کئی جھوٹے اکٹھے ہوں تو سچا ٹوٹ جاتا ہے
وقف بل کی منظوری:
وقف بل کی منظوری:
ایک تیر سے سو حملے،بورڈ کا جرات مندانہ فیصلہ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ظلم کی نگری میں جب جھوٹے حکمران ایک دوسرے کے سچے اور پکے خیرا خواہ بن جاتے ہیں۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ظلم کی نگری میں جب جھوٹے حکمران ایک دوسرے کے سچے اور پکے خیرا خواہ بن جاتے ہیں۔
تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دال میں کچھ کالا نہیں،بلکہ دال ہی پوری کالی ہے۔جس کا اس بات کی طرف بھی واضح اشارہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کی خاطر کچھ بھی داؤ پر لگاسکتے ہیں۔
لیکن اس ظلم و ستم کی عمر طویل ضرور ہوسکتی ہے۔
جھوٹ کو سچ پر غالب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
لیکن جنھیں جس دن کا خوف ستانے لگتا ہے۔ یا اس آنے والے خوف ناک دن سے بچنے کی خاطر جس جھوٹ اور ظلم کا سہارا لیا جاتا ہے۔انھیں ہر حال میں وہاں تک پہنچنا ہی ہوتا ہے۔اور بالآخر ان کا انجام انھیں ایک دن زوال تک پہنچا کر ہی رہتا ہے۔اس طرح کے کئی ایک انجام کو اس دنیا نے اور اس ملک نے دیکھا بھی ہے۔لیکن ان کی عقلوں کے ٹھکانے نہیں لگتے۔بلکہ گدی کے نشے میں یہ اپنی دھن دولت اور جابرانہ فیصلوں سے بات کرتے ہیں۔لیکن انھیں شائد پتہ نہیں کہ ہر وقت ایک جیسا نہیں ہوتا۔بلکہ وقت،وقت آنے پر انھیں اپنی اوقات یاد دلا دیتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔
تاریخ کے سیاہ ایام میں 2اور 3 اپریل 2025 کا اضافہ ہوگیا ہے۔ملک کے فسطائی حکمرانوں نے ان ایام میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں متنازع وقف ترمیمی قانون کو اپنی طاقت کی بناء پر منظور کروالیا ہے۔اب صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد یہ قانون ملک میں نافذ ہوجاۓ گا۔مسلمانوں کو اس بل سے متعلق جتنے خدشات اور خطرات لاحق تھے وہ اب چند رسومات کی ادائیگی کے بعد عملی طور پر دیکھنے کو ملیں گے۔آپ دیکھئے چاہے بھاجپا سرکار ہو یا موجودہ این ڈے اے سرکار یہ جب بھی کوئی قانون لانا چاہتے ہیں ان کا دعوی ہوتا ہے کہ وہ اس طبقہ کی خوش حالی کے لیئے لارہے ہیں۔جب کہ جس طبقہ کو خوش حالی ملنے والی ہے وہ کبھی چاہتا ہی نہیں کہ یہ قانون نافذ ہو۔مثال کے طور پر کسانوں کے لیئے بھاجپا سرکار نے تین سیاہ قانون لائی تھی۔ بھاجپا کا دعوی تھا کہ اس سے کسانوں کو فائدہ ہوگا۔لیکن کسانوں نے ایسے قوانین کو قبول نہیں کیا۔کیا کوئی کسان بے وقوف ہوگا جس قانون سے اس کا فائدہ ہو اور وہ اس کو قبول بھی نہ کرے۔
ایسے ہی وہ بھاجپا جو بلقیس بانو کے مجرموں کو پھول کا ہار پہنا کر استقبال کرتی ہے۔جن مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر کا قہر برسایا جاتا ہے۔گھسپیٹیا درانداز کہا جاتا ہے۔زائد بچے پیدا کرنے والے کا لقب دیا جاتا ہے۔مسلمانوں کو کپڑوں سے پہنچانے جانے والے بھی کہا جاتا ہے۔اور آج انھیں، ان ہی مسلمانوں کی یاد شدت سے ستانے لگی ہے۔