بحمدہ سبحانہ وتعالی حضور مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی نایاب تحقیق
من جانب:- محمد محب اللہ خان
من جانب:- محمد محب اللہ خان
ناظم مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک مہسول سیتامڑھی بہار
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
زکوۃ، صدقہ فطر دین مہر کے حساب کو گرام میں
سمجھیں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
زکوۃ، صدقہ فطر دین مہر کے حساب کو گرام میں
سمجھیں
••────────••⊰❤️⊱••───────••
سونا کا نصاب زکوٰۃ حدیث شریف میں 20 مثقال ہے جو بعد میں مثقال تولے میں تبدیل ہوا اب 20 مثقال ساڑھے سات تولے ہوا پھر بعد میں یہ ساڑھے سات تولے 8 روپیہ سکہ میں تبدیل ہوا اور اب جدید آوزان میں یہ آٹھ سکہ 93گرام 312, ملی گرام ہوا یہ کس حساب سے آیا اس حساب کو اس پوسٹ میں پڑھیں اور سمجھیں
پھر چاندی کا نصاب زکوٰۃ 200درہم حدیث میں ہے بعد میں یہ درہم ساڑھے باون تولے چاندی ہوا پھر یہ ساڑھے باون تولے چاندی کو 56 سکہ روپیہ کہا گیا اور اب جدید وزن میں یہ 56 روپیہ 184 گرام 653 ملی گرام ہے یہ جس حساب سے آیا اس کو اس پوسٹ میں پڑھیں اور سمجھیں
پھر اس میں بھی اختلاف علمائے ہے اس کو بھی سمجھیں
(1) آج کل اشتہاروں میں صدقہ فطر, زکواۃ اور دین مہر جدید اوزان یعنی کلو گرام سے نکالنے میں کافی اختلاف لکھا ہوتا ہے تو کس قول پر عمل کیا جائے؟
جدید گرام سے ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے باون تولہ چاندی کا حساب کتنا گرام ہوتا ہے؟
سونا کا نصاب زکوٰۃ حدیث شریف میں 20 مثقال ہے جو بعد میں مثقال تولے میں تبدیل ہوا اب 20 مثقال ساڑھے سات تولے ہوا پھر بعد میں یہ ساڑھے سات تولے 8 روپیہ سکہ میں تبدیل ہوا اور اب جدید آوزان میں یہ آٹھ سکہ 93گرام 312, ملی گرام ہوا یہ کس حساب سے آیا اس حساب کو اس پوسٹ میں پڑھیں اور سمجھیں
پھر چاندی کا نصاب زکوٰۃ 200درہم حدیث میں ہے بعد میں یہ درہم ساڑھے باون تولے چاندی ہوا پھر یہ ساڑھے باون تولے چاندی کو 56 سکہ روپیہ کہا گیا اور اب جدید وزن میں یہ 56 روپیہ 184 گرام 653 ملی گرام ہے یہ جس حساب سے آیا اس کو اس پوسٹ میں پڑھیں اور سمجھیں
پھر اس میں بھی اختلاف علمائے ہے اس کو بھی سمجھیں
(1) آج کل اشتہاروں میں صدقہ فطر, زکواۃ اور دین مہر جدید اوزان یعنی کلو گرام سے نکالنے میں کافی اختلاف لکھا ہوتا ہے تو کس قول پر عمل کیا جائے؟
جدید گرام سے ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے باون تولہ چاندی کا حساب کتنا گرام ہوتا ہے؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی کے پاس زکوۃ و فطرہ کی لیسٹ ہو تو برائے مہربانی ارسال فرمائیں بہت مہربانی ہوگی
فقیر تاج الشریعہ محمد نظیر احمد قادری شراوستی یوپی الہند
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی کے پاس زکوۃ و فطرہ کی لیسٹ ہو تو برائے مہربانی ارسال فرمائیں بہت مہربانی ہوگی
فقیر تاج الشریعہ محمد نظیر احمد قادری شراوستی یوپی الہند
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
ساڑھے سات تولہ سونا برابر جدید 93 گرام 312 ملی گرام ہے اور ساڑھے باون تولہ چاندی برابر جدید 184 گرام 653 ملی گرام ہے اور آج کل اکثر علمائے اہل سنت کا اسی پر فتویٰ اور عمل ہے اگرچہ کچھ علمائے اہل سنت کا اس میں اختلاف بھی ہے
دوسرا مشہور قول 87، گرام 36 پوائنٹ ہے
ان دونوں پر عمل کیا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں علمائے اہل سنت کی اکثریت قول اول یعنی سونا 93گرام 312 ملی گرام پر اور چاندی 653 گرام 184 ملی گرام پر عمل فرماتے ہیں
آج کل علمائے اہل سنت میں زکوۃ نصاب کے بارے میں کافی اختلاف ہے ,اسی اختلاف کی وجہ سے اشتہاروں میں الگ الگ گرام لکھا ہوتا ہے
1) حضرت مفتی محمد صالح قادری نوری بریلوی صاحب لکھتے ہیں کہ ساڑھے سات تولہ سونا برابر ہے 93گرام 312ملی گرام اور ساڑھے باون تولہ چاندی برابر ہے 184 گرام 653 ملی گرام /منتخب فتوے ص 96/
(2)حضور فقیہ اعظم ہند شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ۔چاندی کی نصاب 52.5 ساڑھے باون تولے ہوئی انگریزوں کے عہد میں جو چاندی کا روپیہ چلتا تھا وہ 11.25 سوا گیارہ ماشہ کا تھا ان روپوں سے نصاب 56 روپے بھر ہوئی سونے کی نصاب بیس مثقال ہے اس پر اجماع ہے ایک مثقال 4.5 ساڑھے چار ماشہ کا اس طرح سونے کی نصاب 7.5 ساڑھے سات تولے ہوئی موجودہ رائج اعشاریہ وزن سے چاندی کی نصاب 96 گرام 642 ملی گرام ہے اور سونے کی نصاب91 گرام 728 ملی گرام ہے۔
ساڑھے سات تولہ سونا برابر جدید 93 گرام 312 ملی گرام ہے اور ساڑھے باون تولہ چاندی برابر جدید 184 گرام 653 ملی گرام ہے اور آج کل اکثر علمائے اہل سنت کا اسی پر فتویٰ اور عمل ہے اگرچہ کچھ علمائے اہل سنت کا اس میں اختلاف بھی ہے
دوسرا مشہور قول 87، گرام 36 پوائنٹ ہے
ان دونوں پر عمل کیا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں علمائے اہل سنت کی اکثریت قول اول یعنی سونا 93گرام 312 ملی گرام پر اور چاندی 653 گرام 184 ملی گرام پر عمل فرماتے ہیں
آج کل علمائے اہل سنت میں زکوۃ نصاب کے بارے میں کافی اختلاف ہے ,اسی اختلاف کی وجہ سے اشتہاروں میں الگ الگ گرام لکھا ہوتا ہے
1) حضرت مفتی محمد صالح قادری نوری بریلوی صاحب لکھتے ہیں کہ ساڑھے سات تولہ سونا برابر ہے 93گرام 312ملی گرام اور ساڑھے باون تولہ چاندی برابر ہے 184 گرام 653 ملی گرام /منتخب فتوے ص 96/
(2)حضور فقیہ اعظم ہند شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ۔چاندی کی نصاب 52.5 ساڑھے باون تولے ہوئی انگریزوں کے عہد میں جو چاندی کا روپیہ چلتا تھا وہ 11.25 سوا گیارہ ماشہ کا تھا ان روپوں سے نصاب 56 روپے بھر ہوئی سونے کی نصاب بیس مثقال ہے اس پر اجماع ہے ایک مثقال 4.5 ساڑھے چار ماشہ کا اس طرح سونے کی نصاب 7.5 ساڑھے سات تولے ہوئی موجودہ رائج اعشاریہ وزن سے چاندی کی نصاب 96 گرام 642 ملی گرام ہے اور سونے کی نصاب91 گرام 728 ملی گرام ہے۔
(نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 4 ص 166)
اور پھر شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے نزہۃ القاری میں صدقہ فطر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ موجودہ رائج اعشاریہ کے وزن سے 2.045 یعنی دو کلو پینتالیس 45 گرام جدید ہے نزہۃالقاری جلد دوم ص 81
(3) حضور مفتی اعظم ہالینڈ سابق امین شریعت ادارہ شرعیہ پٹنہ مفتی عبد الواجد قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۔ ساڑھے سات تولہ سونا یعنی رائج الوقت وزن میں ستاسی گرام سینتیس پوائنٹ ( 87. گرام 37 پوائنٹ ) سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی چھ سو گیارہ گرام باسٹھ پوائنٹ (611 گرام 62 پوائنٹ چاندی کا تنہا مالک ہو۔
اور پھر شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے نزہۃ القاری میں صدقہ فطر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ موجودہ رائج اعشاریہ کے وزن سے 2.045 یعنی دو کلو پینتالیس 45 گرام جدید ہے نزہۃالقاری جلد دوم ص 81
