کا مقصد پورا ہوا
(9)! قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا غیر صحیح غیر شرعی مقصود ہے تو یقینا ممنوع ہے اور ہمارے تمام علماء نے ممنوع ہی قرار دیا ہے اگرچہ الفاظ مختلف ہے
خلاصہ یہ کہ حربی کفار کےساتھ کسی بھی قسم کا احسان روا نہیں کہ نص قرآنی میں منع وارد ہے ، قربانی کا گوشت دینا بھی ایک قسم کا احسان ہی ہے فلہذا یہ بھی ناجائز ہے
ردالمحتار کی عبارت کی توضیح:-
،عزیزم بابو حضرت مفتی محمد انظارعالم مصباحی صاحب سلمہ
آپ اپنے موقف کہ صدقہ نافلہ کافر حربی کو دینا جائز ہے اس کی تائید میں درمختار میں سیر کبیر کے حوالے سے مذکور ہے کہ صدقات نافلہ کافر حربی کو دینا جائز ہے اور آپ نے اپنی تحریر میں عربی عبارت نقل فرماچکے ہیں جو آپ کی تحریر میں منقول یے اس کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں ۔
الجواب (فقیر محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی)
اولا یہ کہ آپ نے رد المحتار کتاب کی کس باب سے یہ عبارت لی وہ باب آپ کی تحریر میں منقول نہیں ہے
ثانیا ۔اپ نے ردمختار کی پوری عبارت تحریر نہیں فرمائی
ثالثاً ۔ اپ کی عبارت ردالمحتار کی ہے
چہارم ۔ کتاب الزکواۃ باب المصرف کی عبارت ہے
پنجم ۔درمختار کی عبارت کی تشریح ہے
در مختار اور ردالمحتار کی پوری عبارت اس طرح ہے
درمختار میں ہے کہ
*واما الحربی ولو مستامنا فجمیع الصدقات لاتجوز لہ اتفاقا بحر الغایۃ وغیرھا ۔لکن جزم الزیلعی بجواز التطوع لہ*. یعنی حربی اگر مستامن بھی ہو تو اس کو بھی صدقہ دینا بالاتفاق ناجائز ہے بحر میں خانیہ وغیرہا سے مروی ہے لیکن :
زیلعی نے نفلی صدقہ اس کو دینا جائز قرار دیا ہے
(درمختار ۔کتاب الزکواۃ باب المصرف)
درمختار کی اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حربی کافر کو صدقہ نافلہ دینا جائز نہیں ہے اور ہمارے تمام علمائے کرام نے اس قول کو قبول کیا اور اپنی کتابوں میں ثابت و برقرار رکھا اور اسی قول پر فتویٰ بھی دیتے آرہے ہیں اور: زیعلی:,, کی عبارت کو ہمارے کسی عالم نے قبول نہیں کیا اور نہ اپنی کتابوں میں اس سے بحث کی خصوصا سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ نے بھی اس سے استدلال نہیں فرمایا
اس کے تحت علامہ شامی لکھتے ہیں کہ
(لیکن جزم الزیلعی بجواز التطوع لہ) اس میں *لہ*.کی ضمیر سے مراد مستامن ہے جس طرح النہر کی عبارت اس کا فائدہ دیتی ہے: النہر:, پھر : الزیلعی: میں اس قول کو نہیں دیکھا :ابو سعود وغیرہ نے اسی طرح کہا ہے ساتھ ہی یہ اتفاق کے دعوی کے خلاف ہے(اس سے واضح ہوا کہ یہ قول زیلعی کا نہیں ہے چونکہ صاحب درمختار نے زیلعی کے حوالہ سے لکھا ہے لیکن علامہ شامی فرما رہے ہیں کہ میں نے زیلعی میں اس قول کو نہیں دیکھا
مفتی موصوف کی آخری دلیل اور اس کا جواب:-