دونوں ایوانوں میں دو دنوں میں وزیر اقلیتی امور کرن رجیجو اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے چیخ چیخ کر غریب مسلمانوں کو اتنا یاد کیا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اب کسی غریب مسلمان کو وزارت کا عہدہ دینے جارہے ہیں۔سنجے راوت نے صحیح کہا کہ آج بھاجپا کے دونوں وزراء نے غریب مسلمانوں کی اتنی فکر کی ہے کہ شائد اتنی فکر محمد علی جناح نے بھی نہیں کی ہوگی۔یہ وقف ترمیمی بل فسطائی طاقتوں کے لیئے کتنا اہم ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ وہ بل کو لانے کے لیئے رجیجو اور امیت شاہ من گھڑت اور فرضی کہانیوں کا بے تحاشہ سہارا لے رہے تھے۔اور جھوٹ تو اتنا بولا جارہا تھا کہ ان کے چہروں سے منافقت صاف نظر آرہی تھی۔یہ غریب مسلمانوں کا نام لے کر مسلمانوں کو کس طرح گم راہ کرنا چاہتے ہیں یہ بھی صاف نظر آرہا تھا۔
اسی لیئے یہ بار بار کہہ رہے تھے کہ غریب مسلمانوں اور خواتین کو اس بل سے فائدہ ہوگا۔اور یہ بھی جھوٹ کہا جارہا تھا کہ کوئی بھی غیر مسلم اس کمیٹی میں نہیں ہوگا۔مساجد کو مسمار کرنے والے،قبر کو مسمار کرنے کا مطالبہ کرنے والے،غریب مسلمانوں کے گھر پر بلڈوزر چلانے والے،چیخ چیخ کر ایوان میں کہہ رہے تھے کہ اس بل سے نہ مسجدوں کو نقصان پہنچے گا۔ نہ خانقاہوں کو نقصان پہنچے گا۔نہ قبرستانوں کو نقصان پہنچےگا۔یہ وہی بھاجپا ہے جو کشمیر کے مسلمانوں کے فائدے کے کیئے دفعہ 370 کو ہٹاتی ہے۔یہ وہی بھاجپا ہے جو مسلم خواتین کے لیئے تین طلاق کا قانون لاتی ہے اور شریعت میں مداخلت کرتی ہے۔اب کیا مسلم معاشرہ اس بل کو بھاجپا کی محبت سمجھے گا یا منافقت؟کیا یہ ملک کے مسلمانوں کے لیئے سوغات کہلاۓ گی یا منافرت؟کرن رجیجو تو اس کو امید کا نام دے رہے ہیں۔پتہ نہیں جب سے یوگی آدتیہ ناتھ کو اردو سے نفرت ہوئی اس کے بعد سے مودی کو اردو سے محبت کیوں ہوگئی۔اچانک سوغات اور امید جیسے اردو نام دینے کے پیچھے کی سیاست کیا ہوگی؟
بھاجپا دراصل مسلمانوں میں آپسی انتشار پیدا کرنا چاہتی ہے۔پسماندہ مسلمانوں کا راگ الاپ کر وقف جائدادوں سے ان کا بھلا کرنے کا ڈھونگ رچا کر مسلمانوں میں پھوٹ ڈال ڈالتے ہوۓ پسماندہ مسلم طبقہ کو اپنا ووٹ بینک بنانے کی سیاست کررہی ہے۔تب ہی راجیہ سبھا ممبر سدھانشو تریویدی نے شیعہ، سنی،امیر،غریب،بوہرہ وغیرہ کا نام لے کر مسلمانوں کو بانٹنے کی کوشش کی ہے۔تین باتوں پر آپ غور کریں ایک تو وقف ترمیمی بل کو منظور کروانے حد سے ذیادہ جھوٹ کا سہارا لیا گیا۔دوسرا اس بل کے ذریعہ غریب و پسماندہ مسلمانوں و دیگر مسلم سماج میں ہی پھوٹ ڈالنے کا کام کیا جارہا ہے۔تیسرا جس سماج کو یہ ترمیمی بل منظور ہی نہیں اسے ان پر زبردستی نافذ کیا جارہا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ جھوٹ پر جھوٹ کا سہارا لیتے ہوۓ اوقاف کی زمین پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔تب ہی امیت شاہ نے کہا کہ وقف کے پاس سال 1913 سے 2013 تک 18 لاکھ ایکر اراضی تھی۔لیکن سال 2013 سے اب تک 39 ایکڑ اراضی ہوگئی۔یعنی صرف بارہ سال میں 21 لاکھ ایکڑ اراضی وقف کی گئی۔اس بات سے حکومت کی نیت معلوم ہورہی ہے کہ وہ بڑھتی اوقاف کی اراضی کو روکنا چاہتی ہے۔جیسے کہ اس ترمیمی قانون میں شامل ہے کہ کوئی بھی نو مسلم پانچ سال تک اسلام پر عمل کرکے کی اپنی جائداد کو وقف کرسکتا ہے۔جس میں یہ طئے ہی نہیں ہے کہ وہ پانچ سال اسلام پر کس طرح عمل درآمد کرے گا؟ یا تو پھر سرکار جو اوقافی اراضی سال 2013 کے بعد سے وقف کی گئی اس کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتی ہے۔