(3) حضور مفتی اعظم ہالینڈ سابق امین شریعت ادارہ شرعیہ پٹنہ مفتی عبد الواجد قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۔ ساڑھے سات تولہ سونا یعنی رائج الوقت وزن میں ستاسی گرام سینتیس پوائنٹ ( 87. گرام 37 پوائنٹ ) سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی چھ سو گیارہ گرام باسٹھ پوائنٹ (611 گرام 62 پوائنٹ چاندی کا تنہا مالک ہو۔
(فتاوی یوروپ ص 266)
(4) علامہ غلام رسول سعیدی صاحب شارح مسلم شریف جلد ثانی ص 890 پر لکھتے ہیں کہ چاندی جو ساڑھے باون تولہ جو612 گرام 36پوائنٹ کے برابر ہے اور سونے کا نصاب چالیس دینار یا بیس مثقال سونا ہے جو ساڑھے سات تولے جدید 87.48 گرام سونے کے برابر ہے اس سے کم مقدار پر زکواۃ فرض نہیں۔
(5)تفہیم المسائل جلد تین ص 157 پر یہی لکھا ہوا ہے
(6) فتاوی نوریہ جلد دوم کے تعارف الزکوٰۃ کے ص 93 پر محمد محب اللہ نوری لکھتے ہیں سونا ساڑھے سات تولہ ۔۔جدید 87 گرام 48 ملی گرام اور چاندی ساڑھے باون تولہ جدید 612 گرام 36 پوائنٹ ہے
کسی نے سونے کے نصاب 7.5 تولہ کو 87.48 گرام لکھا کسی نے 75 گرام لکھا اور چاندی کے نصاب 52.5 تولہ کو612 گرام 36 ملی گرام لکھا ہے ان میں کون سا قول صحیح ہے جس پر عمل کیا جائے ؟
(4) علامہ غلام رسول سعیدی صاحب شارح مسلم شریف جلد ثانی ص 890 پر لکھتے ہیں کہ چاندی جو ساڑھے باون تولہ جو612 گرام 36پوائنٹ کے برابر ہے اور سونے کا نصاب چالیس دینار یا بیس مثقال سونا ہے جو ساڑھے سات تولے جدید 87.48 گرام سونے کے برابر ہے اس سے کم مقدار پر زکواۃ فرض نہیں۔
(5)تفہیم المسائل جلد تین ص 157 پر یہی لکھا ہوا ہے
(6) فتاوی نوریہ جلد دوم کے تعارف الزکوٰۃ کے ص 93 پر محمد محب اللہ نوری لکھتے ہیں سونا ساڑھے سات تولہ ۔۔جدید 87 گرام 48 ملی گرام اور چاندی ساڑھے باون تولہ جدید 612 گرام 36 پوائنٹ ہے
کسی نے سونے کے نصاب 7.5 تولہ کو 87.48 گرام لکھا کسی نے 75 گرام لکھا اور چاندی کے نصاب 52.5 تولہ کو612 گرام 36 ملی گرام لکھا ہے ان میں کون سا قول صحیح ہے جس پر عمل کیا جائے ؟
الجواب بعون الملک الوہاب
چونکہ احادیث میں تولہ اور گرام کا ذکر نہیں ہے. اسی لئے یہ اختلاف پیدا ہوا
حدیث شریف میں.سونے کی نصاب 20 مثقال لکھا ہے اور اس مثقال کو علمائے کرام نے 7.5 تولہ کہا
اور اس ساڑھے سات تولہ کو امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 8 روپیہ چاندی کا انگریزی وقت کا سکہ پر وجوب زکاۃ نکالنے کا حکم فرمایا اور حدیث شریف میں چاندی کا نصاب 200 درہم شرعی ہے اور علمائے کرام نے اس کو ساڑھے باون تولہ کہا ہمارے امام اہل سنت مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان اس چاندی کا نصاب 52.5 تولہ کو 56 روپیہ چاندی کا سکہ فرمایا اور اسی پر علمائے کرام کا عمل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں تک علماء اہل سنت میں کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن اس چاندی و سونا کی مقدار نصاب جدید اوزان کے اعتبار سے اختلاف پیدا ہوگیا ہے اور دونوں طرف دلائل موجود ہیں اور علمائے پاکستان میں بھی اختلاف ہے دونوں طرف کے دلائل کو آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اور آپ اہل علم خود فیصلہ کریں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ایک تولہ جو بارہ ماشہ کا ہوتا ہے کہ جدید وزن میں کتنا گرام ہے ایک طرف علامہ مفتی الحاج الشاہ محمد صالح قادری نوری بریلوی ہیں جو بارہ ماشہ کو جدید وزن میں 12 گرام 441 ملی گرام مانتے ہیں یعنی ایک تولہ جدید وزن میں 12.441 گرام ہے (اس اعتبار سے)
انگریزی ایک سکہ کا وزن سوا گیارہ ماشہ ہے اس قول پر ہندوستان کے اکثر علماء کا عمل ہے اور بریلی شریف کے مفتی صالح صاحب بھی اسی قول کو مانتے ہیں اس پر ان کا ایک رسالہ بنام منتخب فتوے بھی ہے اور دوسری طرف خواجہ مظفر حسین رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور ان کے ماننے والے ہیں وہ ایک تولہ یعنی بارہ ماشہ کو جدید وزن میں 11 گرام 664 ملی گرام مانتے ہیں تو اس اعتبار سے ان کے نزدیک ایک انگریزی سکہ کا وزن 10.935 ہے اسی تحقیق کی وجہ سے علمائے کرام میں اختلاف پیدا ہوا سب سے پہلا قول کہ سونا کا نصاب جدید وزن میں 93.گرام 312ملی گرام اور چاندی کا نصاب 184گرام 653 ملی گرام کی تحقیق پر حساب سمجھیں
سرکار مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک
ایک چاندی کا سکہ 11.25 ماشہ کا ہوتا ہے اور 12 ماشہ کا ایک تولہ ہوتا ہے اوربعض علماء کرام کے نزدیک ایک تولہ یعنی بارہ ماشہ جدید وزن میں 12.441 ملی گرام ہے حضور مفتی اعظم ہند رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۔تولہ بارہ ماشہ کا اور انگریزی روپیہ سوا گیارہ ماشہ کا
چونکہ احادیث میں تولہ اور گرام کا ذکر نہیں ہے. اسی لئے یہ اختلاف پیدا ہوا
حدیث شریف میں.سونے کی نصاب 20 مثقال لکھا ہے اور اس مثقال کو علمائے کرام نے 7.5 تولہ کہا
اور اس ساڑھے سات تولہ کو امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 8 روپیہ چاندی کا انگریزی وقت کا سکہ پر وجوب زکاۃ نکالنے کا حکم فرمایا اور حدیث شریف میں چاندی کا نصاب 200 درہم شرعی ہے اور علمائے کرام نے اس کو ساڑھے باون تولہ کہا ہمارے امام اہل سنت مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان اس چاندی کا نصاب 52.5 تولہ کو 56 روپیہ چاندی کا سکہ فرمایا اور اسی پر علمائے کرام کا عمل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں تک علماء اہل سنت میں کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن اس چاندی و سونا کی مقدار نصاب جدید اوزان کے اعتبار سے اختلاف پیدا ہوگیا ہے اور دونوں طرف دلائل موجود ہیں اور علمائے پاکستان میں بھی اختلاف ہے دونوں طرف کے دلائل کو آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اور آپ اہل علم خود فیصلہ کریں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ایک تولہ جو بارہ ماشہ کا ہوتا ہے کہ جدید وزن میں کتنا گرام ہے ایک طرف علامہ مفتی الحاج الشاہ محمد صالح قادری نوری بریلوی ہیں جو بارہ ماشہ کو جدید وزن میں 12 گرام 441 ملی گرام مانتے ہیں یعنی ایک تولہ جدید وزن میں 12.441 گرام ہے (اس اعتبار سے)
انگریزی ایک سکہ کا وزن سوا گیارہ ماشہ ہے اس قول پر ہندوستان کے اکثر علماء کا عمل ہے اور بریلی شریف کے مفتی صالح صاحب بھی اسی قول کو مانتے ہیں اس پر ان کا ایک رسالہ بنام منتخب فتوے بھی ہے اور دوسری طرف خواجہ مظفر حسین رحمتہ اللہ علیہ ہیں اور ان کے ماننے والے ہیں وہ ایک تولہ یعنی بارہ ماشہ کو جدید وزن میں 11 گرام 664 ملی گرام مانتے ہیں تو اس اعتبار سے ان کے نزدیک ایک انگریزی سکہ کا وزن 10.935 ہے اسی تحقیق کی وجہ سے علمائے کرام میں اختلاف پیدا ہوا سب سے پہلا قول کہ سونا کا نصاب جدید وزن میں 93.گرام 312ملی گرام اور چاندی کا نصاب 184گرام 653 ملی گرام کی تحقیق پر حساب سمجھیں