اب علامہ شامی کی اسی عبارت کو, جس کو مفتی موصوف نے اپنے موقف کی تائید اور میرے مؤقف کے خلاف میں قبول فرمایا جو عبارت آپ کے سوال میں نقل ہے یعنی علامہ شامی لکھتے ہیں کہ میں نے المحیط میں کتاب الکسب میں دیکھا ہے :امام محمد رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے سیر کبیر میں ذکر کیا ہے:, مسلمان کے لئے کوئی حرج نہیں وہ کافر حربی ہو یا ذمی ہو ۔اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس سے ہدیہ قبول کرے کیونکہ یہ روایت کی گئی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے پانچ سو دینار مکہ مکرمہ کی طرف بھیجے جب اہل مکہ قحط کا شکار ہوئے تھے اور یہ حکم دیا تھا کہ یہ دینار ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کو دیئے جائیں تاکہ وہ اہل مکہ کے فقراء پر تقسیم کردیں اور اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صلہ رحمی ہر دن میں محمود ہے اور ورثاء کو ہدیہ دینا مکارم اخلاق میں سے ہے ۔
درمختار کی اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حربی کافر کو صدقہ نافلہ دینا جائز نہیں ہے اور ہمارے تمام علمائے کرام نے اس قول کو قبول کیا اور اپنی کتابوں میں ثابت و برقرار رکھا اور اسی قول پر فتویٰ بھی دیتے آرہے ہیں اور: زیعلی:,, کی عبارت کو ہمارے کسی عالم نے قبول نہیں کیا اور نہ اپنی کتابوں میں اس سے بحث کی خصوصا سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ نے بھی اس سے استدلال نہیں فرمایا
اس کے تحت علامہ شامی لکھتے ہیں کہ
(لیکن جزم الزیلعی بجواز التطوع لہ) اس میں *لہ*.کی ضمیر سے مراد مستامن ہے جس طرح النہر کی عبارت اس کا فائدہ دیتی ہے: النہر:, پھر : الزیلعی: میں اس قول کو نہیں دیکھا :ابو سعود وغیرہ نے اسی طرح کہا ہے ساتھ ہی یہ اتفاق کے دعوی کے خلاف ہے(اس سے واضح ہوا کہ یہ قول زیلعی کا نہیں ہے چونکہ صاحب درمختار نے زیلعی کے حوالہ سے لکھا ہے لیکن علامہ شامی فرما رہے ہیں کہ میں نے زیلعی میں اس قول کو نہیں دیکھا
مفتی موصوف کی آخری دلیل اور اس کا جواب:-
اب علامہ شامی کی اسی عبارت کو, جس کو مفتی موصوف نے اپنے موقف کی تائید اور میرے مؤقف کے خلاف میں قبول فرمایا جو عبارت آپ کے سوال میں نقل ہے یعنی علامہ شامی لکھتے ہیں کہ میں نے المحیط میں کتاب الکسب میں دیکھا ہے :امام محمد رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے سیر کبیر میں ذکر کیا ہے:, مسلمان کے لئے کوئی حرج نہیں وہ کافر حربی ہو یا ذمی ہو ۔اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس سے ہدیہ قبول کرے کیونکہ یہ روایت کی گئی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے پانچ سو دینار مکہ مکرمہ کی طرف بھیجے جب اہل مکہ قحط کا شکار ہوئے تھے اور یہ حکم دیا تھا کہ یہ دینار ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کو دیئے جائیں تاکہ وہ اہل مکہ کے فقراء پر تقسیم کردیں اور اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صلہ رحمی ہر دن میں محمود ہے اور ورثاء کو ہدیہ دینا مکارم اخلاق میں سے ہے ۔
( الدرالمختار علی الدرمختار شرح تنویر الابصار ۔کتاب الزکواۃ)
آپ خود غور کریں کہ
صدقہ کا معنی ہے کہ جو چیز کسی کو ثواب کی نیت سے دی جائے وہ صدقہ ہے تو
(2) تو آپ کے نزدیک کافر حربی کو نفل صدقہ دینا جائز ہے ؟
(2) کیا وہ اہل ثواب سے ہے؟
(3) کیا علامہ شامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے سند لی؟
(4) کیا علامہ شامی کے بعد کے تمام فقہاء احناف نے اس قول پر فتویٰ دیا ،؟
(5) اگر آپ کے علم میں ہو تو پیش فرمائیں
