Type Here to Get Search Results !

پہلگام دہشت گردانہ حملے کا اصل ذمہ دار کون؟

آدمی آدمی کو کھاۓ چلاجاتا ہے
پہلگام دہشت گردانہ حملے کا اصل ذمہ دار کون؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
تحریر:سید سرفراز احمد
کہا جاتا ہے کہ حسین و خوب صورت چیزوں پر بری نظر بہت جلد اثر کرتی ہے۔کشمیر کی خوب صورتی سے کون واقف نہ ہوگا لیکن اس کی خوب صورتی کو ملیامیٹ کرنے کی ماضی میں بھی بارہا سازشیں کی گئی۔جس کو سنبھلنے کے لیئے ایک طویل وقت بھی درکار ہوتا ہے۔پھر بھی کشمیر ایک ایسا مقام ہے جس کا نام سنتے ہی وہاں کے خوب صورت نظارے،وادیاں،برفیلی پہاڑیاں،لہلہاتے فلک بوس درخت،جھیلوں میں تیرتی کشتیاں وہاں کی تہذیب و ثقافت اور کشمیری عوام کی اٹوٹ محبت ہر بھارتی شہری کے دل و دماغ میں دوڑنے لگتی ہیں۔ہر کوئی جنت گمان کشمیر کی سیر کرنے کی چاہ رکھتا ہے۔لیکن کشمیر کا دوسرا رخ اتنا ہی ہولناک ہے جتنا کہ پہلا رخ حسین و دل کش ہے۔ہر زمانے میں وقفہ وقفہ سے کشمیر کی ارض پاک پر انسانوں کے سرخ لہو کی ندیاں بہائی گئی۔کشمیری عوام کی بیش بہا قربانیوں کے بعد ایک طویل عرصہ سے کچھ حد تک کشمیری عوام چین و سکون کی زندگی بسر کررہے تھے۔بلکہ وہ اپنی معیشت اور اقتصادی ترقی کی طرف آگے بڑھ رہے تھے۔لیکن پھر ایک بار اس خوب صورتی پر داغ لگانے کی بھر پور کوشش کی گئی۔
کشمیر کے پہلگام میں 22/اپریل کو دہشت گردوں کے بزدلانہ حملہ میں 27 بے قصور انسانوں کو موت کی نیند سلادینا یقیناً ایک دل سوز اور انسانیت کو شرمسار کردینے کے مترادف ہے۔حیوان نما انسانی شکلوں میں کشمیر کی ارض پاک پر بندوق کی نوک پر جس طرح خون کی ہولی کھیلی وہ خود اپنے آپ میں ایک بزدلی کی حیثیت رکھتی ہے۔چشم دید گواہوں کے طور خواتین نے کہا کہ ہماری آنکھوں کے سامنے مذہب پوچھ کر گولیاں ماری گئی۔لیکن اس جھنجھوڑدینے والے واقعے نے اپنے پیچھے زخموں کے طور پر کئی سوالات چھوڑ گئے۔ایک تو یہ کہ دہشت گردی کے اس حملہ نے خود اس راز کو افشاء کردیا کہ کیا پہلگام جیسے سیاحتی مقام پر سیکیورٹی نام کی بھی کوئی چیز باقی تھی؟ دوسرا کیوں سرکاری انٹلی جنس ادارے اس حد درجہ ناکام رہے ہیں؟تیسرا دہشت گرد کہاں سے آۓ تھے؟ان کا مقصد کیا تھا؟ اور ان دہشت گردوں کو کیوں نہیں پکڑا جاسکا؟ان تین اہم سوالات پر بھارتی سلامتی مشیر اجیت ڈووال اور مرکزی حکومت کو جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیۓ۔صرف بیان بازی اور بڑے بڑے دعوے کرنے سے بے قصور جانوں کی جانیں واپس نہیں آسکتی۔بلکہ اصل چیز جواب دہی ہے۔پر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے جس میڈیا کو سرکار سے ان اہم سوالات پر بحث کرنی تھی وہ پھر ایک بار ہندو مسلم سیاسی کارڈ کھیل رہا ہے۔
ایسا لگ رہا ہے میڈیا اس وقت سیاست کا ایک شہ نشین بن گیا ہے جہاں سے من چاہی سیاسی گفتگو دیکھنے کو مل رہی ہے۔اتنے بڑے اس دہشت گردی کے حملے کو ہندو مسلم میں بانٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جس میڈیا کو ملک کی سلامتی امن و بھائی چارہ کے لیئے استعمال ہونا تھا وہ تو آج اس کے بر خلاف کام کررہا ہے۔ہمارا سوال ہے کہ اس وقت ملک پر ہندوتوا کا دم بھرنے والی سرکار قابض ہے۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان ہی کے دور حکومت میں ہندوؤں کو نام یا مذہب پوچھ کر سینوں میں گولیاں پیوست کی جاۓ؟