Type Here to Get Search Results !

فقط خدا سے ہی انصاف کی امید رکھو۔

(وقف ترمیمی بل)
فقط خدا سے ہی انصاف کی امید رکھو۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
حافظ افتخاراحمدقادری 
عدلیہ مقننہ اور عاملہ میں عدلیہ کی اہمیت اس اعتبار سے زیادہ ہے کہ وہ مقننہ اور عاملہ کے فیصلوں کی جانچ کا حق رکھتی ہے۔ پارلیمنٹ اسمبلی یا پھر حکومت جب کبھی دستور اور قانون کے خلاف کوئی فیصلہ کرے تو عدلیہ کو اختیار ہے کہ وہ مداخلت کرے۔ یوں کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ عدلیہ کو دستور اور قانون کے محافظ کا درجہ حاصل ہے۔
ملک کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں عدلیہ نے غیر دستوری طور پر معزول کی گئی حکومتوں کو بحال کیا۔ عدلیہ آج بھی آزاد اور غیر جانبدار ہے اور جب کوئی حکومت اور نظم و نسق سے مایوس ہو جائے تو اس کا آخری سہارا عدلیہ ہے۔ حالیہ چند برسوں میں عدلیہ کی غیر جانبداری اور آزادی پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ ماہرین قانون اور دستور کی رائے کے مطابق جب سے عدلیہ کے امور میں حکومت کی مداخلت ہونے لگی اس وقت سے حکومتوں کے اشارہ پر فیصلے آنے لگے۔ عدلیہ کے تقررات اور ترقی میں جب سے میرٹ کی جگہ پیروی اور سفارش چلنے لگی فیصلوں پر اثر پڑنے لگا۔ بابری مسجد کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ نے عدلیہ کے وقار کو مجروح کر دیا تھا کیونکہ رام مندر کے حق میں فیصلہ کے فوری بعد اس وقت کے چیف جسٹس کو راجیہ سبھا کی نشست بطور تحفہ پیش کی گئی تھی۔ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح عدلیہ کی آزادی کو قید کرنے کی کوشش کی گئی۔ 
   عدلیہ کا کام دستور کا تحفظ اور پاسداری ہے جس کے تحت مختلف مذاہب کے پرسنل لاز بھی آتے ہیں۔ دستور میں ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس کی ترویج کی اجازت دی ہے۔ ہر مذہب کا ماننے والا اپنی شریعت پر عمل کرنے کیلئے آزاد ہے۔ہر شہری کو اپنی پسند کی غذا اور لباس کے بارے میں اختیارات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ شریعت کے تحفظ کے بجائے اگر عدالت شریعت کی تشریح کرنے لگ جائے تو پھر علماء کی ضرورت کیا رہے گی۔ بھارت میں دیگر مذاہب کے اقلیتی طبقات کے پرسنل لا محفوظ ہیں اور کسی حکومت نے ان کے پرسنل لا میں تبدیلی تو دور کی بات ہے کسی نکتہ پر اعتراض کرنے کی جسارت نہیں کی لیکن شریعت اسلامی کے خلاف عدلیہ کے فیصلوں اور حکومتوں کی قانون سازی عام ہوچکی ہے۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے لئے عدلیہ اور حکومتوں کا رویہ تعصب اور جانبداری پر مبنی کیوں ہے؟ ظاہر ہے جس سے خطرہ محسوس ہو اسے ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر دنیا بھر میں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ لہذا!خطرہ محسوس کرتے ہوئے اسلام اور مسلم دشمن طاقتوں نے شرعی احکامات میں خامیاں تلاش کرنی شروع کردیں۔ کبھی قانون سازی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں کی گئی تو کبھی عدالتوں کا سہارا لیا گیا۔ دیگر مذاہب اور اقلیتی طبقات کے پرسنل لا محفوظ ہونے کی ایک اہم وجہ ان طبقات میں اتحاد ہے۔ سکھوں سے ان کی روایات کو کوئی طاقت چیلنج کر کے دکھائے۔ بدھسٹ اور جین کی مذہبی رسومات پر کسی حکومت اور عدالت نے انگلی نہیں اٹھائی۔ بر خلاف اس کے شریعت اسلامی میں وقتاً فوقتاً مداخلت کا سلسلہ جاری ہے جس کے لئے مسلمانوں کی بے حسی ذمہ دار ہے۔ چھوٹے طبقات متحد ہیں اور مسلمان آج کئی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مسلمان جب متحد تھے تو راجیو گاندھی حکومت کو دستوری ترمیم کے ذریعہ شریعت کے خلاف عدالت کے فیصلہ کو کالعدم کرنا پڑا لیکن آج مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادتیں اپنا اثر کھو چکی ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے بجائے جب مفادات کو ترجیح دی جائے تو جرات، بے باکی اور حوصلہ مندی کی جگہ مصلحت پسندی، بزدلی اور کنارہ کشی جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔ مذہبی اور سیاسی قیادتوں کی بد خدمتی نے مسلمانوں کا وقار ختم کردیا۔ 