اقول ۔ردالمحتار میں سیر کبیر سے حربی کے لئے اشعار جواز نقل کیا گیا مگر اس میں حربی فی دارہ کے لئے تصریح ہے
کافر کے تین اقسام ہیں
(1) ذمی ۔سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں ۔
ہمارے ائمہ نے اعتماد فرمایا کہ ایۃ لاینھکم دربارہ اہل ذمہ اور ایہ ینھکم اللہ حربیوں کے بارے میں ہے ۔اسی بنا پر ہدایہ و درد وغیرہ ہما کتب معتمدہ میں فرمایا: کافر ذمی کے لئے وصیت جائز ہے اور حربی کے لئے باطل و حرام اور ذمی کے ساتھ احسان جائز فرمایا اور حربی کے ساتھ احسان حرام
کافی شرح وافی میں ہے کہ
یجوز ان یدفع غیر الزکواۃ الی ذمی وقال ابو یوسف والشافی لایجوز کالزکواۃ یعنی زکواۃ کے سوا اور صدقات ذمی کو دے سکتا ہے اور امام ابویوسف و امام شافعی نے فرمایا اور صدقات بھی ذمی کو نہیں دے سکتا ہے جیسے زکواۃ۔
(2) مستامن ۔مستامن کے بارے میں عبارات مختلف آئیں ہیں کثیر روایات میں مطلقا حربی سے نیک سلوک کی ممانعت ہے جس میں مستامن بھی داخل ۔اور بعض روایات سے مستامن کے رخصت ثابت ۔فتاوی عالمگیری میں ہے ۔
لاباس بان یصل الرجل المسلم المشرک قریبا کان او بعیدا لمحاربا کان او ذمیا و اراد بالحارب النستامن واما اذا کان غیر المستامن من فلا ینبغی للمسلم ان یصلہ بشئی کذا فی المحیط یعنی کوئی حرج نہیں کہ مسلمان مشرک سے کوئی مالی سلوک کرے خواہ رشتہ دار ہو یا اجنبی ۔حربی ہو یا ذمی ۔حربی سے مستامن مراد لیا اور اگر حربی غیر مستامن ہو تو مسلمان کو سزاوار نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی نیک سلوک کرے ایسا ہی محیط میں ہے
آپ خود غور کریں کہ
صدقہ کا معنی ہے کہ جو چیز کسی کو ثواب کی نیت سے دی جائے وہ صدقہ ہے تو
(2) تو آپ کے نزدیک کافر حربی کو نفل صدقہ دینا جائز ہے ؟
(2) کیا وہ اہل ثواب سے ہے؟
(3) کیا علامہ شامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے سند لی؟
(4) کیا علامہ شامی کے بعد کے تمام فقہاء احناف نے اس قول پر فتویٰ دیا ،؟
(5) اگر آپ کے علم میں ہو تو پیش فرمائیں
اقول ۔ردالمحتار میں سیر کبیر سے حربی کے لئے اشعار جواز نقل کیا گیا مگر اس میں حربی فی دارہ کے لئے تصریح ہے
کافر کے تین اقسام ہیں
(1) ذمی ۔سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں ۔
ہمارے ائمہ نے اعتماد فرمایا کہ ایۃ لاینھکم دربارہ اہل ذمہ اور ایہ ینھکم اللہ حربیوں کے بارے میں ہے ۔اسی بنا پر ہدایہ و درد وغیرہ ہما کتب معتمدہ میں فرمایا: کافر ذمی کے لئے وصیت جائز ہے اور حربی کے لئے باطل و حرام اور ذمی کے ساتھ احسان جائز فرمایا اور حربی کے ساتھ احسان حرام
کافی شرح وافی میں ہے کہ
یجوز ان یدفع غیر الزکواۃ الی ذمی وقال ابو یوسف والشافی لایجوز کالزکواۃ یعنی زکواۃ کے سوا اور صدقات ذمی کو دے سکتا ہے اور امام ابویوسف و امام شافعی نے فرمایا اور صدقات بھی ذمی کو نہیں دے سکتا ہے جیسے زکواۃ۔
(2) مستامن ۔مستامن کے بارے میں عبارات مختلف آئیں ہیں کثیر روایات میں مطلقا حربی سے نیک سلوک کی ممانعت ہے جس میں مستامن بھی داخل ۔اور بعض روایات سے مستامن کے رخصت ثابت ۔فتاوی عالمگیری میں ہے ۔