اس کا مطلب یہی ہوگا کہ آپ کی دور حکمرانی میں ہندو محفوظ نہیں ہے تو آپ کو سرکار سے دست بردار ہوجانا چاہیئے۔آپ کو کوئی حق نہیں بنتا کہ آپ حکمرانی کی کرسی پر براجمان رہے۔حتیٰ کے اس حملے نے آپ کے تمام تر اعلیٰ دعوؤں کی قلعی کھول دی۔آپ ہی نے کہا تھا کشمیر سے دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد وہاں سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوجاۓ گا۔امیت شاہ نے خود کشمیر کی سلامتی اور دہشت گردی کو لے کر بڑے بڑے دعوے کیئے تھے۔وہ آج زیر ہوگئے۔لیکن درباری میڈیا ان سب پر گفتگو کرنے کے اور سرکار سے سوالات کرنے کے بجاۓ اندرون ملک ہندو مسلم میں آگ لگانے کی بھر پور کوشش کررہا ہے۔بھلا ہو ان تمام بے باک ،غیر جانب دار و سچے صحافیوں کا جو ہر آن ملک کو کھرے اور کھوٹے کا فرق بتاکر ملک میں امن امان برقرار رکھنے میں معاون بنے ہوۓ ہیں۔
سوال ہے کہ آخر اس دہشت گردانہ حملے کا اصلی مجرم کون ہے؟اس سوال کے جواب کو یوں دیا جاسکتا ہے کہ جب تک ان دہشت گردوں کے اصلی چہرے اصلی حالت میں نہ پکڑے جائیں قبل از وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کون ہیں کہاں سے آۓ تھے۔ہم نے اوپر بھی لکھا ہے کہ اگر سرکار اور اس کی سرکاری انٹلی جنس خفیہ معلومات رکھتی ہوں تو پھر دیر کس بات کی ملک کی عوام کے سامنے کھل کر یہ پیش کیا جاۓ کہ آخر وہ کون تھے؟اگر ان کا تعلق پڑوسی ملک پاکستان سے ہے تب بھی بہت گہرے سوالات کے جوابات حکومت کو ہی دینے ہونگے۔وہ اس لیئے کہ اتنی سخت سیکیورٹی کے باوجود ایک پاکستانی دہشت گرد گروہ کس طرح بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوسکتے ہیں؟یہ سوال بالکل اسی طرح ہے جس طرح پلوامہ میں دہشت گردوں کا حملہ ہوا تھا۔دوسرا اہم سوال ہے کہ جس مقام پر سیاحوں کی تعداد حد درجہ بڑھ رہی تھی حملہ آور دہشت گردوں کے پاس اتنا ذیادہ موقع تھا کہ وہ قریب دیڑھ گھنٹے تک نام پوچھ پوچھ کر گولیاں مار رہے تھے۔اور مجال ہے کوئی سیکیورٹی وہاں نہیں پہنچ پائی۔جب کہ بھارت کے کسی بھی ضلع کے ایک ادنی سے مقام پر بھی کچھ معمولی حادثہ بھی پیش آجاتا ہے تو پندرہ سے تیس منٹ میں پولیس گھیرا ڈال لیتی ہے۔یہ تو کشمیر جیسا مقام ہے پھر دیڑھ گھنٹے تک دہشت گرد اپنا کام اتنا آرام سے کررہے تھے کہ جیسے وہ کسی ریستورنٹ میں بیٹھ کر کھانا کھارہے ہیں۔اور سکیورٹی دور دور تک بھی میسر نہیں تھی۔سرکار سیکیورٹی کی چونک کے جرم کا اقرار کرکے اپنی جواب دہی سے نہیں بھاگ سکتی۔بلکہ سیکیورٹی چونک وہاں ہوتی ہے جہاں سیکیورٹی پائی جاتی ہو۔
اب رہا اہم سوال نفرت کے اہنکار اس قدر موقع کے متقاضی رہتے ہیں کہ کب کونسا ایسا واقعہ ہاتھ آجاۓ اور ہم اس واقعہ کو ہندو مسلم کرنے لگ جائیں۔پہلگام کے واقعہ کو میڈیا اور سوشیل میڈیا پر ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی کہ کسی بھی طرح سے کشمیری مسلمانوں کو گھسیٹا جاسکے۔لیکن گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ کشمیری مسلمان سیاحوں کے ساتھ اپنی تہذیب اور مہمان نوازی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھے۔عدیل حسین گھوڑا سوار دہشت گردوں سے مزاحمت کرتے کرتے خود شہید ہوگیا۔نزاکت حسین اپنی جان کی بازی لگاکر سیاحوں کو بچاتے رہے۔کئی کشمیریوں نے سیاحوں کو اپنے گھر میں پناہ دیتے ہوۓ ان کے کھانے پینے رہنے کا بہترین انتظام کیا۔