سرکار مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک
ایک چاندی کا سکہ 11.25 ماشہ کا ہوتا ہے اور 12 ماشہ کا ایک تولہ ہوتا ہے اوربعض علماء کرام کے نزدیک ایک تولہ یعنی بارہ ماشہ جدید وزن میں 12.441 ملی گرام ہے حضور مفتی اعظم ہند رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۔تولہ بارہ ماشہ کا اور انگریزی روپیہ سوا گیارہ ماشہ کا
(فتاوی مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 291)
سونے کا نص
اب 20 مثقال یہ ساڑھے سات تولہ کس حساب سے ہوا اس حساب کو جانیں اور چاندی کا نصاب دو سو درہم یہ ساڑھے باون تولے کس حساب سے ہوا
اس جدید وزن کو اس طرح سمجھیں
سرکار امام اہلسنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ
........فرماتے ہیں کہ چاندی کا نصاب 200 درہم.... فتاوی رضویہ میں جواہر اخلاطی سے نقل ہے
.... الدرهم الشرعی خمس و عشرون حبة و خُمس حبة
یعنی درہم شرعی 25 رتی اور 5 وا حصہ رتی کا ہے مطلب ایک درہم برابر 25.2 رتی کے
.... اب 200 درہم
200 درہم کو رتی میں لانے کے لئے رتی سے ضرب دیجئے × ضرب 25.2 برابر 5040 رتی حاصل ہوا (200×25.2 برابر 5040)
(8 رتی 1 ماشہ ہوتا ہے)
اب 5040رتی کو ماشہ میں لانے کے لئے.. 5040 رتی کو 8 رتی سے تقسیم کیا جائے گا تو حاصل 630 ماشہ آیا
(اس طرح 200 درہم 630 ماشہ ہوا)...اور مفتی اعظم ہند کے مطابق
بارہ ماشہ برابر ایک تولہ تو اب اس 630 ماشہ کو تولہ میں لانے کے لئے 630 ماشہ میں بارہ ماشہ جو ایک تولہ ہوتا ہے اس سے تقسیم کریں گے تو 630 ماشہ تقسیم 12 ماشہ برابر 52.5 تولے حاصل تقسیم ہوا اسی حساب سے نصاب چاندی ساڑھے باون تولہ آیا اس فقیر نے اس حساب سے آپ کو سمجھایا کے دو سو درہم چاندی ساڑھے باون تولہ کیسے ہوا اب اس ساڑھے باون تولے چاندی کو جو امام اہل سنت مجدد اعظم سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ 56چھپن روپیہ چاندی کے سکے کے مساوی فرماتے ہیں اب آپ اس کو بھی سمجھیں کہ دو سو درہم یا ساڑھے باون تولے چاندی کا چھپن روپیہ کیسے ہوا سرکار اعلی حضرت کے مطابق ایک چاندی کاسکہ 11.25ماشہ کا ہوتا ہے اور اوپر آپ نے دیکھا کہ دو سو درہم کو 630 ماشہ کہا گیا تو اب اس سوا گیارہ ماشہ سے چھ سو تیس ماشہ میں تقسیم کریں گے تو حاصل تقسیم 56 روپیے ہوگا اس فقیر ثناء اللہ نے دو سو درہم ساڑھے باون تولہ کیسے آیا اور یہ ساڑھے باون تولہ چھپن روپیہ کیسے آیا حساب سمجھا دیا*
اب حساب ظاہر ہو گیا کے 52.5 تولہ =56 چاندی کا انگریزی سکہ ہے نہ کہ تولہ
اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ 56 روپیہ کو جدید وزن میں کتنا گرام کہا جائے گا تو اس کو اس طرح جانیں
ایک چاندی کا سکہ انگریزی دور والا 11.664گرام کا ہوتا ہے تو اب اس 56 روپیہ کو .11.664 سے ضرب دیں گے حاصل ضرب 653.184 گرام آئے گا اسی نصاب پر ہندوستان کے اکثر علماء کا عمل ہے اور مفتیان کرام اسی مقدار نصاب پر فتویٰ دیتے ہیں
....اب قدیم اور جدید وقت میں ایک چاندی کا سکہ کا وزن انگریزی دور والا 11.664 گرام ہوتا ہے. تو 56 چاندی کا سکہ=56 ضرب 11.664 برابر
.653.184 گرام چاندی کا نصاب ہوا. اگر آج کے دور کا ایک چاندی کے سکہ کو جس کا وزن 11.664 گرام ہوتا ہے اس کو ایک تولہ بولا جائے تو اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف نے 52.5 تولہ کو 56 روپیہ چاندی کا سکہ کیوں فرمایا.؟ اعلی حضرت عظیم البرکت کے مطابق دیکھا جائے تو ایک چاندی کا سکہ 0.9375 تولہ کا ہوتا ہے جو جدید وزن میں 11.664گرام کا ہے کیونکہ.56 ضرب0.9375 برابر 52.5 تولہ.
(یہا ں سکہ 56زیادہ اور تولہ 52.5 کم ہے اس سے پتہ چلا کے تولہ سےسکہ کا مقدار کم ہے اور ایک سکہ کا وزن 11.664 گرام ہے اور جب سکہ سے تولہ کا وزن زیادہ ہے تو تولہ 11.664 گرام سے زیادہ ہوگا نہ کی کم اور نہ برابر)
اب تو ثابت ہوا کے 11.664 گرام ایک تولہ کا وزن نہیں ایک چاندی کے سکہ کا وزن ہے جو صرف 0.9375 تولہ کا ہوتا ہے. *اگر 11.664 گرام کو ایک تولہ مانا جائے جو ایک چاندی کے سکہ کا وزن ہے تو 52.5 تولہ 52.5 چاندی کا سکہ ہوا.* جو آج کل کے پوسٹ سے معلوم ہوتا ہے. اب اس حساب کو پھر دیکھیں کہ ایک تولہ میں کتنا گرام انگریزی وقت اور شاہی وقت کے لحاظ سے ہوتا ہے ابھی کے دور میں علمائے اہل سنت اسی مقدار نصاب 12.441 گرام کو ایک ٹولہ مانتے ہیں۔
ایک تولہ=12 ماشہ
ایک ماشہ=1.0368 گرام
اس طرح
ا تولہ=12 ماشہ ×ضرب 1.0368 گرام برابر 12.4416 گرام ہوا یہی ایک تولہ بارہ۔ ماشہ کاہوتا ہے اس کا جدید وزن ہے پھر اسکو چاندی کا نصاب لانے کے لیے
52.5 تولہ × ضرب12.4416 برابر653.184 گرام
یہ چاندی کا نصاب زکوۃ ہوا. اس کو دوسرے طریقہ سے سمجھا جائیں .... ایک چاندی کے سکہ کا وزن 11.25 ماشہ تو 56 روپیہ چاندی کے سکہ کا وزن ماشہ میں
56 ضرب11.250 برابر 630 ماشہ
اب ماشہ کو گرام سے بدلنے کے لئیے ایک ماشہ=1.0368 گرام کا ہوتا ہے تو 630 ماشہ میں 1.0368 گرام سے ضرب دیا جائے گا ضرب دینے پر برابر 653.184 گرام.ہے جو چاندی کا جدید نصاب ہے .. میں نے بحمدہ تعالیٰ یہ ثابت کیا کے سرکار اعلی حضرت نے 52.5 تولہ چاندی کو 56 روپیہ چاندی کا سکہ کیسے فرمایا. میں نے درہم کو رتی, ماشہ گرام انگریزی دور کا سکہ ہر طریقہ سے سمجھانے کی کوشش کیا کے 200 درہم شرعی 653.184 گرام ہے نہ کی 612 گرام. 612 گرام کی تحقیق غلط ہے. واللہ تعلی اعلم
اب سونا کا نصاب جدید وزن میں سمجھا جائے
20 مثقال سونے کا نصاب ہے 10 درہم 7 مثقال کے برابر ہوتا ہےیا ایسے سمجھیں 7 مثقال 10 درہم کے برابر ہوتا ہے
تو 20 مثقال 28.571 درہم کے برابر ہوگا
جیسے سات مثقال برابر دس درہم ایک مثقال برابر 10/7
بیس مثقال برابر 10/7*20=28.571. درہم
پھر 28.571 کو رتی میں لایا جائے گا
تو ایک درہم برابر 25.22 رتی
اب دیکھا جائے کہ 28.571 درہم سے 25.22 رتی میں ضرب دیں گے تو حاصل ضرب 720 رتی ہوا اب رتی کو ماشہ میں بدلا جائے گا اس کے لئے دیکھا جائے کہ
8 رتی ایک ماشہ اب 720 رتی میں اس آٹھ ماشہ سے تقسیم کیا
تو حاصل 90.ماشہ اب غور کرنا ہے کہ 90 ماشہ کتنا چاندی کا سکہ ہوا تو سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ کی تحقیق کے مطابق ایک چاندی کا سکہ سوا گیارہ ماشہ ہے
تو اب نوے 90 . ماشہ میں سوا گیارہ ماشہ سے تقسیم کریں گے تقسیم کیا تقسیم کرنے کے بعد حاصل 8آٹھ چاندی کا سکہ آیا جو امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ نے سونے کے نصاب کے لئے تحقیق فرمائی ۔اور اسی پر کل علمائے اہل سنت عمل فرماتے ہیں اور یہی صحیح حساب ہے
ایک دوسری مثال
سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت حضور مجدد اعظم امام اہل سنت سرکار امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ۔مثقال ساڑھے چار ماشہ ہے اور یہاں کا روپیہ 11.25 ماشہ /فتاوی رضویہ جلد جدید 12ص 156/
اس قول کے مطابق حساب سمجھیں
