(سوال نمبر 2060)
کیا متعلم تفسیر بالرائے کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہین علماۓ کرام و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ امتحانات میں طلبہ اگر تفسیر بالرای کرے یعنی. تفسیر کا امتحان ہو اور طالب علم نے تفسیر نہ پڑھی ہو پہلے سے تو کیا امتحان میں خود سے تفسیر کر دے
کیا یہ طالب علم اس وعید کا مستحق ہوگا جو تفسیر بالرای کے سلسلہ مین وارد ہوئی ہے اگر ہو تو اس کی وضاحت فرما دیں اور اگر نہ ہوگا تو کیوں نہیں ہوگا اس کی وضاحت
اور طلبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ. امتحان میں جو طلبہ خود سے تفسیر کرتے ہیں وہ عوام الناس میں پہنچانے کیلیے نہین ہوتی بلکہ وہ تو اساتذہ وغیرہ تک محدود ہوتی ہے تو اس طرح کہنے والے طلبہ پر کیا حکم ہے؟ جواب کو دلائل و براہین سے مزین فرما کر تشکر کا موقع عنایت فرمائیں امتحانات کا سلسلہ جاری و ساری ہے لھذا جلد جواب عنایت فرمادیں۔
سائل:-محمد صلاح الدین عطاری قادری آزاد نگر لدھیانہ پنجاب الہند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
آیت قرآنی کی تفسیر کرنا ہر کس و ناکس کی بس کی بات نہیں ہے جب طلبہ نے تفسیر پڑھا ہی نہیں ہے تو جواب کیا دے گا وہ بھی تفسیر قرآن کا تفسیر کسے کہتے ہیں قرآن کی بعض چیزیں نقل پر موقوف ہیں،جیسے شان نزول،ناسخ منسوخ،تجوید کے قواعد انہیں رائے سے بیان کرنا حرام ہے، متعلم کو بدون علم اس حد تک تفسیر قرآن کرنا حرام ہے اور تفسیر کرنے والا متعلم حدیث پاک میں جو عتاب وارد ہے اس کے مستحق ہوں گے ۔
اور بعض چیزیں شرعی عقل سے بھی معلوم ہوسکتی ہیں،جیسے آیات کے علمی نکات،اچھی اور صحیح تاویلیں،پیدا ہونے والے اعتراضات کے جوابات وغیرہ ان میں نقل لازم نہیں اس حد تک اگر متعلم جانتا ہے تو تفسیر قرآن کرنے میں گنجائش ہے حدیث پاک میں جو عتاب ہے اس حد تک تفسیر کرنے والے پر نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ اپنی رائے سے ہرگز کسی آیت ِ کریمہ کی تفسیر یا حدیثِ پاک کی شَرح وغیرہ بیان نہ کرے کیوں کہ تفسیر بِالرّائے حرام ہے اور اپنی اٹکل کے مطابِق آیت سے استِدلال یعنی دلیل پکڑنا اور حدیثِ مبارَک کی شرح کرنا اگر چِہ دُرُست ہو تب بھی شرعاً اِس کی اجازت نہیں فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جس نے بِغیر علم قراٰن کی تفسیر کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنَّم بنائے (ترمذی ج ۴ ص۴۳۹ حدیث (۲۹۵۹ )
غیر عالم کے بیان کے بارے میں رہنُمائی کرتے ہوئے
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
جاہِل اُردو خواں اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے بلکہ عالِم کی تصنیف پڑھ کر سنائے تو اِس میں حَرَج نہیں (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص۴۰۹)
حدیث پاک میں ہے
روایت ہے انہیں سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہے وہ اپنا ٹھکانہ آگ سے بنائے اور ایک روایت میں ہے کہ جو قرآن میں بغیر علم کچھ کہے وہ اپنا ٹھکانہ آگ سے بنائے (ترمذی)
مصنف صاحب مرآت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
قرآن کی تفسیر بالرّائے کرنے والاجہنمی ہے۔خیال رہے کہ قرآن کی بعض چیزیں نقل پر موقوف ہیں،جیسے شان نزول،ناسخ منسوخ،تجوید کے قواعد انہیں رائے سے بیان کرنا حرام ہے،وہی یہاں مراد ہے۔اور بعض چیزیں شرعی عقل سے بھی معلوم ہوسکتی ہیں،جیسے آیات کے علمی نکات،اچھی اور صحیح تاویلیں،پیدا ہونے والے اعتراضات کے جوابات وغیرہ ان میں نقل لازم نہیں۔غرضکہ قرآن کی تفسیر بالرائے حرام ہے اور تاویل بالرائے علمائے دین کے لیئے باعث ثواب،یا اس کی تحقیق ہمارے کتاب جاء الحق اور مرقاۃ میں اسی مقام پر دیکھو،رب تعالٰی فرماتا ہے
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الْقُرْاٰنَ
۔معلوم ہوا کہ قرآن میں تدبر وتفکر کا حکم ہے اس میں اشارۃً فرمایا کہ علماء کو قرآنی تاویلات کی اجازت ہے جہلاء کو یہ بھی حرام۔اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جو فقط ترجمۂ قرآن سے غلط مسئلے مستنبط کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔حدیث و قرآن کے فقط ترجمے بغیر فقہ کی روشنی کے عوام کے لئے زہر قاتل ہیں۔