   شریعت میں مداخلت پر بے حسی کا شکار مسلمانوں اور ان کی قیادتوں کو تامل ناڈو کے عوام سے سبق لینا چاہئے جنہوں نے محض ایک تہذیبی روایت کے تحفظ کیلئے سڑکوں پر نکل کر مرکز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ایک قدیم روایت جل کٹو پر پابندی لگادی جس میں جانوروں کی دوڑ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ روایت مذہبی نہیں بلکہ ایک سماجی تہوار کا حصہ ہے لیکن چینائی کا ہر فرد سڑک پر بیٹھ گیا۔ مرکز نے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم کرتے ہوئے جل کٹو روایت کو برقرار رکھا۔ یہ تھی عوامی طاقت حالانکہ یہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں تھا لیکن افسوس! کہ شریعت اسلامی پر مسلسل وار ہو رہے ہیں لیکن مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ اس کی ایک وجہ شریعت سے دوری اور عدم وابستگی ہے۔ جس چیز سے دلچسپی ہو انسان اس کے نقصان پر بے چین ہو جاتا ہے اور اسے بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے لیکن یہاں شریعت سے تعلق محض رسمی بن کر رہ گیا ہے۔ طلاق ثلاثہ، حجاب کے بعد مسلمانوں کو اب اوقاف سے علحدہ کرنے کی سازش ہے۔ طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی کے وقت مسلمان دینی حمیت کا مظاہرہ کرتے تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ شریعت میں کیا ضروری ہے کیا نہیں اس کا فیصلہ علماء اور مفتیان کرام کے بجائے عدالت کے ججس کرنے لگیں تو ملک کا کیا ہوگا؟ جب دستور میں ہر شہری کو پسند اختیار کرنے کا حق دیا ہے تو حکومت اور عدالت کو پابندی کا اختیار کس طرح مل گیا۔ 
   وقف ان جائیدادوں کو کہا جاتا ہے جو مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور مذہبی مقاصد کے لئے مخصوص ہوتی ہیں۔ وقف شدہ جائیداد کو بیچنا یا کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنا منع ہے۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ جائیداد کا مالک اسے الله کے نام پر چھوڑ دیتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لئے اسی مقصد کے لئے مخصوص رہتی ہے۔ لیکن حکومت نے اس پر بھی قبضہ کرنے کی مکمل تیاری کر رکھی ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعے وقف ترمیمی بل لائے جانے سے جہاں مسلمانوں میں برہمی پائی جارہی ہے وہیں اس کے خلاف پڑے پیمانے پر درخواستیں دائر کی جارہی ہیں اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اس غیر آئینی ترامیم کو کلعدم قرار دیا جائے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل اور اے ایم سنگھوی نے بینچ کے سامنے فوری سماعت کی اپیل کی۔اب تک کئی عرضیاں اس ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل کی جاچکی ہے۔ ڈی ایم کے نے وقف ترمیمی بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ان کی درخواست میں کہا گیا کہ اس سے تمل ناڈو کے تقریباً 50 لاکھ اور ملک بھر کے 20 کروڑ مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ تمل ناڈو اسمبلی نے 27 مارچ کو ایک قرارداد منظور کی جس میں مرکز پر زور دیا گیا کہ وہ بل واپس لے۔ جے پی سی کے ارکان کے اعتراضات پر غور کئے بغیر بل کو منظور کر لیا گیا۔اس کے علاوہ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی بھی وقف ترمیمی بل کے خلاف سپریم کورٹ پہنچے ہیں۔ منی پور کے ایم ایل اے شیخ نور الحسن نے کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ میں ذاتی طور پر اس پر تنقید کرتا ہوں اور اس قانون کو مسترد کرتا ہوں۔
   پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے وقف ترمیمی بل کو منظوری دے دی جس میں وقف بورڈ میں شفافیت بڑھانے سمیت کئی اہم دفعات شامل ہیں۔صدر جمہوریہ نے بھی اپنی منظوری دیدی ہے۔اس ترمیمی بل کے قانون کی شکل اختیار کرنے کے بعد مرکزی حکومت اس قانون کے نفاذ کے لئے قواعد و ضوابط تیار کرے گی جو وقف املاک کے انتظام و انصرام کے طریقہ کار کو واضح کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اثرات فوری طور پر ملک کی وقف املاک اور مسلم برادری پر نمایاں ہوں گے۔ اتر پردیش میں تو اس کے آثار ابھی سے نظر آنے لگے ہیں۔ حالانکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس ترمیمی قانون سے ملک میں غریب اور پسماندہ مسلمانوں اور اس کمیونٹی کے بچوں اور خواتین کی حالت کو بہتر بنانے میں بہت مدد ملے گی۔ ترمیمی وقف قانون کا مقصد بظاہر وقف املاک کے نظم و نسق کو بہتر بنانا اور شفافیت لانا بتایا جا رہا ہے لیکن اس کے بعض شقوں نے مسلم رہنماؤں اور تنظیموں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔اس قانون کے تحت وقف بورڈز کے ڈھانچے میں تبدیلیاں،جائیدادوں کے رجسٹریشن کے لئے نئے ضابطے اور سرکاری حکام کو زیادہ اختیارات دئے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر اس قانون سے وقف بورڈز کا کنٹرول مسلم برادری کے ہاتھوں سے جزوی طور پر نکل کر سرکاری اداروں کے پاس جا سکتا ہے اس سے وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن ساتھ ہی ان املاک کے مذہبی اور خیراتی مقاصد کے استعمال پر بھی قدغنیں عائد ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر حکومت کسی وقف جائیداد کو ترقیاتی منصوبوں کے لئے استعمال کرنا چاہے تو اسے قانونی جواز مل سکتا ہے جو روایتی وقف کے تصور کے منافی ہے۔ اس قانون کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون وقف املاک سے ہونے والی آمدنی کو غریب اور پسماندہ مسلمانوں تک پہنچانے میں مددگار ہوگا۔ اس قانون کے ناقدین کا خیال ہے کہ یہ بل مسلم برادری کے مذہبی حقوق پر حملہ ہے۔ اپوزیشن لیڈران اسے آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کی خلاف ورزی قرار د یتے رہے ہیں جو مذہبی آزادی اور جائیداد کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ اگر سرکاری مداخلت بڑھ گئی تو وقف کے اصل مقاصد مساجد مدارس اور خیراتی اداروں کی دیکھ بھال متاثر ہو سکتے ہیں جو مسلم برادری کے لئے نقصان دہ ہوگا۔
جہاں تک پسماندہ مسلمانوں کے حوالے سے قانون کے ممکنہ فوائد کی بات ہے تو اس سلسلے میں ابھی اتنا ہی سوچا جا سکتا ہے کہ اگر وقف املاک کی آمدنی کا درست حساب کتاب ہو اور اسے سماجی بہبود کے منصوبوں میں لگایا جائے تو غریب مسلم بچوں کی تعلیم، یتیم خانوں کی دیکھ بھال اور صحت کی سہولیات بہتر ہوسکتی ہیں۔ ساتھ ہی ناجائز قبضوں کے خاتمے سے ان جائیدادوں کی آمدنی بڑھ سکتی ہے جو براہ راست پسماندہ طبقات تک پہنچائی جاسکتی ہے۔ تاہم یہ فائدے اسی صورت میں ممکن ہیں جب قانون کا نفاذ غیر جانبدارانہ اور مسلم برادری کے مشورے سے ہو جو موجودہ سیاسی ماحول میں مشکل دکھائی دیتا ہے۔کل حالات کیسے رہیں گے آج ان کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن یہ طے ہے کہ ترمیمی وقف قانون کے نفاذ بعد موروثی وقف املاک کے تحفظ کے لئے مسلمانوں کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے اپنی وقف جائیدادوں کے درست رجسٹریشن اور دستاویزات اپڈیشن ضروری ہوگا۔ چونکہ نئے قانون کے ذریعہ وقف بائی یوزر کے بندو بست کو ختم کر کے سرکاری حکام کو وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت کو جانچنے اور فیصلہ سنانے کا اختیار مل گیا ہے۔ اس لئے قانون کے ماہرین سے مشورہ لے کر وقف املاک کے تحفظ کی تدابیر کی جا سکتی ہیں۔
    یہ صحیح ہے کہ وقف ترمیمی بل نے ملک کے مسلمانوں اور دیگر امن و انصاف پسند شہریوں کو طرح طرح کے خدشات میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک طرف انتظامی بہتری اور پسماندہ طبقات کے فوائد کے دعوے ہیں تو دوسری طرف مذہبی آزادی اور موروثی وقف جائیدادوں(مساجد، مدارس، تعلیمی و فلاحی اداروں،خانقاہوں، امام باڑوں، درگاہوں، قبرستانوں وغیرہ) پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس قانون کا اصل اثر اس کے نفاذ کے طریقہ کار اور سرکاری نیت پر منحصر ہوگا۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اسے صرف سیاسی تنازع نہ سمجھیں بلکہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے قانونی سماجی اور تنظیمی سطح پر ہر طرح سے مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہیں۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area