حدیث شریف میں سونا کا نصاب 20 مثقال ہے اور ایک مثقال۔ ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے جیسا کہ فتاوی۔ رضویہ سے معلوم ہوا جو اوپر ہے اب بیس مثقال کتنا ماشہ ہوا
ایک ۔۔مثقال ساڑھے چار ماشہ
تو بیس مثقال ضرب ساڑھے چار مثقال برابر ہے نوے /90/ ماشہ اب نوے ماشہ کتنا چاندی کا سکہ
11.25==ماشہ برابر ایک چاندی کا سکہ
1==ماشہ برابر ==1/11.25*90ماشہ
برابر ==8.چاندی کا سکہ سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ نے سونا کا نصاب 8.چاندی کا سکہ کہا یہ بھی ثابت ہوگیا اس میں صرف یہ خیال رکھنا ہے کہ 90 ماشہ میں 11.25ماشہ سے تقسیم کرنا ہے یعنی سوا گیارہ ماشہ میں نوے ماشہ سے تقسیم نہ کرکے نوے ماشہ کو سوا گیارہ ماشہ سے تقسیم کیا جائے گا تو جواب صحیح آئے گا بحمدہ تعالیٰ اس فقیر ثناء القادری ہر اعتبار سے آپ کے سامنے حساب پیش کردیا
قدیم اور جدید دونوں وقتوں میں انگریزی دور کے ایک چاندی کا سکہ کا وزن 11.664 گرام ہوتا ہے
اب 8 چاندی کے سکہ کا وزن
8×11.664 برابر 93.312 گرام ہوگا جو سونا کا نصاب زکوۃ ہے اور بعض علماء نے نصاب سونا 87.48 گرام اور دیگر کچھ اور لکھتے ہیں .یہ سمجھنے کی بات ہے کہ سرکار اعلی حضرت نے 7.5 تولہ کو 8 چاندی کا سکہ فرمایا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کے ایک چاندی کا سکہ قطعی ایک تولہ کا نہ ہوگا اگر ایک چاندی کا سکہ کو ایک تولہ مانا جائے تو7.5 تولہ 7.5 چاندی کا روپیہ ہوا جو سرکاراعلی حضرت امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تحقیق کے خلاف ہے .جو کسی بھی حساب میں نہیں آتا. سرکار اعلی حضرت نے تولہ پر زکوۃ نکالنے کی جگہ پر انہوں نے 8 روپیہ چاندی کا سکہ انگریزی دور پر زکوۃ نکالنے کو فرمایا.اگر کوئی اب بھی 87.48 گرام ہی کو صحیح کہتے ہے تو 8 روپیہ چاندی کے سکہ کے حساب سے کیسے ہوگا سمجھائیں
اب دوسرا سوال یہ کہ علمائے اہل سنت کے اکثر علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایک تولہ کا جدید وزن 11.664 گرام نہیں ہے بلکہ 12.4416 گرام اور اسی حساب پر زکواہ و صدقہ فطر نکالا جاتا ہےاب دوسرے علماء کے نزدیک اس سے کم نصاب پر زکوۃ نکالنے کو فرماتے ہیں
،google میں ancient.india.and.south.asien.میں geainsبرابر 11.664
یہ اس بات پر دلالت ہے کہ بارہ ماشہ جدید وزن میں 11گرام.664ملی گرام ہے اور خواجہ مظفر حسین صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اسی گرام کو قبول فرمایا
چونکہ ،google .میں انڈین جدید وزن ایک تولہ 11.664لکھا ہوا ہے تو اس میں ساڑھے سات تولے سے ضرب دیں گے تو حاصل ضرب 87.48ملی گرام آئے گا یہی سوناکا نصاب ہے
اب چاندی کی نصاب میں دیکھا جائے تو 52.50 تولہ میں 11.664سے ضرب دیں گے حاصل ضرب 612گرام 36 ملی گرام آئے گا یہی چاندی کا نصاب ہے
ایک دوسرا طریقہ اس فقیر کے پاس یہ ہے کہ جدید وزن 11.664 گرام میں 12 شہ سے تقسیم کرکے سوا گیارہ ماشہ سے ضرب دیں گے تو حاصل ضرب 10.935 آئے گا
جیسے11.664 گرام میں تقسیم کرے۔ 12 ماشہ سے چونکہ 12ماشہ کا ایک تولہ ہوتا ہے حاصل تقسیم 0.972 آیا اب اس 0.972 کو 11.25=سے ضرب دیجئے تو حاصل ضرب 10.935 آئے گا
اور سرکار اعلی حضرت نے ساڑھے سات تولے کو 8روپیہ چاندی کا سکہ فرمایا تو اب 10.935میں 8 چاندی کے سکے سے ضرب دیں گے تو87گرام 48 ملی گرام آئے گا یہی سونا کا نصاب ہے
اسی طرح چاندی 52.50 تولے کو سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت محدث بریلی شریف قدس سرہ نے 56 روپیہ فرمایا اب 10.935میں 56روپیہ سے ضرب دیں گے تو حاصل ضرب 612 گرام 36 ملی گرام آئے گا یہی چاندی کا نصاب ہے اختلاف کی صرف یہی ہے کہ بعض علمائے کرام بارہ
ماشہ کو 12.441گرام کہتے ہیں اور بعض علمائے کرام 12ماشہ جو ایک تولہ کاوزن ہے اسے 11.664ملی گرام مانتے ہیں اور یہی سے آپس میں اختلاف شروع ہوا
دونوں طرف دلائل موجود ہے یہ فقیر محمد ثناءاللہ خان نے اپنے بیٹے بابو محب اللہ سلمہ کی مدد سے خود حساب بناکر آپ کے سامنے پیش کیا
وجہ اختلاف
قول اول کے اعتبار سے بارہ ماشہ یعنی ایک تولہ
اور ایک تولہ کا جدید وزن 12.گرام441ملی گرام ہے اس اعتبار سے ایک سکہ کا جدید وزن 11=664ملی گرام ہے
اورتولہ کے اعتبار سے ایک سکہ کا وزن 0.9375 تولہ ہے
قول دوم کے اعتبار سے
ایک تولہ بارہ ماشہ کا ہوتا ہے
اور بارہ ماشہ کا جدید وزن 11.664ملی گرام ہے
اور تولہ کے اعتبار سے 10....0935
اب سوال یہ ہے کہ
كس قول پر عمل کیا جائے
جدید تحقیق یہی ہے کہ بارہ ماشہ ایک تولہ 12=441ملی گرام ہے اس حساب سے نکالا جائے کیونکہ مفتی صالح صاحب کا بیان ہے کہ میں خود جاکر سونار کے نزدیک قدیم سکہ تولا تو 12.441,ملی گرام آیا اسی حساب سے زکوۃ۔ فطرہ نصاب قربانی ۔دین مہر ۔سب نکالا جائے اور آج کل اسی پر عمل مسلمین ہے اور حضرت علامہ مفتی خواجہ مظفر حسین رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں سونار کی دکان پر قدیم سکہ تولا تو بارہ ماشہ 11.664گرام کا تھا لھذا اتنے ہی پر وجوب زکوۃ ہوتا ہے یہ دونوں علماء ہماری جماعت کے مستند و معتمد علماء میں سے ہیں آج ہمارے سیتا مڑھی کے سونار لوگ بھی 11.664,,گرام کو بارہ ماشہ مانتے ہیں
کیا کوئی 87 گرام 48 پوائنٹ پر سونا پر زکاۃ نکالے تو جائز ہوگا یا نہیں ؟
الجواب ۔ دونوں نصاب ہمارے علمائے کرام اپنی اپنی کتابوں میں تحریر فرماتے ہیں اگر کوئی اسی نصاب پر زکاۃ نکالے تو کوئی خرابی ہی نہیں بلکہ فایدہ بھی ہوگا کیونکہ
87=48گرام پر زکواۃ نکالنے کا اور چاندی 612=36گرام پر زکوٰۃ نکالنے پر احتیاط کافی ہے اس کی پانچ وجوہات ہیں
1 وجہ اول = پہلا یہ کہ عبادات میں احتیاط پر عمل کرنا واجب ہے جیسا کہ مبسوط امام سرخسی میں ہے من الاحتیاط فی باب العبادات واجب یعنی عبادات میں احتیاط واجب ہے /مبسوط جلد دوم ص 176/اور یقینی طور پر واجب کی ادائیگی سے بری الزمہ ہونے میں احتیاطی قول پر عمل کی جائے
وجہ دوم ==اور دوسرا اصول ہے کہ وانفع الفقراء یعنی جس میں فقراء کو زیادہ نفع ہو وہ کام کیا جائے تو اسی نصاب سے فقراء کو نفع حاصل ہوگا کہ کم سونا پر لوگ زکاۃ نکالنا شروع کردیں گے
وجہ سوم == بعض علماء کے نزدیک چاندی کا نصاب 612.36گرام ہے اور مفتی صالح صاحب کے نزدیک 653.184گرام ہے اگر ہم مسلمان دوسرے قول پر عمل کریں تو بھی جائز ہوگا کہ اکثر علماء اسی پر فتویٰ دیتے ہیں اور اگر یہ حساب صحیح نہیں ہوگا تو کتنے لوگوں کا گنہگار ہونا لازم آئے گا کہ کم 612.36گرام چاندی پر زکواۃ نکالنا تھا لیکن نہیں نکالا اور اگر 653گرام 184ملی گرام چاندی پر زکواۃ نکالا لیکن اگر یہ صحیح نہ ہوا تو کتنے لوگ کا روپیہ غیر زکوۃ میں چلا گیا
لیکن اس تعارض کو دور کرنے کے لیے مفتی مظفر حسین رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر 612.36گرام اگر یہ صحیح نہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اس وزن پر زکوٰۃ واجب نہیں تھی اس کو بھی ادا کرنا پڑا تو یہ رقم صدقہ نافلہ ہوکر باعث اجر و ثواب ہوگی /تحقیقات امام علم و فن /خواجہ مظفر حسین رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تحقیق میں اسی قول کو اختیار فرمایا اور ان کے نزدیک یہی احوط قول ہے