سرکار اس وقف ترمیمی بل لاکر ایک تیر سے کئی شکار کرنے جارہی ہے۔جس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔نہ ہی یہ بل غریب مسلمانوں کو فائدہ پہنچاۓ گا۔نہ ہی مسجدوں اور قبرستانوں کی حفاظت کر پاۓ گا۔سرکار جھوٹ پر جھوٹ کے پھول برسا کر زبردستی اس بل کو مسلمانوں پر تھوپ رہی ہے۔یہ سراسر مذہبی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔کپل سبل نے راجیہ سبھا میں وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں کہا کہ جتنی فکر غریب مسلمانوں کی ہے یا اوقافی اراضی کی ہے سرکار کو اتنی فکر ہندو جائدادوں کی بھی ہونی چاہیئے۔انھوں نے مثال پیش کرتے ہوۓ بتایا کہ اگر میں اپنی جائداد کو وقف کرنا چاہتا ہوں تو مجھے اس سے کون روک سکتا ہے؟لیکن سرکار زبردستی ایک فرد کی آزادی کو سلب کرنے جارہی ہے۔ جو غیر آئنی بھی ہے اور غیر جمہوری بھی۔سرکار کو دونوں ایوانوں میں لاکھ آئنہ دکھایا گیا لیکن سرکار سب کا سن رہی تھی اور اپنا کر رہی تھی۔اعداد اور ہندسوں کے سہارے اپنی چال بازی میں کامیاب تو ہوگئی۔لیکن اب اس بل کی مخالفت میں کھڑا ہونا ملک کے تمام باشندوں کی زمہ داری ہے۔ جو انصاف پسند ہو۔جو اس ملک کو آئینی روح پر چلتا دیکھنا چاہتے ہو۔
اس متنازع بل کی منظوری کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے یہ اعلان کردیا کہ وہ ملک گیر احتجاج کا بہت جلد اعلان کریں گے۔بورڈ نے ملک کے مسلمانوں اور انصاف پسند شہریوں سے اپیل کی کہ بورڈ کے اعلان کا انتظار کریں۔ جب بھی احتجاج کے لیئے آواز دی جاۓ گی پوری طاقت کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوں۔بورڈ نے یہ بھی کہا کہ جو بھی قانونی راستے ہونگے اس کا بھر پور استعمال کیا جاۓ گا۔یہاں تک کہ بورڈ نے یہ بھی واضح کردیا کہ اگر بورڈ پر کسی طرح کا دباؤ بنایا جاۓ گا یا دھمکی دی جاۓ گی۔ تب بھی بورڈ اپنے مطالبات سے ہرگز دست بردار نہیں ہوگا۔بلکہ ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لیئے تیار ہے۔اور اس سفر میں پوری ملت اسلامیہ بورڈ کے ساتھ کھڑی رہے گی۔بورڈ کا یہ دوٹوک موقف اور اس کے حوصلے پورے مسلم معاشرے میں ایک نئی جان ڈالنے کا کام کریں گے۔بورڈ کا یہ بے باک موقف سہمی ہوئی ملت اور اس کے مایوس نوجوانوں کے حوصلوں اور استقامت کو استحکام بخشے گا۔