لاباس بان یصل الرجل المسلم المشرک قریبا کان او بعیدا لمحاربا کان او ذمیا و اراد بالحارب النستامن واما اذا کان غیر المستامن من فلا ینبغی للمسلم ان یصلہ بشئی کذا فی المحیط یعنی کوئی حرج نہیں کہ مسلمان مشرک سے کوئی مالی سلوک کرے خواہ رشتہ دار ہو یا اجنبی ۔حربی ہو یا ذمی ۔حربی سے مستامن مراد لیا اور اگر حربی غیر مستامن ہو تو مسلمان کو سزاوار نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی نیک سلوک کرے ایسا ہی محیط میں ہے
( فتاوی ہندیہ جلد پنجم ص 347)
یہاں حربی کافر سے مراد مستامن کیا گیا ہے
اقول ۔ہمارے کچھ احباب کو شامی کی کتاب الزکواۃ میں سیر کبیر کے حوالہ سے جو امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہے اشتباہ میں ڈال دیا ہے ۔اسی لئے انہوں نے اس عبارت سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کافر حربی کو صدقہ نافلہ دے سکتے ہیں یہ وہی کہے گا جو فقہی جزئیات سے غافل ہوگا یا فقہی کتب کے مطالعہ سے دور ہوگا ہمارے امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ کی نظر میں یہ عبارت بھی تھی جو فتاوی رضویہ جلد 14 اور ردالمحتار کی شرح جدالممتار میں منقول ہے کاش مفتی موصوف نائب قاضی سرلاہی نیپال صاحب ان دونوں کتابوں کا مطالعہ کرلیتے تو سیر کبیر کی اس عبارت کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی اور نہ اس عبارت کو میرے مؤقف کے خلاف تحریر فرماتے یہ عبارت بھی اس فقیر قادری کے سامنے تھی ۔ یہاں حربی سے مستامن مراد ہے جیسا کہ محیط وہ ہندیہ میں ہے کہ حربی سے مستامن یعنی معاہد مراد ہے فتاوی عالمگیری میں ہے کہ اراد بالحارب المستامن یعنی حربی سے مستامن مراد لیا اسی طرح خود محیط نے تصریح کی کہ :
*اراد بالمحارب المستامن* یعنی حربی سے مستامن مراد لیا اسی طرح عبارت موطا امام محمد میں ہے ۔
*لاباس بالھدیۃ الی المشرک المحارب مالم یھد الیہ سلاح اودرع وھو قول آبی حنیفۃ والعامۃ من فقھائنا*.یعنی حربی مشرک کو ہدیہ دینے میں کوئی حرج نہیں جب تک ہتھیار یا زرہ کا بھیجنا نہ ہو اور یہی قول امام ابو حنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا ہے
خود امام نے سیر کبیر میں اشعار فرمایا اور کتاب الاصل میں ارشاد امام نے بالکل کشف حجاب فرمادیا کہ فرمایا حربی کے لئے باطل پھر فرمایا: مستامن کے لئے جائز ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مستامن کے لئے جواز نکلتا ہے
اور مستامن بھی مثل ذمی معاہد ہے اگرچہ اس کا عہد موقت ہے
یہاں حربی کافر سے مراد مستامن کیا گیا ہے
اقول ۔ہمارے کچھ احباب کو شامی کی کتاب الزکواۃ میں سیر کبیر کے حوالہ سے جو امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہے اشتباہ میں ڈال دیا ہے ۔اسی لئے انہوں نے اس عبارت سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کافر حربی کو صدقہ نافلہ دے سکتے ہیں یہ وہی کہے گا جو فقہی جزئیات سے غافل ہوگا یا فقہی کتب کے مطالعہ سے دور ہوگا ہمارے امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ کی نظر میں یہ عبارت بھی تھی جو فتاوی رضویہ جلد 14 اور ردالمحتار کی شرح جدالممتار میں منقول ہے کاش مفتی موصوف نائب قاضی سرلاہی نیپال صاحب ان دونوں کتابوں کا مطالعہ کرلیتے تو سیر کبیر کی اس عبارت کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی اور نہ اس عبارت کو میرے مؤقف کے خلاف تحریر فرماتے یہ عبارت بھی اس فقیر قادری کے سامنے تھی ۔ یہاں حربی سے مستامن مراد ہے جیسا کہ محیط وہ ہندیہ میں ہے کہ حربی سے مستامن یعنی معاہد مراد ہے فتاوی عالمگیری میں ہے کہ اراد بالحارب المستامن یعنی حربی سے مستامن مراد لیا اسی طرح خود محیط نے تصریح کی کہ :