وجہ 4===ہان قول اول پر عمل کرے تو پھر بھی جائز ہے کیونکہ اصول ہے کہ اقل اکثر کے تابع ہوتا اور اکثر اقل کے تابع نہیں پس اگر قول اول پر زکوٰۃ ۔ نکالے گا تو اپنے آپ قول دوم پر بھی عمل ہو جائے گا کہ قول اول اکثر ہے اور قول دوم اقل ہاں اگر کسی کے پاس سونا 87 گرام ،48 ملی گرام ہو تو اسی پر زکوۃ نکالے تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن آج کل صدقہ فطر 2 کلو 47 گرام 32 ملی گرام نکالا جاتا ہے تو اس سے پتہ چلا کہ لوگوں کا اس قول پر عمل نہیں ہے جب لوگوں کا عمل نہیں تو پھر اس قول پر زکاۃ کیوں نکالے اگر کوئی نکالتا ہے تو اسے منع بھی نہیں کیا جائے گا کہ کم سے کم صدقہ نافلہ کا ثواب حاصل ہوگا یا پچھلا بقایا زکاۃ منہا ہوگا جیسے کہ نفل نماز سے فرض کی کمی پوری کی جائے گی
وجہ پانچ .===,۔اور صدقہ فطر 2 کلو 47 گرام 32 پوائنٹ تقریبا 2کلو 48گرام نکالے کہ اسی میں احتیاط اور فقراء کو زیادہ نفع ہے اور اس پر عمل کرنے سے اس سے کم والے اوزان پر بھی عمل ہوجائے گااور جو خواجہ مظفر حسین صاحب نے فرمایا کہ میرے نزدیک صدقہ فطر ایک کلو نو سو اسی ایک کلو نو سو بیس گرام ہے یہ بھی ان کے حساب سے صحیح ہوگا لیکن اس پر عمل کرنے سے احتیاط پر عمل نہیں ہوگا اور مسلمانوں پر صدقہ فطر باقی رہ جائے گا اور دو کلو 47 گرام 32 پوائنٹ پر نکالنے سے ان دونوں قول پر عمل ہو جائے گا۔ دوسرا قول اس سے کم ہے ایک کلو نو سو بیس گرام اس پر بھی عمل ہوجائے گا حضور شارح بخاری فقیہ الہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ بھی صدقہ فطر دو کلو سینتالیس گرام 32 پوائنٹ لکھتے ہیں /نزہۃالقاری شرح صحیح البخاری بخاری شریف ص82جلد نو /9/
6/اور اصول ہے کہ اقل تو اکثر کے تابع ہے نہ کہ اکثر اقل کے تابع (احکام میں عرف اور تعامل کی حیثیت ص 73 علامہ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں)
اور دو کلو 47 گرام 42 ملی گرام صدقہ فطر نکالنے سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ صدقہ فطر زیادہ نکل گیا لیکن صدقہ فطر باقی تو نہیں رہے گا
وجہ چھ 6= .اور دین مہر بھی 33 گرام چاندی پر یا اس کی قیمت پر رکھے یعنی جو قیمت نکاح کے وقت وہاں کے بازار میں ہو وہی قیمت معتبر ہے اس سے کم دین مہر نہ رکھا جائے کہ دس درہم جدید وزن میں 33 گرام ہوتا ہے اور اسی قول پر عمل کیا جائے تو قول دوم پر بھی عمل ہو جائے گا اور قول دوم کے مطابق 30 گرام 618 ملی گرام ہوتا ہے اس پر نہ نکالے کیونکہ اس میں دلہن یعنی لڑکی کو نقصان ہے اور 33 گرام پر دین مہر رکھنے میں لڑکی کو فائدہ ہے اور یہ اکثر مقدار ہے اور دوسرا قول اقل۔ مقدار ہے اور اقل اکثر کے تابع ہوتا ہے نہ کہ اکثر اقل کے تابع ہوتا ہے
اس طرح عمل کرنے پر جہاں دونوں قول پر عمل ہو جائے گا وہی کوئی شک و شبہ بھی باقی نہیں رہے گا کیونکہ دین مہر 33 گرام رکھنے پر 30 گرام پر بھی عمل ہو جائے گا اور 30,,گرام 6592,ملی گرام رکھنے پر 33گرام پر عمل نہیں ہوگا میں نے تمام حساب لکھ کر قارئین کے سامنے پیش کیا آپ اہل علم خود غور کریں کہ کس قول پر عمل کیا جائے
ہاں کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے علماء دونوں تحقیق پر عمل کررہے ہیں کوئی ایک تولہ کو 12.441گرام مان رہے ہیں اور کوئی ایک تولہ کو 11=664 گرام مان رہے ہے ہیں ہندوستان اور پاکستان کے تمام علماء کا کسی ایک قول پر اتفاق رائے نہیں ہوا کیونکہ دلائل دونوں طرف موجود ہیں تو ہم جس قول پر عمل کریں جائز ہوگا اور جب کسی ایک قول پر مفتیان کرام کا اجماع نہیں ہوا تو ہمارے لیے بہتر اور راہ سلامتی راہ یہ ہے کہ احتیاطی قول پر عمل کریں
سونے کا نص
اب 20 مثقال یہ ساڑھے سات تولہ کس حساب سے ہوا اس حساب کو جانیں اور چاندی کا نصاب دو سو درہم یہ ساڑھے باون تولے کس حساب سے ہوا
اس جدید وزن کو اس طرح سمجھیں
سرکار امام اہلسنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ
........فرماتے ہیں کہ چاندی کا نصاب 200 درہم.... فتاوی رضویہ میں جواہر اخلاطی سے نقل ہے
.... الدرهم الشرعی خمس و عشرون حبة و خُمس حبة
یعنی درہم شرعی 25 رتی اور 5 وا حصہ رتی کا ہے مطلب ایک درہم برابر 25.2 رتی کے
.... اب 200 درہم
200 درہم کو رتی میں لانے کے لئے رتی سے ضرب دیجئے × ضرب 25.2 برابر 5040 رتی حاصل ہوا (200×25.2 برابر 5040)
(8 رتی 1 ماشہ ہوتا ہے)
اب 5040رتی کو ماشہ میں لانے کے لئے.. 5040 رتی کو 8 رتی سے تقسیم کیا جائے گا تو حاصل 630 ماشہ آیا
(اس طرح 200 درہم 630 ماشہ ہوا)...اور مفتی اعظم ہند کے مطابق
بارہ ماشہ برابر ایک تولہ تو اب اس 630 ماشہ کو تولہ میں لانے کے لئے 630 ماشہ میں بارہ ماشہ جو ایک تولہ ہوتا ہے اس سے تقسیم کریں گے تو 630 ماشہ تقسیم 12 ماشہ برابر 52.5 تولے حاصل تقسیم ہوا اسی حساب سے نصاب چاندی ساڑھے باون تولہ آیا اس فقیر نے اس حساب سے آپ کو سمجھایا کے دو سو درہم چاندی ساڑھے باون تولہ کیسے ہوا اب اس ساڑھے باون تولے چاندی کو جو امام اہل سنت مجدد اعظم سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ 56چھپن روپیہ چاندی کے سکے کے مساوی فرماتے ہیں اب آپ اس کو بھی سمجھیں کہ دو سو درہم یا ساڑھے باون تولے چاندی کا چھپن روپیہ کیسے ہوا سرکار اعلی حضرت کے مطابق ایک چاندی کاسکہ 11.25ماشہ کا ہوتا ہے اور اوپر آپ نے دیکھا کہ دو سو درہم کو 630 ماشہ کہا گیا تو اب اس سوا گیارہ ماشہ سے چھ سو تیس ماشہ میں تقسیم کریں گے تو حاصل تقسیم 56 روپیے ہوگا اس فقیر ثناء اللہ نے دو سو درہم ساڑھے باون تولہ کیسے آیا اور یہ ساڑھے باون تولہ چھپن روپیہ کیسے آیا حساب سمجھا دیا*
اب حساب ظاہر ہو گیا کے 52.5 تولہ =56 چاندی کا انگریزی سکہ ہے نہ کہ تولہ
اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ 56 روپیہ کو جدید وزن میں کتنا گرام کہا جائے گا تو اس کو اس طرح جانیں
ایک چاندی کا سکہ انگریزی دور والا 11.664گرام کا ہوتا ہے تو اب اس 56 روپیہ کو .11.664 سے ضرب دیں گے حاصل ضرب 653.184 گرام آئے گا اسی نصاب پر ہندوستان کے اکثر علماء کا عمل ہے اور مفتیان کرام اسی مقدار نصاب پر فتویٰ دیتے ہیں
....اب قدیم اور جدید وقت میں ایک چاندی کا سکہ کا وزن انگریزی دور والا 11.664 گرام ہوتا ہے. تو 56 چاندی کا سکہ=56 ضرب 11.664 برابر
.653.184 گرام چاندی کا نصاب ہوا. اگر آج کے دور کا ایک چاندی کے سکہ کو جس کا وزن 11.664 گرام ہوتا ہے اس کو ایک تولہ بولا جائے تو اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف نے 52.5 تولہ کو 56 روپیہ چاندی کا سکہ کیوں فرمایا.؟ اعلی حضرت عظیم البرکت کے مطابق دیکھا جائے تو ایک چاندی کا سکہ 0.9375 تولہ کا ہوتا ہے جو جدید وزن میں 11.664گرام کا ہے کیونکہ.56 ضرب0.9375 برابر 52.5 تولہ.
