Type Here to Get Search Results !

سپریم کورٹ انصاف کے تقاضے ضرور پورا کرے گا

سپریم کورٹ انصاف کے تقاضے ضرور پورا کرے گا
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
حافظ افتخاراحمدقادری
 سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ جس میں وقف بل سے متعلق مسلمانوں کے موقف کو تسلیم کیا گیا نہایت اہم خوش آئند پیش رفت ہے۔
یہ فیصلہ صرف ایک قانونی فریق کے حق میں نہیں بلکہ اقلیتوں کے حقوق، مذہبی آزادی اور آئینی مساوات کے اصولوں کی جیت ہے۔ وقف املاک صدیوں پر محیط ایک اسلامی روایت کا حصہ ہیں جو نہ صرف مذہبی بلکہ سماجی تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ان املاک کا تحفظ مسلمانوں کے لئے نہایت اہم ہے کیونکہ یہ ان کی مذہبی شناخت، عبادات، مدارس، مساجد، قبرستانوں اور رفاہی اداروں سے جڑی ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ جہاں اس امر کی تائید کرتا ہے کہ ریاست کو اقلیتوں کے مذہبی ثقافتی اور سماجی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری حاصل ہے وہیں یہ فیصلہ اس سوچ کو مسترد کرتا ہے کہ اقلیتوں کے مذہبی ادارے اور املاک حکومت کی مداخلت یا کنٹرول کے بغیر محفوظ نہیں رہ سکتے۔ عدالت نے اپنے فیصلے سے یہ واضح پیغام دیا کہ کسی بھی قوم یا فرقے کی املاک اور اداروں کو ریاست کی مرضی سے چھیننا یا ان میں غیر ضروری مداخلت کرنا آئین کے بنیادی حقوق کے منافی ہے۔ مزید برآں یہ فیصلہ ان تمام اقلیتوں کے لئے امید کی کرن ہے جو اپنے مذہبی اور ثقافتی اداروں کے تحفظ کے لئے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ نہ صرف ایک قانونی کامیابی ہے بلکہ ایک اخلاقی فتح بھی ہے جو ان کے وقار اور برابری کے اصول پر مبنی ریاست کے تصور کو تقویت دیتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وقف کی روح قربانی، ایثار اور فلاح عامہ پر مبنی ہے۔ جب ریاست ایسے اداروں کو تحفظ فراہم کرتی ہے تو دراصل وہ انسانیت کی خدمت کے اس پورے نظام کو تسلیم کرتی ہے جس کی بنیاد پر یہ ادارے قائم ہوتے ہیں۔ عدالت کا یہ فیصلہ اس امر کی دلیل ہے کہ عدلیہ اب بھی آئین کی اصل روح کو زندہ رکھنے کے لئے پر عزم ہے۔
    وقف ترمیمی بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج دینے والی عرضیوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے اس پر عبوری حکم جاری کیا۔ قانون کی آئینی حیثیت پر عدالت عظمیٰ میں گزشتہ روز سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کے رخ سے وہ امیدیں وابستہ ہیں کہ اگلی سماعت میں عدالت ضرور راحت دے گی۔ بلاشبہ یہ قانون پوری طرح سے غیر آئینی اور غیر دستوری ہے۔ مرکزی حکومت کو اگر غریب مسلمانوں کی اتنی ہی فکر ہے تو وہ مولانا آزاد فاؤنڈیشن کے ذریعے مسلم طلبہ و طالبات کو دی جانے والی اسکالرشپ کو پھر سے شروع کرے۔ حکومت کو سمجھ لینا چاہئے کہ مسلم دشمنی سے اس ملک کا کوئی بھلا نہیں ہوگا بلکہ یہ قدم ملک کو مزید کمزور کرے گا۔ تلنگانہ میں حکومت نے مسلمانوں کی ترقی کے لئے چار فیصد ریزرویشن دیا جس کا نتیجہ ہے کہ آج تلنگانہ کا مسلمان ہر اعتبار سے دیگر ریاستوں کے مسلمانوں سے بہت بہتر ہیں۔ دراصل مرکزی حکومت کا یہ قدم پوری طرح سے غیر آئینی وغیر دستوری ہے۔ اس کے نفاذ کی مخالفت اس لئے کی جانی ضروری ہے کیونکہ اس قانون میں مسلمانوں کے وقف کی املاک کو چھین کر کچھ چنندہ لوگوں کوفائدہ پہنچانے کی کوشش ہے۔ تلنگانہ میں وقف کی لاکھوں ایکڑ اراضی جس سے مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو مل رہا فائدہ ختم ہو جائے گا۔
   گزشتہ روز سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کی اس یقین دہانی پر نئے وقف قانون مقدمہ میں مودی حکومت کو عبوری راحت دی کہ وہ فی الحال وقف کی حیثیت برقرار رکھے گی۔ نئے وقف قانون کی کسی دفعہ کو رو بعمل نہیں لایا جائے گا۔ اس پر حکومت نے جواب داخل کرنے کے لئے وقت طلب کیا تو سپریم کورٹ نے اس درخواست پر حکومت کو ایک ہفتہ کا وقت دیا ہے اور کچھ ہدایات کے ساتھ سماعت ختم کرتے ہوئے آئندہ سماعت کے لئے پانچ مئی کی تاریخ مقرر کی۔ سپریم کورٹ نے نئے وقف قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی اولین سماعت کے دوران جو مثبت اشارے دیے اس سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ سپریم کورٹ نئے وقف قانون کی بہت زیادہ متنازعہ شقوں پر عبوری روک لگا دے گا لیکن اولین سماعت کے دوران چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور ان کے معاونین نے اس کا عندیہ بھی دیا تھا لیکن سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت سے استدعا کی کہ اس اہم معاملہ پر حکومت کا موقف سے بغیر عدالت نئے وقف قانون پر حکم امتناع نہ دے تو سپریم کورٹ نے یہ درخواست منظور کر لی مگر ساتھ ہی حکومت کو صرف پابند کیا کہ وقف کی فی الحال جو حیثیت ہے اس کے ساتھ کوئی چھیڑخانی نہ کی جائے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ آئندہ سماعت تک جمود جیسی کیفیت رہے گی اور حکومت نئے قانون کی کسی شق پر عمل نہیں کرے گی۔ 