لیکن شرط یہ ہے کہ قیادت ملت کے نوجوانوں کی صحیح رہ نمائی کرے۔نوجوانوں کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو سازشوں کا حصہ بننے نہ دیں۔ورنہ فسطائی طاقتیں تو چاہتی ہیں کہ ملت کے سرمایہ کو سازشوں میں پھنساکر جیلوں میں ٹھونسا جاۓ۔جیسے عمر خالد،خالد سیفی،شرجیل امام وغیرہ آج بھی جیل میں سلاخوں کے پیچھے اپنے نہ کیئے جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔یہ وقت ہے اپنے آپ کو مضبوط بنانے کا،ایک دوسرے کا بھر پور تعاون کرنے کا،ملک کے تمام اقلیتی طبقات اس متنازع بل پر مسلمانوں کا ساتھ دیں۔بلکہ ہندو سماج کا انصاف پسند طبقہ بھی پورا پورا ساتھ دیں۔سیکولر جماعتیں آخری دم تک اس کی لڑائی لڑیں۔نتیش، نائیڈؤ،پاسوان کی منافقت کھل کر سامنے تو آگئی۔وقت آنے پر ملک کا مسلمان انھیں اپنی اوقات بھی یاد دلادے گا۔چونکہ ہر وقت ایک جیسا نہیں ہوتا اور جھوٹ ہر حال میں بے نقاب ہوتا ہے۔حق اور سچ کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے۔بس جدوجہد اور صبر لازمی ہے۔ شاعر حسیب سوز نے کیا خوب کہا؎
یہاں مضبوط سے مضبوط لوہا ٹوٹ جاتا ہے
کئی جھوٹے اکٹھے ہوں تو سچا ٹوٹ جاتا ہے
تاریخ کے سیاہ ایام میں 2اور 3 اپریل 2025 کا اضافہ ہوگیا ہے۔ملک کے فسطائی حکمرانوں نے ان ایام میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں متنازع وقف ترمیمی قانون کو اپنی طاقت کی بناء پر منظور کروالیا ہے۔اب صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد یہ قانون ملک میں نافذ ہوجاۓ گا۔مسلمانوں کو اس بل سے متعلق جتنے خدشات اور خطرات لاحق تھے وہ اب چند رسومات کی ادائیگی کے بعد عملی طور پر دیکھنے کو ملیں گے۔آپ دیکھئے چاہے بھاجپا سرکار ہو یا موجودہ این ڈے اے سرکار یہ جب بھی کوئی قانون لانا چاہتے ہیں ان کا دعوی ہوتا ہے کہ وہ اس طبقہ کی خوش حالی کے لیئے لارہے ہیں۔جب کہ جس طبقہ کو خوش حالی ملنے والی ہے وہ کبھی چاہتا ہی نہیں کہ یہ قانون نافذ ہو۔مثال کے طور پر کسانوں کے لیئے بھاجپا سرکار نے تین سیاہ قانون لائی تھی۔ بھاجپا کا دعوی تھا کہ اس سے کسانوں کو فائدہ ہوگا۔لیکن کسانوں نے ایسے قوانین کو قبول نہیں کیا۔کیا کوئی کسان بے وقوف ہوگا جس قانون سے اس کا فائدہ ہو اور وہ اس کو قبول بھی نہ کرے۔
ایسے ہی وہ بھاجپا جو بلقیس بانو کے مجرموں کو پھول کا ہار پہنا کر استقبال کرتی ہے۔جن مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر کا قہر برسایا جاتا ہے۔گھسپیٹیا درانداز کہا جاتا ہے۔زائد بچے پیدا کرنے والے کا لقب دیا جاتا ہے۔مسلمانوں کو کپڑوں سے پہنچانے جانے والے بھی کہا جاتا ہے۔اور آج انھیں، ان ہی مسلمانوں کی یاد شدت سے ستانے لگی ہے۔دونوں ایوانوں میں دو دنوں میں وزیر اقلیتی امور کرن رجیجو اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے چیخ چیخ کر غریب مسلمانوں کو اتنا یاد کیا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اب کسی غریب مسلمان کو وزارت کا عہدہ دینے جارہے ہیں۔سنجے راوت نے صحیح کہا کہ آج بھاجپا کے دونوں وزراء نے غریب مسلمانوں کی اتنی فکر کی ہے کہ شائد اتنی فکر محمد علی جناح نے بھی نہیں کی ہوگی۔یہ وقف ترمیمی بل فسطائی طاقتوں کے لیئے کتنا اہم ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ وہ بل کو لانے کے لیئے رجیجو اور امیت شاہ من گھڑت اور فرضی کہانیوں کا بے تحاشہ سہارا لے رہے تھے۔اور جھوٹ تو اتنا بولا جارہا تھا کہ ان کے چہروں سے منافقت صاف نظر آرہی تھی۔یہ غریب مسلمانوں کا نام لے کر مسلمانوں کو کس طرح گم راہ کرنا چاہتے ہیں یہ بھی صاف نظر آرہا تھا۔