(یہا ں سکہ 56زیادہ اور تولہ 52.5 کم ہے اس سے پتہ چلا کے تولہ سےسکہ کا مقدار کم ہے اور ایک سکہ کا وزن 11.664 گرام ہے اور جب سکہ سے تولہ کا وزن زیادہ ہے تو تولہ 11.664 گرام سے زیادہ ہوگا نہ کی کم اور نہ برابر)
اب تو ثابت ہوا کے 11.664 گرام ایک تولہ کا وزن نہیں ایک چاندی کے سکہ کا وزن ہے جو صرف 0.9375 تولہ کا ہوتا ہے. *اگر 11.664 گرام کو ایک تولہ مانا جائے جو ایک چاندی کے سکہ کا وزن ہے تو 52.5 تولہ 52.5 چاندی کا سکہ ہوا.* جو آج کل کے پوسٹ سے معلوم ہوتا ہے. اب اس حساب کو پھر دیکھیں کہ ایک تولہ میں کتنا گرام انگریزی وقت اور شاہی وقت کے لحاظ سے ہوتا ہے ابھی کے دور میں علمائے اہل سنت اسی مقدار نصاب 12.441 گرام کو ایک ٹولہ مانتے ہیں۔
ایک تولہ=12 ماشہ
ایک ماشہ=1.0368 گرام
اس طرح
ا تولہ=12 ماشہ ×ضرب 1.0368 گرام برابر 12.4416 گرام ہوا یہی ایک تولہ بارہ۔ ماشہ کاہوتا ہے اس کا جدید وزن ہے پھر اسکو چاندی کا نصاب لانے کے لیے
52.5 تولہ × ضرب12.4416 برابر653.184 گرام
یہ چاندی کا نصاب زکوۃ ہوا. اس کو دوسرے طریقہ سے سمجھا جائیں .... ایک چاندی کے سکہ کا وزن 11.25 ماشہ تو 56 روپیہ چاندی کے سکہ کا وزن ماشہ میں
56 ضرب11.250 برابر 630 ماشہ
اب ماشہ کو گرام سے بدلنے کے لئیے ایک ماشہ=1.0368 گرام کا ہوتا ہے تو 630 ماشہ میں 1.0368 گرام سے ضرب دیا جائے گا ضرب دینے پر برابر 653.184 گرام.ہے جو چاندی کا جدید نصاب ہے .. میں نے بحمدہ تعالیٰ یہ ثابت کیا کے سرکار اعلی حضرت نے 52.5 تولہ چاندی کو 56 روپیہ چاندی کا سکہ کیسے فرمایا. میں نے درہم کو رتی, ماشہ گرام انگریزی دور کا سکہ ہر طریقہ سے سمجھانے کی کوشش کیا کے 200 درہم شرعی 653.184 گرام ہے نہ کی 612 گرام. 612 گرام کی تحقیق غلط ہے. واللہ تعلی اعلم
اب سونا کا نصاب جدید وزن میں سمجھا جائے
20 مثقال سونے کا نصاب ہے 10 درہم 7 مثقال کے برابر ہوتا ہےیا ایسے سمجھیں 7 مثقال 10 درہم کے برابر ہوتا ہے
تو 20 مثقال 28.571 درہم کے برابر ہوگا
جیسے سات مثقال برابر دس درہم ایک مثقال برابر 10/7
بیس مثقال برابر 10/7*20=28.571. درہم
پھر 28.571 کو رتی میں لایا جائے گا
تو ایک درہم برابر 25.22 رتی
اب دیکھا جائے کہ 28.571 درہم سے 25.22 رتی میں ضرب دیں گے تو حاصل ضرب 720 رتی ہوا اب رتی کو ماشہ میں بدلا جائے گا اس کے لئے دیکھا جائے کہ
8 رتی ایک ماشہ اب 720 رتی میں اس آٹھ ماشہ سے تقسیم کیا
تو حاصل 90.ماشہ اب غور کرنا ہے کہ 90 ماشہ کتنا چاندی کا سکہ ہوا تو سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ کی تحقیق کے مطابق ایک چاندی کا سکہ سوا گیارہ ماشہ ہے
تو اب نوے 90 . ماشہ میں سوا گیارہ ماشہ سے تقسیم کریں گے تقسیم کیا تقسیم کرنے کے بعد حاصل 8آٹھ چاندی کا سکہ آیا جو امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ نے سونے کے نصاب کے لئے تحقیق فرمائی ۔اور اسی پر کل علمائے اہل سنت عمل فرماتے ہیں اور یہی صحیح حساب ہے
ایک دوسری مثال
سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت حضور مجدد اعظم امام اہل سنت سرکار امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ۔مثقال ساڑھے چار ماشہ ہے اور یہاں کا روپیہ 11.25 ماشہ /فتاوی رضویہ جلد جدید 12ص 156/
اس قول کے مطابق حساب سمجھیں
حدیث شریف میں سونا کا نصاب 20 مثقال ہے اور ایک مثقال۔ ساڑھے چار ماشہ کا ہوتا ہے جیسا کہ فتاوی۔ رضویہ سے معلوم ہوا جو اوپر ہے اب بیس مثقال کتنا ماشہ ہوا
ایک ۔۔مثقال ساڑھے چار ماشہ
تو بیس مثقال ضرب ساڑھے چار مثقال برابر ہے نوے /90/ ماشہ اب نوے ماشہ کتنا چاندی کا سکہ
11.25==ماشہ برابر ایک چاندی کا سکہ
1==ماشہ برابر ==1/11.25*90ماشہ
برابر ==8.چاندی کا سکہ سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ نے سونا کا نصاب 8.چاندی کا سکہ کہا یہ بھی ثابت ہوگیا اس میں صرف یہ خیال رکھنا ہے کہ 90 ماشہ میں 11.25ماشہ سے تقسیم کرنا ہے یعنی سوا گیارہ ماشہ میں نوے ماشہ سے تقسیم نہ کرکے نوے ماشہ کو سوا گیارہ ماشہ سے تقسیم کیا جائے گا تو جواب صحیح آئے گا بحمدہ تعالیٰ اس فقیر ثناء القادری ہر اعتبار سے آپ کے سامنے حساب پیش کردیا
قدیم اور جدید دونوں وقتوں میں انگریزی دور کے ایک چاندی کا سکہ کا وزن 11.664 گرام ہوتا ہے
اب 8 چاندی کے سکہ کا وزن
8×11.664 برابر 93.312 گرام ہوگا جو سونا کا نصاب زکوۃ ہے اور بعض علماء نے نصاب سونا 87.48 گرام اور دیگر کچھ اور لکھتے ہیں .یہ سمجھنے کی بات ہے کہ سرکار اعلی حضرت نے 7.5 تولہ کو 8 چاندی کا سکہ فرمایا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کے ایک چاندی کا سکہ قطعی ایک تولہ کا نہ ہوگا اگر ایک چاندی کا سکہ کو ایک تولہ مانا جائے تو7.5 تولہ 7.5 چاندی کا روپیہ ہوا جو سرکاراعلی حضرت امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تحقیق کے خلاف ہے .جو کسی بھی حساب میں نہیں آتا. سرکار اعلی حضرت نے تولہ پر زکوۃ نکالنے کی جگہ پر انہوں نے 8 روپیہ چاندی کا سکہ انگریزی دور پر زکوۃ نکالنے کو فرمایا.اگر کوئی اب بھی 87.48 گرام ہی کو صحیح کہتے ہے تو 8 روپیہ چاندی کے سکہ کے حساب سے کیسے ہوگا سمجھائیں
اب دوسرا سوال یہ کہ علمائے اہل سنت کے اکثر علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایک تولہ کا جدید وزن 11.664 گرام نہیں ہے بلکہ 12.4416 گرام اور اسی حساب پر زکواہ و صدقہ فطر نکالا جاتا ہےاب دوسرے علماء کے نزدیک اس سے کم نصاب پر زکوۃ نکالنے کو فرماتے ہیں
،google میں ancient.india.and.south.asien.میں geainsبرابر 11.664
یہ اس بات پر دلالت ہے کہ بارہ ماشہ جدید وزن میں 11گرام.664ملی گرام ہے اور خواجہ مظفر حسین صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اسی گرام کو قبول فرمایا
چونکہ ،google .میں انڈین جدید وزن ایک تولہ 11.664لکھا ہوا ہے تو اس میں ساڑھے سات تولے سے ضرب دیں گے تو حاصل ضرب 87.48ملی گرام آئے گا یہی سوناکا نصاب ہے
اب چاندی کی نصاب میں دیکھا جائے تو 52.50 تولہ میں 11.664سے ضرب دیں گے حاصل ضرب 612گرام 36 ملی گرام آئے گا یہی چاندی کا نصاب ہے
ایک دوسرا طریقہ اس فقیر کے پاس یہ ہے کہ جدید وزن 11.664 گرام میں 12 شہ سے تقسیم کرکے سوا گیارہ ماشہ سے ضرب دیں گے تو حاصل ضرب 10.935 آئے گا
جیسے11.664 گرام میں تقسیم کرے۔ 12 ماشہ سے چونکہ 12ماشہ کا ایک تولہ ہوتا ہے حاصل تقسیم 0.972 آیا اب اس 0.972 کو 11.25=سے ضرب دیجئے تو حاصل ضرب 10.935 آئے گا
اور سرکار اعلی حضرت نے ساڑھے سات تولے کو 8روپیہ چاندی کا سکہ فرمایا تو اب 10.935میں 8 چاندی کے سکے سے ضرب دیں گے تو87گرام 48 ملی گرام آئے گا یہی سونا کا نصاب ہے