(المرات ج 1ص 256 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا متعلم تفسیر بالرائے کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہین علماۓ کرام و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ امتحانات میں طلبہ اگر تفسیر بالرای کرے یعنی. تفسیر کا امتحان ہو اور طالب علم نے تفسیر نہ پڑھی ہو پہلے سے تو کیا امتحان میں خود سے تفسیر کر دے
کیا یہ طالب علم اس وعید کا مستحق ہوگا جو تفسیر بالرای کے سلسلہ مین وارد ہوئی ہے اگر ہو تو اس کی وضاحت فرما دیں اور اگر نہ ہوگا تو کیوں نہیں ہوگا اس کی وضاحت
اور طلبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ. امتحان میں جو طلبہ خود سے تفسیر کرتے ہیں وہ عوام الناس میں پہنچانے کیلیے نہین ہوتی بلکہ وہ تو اساتذہ وغیرہ تک محدود ہوتی ہے تو اس طرح کہنے والے طلبہ پر کیا حکم ہے؟ جواب کو دلائل و براہین سے مزین فرما کر تشکر کا موقع عنایت فرمائیں امتحانات کا سلسلہ جاری و ساری ہے لھذا جلد جواب عنایت فرمادیں۔
سائل:-محمد صلاح الدین عطاری قادری آزاد نگر لدھیانہ پنجاب الہند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
آیت قرآنی کی تفسیر کرنا ہر کس و ناکس کی بس کی بات نہیں ہے جب طلبہ نے تفسیر پڑھا ہی نہیں ہے تو جواب کیا دے گا وہ بھی تفسیر قرآن کا تفسیر کسے کہتے ہیں قرآن کی بعض چیزیں نقل پر موقوف ہیں،جیسے شان نزول،ناسخ منسوخ،تجوید کے قواعد انہیں رائے سے بیان کرنا حرام ہے، متعلم کو بدون علم اس حد تک تفسیر قرآن کرنا حرام ہے اور تفسیر کرنے والا متعلم حدیث پاک میں جو عتاب وارد ہے اس کے مستحق ہوں گے ۔
اور بعض چیزیں شرعی عقل سے بھی معلوم ہوسکتی ہیں،جیسے آیات کے علمی نکات،اچھی اور صحیح تاویلیں،پیدا ہونے والے اعتراضات کے جوابات وغیرہ ان میں نقل لازم نہیں اس حد تک اگر متعلم جانتا ہے تو تفسیر قرآن کرنے میں گنجائش ہے حدیث پاک میں جو عتاب ہے اس حد تک تفسیر کرنے والے پر نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ اپنی رائے سے ہرگز کسی آیت ِ کریمہ کی تفسیر یا حدیثِ پاک کی شَرح وغیرہ بیان نہ کرے کیوں کہ تفسیر بِالرّائے حرام ہے اور اپنی اٹکل کے مطابِق آیت سے استِدلال یعنی دلیل پکڑنا اور حدیثِ مبارَک کی شرح کرنا اگر چِہ دُرُست ہو تب بھی شرعاً اِس کی اجازت نہیں فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جس نے بِغیر علم قراٰن کی تفسیر کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنَّم بنائے (ترمذی ج ۴ ص۴۳۹ حدیث (۲۹۵۹ )
غیر عالم کے بیان کے بارے میں رہنُمائی کرتے ہوئے
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
جاہِل اُردو خواں اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے بلکہ عالِم کی تصنیف پڑھ کر سنائے تو اِس میں حَرَج نہیں (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص۴۰۹)
حدیث پاک میں ہے
روایت ہے انہیں سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہے وہ اپنا ٹھکانہ آگ سے بنائے اور ایک روایت میں ہے کہ جو قرآن میں بغیر علم کچھ کہے وہ اپنا ٹھکانہ آگ سے بنائے (ترمذی)
مصنف صاحب مرآت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
قرآن کی تفسیر بالرّائے کرنے والاجہنمی ہے۔خیال رہے کہ قرآن کی بعض چیزیں نقل پر موقوف ہیں،جیسے شان نزول،ناسخ منسوخ،تجوید کے قواعد انہیں رائے سے بیان کرنا حرام ہے،وہی یہاں مراد ہے۔اور بعض چیزیں شرعی عقل سے بھی معلوم ہوسکتی ہیں،جیسے آیات کے علمی نکات،اچھی اور صحیح تاویلیں،پیدا ہونے والے اعتراضات کے جوابات وغیرہ ان میں نقل لازم نہیں۔غرضکہ قرآن کی تفسیر بالرائے حرام ہے اور تاویل بالرائے علمائے دین کے لیئے باعث ثواب،یا اس کی تحقیق ہمارے کتاب جاء الحق اور مرقاۃ میں اسی مقام پر دیکھو،رب تعالٰی فرماتا ہے
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الْقُرْاٰنَ
۔معلوم ہوا کہ قرآن میں تدبر وتفکر کا حکم ہے اس میں اشارۃً فرمایا کہ علماء کو قرآنی تاویلات کی اجازت ہے جہلاء کو یہ بھی حرام۔اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جو فقط ترجمۂ قرآن سے غلط مسئلے مستنبط کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔حدیث و قرآن کے فقط ترجمے بغیر فقہ کی روشنی کے عوام کے لئے زہر قاتل ہیں۔
(المرات ج 1ص 256 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
١١/٣/٢٠٢٢