اسی لیئے یہ بار بار کہہ رہے تھے کہ غریب مسلمانوں اور خواتین کو اس بل سے فائدہ ہوگا۔اور یہ بھی جھوٹ کہا جارہا تھا کہ کوئی بھی غیر مسلم اس کمیٹی میں نہیں ہوگا۔مساجد کو مسمار کرنے والے،قبر کو مسمار کرنے کا مطالبہ کرنے والے،غریب مسلمانوں کے گھر پر بلڈوزر چلانے والے،چیخ چیخ کر ایوان میں کہہ رہے تھے کہ اس بل سے نہ مسجدوں کو نقصان پہنچے گا۔ نہ خانقاہوں کو نقصان پہنچے گا۔نہ قبرستانوں کو نقصان پہنچےگا۔یہ وہی بھاجپا ہے جو کشمیر کے مسلمانوں کے فائدے کے کیئے دفعہ 370 کو ہٹاتی ہے۔یہ وہی بھاجپا ہے جو مسلم خواتین کے لیئے تین طلاق کا قانون لاتی ہے اور شریعت میں مداخلت کرتی ہے۔اب کیا مسلم معاشرہ اس بل کو بھاجپا کی محبت سمجھے گا یا منافقت؟کیا یہ ملک کے مسلمانوں کے لیئے سوغات کہلاۓ گی یا منافرت؟کرن رجیجو تو اس کو امید کا نام دے رہے ہیں۔پتہ نہیں جب سے یوگی آدتیہ ناتھ کو اردو سے نفرت ہوئی اس کے بعد سے مودی کو اردو سے محبت کیوں ہوگئی۔اچانک سوغات اور امید جیسے اردو نام دینے کے پیچھے کی سیاست کیا ہوگی؟
بھاجپا دراصل مسلمانوں میں آپسی انتشار پیدا کرنا چاہتی ہے۔پسماندہ مسلمانوں کا راگ الاپ کر وقف جائدادوں سے ان کا بھلا کرنے کا ڈھونگ رچا کر مسلمانوں میں پھوٹ ڈال ڈالتے ہوۓ پسماندہ مسلم طبقہ کو اپنا ووٹ بینک بنانے کی سیاست کررہی ہے۔تب ہی راجیہ سبھا ممبر سدھانشو تریویدی نے شیعہ، سنی،امیر،غریب،بوہرہ وغیرہ کا نام لے کر مسلمانوں کو بانٹنے کی کوشش کی ہے۔تین باتوں پر آپ غور کریں ایک تو وقف ترمیمی بل کو منظور کروانے حد سے ذیادہ جھوٹ کا سہارا لیا گیا۔دوسرا اس بل کے ذریعہ غریب و پسماندہ مسلمانوں و دیگر مسلم سماج میں ہی پھوٹ ڈالنے کا کام کیا جارہا ہے۔تیسرا جس سماج کو یہ ترمیمی بل منظور ہی نہیں اسے ان پر زبردستی نافذ کیا جارہا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ جھوٹ پر جھوٹ کا سہارا لیتے ہوۓ اوقاف کی زمین پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔تب ہی امیت شاہ نے کہا کہ وقف کے پاس سال 1913 سے 2013 تک 18 لاکھ ایکر اراضی تھی۔لیکن سال 2013 سے اب تک 39 ایکڑ اراضی ہوگئی۔یعنی صرف بارہ سال میں 21 لاکھ ایکڑ اراضی وقف کی گئی۔اس بات سے حکومت کی نیت معلوم ہورہی ہے کہ وہ بڑھتی اوقاف کی اراضی کو روکنا چاہتی ہے۔جیسے کہ اس ترمیمی قانون میں شامل ہے کہ کوئی بھی نو مسلم پانچ سال تک اسلام پر عمل کرکے کی اپنی جائداد کو وقف کرسکتا ہے۔جس میں یہ طئے ہی نہیں ہے کہ وہ پانچ سال اسلام پر کس طرح عمل درآمد کرے گا؟ یا تو پھر سرکار جو اوقافی اراضی سال 2013 کے بعد سے وقف کی گئی اس کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتی ہے۔