*اراد بالمحارب المستامن* یعنی حربی سے مستامن مراد لیا اسی طرح عبارت موطا امام محمد میں ہے ۔
*لاباس بالھدیۃ الی المشرک المحارب مالم یھد الیہ سلاح اودرع وھو قول آبی حنیفۃ والعامۃ من فقھائنا*.یعنی حربی مشرک کو ہدیہ دینے میں کوئی حرج نہیں جب تک ہتھیار یا زرہ کا بھیجنا نہ ہو اور یہی قول امام ابو حنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا ہے
خود امام نے سیر کبیر میں اشعار فرمایا اور کتاب الاصل میں ارشاد امام نے بالکل کشف حجاب فرمادیا کہ فرمایا حربی کے لئے باطل پھر فرمایا: مستامن کے لئے جائز ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مستامن کے لئے جواز نکلتا ہے
اور مستامن بھی مثل ذمی معاہد ہے اگرچہ اس کا عہد موقت ہے
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 460)
پھر فرماتے ہیں کہ:
*سیر کبیر کا اطلاق کہ ہر گز نہ حربی کے لئے جواز کا موہم ہے کیونکر مقبول ہوسکتا ہے کہ کریمہ انما ینھکم اللہ کا صاف منافی ہے۔
پھر فرماتے ہیں کہ:
*سیر کبیر کا اطلاق کہ ہر گز نہ حربی کے لئے جواز کا موہم ہے کیونکر مقبول ہوسکتا ہے کہ کریمہ انما ینھکم اللہ کا صاف منافی ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 461)
الحاصل ردالمحتار میں جو سیر کبیر کے حوالہ سے نقل ہے کہ حربی کو صدقہ دے سکتے ہیں اور یہ امام محمد رضی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے لاجرم اس کی صحیح تاویل وہی ہے جو محیط و ہندیہ میں ہے کہ حربی مستامن یعنی معاہد مراد ہے۔
محیط نے تصریح کی کہ
اراد بالمحارب المستامن۔
الحاصل ردالمحتار میں جو سیر کبیر کے حوالہ سے نقل ہے کہ حربی کو صدقہ دے سکتے ہیں اور یہ امام محمد رضی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے لاجرم اس کی صحیح تاویل وہی ہے جو محیط و ہندیہ میں ہے کہ حربی مستامن یعنی معاہد مراد ہے۔
محیط نے تصریح کی کہ
اراد بالمحارب المستامن۔
یعنی حربی سے مستامن مراد لیا۔
اقول ۔( محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی) ۔میرے نزدیک اور ہمارے ائمہ احناف کے نزدیک کافر حربی اہل ثواب سے نہیں اس لیے اسے صدقہ دینا جائز نہیں جب
سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتےہیں
” یہاں اگر مسلمان مسکین نہ ملے توکافر کواصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں توان کودینا خواہ قربانی ہو یاصدقہ اصلاکچھ ثواب نہیں رکھتا “
اقول ۔( محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی) ۔میرے نزدیک اور ہمارے ائمہ احناف کے نزدیک کافر حربی اہل ثواب سے نہیں اس لیے اسے صدقہ دینا جائز نہیں جب
سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتےہیں
” یہاں اگر مسلمان مسکین نہ ملے توکافر کواصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں توان کودینا خواہ قربانی ہو یاصدقہ اصلاکچھ ثواب نہیں رکھتا “
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 253)
اس پر ”معراج الدرایۃ“ کےحوالے سےاستدلال فرماتےہیں
” صلتہ لایکون برا شرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ فلم یقع قربۃ
اس پر ”معراج الدرایۃ“ کےحوالے سےاستدلال فرماتےہیں
” صلتہ لایکون برا شرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ فلم یقع قربۃ
یعنی اس سے صلہ شرعا نیکی نہیں اسی لئے اس کو نفلی صدقہ بھی جائز نہیں لہذا عبادت نہ بنے گا۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 253)
یعنی کافر حربی کو صدقہ نافلہ دینے میں کوئی ثواب نہیں ہے
کہ حربی سے نیک سلوک شرعا کوئی نیکی نہیں اسلئے اسے نفل خیرات دینا جائز نہیں ہے
کافر حربی کے ساتھ نیک سلوک منع ہے اسے صدقات نافلہ دینا منع ہے
چونکہ کافر حربی اہل ثواب سے نہیں ہے اس لئے قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ہے کیونکہ قربانی کا گوشت دینا باعث ثواب ہے اور کافر حربی اہل ثواب سے نہیں ہے
کافر حربی کو صدقہ نافلہ دینا جائز نہیں ہے۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
ہمارے ائمہ کرام نے حربی کو صدقہ نافلہ دینے کی ممانعت سے ان کی عورتوں بچوں کسی کو مستثنی نہ فرمایا حکم عام دیا۔
معراج الداریہ میں ہے:
صلتہ لایکون برا شرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ
یعنی کافر حربی کو صدقہ نافلہ دینے میں کوئی ثواب نہیں ہے
کہ حربی سے نیک سلوک شرعا کوئی نیکی نہیں اسلئے اسے نفل خیرات دینا جائز نہیں ہے
کافر حربی کے ساتھ نیک سلوک منع ہے اسے صدقات نافلہ دینا منع ہے
چونکہ کافر حربی اہل ثواب سے نہیں ہے اس لئے قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ہے کیونکہ قربانی کا گوشت دینا باعث ثواب ہے اور کافر حربی اہل ثواب سے نہیں ہے
کافر حربی کو صدقہ نافلہ دینا جائز نہیں ہے۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
ہمارے ائمہ کرام نے حربی کو صدقہ نافلہ دینے کی ممانعت سے ان کی عورتوں بچوں کسی کو مستثنی نہ فرمایا حکم عام دیا۔
معراج الداریہ میں ہے:
صلتہ لایکون برا شرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ
(رد المحتار بحوالہ معراج الدرایہ جلد 2 ص 74)
حربی سے نیک سلوک شرعا کوئی نیکی نہیں اس لیے اسے خیرات دینا حرام ہے
عنایہ امام اکمل میں ہے۔
انہیں خیرات دینا ان پر ایک طرح کی مہربانی اور غمخواری ہے اور یہ حکم قرآن مجید کے خلاف ہے
امام برہان الدین صاحب ذخیرہ نے محیط پھر علامہ جوی زادہ پھر علامہ شرنبلانی نے غنیہ میں فرمایا :
لایجوز للمسلم بر الحربی ،(غنیۃ ذوی الاحکام حاشیۃ درالحکام ۔کتاب الوصایا جلد 2 ص 429)
عنایہ امام اکمل میں ہے۔
انہیں خیرات دینا ان پر ایک طرح کی مہربانی اور غمخواری ہے اور یہ حکم قرآن مجید کے خلاف ہے
امام برہان الدین صاحب ذخیرہ نے محیط پھر علامہ جوی زادہ پھر علامہ شرنبلانی نے غنیہ میں فرمایا :
لایجوز للمسلم بر الحربی ،(غنیۃ ذوی الاحکام حاشیۃ درالحکام ۔کتاب الوصایا جلد 2 ص 429)
(تلخیص فتاوی رضویہ جلد چہارم ص 504)