اسی طرح چاندی 52.50 تولے کو سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت محدث بریلی شریف قدس سرہ نے 56 روپیہ فرمایا اب 10.935میں 56روپیہ سے ضرب دیں گے تو حاصل ضرب 612 گرام 36 ملی گرام آئے گا یہی چاندی کا نصاب ہے اختلاف کی صرف یہی ہے کہ بعض علمائے کرام بارہ
ماشہ کو 12.441گرام کہتے ہیں اور بعض علمائے کرام 12ماشہ جو ایک تولہ کاوزن ہے اسے 11.664ملی گرام مانتے ہیں اور یہی سے آپس میں اختلاف شروع ہوا
دونوں طرف دلائل موجود ہے یہ فقیر محمد ثناءاللہ خان نے اپنے بیٹے بابو محب اللہ سلمہ کی مدد سے خود حساب بناکر آپ کے سامنے پیش کیا
وجہ اختلاف
قول اول کے اعتبار سے بارہ ماشہ یعنی ایک تولہ
اور ایک تولہ کا جدید وزن 12.گرام441ملی گرام ہے اس اعتبار سے ایک سکہ کا جدید وزن 11=664ملی گرام ہے
اورتولہ کے اعتبار سے ایک سکہ کا وزن 0.9375 تولہ ہے
قول دوم کے اعتبار سے
ایک تولہ بارہ ماشہ کا ہوتا ہے
اور بارہ ماشہ کا جدید وزن 11.664ملی گرام ہے
اور تولہ کے اعتبار سے 10....0935
اب سوال یہ ہے کہ
كس قول پر عمل کیا جائے
جدید تحقیق یہی ہے کہ بارہ ماشہ ایک تولہ 12=441ملی گرام ہے اس حساب سے نکالا جائے کیونکہ مفتی صالح صاحب کا بیان ہے کہ میں خود جاکر سونار کے نزدیک قدیم سکہ تولا تو 12.441,ملی گرام آیا اسی حساب سے زکوۃ۔ فطرہ نصاب قربانی ۔دین مہر ۔سب نکالا جائے اور آج کل اسی پر عمل مسلمین ہے اور حضرت علامہ مفتی خواجہ مظفر حسین رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں سونار کی دکان پر قدیم سکہ تولا تو بارہ ماشہ 11.664گرام کا تھا لھذا اتنے ہی پر وجوب زکوۃ ہوتا ہے یہ دونوں علماء ہماری جماعت کے مستند و معتمد علماء میں سے ہیں آج ہمارے سیتا مڑھی کے سونار لوگ بھی 11.664,,گرام کو بارہ ماشہ مانتے ہیں
کیا کوئی 87 گرام 48 پوائنٹ پر سونا پر زکاۃ نکالے تو جائز ہوگا یا نہیں ؟
الجواب ۔ دونوں نصاب ہمارے علمائے کرام اپنی اپنی کتابوں میں تحریر فرماتے ہیں اگر کوئی اسی نصاب پر زکاۃ نکالے تو کوئی خرابی ہی نہیں بلکہ فایدہ بھی ہوگا کیونکہ
87=48گرام پر زکواۃ نکالنے کا اور چاندی 612=36گرام پر زکوٰۃ نکالنے پر احتیاط کافی ہے اس کی پانچ وجوہات ہیں
1 وجہ اول = پہلا یہ کہ عبادات میں احتیاط پر عمل کرنا واجب ہے جیسا کہ مبسوط امام سرخسی میں ہے من الاحتیاط فی باب العبادات واجب یعنی عبادات میں احتیاط واجب ہے /مبسوط جلد دوم ص 176/اور یقینی طور پر واجب کی ادائیگی سے بری الزمہ ہونے میں احتیاطی قول پر عمل کی جائے
وجہ دوم ==اور دوسرا اصول ہے کہ وانفع الفقراء یعنی جس میں فقراء کو زیادہ نفع ہو وہ کام کیا جائے تو اسی نصاب سے فقراء کو نفع حاصل ہوگا کہ کم سونا پر لوگ زکاۃ نکالنا شروع کردیں گے
وجہ سوم == بعض علماء کے نزدیک چاندی کا نصاب 612.36گرام ہے اور مفتی صالح صاحب کے نزدیک 653.184گرام ہے اگر ہم مسلمان دوسرے قول پر عمل کریں تو بھی جائز ہوگا کہ اکثر علماء اسی پر فتویٰ دیتے ہیں اور اگر یہ حساب صحیح نہیں ہوگا تو کتنے لوگوں کا گنہگار ہونا لازم آئے گا کہ کم 612.36گرام چاندی پر زکواۃ نکالنا تھا لیکن نہیں نکالا اور اگر 653گرام 184ملی گرام چاندی پر زکواۃ نکالا لیکن اگر یہ صحیح نہ ہوا تو کتنے لوگ کا روپیہ غیر زکوۃ میں چلا گیا
لیکن اس تعارض کو دور کرنے کے لیے مفتی مظفر حسین رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر 612.36گرام اگر یہ صحیح نہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اس وزن پر زکوٰۃ واجب نہیں تھی اس کو بھی ادا کرنا پڑا تو یہ رقم صدقہ نافلہ ہوکر باعث اجر و ثواب ہوگی /تحقیقات امام علم و فن /خواجہ مظفر حسین رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تحقیق میں اسی قول کو اختیار فرمایا اور ان کے نزدیک یہی احوط قول ہے
وجہ 4===ہان قول اول پر عمل کرے تو پھر بھی جائز ہے کیونکہ اصول ہے کہ اقل اکثر کے تابع ہوتا اور اکثر اقل کے تابع نہیں پس اگر قول اول پر زکوٰۃ ۔ نکالے گا تو اپنے آپ قول دوم پر بھی عمل ہو جائے گا کہ قول اول اکثر ہے اور قول دوم اقل ہاں اگر کسی کے پاس سونا 87 گرام ،48 ملی گرام ہو تو اسی پر زکوۃ نکالے تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن آج کل صدقہ فطر 2 کلو 47 گرام 32 ملی گرام نکالا جاتا ہے تو اس سے پتہ چلا کہ لوگوں کا اس قول پر عمل نہیں ہے جب لوگوں کا عمل نہیں تو پھر اس قول پر زکاۃ کیوں نکالے اگر کوئی نکالتا ہے تو اسے منع بھی نہیں کیا جائے گا کہ کم سے کم صدقہ نافلہ کا ثواب حاصل ہوگا یا پچھلا بقایا زکاۃ منہا ہوگا جیسے کہ نفل نماز سے فرض کی کمی پوری کی جائے گی
وجہ پانچ .===,۔اور صدقہ فطر 2 کلو 47 گرام 32 پوائنٹ تقریبا 2کلو 48گرام نکالے کہ اسی میں احتیاط اور فقراء کو زیادہ نفع ہے اور اس پر عمل کرنے سے اس سے کم والے اوزان پر بھی عمل ہوجائے گااور جو خواجہ مظفر حسین صاحب نے فرمایا کہ میرے نزدیک صدقہ فطر ایک کلو نو سو اسی ایک کلو نو سو بیس گرام ہے یہ بھی ان کے حساب سے صحیح ہوگا لیکن اس پر عمل کرنے سے احتیاط پر عمل نہیں ہوگا اور مسلمانوں پر صدقہ فطر باقی رہ جائے گا اور دو کلو 47 گرام 32 پوائنٹ پر نکالنے سے ان دونوں قول پر عمل ہو جائے گا۔ دوسرا قول اس سے کم ہے ایک کلو نو سو بیس گرام اس پر بھی عمل ہوجائے گا حضور شارح بخاری فقیہ الہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ بھی صدقہ فطر دو کلو سینتالیس گرام 32 پوائنٹ لکھتے ہیں /نزہۃالقاری شرح صحیح البخاری بخاری شریف ص82جلد نو /9/
6/اور اصول ہے کہ اقل تو اکثر کے تابع ہے نہ کہ اکثر اقل کے تابع (احکام میں عرف اور تعامل کی حیثیت ص 73 علامہ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں)
اور دو کلو 47 گرام 42 ملی گرام صدقہ فطر نکالنے سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ صدقہ فطر زیادہ نکل گیا لیکن صدقہ فطر باقی تو نہیں رہے گا
وجہ چھ 6= .اور دین مہر بھی 33 گرام چاندی پر یا اس کی قیمت پر رکھے یعنی جو قیمت نکاح کے وقت وہاں کے بازار میں ہو وہی قیمت معتبر ہے اس سے کم دین مہر نہ رکھا جائے کہ دس درہم جدید وزن میں 33 گرام ہوتا ہے اور اسی قول پر عمل کیا جائے تو قول دوم پر بھی عمل ہو جائے گا اور قول دوم کے مطابق 30 گرام 618 ملی گرام ہوتا ہے اس پر نہ نکالے کیونکہ اس میں دلہن یعنی لڑکی کو نقصان ہے اور 33 گرام پر دین مہر رکھنے میں لڑکی کو فائدہ ہے اور یہ اکثر مقدار ہے اور دوسرا قول اقل۔ مقدار ہے اور اقل اکثر کے تابع ہوتا ہے نہ کہ اکثر اقل کے تابع ہوتا ہے