سرکار اس وقف ترمیمی بل لاکر ایک تیر سے کئی شکار کرنے جارہی ہے۔جس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔نہ ہی یہ بل غریب مسلمانوں کو فائدہ پہنچاۓ گا۔نہ ہی مسجدوں اور قبرستانوں کی حفاظت کر پاۓ گا۔سرکار جھوٹ پر جھوٹ کے پھول برسا کر زبردستی اس بل کو مسلمانوں پر تھوپ رہی ہے۔یہ سراسر مذہبی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔کپل سبل نے راجیہ سبھا میں وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں کہا کہ جتنی فکر غریب مسلمانوں کی ہے یا اوقافی اراضی کی ہے سرکار کو اتنی فکر ہندو جائدادوں کی بھی ہونی چاہیئے۔انھوں نے مثال پیش کرتے ہوۓ بتایا کہ اگر میں اپنی جائداد کو وقف کرنا چاہتا ہوں تو مجھے اس سے کون روک سکتا ہے؟لیکن سرکار زبردستی ایک فرد کی آزادی کو سلب کرنے جارہی ہے۔ جو غیر آئنی بھی ہے اور غیر جمہوری بھی۔سرکار کو دونوں ایوانوں میں لاکھ آئنہ دکھایا گیا لیکن سرکار سب کا سن رہی تھی اور اپنا کر رہی تھی۔اعداد اور ہندسوں کے سہارے اپنی چال بازی میں کامیاب تو ہوگئی۔لیکن اب اس بل کی مخالفت میں کھڑا ہونا ملک کے تمام باشندوں کی زمہ داری ہے۔ جو انصاف پسند ہو۔جو اس ملک کو آئینی روح پر چلتا دیکھنا چاہتے ہو۔
اس متنازع بل کی منظوری کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے یہ اعلان کردیا کہ وہ ملک گیر احتجاج کا بہت جلد اعلان کریں گے۔بورڈ نے ملک کے مسلمانوں اور انصاف پسند شہریوں سے اپیل کی کہ بورڈ کے اعلان کا انتظار کریں۔ جب بھی احتجاج کے لیئے آواز دی جاۓ گی پوری طاقت کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوں۔بورڈ نے یہ بھی کہا کہ جو بھی قانونی راستے ہونگے اس کا بھر پور استعمال کیا جاۓ گا۔یہاں تک کہ بورڈ نے یہ بھی واضح کردیا کہ اگر بورڈ پر کسی طرح کا دباؤ بنایا جاۓ گا یا دھمکی دی جاۓ گی۔ تب بھی بورڈ اپنے مطالبات سے ہرگز دست بردار نہیں ہوگا۔بلکہ ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لیئے تیار ہے۔اور اس سفر میں پوری ملت اسلامیہ بورڈ کے ساتھ کھڑی رہے گی۔بورڈ کا یہ دوٹوک موقف اور اس کے حوصلے پورے مسلم معاشرے میں ایک نئی جان ڈالنے کا کام کریں گے۔بورڈ کا یہ بے باک موقف سہمی ہوئی ملت اور اس کے مایوس نوجوانوں کے حوصلوں اور استقامت کو استحکام بخشے گا۔
لیکن شرط یہ ہے کہ قیادت ملت کے نوجوانوں کی صحیح رہ نمائی کرے۔نوجوانوں کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو سازشوں کا حصہ بننے نہ دیں۔ورنہ فسطائی طاقتیں تو چاہتی ہیں کہ ملت کے سرمایہ کو سازشوں میں پھنساکر جیلوں میں ٹھونسا جاۓ۔جیسے عمر خالد،خالد سیفی،شرجیل امام وغیرہ آج بھی جیل میں سلاخوں کے پیچھے اپنے نہ کیئے جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔یہ وقت ہے اپنے آپ کو مضبوط بنانے کا،ایک دوسرے کا بھر پور تعاون کرنے کا،ملک کے تمام اقلیتی طبقات اس متنازع بل پر مسلمانوں کا ساتھ دیں۔بلکہ ہندو سماج کا انصاف پسند طبقہ بھی پورا پورا ساتھ دیں۔سیکولر جماعتیں آخری دم تک اس کی لڑائی لڑیں۔نتیش، نائیڈؤ،پاسوان کی منافقت کھل کر سامنے تو آگئی۔وقت آنے پر ملک کا مسلمان انھیں اپنی اوقات بھی یاد دلادے گا۔چونکہ ہر وقت ایک جیسا نہیں ہوتا اور جھوٹ ہر حال میں بے نقاب ہوتا ہے۔حق اور سچ کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے۔بس جدوجہد اور صبر لازمی ہے۔ شاعر حسیب سوز نے کیا خوب کہا؎
یہاں مضبوط سے مضبوط لوہا ٹوٹ جاتا ہے
کئی جھوٹے اکٹھے ہوں تو سچا ٹوٹ جاتا ہے
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
تحریر:سید سرفراز احمد