عزیزم مفتی انظار عالم مصباحی صاحب سلمہ ان تمام تصریحات سے واضح ہوا کہ کافر حربی کو نفل صدقہ دینا جائز نہیں اور جب نفل صدقہ دینا جائز نہیں تو قربانی کا گوشت دینا خلاف مستحب کیسے ہوگا ؟ لہذا قرآن و حدیث اور اقوال ائمہ و علماء سے واضح ہوا کہ قربانی کا گوشت یا صدقہ نافلہ کافر حربی کو دینا جائز نہیں ہے صاحب ہدایہ نے قرآن مجید کی آیت سے واضح فرمایا آخری دلیل کہ تفسیر جوہر الایقان المعروف بہ تفسیر رضوی میں ہے کہ جمہور کے نزدیک وہ محکم ہے اسی پر ائمہ حنفیہ نے اعتماد فرمایا ہے اور اس پر مسائل متفرع کیے ہیں کہ :
ذمی کے لئے وصیت کرنا اور اسے صدقہ نافلہ دینا جائز ہے اور حربی کے لئے حرام ہے کہ آیت ( لاینھکم ) نے ذمی کے ساتھ احسان کرنے کو روا اور حربی کے ساتھ ناروا فرمایا ہے وفی بہ عقد ذمہ مسلمان کے برابر ہوگیا ۔لہذا حیات و بعد ممات جانبین سے تبرع جائز ہوا اور حربی کے ساتھ جائز نہ ہوا۔
عزیزم مفتی انظار عالم مصباحی صاحب سلمہ ان تمام تصریحات سے واضح ہوا کہ کافر حربی کو نفل صدقہ دینا جائز نہیں اور جب نفل صدقہ دینا جائز نہیں تو قربانی کا گوشت دینا خلاف مستحب کیسے ہوگا ؟ لہذا قرآن و حدیث اور اقوال ائمہ و علماء سے واضح ہوا کہ قربانی کا گوشت یا صدقہ نافلہ کافر حربی کو دینا جائز نہیں ہے صاحب ہدایہ نے قرآن مجید کی آیت سے واضح فرمایا آخری دلیل کہ تفسیر جوہر الایقان المعروف بہ تفسیر رضوی میں ہے کہ جمہور کے نزدیک وہ محکم ہے اسی پر ائمہ حنفیہ نے اعتماد فرمایا ہے اور اس پر مسائل متفرع کیے ہیں کہ :
ذمی کے لئے وصیت کرنا اور اسے صدقہ نافلہ دینا جائز ہے اور حربی کے لئے حرام ہے کہ آیت ( لاینھکم ) نے ذمی کے ساتھ احسان کرنے کو روا اور حربی کے ساتھ ناروا فرمایا ہے وفی بہ عقد ذمہ مسلمان کے برابر ہوگیا ۔لہذا حیات و بعد ممات جانبین سے تبرع جائز ہوا اور حربی کے ساتھ جائز نہ ہوا۔
(تفسیر رضوی جلد چہارم ص 210)
اور جو رد المحتار سے شرح سیر کبیر جس کو محیط نے عادت کی بنا پر سیر کبیر کی طرف نسبت کیا جس کو آپ نے اپنی تحریر میں لکھا اس میں جو حربی آیا ہوا ہے اس حربی سے مراد مستامن ہے آپ کی یہ دلیل بھی آپ کے موقف کی تائید میں مفید ثابت نہیں اور نہ میرے مؤقف کے خلاف قبول ہے
_واللہ اعلم باالصواب
اور جو رد المحتار سے شرح سیر کبیر جس کو محیط نے عادت کی بنا پر سیر کبیر کی طرف نسبت کیا جس کو آپ نے اپنی تحریر میں لکھا اس میں جو حربی آیا ہوا ہے اس حربی سے مراد مستامن ہے آپ کی یہ دلیل بھی آپ کے موقف کی تائید میں مفید ثابت نہیں اور نہ میرے مؤقف کے خلاف قبول ہے
_واللہ اعلم باالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :-
کتبہ :-
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ والنورانی مرپاوی سیتا مڑھی بہار
8 ذوالحجہ 1444
مطابق 27جون 2023
(نوٹ)! اگر کسی جگہ پر کمپوزینگ میں کمی ہوگئی ہو تو ہرسنل پر اطلاع کریں)
ترسیل:- محمد محب اللہ خان
بواسطہ حضرت مولانا محمد قطب الدین صاحب شمیمی ثنائی موہن پور نیپال
مطابق 27جون 2023
(نوٹ)! اگر کسی جگہ پر کمپوزینگ میں کمی ہوگئی ہو تو ہرسنل پر اطلاع کریں)
ترسیل:- محمد محب اللہ خان
بواسطہ حضرت مولانا محمد قطب الدین صاحب شمیمی ثنائی موہن پور نیپال