Type Here to Get Search Results !

کیا مطلقہ عدت میں جاب کر سکتی ہے؟

(سوال نمبر 5320)
کیا مطلقہ عدت میں جاب کر سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسلہ کے بارے میں کہ ایک عورت کو طلاق ہوئی اور وہ جاب بھی کرتی ہے اگر وہ عدت پوری کرتی ہے گھر بیٹھ کر تو اس کی نوکری جانے کا قوی اندیشہ ہے تو اس صورت میں کیا کیا جاے‌ بینوا توجروا ۔
سائل:- محمد عبداللہ لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
عورت پر جاب کر نا ضروری نہیں ہے جب تک بالغ نہ ہو باپ پر ذمہ داری ہے بعد بلوغت شادی کے بعد شوہر پر۔
 مذکورہ صورت میں حالت عدت طلاق میں گھر میں رہ کر عدت مکمل کرنا واجب ہے ۔
تفسیر سمرقندی میں ہے 
وَلا یَخْرُجْنَ یعنی:لیس لھن أن یخرجن من البیوت“ترجمہ: اور وہ خود نہ نکلیں یعنی عدت والی عورتوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ گھروں سے نکلیں ۔) تفسیر سمرقندی ،سورۃ الطلاق،آیت1، جلد 3، صفحہ460،مطبوعہ خدمۃ مقارنۃ التفاسیر)
فتاوی عالمگیری میں ہے  
علی المعتدۃ ان تعتد فی المنزل الذی یضاف الیھا بالسکنی حال وقوع الفرقۃ والموت“ترجمہ: عدت والی پر لازم ہے کہ وہ اس مکان میں عدت گزارے جس میں جدائی اور موت کے وقت سکونت پذیر تھی) 
فتاوی عالمگیری ،ج 1،ص 535،مطبوعہ کوئٹہ)
صاحب مرات رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں 
طلاق کی عدت میں عورت مزدوری کے لیے گھر سے باہر نہیں جاسکتی کیونکہ اس کا خرچہ طلاق دینے والے خاوند کے ذمہ ہے اسے مزدوری کی حاجت نہیں اور عدت وفات میں عورت مزدوری کے لیے دن میں باہر جاسکتی ہے رات گھر میں گزارے کیونکہ اس
عدت میں خرچہ خاوند کے ذمہ نہیں،( المرأة المناجیح ج 5ص243 مکتبہ المدینہ)
حاصل کلام یہ ہے کہ 
عدت کے دوران عورت کو بغیر شدیدجانی ومالی نقصان کے اندیشے کے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے لہذا معتدہ اپنی ملازمت سے رخصت لے کر عدت کے ایام گھر پر گزارے عدت میں ملازمت کے لیے جاناجائزنہیں،اور اگر خرچ کاکوئی انتظام نہ ہو ،صرف ملازمت ہی کی صورت میں خرچ چل سکتاہے تو بوجہ مجبوری اس صورت میں دن کے وقت میں بقدر ضرورت جانے کی اجازت ہوگی اور رات سے پہلے پہلے واپس اپنے گھر پر پہنچنا ضروری ہوگا۔
البحرالرائق میں ہے
(قوله: ومعتدة الموت تخرج يوماً وبعض الليل ) لتكتسب لأجل قيام المعيشة ؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندهاكفايتها صارتكالمطلقة فلا يحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلاً ولا نهاراً .والحاصل: أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير (4/166 دارالمعرفہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
03/12/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area