لیکن نفرتی پروپیگنڈہ پھیلانے والے نفرت کے قصیدے پڑھتے رہے۔ لیکن مجال ہے کوئی سرکار کی غلطی کو زبان پر لاسکے جب کہ محبت پھیلانے والے محبت بانتے رہے۔کئی ایک مبصرین نے کشمیر کی ثقافت اور وہاں کی محبت کو جس طریقے سے بیان کیا اسی طرح کشمیری عوام عملی میدان میں بھر پور مظاہرہ بھی کرتے دیکھے گئے۔کئی ایک سیاح جو پہلگام حملے میں بچ کر نکلے ان تمام نے کشمیری مسلمانوں کی محبت کے بارے میں اپنے تاثرات بھی پیش کیئے۔ جس میں سے خود ایک بھاجپا کا تائیدی بھی شامل ہیں۔زرا تصور کریں اگر کشمیری مسلمان ان سب سیاحوں کو محفوظ مقامات پر نہیں پہنچا پاتے یا یہ خود اپنی جان بچاکر گھروں کو لوٹ جاتے تو ذرا اندازہ کریں مزید کتنی جانوں کا نقصان بھگتنا پڑتا۔
جب بات سکیورٹی پر آرہی تو درباری میڈیا سرکار کا دفاع کرنے میں لگ گیا ہے۔کہہ رہا ہے کہ پہلگام کو محفوظ زون بتاکر 2009 میں سکیورٹی ہٹادی گئی۔جب سرکار کانگریس کی تھی۔ہمارا سوال ان درباری میڈیا سے ہے کہ جب پہلگام میں سیاحوں کی تعداد درجنوں میں تھی لیکن جب دفعہ 370 کی تنسیخ کی گئی تب سے سیاحوں کی تعداد میں روز بروز بلکہ سالانہ یہ اضافہ کروڑوں میں ہوتا جارہا ہے۔اب دلچسپ حقیقت دیکھئے کہ ہر سال سیاحوں کی تعداد بڑھ تو رہی ہے لیکن سکیورٹی سال 2009 سے محفوظ زون میں ہی برقرار کیوں ہے؟درباری میڈیا کے نام نہاد صحافی حالیہ ہوۓ کشمیر میں اسمبلی انتخابات پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو مورد الزام ٹھرا رہے ہیں۔بھاجپا کے نا اہل قائد دستور کی دفعات 25 اور 26 کو برخواست کرتے ہوۓ مسلمانوں کے حقوق سلب کرنے کی نفرت پھیلارہے ہیں۔سوال ہے یہ سب پروپیگنڈے کیوں پھیلاۓ جارہے ہیں؟جس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ ملک کی عوام کو یوں ہی گم راہ کیا جاسکے تاکہ ہندو اور مسلمان آپس میں مذہب کی لڑائی لڑتے رہیں اور سرکار اپنی غلطیوں سے بچ کر نکل سکیں۔یہ معاملہ بھی کتنا عجیب ہے کہ جب پہلگام میں دہشت گرد حملہ ہوا تب ہمارے ملک کے وزیراعظم نے سعودی سے دورہ مختصر کرتے ہوۓ اس طرح واپس لوٹے کہ جیسے آپ پہلگام کا ہنگامی دورہ کرنے والے ہیں۔اور شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات کرتے ہوۓ ان کو پرسہ دینے والے ہیں۔ لیکن پورے ملک کو افسوس اس وقت ہوا جب یہ سعودی سے واپس لوٹ کر بہار پہنچتے ہیں اور عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہیں۔بلکہ نتیش کمار سے قہقہے لگاکر اس طرح گفتگو کرتے نظر آتے ہیں جیسے کہ ملک میں کچھ ہوا ہی نہیں۔یہ نظارے دیکھ کر ان تمام خاندانوں پر کیا گذری ہوگی جنھوں نے اپنے خاندان کے ایک ایک فرد کو کھویا ہے۔خیر سرکار اس وقت جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑی ہے۔ اب اس حملے کے جواب کا پتہ تو تب ہی چل پاۓ گا جس دن ہمارے وزیر اعظم اپنے کہے گئے جملے "دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوۓ تصور سے بڑی سزا دی جاۓ گی" پر عمل پیراہ ہوں گے۔اور ان دہشت گرد حملوں کی سچائی جاننے کے لیئے اس دن تک ملک کی عوام کو انتظار کرنا پڑے گا جس دن اس حملے کے ایک ایک پردے بے نقاب ہوتے جائیں گے۔جب تک ہم بقول سلیم کوثر کے اس شعر کے پس منظر میں رہنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
آدمی آدمی کو کھاۓ چلاجاتا ہے
کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area