   مسلمانان ہند کو ملک کی سب سے بڑی عدالت سے یہ توقع تھی کہ وہ نئے وقف قانون پر روک لگا دے گی لیکن چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سر براہی والی سہ رکنی بنچ نے حکومت کو صفائی کا موقع دے دیا۔ غالباً مرکز کی مودی حکومت کو بھی اندازہ تھا کہ سپریم کورٹ نئے قانون کے نفاذ پر امتناع عائد کر دے گا اسی لئے اس نے کیوٹ داخل کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے انصاف کا تقاضہ پورا کرتے ہوئے حکومت کو جواب کا موقع دیا ہے۔ 1995ء وقف قانون میں بڑے پیمانے پر ترامیم کے ذریعہ وقف قانون کو عملی طور پر تبدیل کرنے کا معاملہ بے حد سنگین و حساس ہے۔ یہ صرف اراضی یا املاک کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس قانون کے نفاذ سے مسلمانان ہند کے بنیادی حقوق پر ضرب تو پڑے گی ہی ساتھ ہی آئینی و مذہبی آزادی بھی سلب ہو جائے گی۔ نیا وقف قانون مذہبی آزادی، مساوات اور اقلیتی حقوق سے متصادم ہے۔ یہ آئین ہند کے ذریعہ مفوضہ مذہبی آزادی اور مذہبی اداروں کے انتظام و انصرام اور امور میں سرکاری مداخلت کی راہیں ہموار کرنے والا قانون ہے۔ مرکز میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک کے سب سے بڑے اقلیتی طبقہ کو مذہبی آزادی سے محروم کرنے اور وقف کی قیمتی املاک پر سرکاری قبضہ کے لئے ہی وقف قانون میں بڑے پیمانے پر ترامیم کر کے نیا وقف قانون بنایا ہے۔ اس سیاہ قانون کے تعلق سے جو خدشات مسلمانوں کو ہیں اولین سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن نے بھی ان نکات پر مکمل طور سے توجہ دی اور اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے سخت سوالات پوچھے۔ وقف قانون 2025 ء نہ صرف مسلمانوں کے لئے خطرناک ہے بلکہ یہ ملک کی وحدت و سالمیت، تکثیریت و تنوع اور فرقہ وارانہ بھائی چارگی کے لئے بھی ضرر رساں ثابت ہوگا۔ ملک کی اکثریت کو اس بات کا احساس ہے کہ نیا وقف قانون ملک میں نئے تنازعات کھڑے کر دےگا۔
  مرکز کی مودی حکومت کو سپریم کورٹ نے جواب داخل کرنے کے لئے ایک ہفتہ کا وقت دیا ہے۔ اپنے جواب میں غالباً حکومت انہی باتوں کا اعادہ کرے گی جو وہ پارلیمنٹ اور عوامی سطح پر کہہ رہی ہے کہ اس کا مقصد یا نیت وقف املاک پر قبضہ کرنا نہیں بلکہ وقف کا تحفظ،وقف امور میں شفافیت، وقف کا درست استعمال اور احتساب اس کے پیش نظر ہے۔ وزیر اعظم مودی بھی یہ دعویٰ کرتے نہیں تھک رہے ہیں کہ ان کی حکومت نے وقف قانون میں ترامیم کے بعد نیا وقف قانون اسی لئے بنایا ہے کہ وقف سے غریب و پسماندہ مسلمانوں اور بے سہارا مسلم خواتین کی فلاح و بہبود بے کے اقدامات کئے جاسکیں۔ ویسے اس قانون کی ان تین شقوں پر حکومت کا جواب کیا ہوگا جو اس وقت سب سے زیادہ موضوع بحث ہیں اس پر پورے ملک کی نظریں ہیں کہ سنٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈس میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت کا مقصد کیا ہے؟ کسی بھی متنازعہ املاک کی جانچ کا اختیار ضلع کلکٹر کے سپرد کیوں کیا جا رہا ہے؟ اسی طرح وقف صارفین کی حیثیت ختم کرنے والی دفعہ کا حکومت کیسے دفاع کرتی ہے؟ حکومت کے جواب کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں اور وقف بورڈس کو بھی جواب داخل کرنا ہے۔ دو دن کی سماعت کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سپریم کورت بھی اس حساس معاملہ پر محتاط انداز سے پیش رفت کر رہا ہے حالانکہ چیف پر جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ نے اولین سماعت میں جو سخت سوالات حکومت سے کئے تھے عام طور پر یہ سمجھا جارہا تھا کہ سپریم کورٹ نئے وقف قانون کی کچھ متنازعہ شقوں پر روک لگا دے گا لیکن سپریم کورٹ نے حکومت کو جواب دینے کی مہلت دے دی۔ یہ صورتحال ’’باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی‘‘ کے مصداق نظر آرہی ہے۔ اس کے باوجود یہ توقع تو بہر حال سپریم کورٹ سے رکھنی ہی چاہئے کہ وہ انصاف کے تقاضے ضرور پورے کرے گا۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area