اس طرح عمل کرنے پر جہاں دونوں قول پر عمل ہو جائے گا وہی کوئی شک و شبہ بھی باقی نہیں رہے گا کیونکہ دین مہر 33 گرام رکھنے پر 30 گرام پر بھی عمل ہو جائے گا اور 30,,گرام 6592,ملی گرام رکھنے پر 33گرام پر عمل نہیں ہوگا میں نے تمام حساب لکھ کر قارئین کے سامنے پیش کیا آپ اہل علم خود غور کریں کہ کس قول پر عمل کیا جائے
ہاں کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے علماء دونوں تحقیق پر عمل کررہے ہیں کوئی ایک تولہ کو 12.441گرام مان رہے ہیں اور کوئی ایک تولہ کو 11=664 گرام مان رہے ہے ہیں ہندوستان اور پاکستان کے تمام علماء کا کسی ایک قول پر اتفاق رائے نہیں ہوا کیونکہ دلائل دونوں طرف موجود ہیں تو ہم جس قول پر عمل کریں جائز ہوگا اور جب کسی ایک قول پر مفتیان کرام کا اجماع نہیں ہوا تو ہمارے لیے بہتر اور راہ سلامتی راہ یہ ہے کہ احتیاطی قول پر عمل کریں
سوال ۔جب اکثر علماء کے نزدیک قول دوم صحیح نہیں ہے تو پتہ چلا کہ 87 گرام 48 ملی گرام سونا پر جب ہم پر زکوٰۃ واجب ہی نہیں تو پھر کیوں نکالا جائے ؟
الجواب چونکہ دونوں اپنے قوت پر ہے دونوں طرف دلائل ہیں اور یہ بھی بات حق ہے جب اللہ تعالٰی ہی چھوٹ دیا تو پھر ہم کیوں نکالیں یہ ٹھیک ہے اگر کوئی نہیں نکالتا ہے وہ بھی گنہگار نہیں ہوگا ہاں جس کےپاس صرف ساڑھے سات تولہ یعنی 87 گرام 48 ملی گرام سونا ہے وہ نکالے تاکہ اگر یہی صحیح ہوگا تو وہ گنہگار نہیں ہوگا اگر صحیح نہیں ہوگا تو یہ روپیہ نفلی ہوکر ثواب پائے گا اور کسی کے پاس 93 گرام 312 ملی گرام سونا ہے وہ اس پر نکالے کہ اقل یعنی کم مقدار اکثر کے تابع ہوتا ہے اور اکثر اقل کے تابع نہیں ہوتا ہے اس پر عمل کرنے سے 84 گرام بھی ہوجائے گا
الحاصل (1) فقیہ الہند شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب کی عبارت کہ سونا کا نصاب 91 گرام ہے یہ مقدار کسی حساب سے صحیح نہیں ہے یہ کاتب کی غلطی ہوسکتی ہے یا حضرت فقیہ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کوئی حساب رہا ہوگا لیکن حضور شارح بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے نزہۃالقاری جلد نہم میں قسم کا کفارہ کے نکالنے میں
دو کلو سیتالیس گرام 2 کلو 47 گرام چاندی تحریر فرماتے ہیں (نزہ ۃالقاری جلد نہم ص 82)
تو قول اور یہ مقدار اس بات پر دلالت ہے کہ حضور شارح بخاری مفتی شریف الحق صاحب امجدی رحمتہ اللہ علیہ بھی ایک تولہ بارہ ماشہ جو 12گرام 441 ملی گرام کا ہوتا ہے اسی کو مان رہے ہیں اگر 11۔ 664 یا اس سے کم مانتے تو صدقہ فطر ایک کلواسی گرام نصف صاع یا اس سے کم نکالنے کو فرماتے لیکن نزہۃالقاری جلد دوم میں صدقہ فطر 2 کلو 45 گرام تحریر فرمایا لگتا ہے کہ ان کے نزدیک پہلے 11.664گرام سے زیادہ اور 12.441گرام سے کم کی تحقیق تھی اور بعد میں جب ان کو معلوم ہوا کہ بارہ ماشہ یعنی ایک تولہ کا جدید وزن 12.441گرام صحیح ہے اس لئے نزہۃالقاری جلد نہم میں کفار ہ کی ادائیگی میں اسی جدید تحقیق کی بنا پر نصف صاع گیہوں کا جدید وزن میں 2 کلو 47 گرام تحریر فرمایا لیکن پہلے قول سے رجوع ثابت نہیں ہے لیکن اس دوسرے قول سے قول اول خود منسوخ ہوگیا
2..= اور حضور سابق امین شریعت مفتی اعظم ہالینڈ عبد الواجد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نےجو فرمایا کہ سونا کا نصاب 611 گرام 62 ملی گرام ہے ہوسکتا ہے یہ ان کی اپنی تحقیق ہو بس سونا کا صحیح نصاب 93 گرام 312ملی گرام ہے اور چاندی کا صحیح نصاب 653 گرام 184 ملی گرام ہے اور دوسرے قول سے سونا کا صحیح نصاب 87 گرام 48 ملی گرام ہے اور چاندی کاصحیح نصاب 612 گرام 36 ملی گرام ہے ان دونوں سے نہ زائد ہے اور نہ کم یعنی قول اول سے نہ زائد اور قول دوم سے نہ کم اور نہ ان دونوں کے درمیانی جدید وزن کلو گرام میں معتبر ہے
سوال ۔اس ضمن میں آخری سوال یہ ہے کہ آپ نے کس دلیل سے یہ لکھا کہ زکوٰۃ میں 11.664کے حساب سے اور دین مہر اور صدقہ فطر میں 12.441 گرام سے نکالا جائے کیونکہ اس طرح کرنے سے لوگ مذاق اڑائیں گے ؟
الجواب ۔ اسی لئے اس فقیرنے احتیاطاً کہا کہ اس میں احتیاط ہے اور ہمارے پاس دلیل بھی ہے جیسا کہ حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مسئلہ میں فرمایا کہ گیہوں کو گیہوں سے کم زیادہ کرکے بیچنے کی صورت یہ ہے کہ گیہوں نصف صاع سے کم ہو مثلاً ایک کلو گیہوں کو ڈیڑھ کلو سے بیچنا جائزہے اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں اس مسئلہ کی وضاحت میں فرمایا کہ
انتباہ ۔۔صدقہ فطر میں نصف صاع احتیاطاً ایک سو پچھتر 175 روپئے بھر یعنی دو کلو تقریبا سینتالیس 2=47 گرام مانا گیا ہے مگر سود کے مسئلہ میں نصف صاع احتیاطا ایک سو چوالیس روپئے 144روپئے بھر قرار دیا جائے گا یعنی ایک کلو چھ سو پچھتر گرام تاکہ سود کا شبہ نہ رہے لانہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھی عنہ الربو والربیۃ
جیسے کہ حطیم نماز کے مسئلہ میں
احتیاطاً کعبہ سے خارج مانا گیا ہے اور طواف کے مسئلہ میں احتیاطاً کعبہ کا جز قرار دیا گیا رد المحتار جلد دوم ص 167میں ہے اذا استقبلہ المصلی لم تصح صلاتہ لان فرضیۃ استقبال الکعبۃ ثبت بالنص القطعی و کون الحطیم من الکعبۃ ثبت بالاحاد فصار کانہ من الکعبۃ من وجہ دون وجہ فکان الاحتیاط فی وجوب الطواف وراءہ و فی عدم صحۃ استقبالہ /عجائب الفقہ فقہی پہیلیاں ص 230/ دیکھا جائیں یہاں نصاب کی مقدار کو دو مسئلہ میں احتیاطاً دو مقدار لکھا گیا ایک میں 2=47گرام نصاب مانا گیا اور دوسرے قول میں احتیاطاً 1یک کلو چھ سو پچھتر گرام لکھا گیا اور اس طرح کرنے کی دلیل رد المحتار کی عبارت سے دی گئی اور شک و شبہ سے بچنے کے لئے اس طرح کرنا جائز ہے
سوال ۔بارہ ماشہ یعنی ایک تولہ کا جدید وزن میں صدقہ فطر کی صحیح مقدار کیا ہے
الجواب بارہ ماشہ یعنی ایک تولہ جدید تحقیق کے مطابق 12گرام 441 ملی گرام ہے اس لحاظ سے صدقہ فطر 2 کلو 47 گرام 32پوائنٹ ہوتا ہے اور علماء اہل سنت کا اسی قول پر عمل ہیں
سوال ۔اپ نے 12,گرام 441 ملی گرام کے حساب سے صدقہ فطر 2 کلو 47 گرام 32 پوائنٹ لکھا یہ کس حساب سے ہے
الجواب وہ حساب اس طرح ہے
ایک تولہ یعنی بارہ ماشہ جدید وزن میں 12.گرام ۔441ملی گرام ہے اور ایک انگریزی سکہ جدید وزن میں 11.گرام 664ملی گرام ہے,,,وہ اس طرح کہ 12.441 گرام کو 12 ماشہ سے تقسیم کیاجائے تقسیم کرنے پر حاصل تقسیم 1.03675 آئے گا پھر اس حاصل تقسیم 1.03675 کو 11.25 ماشہ سے ضرب دیا جائے تو حاصل ضرب 11.663438 آئے گا جو تقریبا 11.664 گرام ہوااب سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت حضور مجدد اعظم سیدنا امام اہل سنت امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نصف صاع کو ایک سو پچھتر روپئے اٹھنی بھر فرمایا تو اس حاصل ضرب کو یعنی 11.664گرام میں 175.50سے ضرب دیا جائے گا تو حاصل ضرب 2047.32 گرام آئے گا یعنی 2 کلو 47گرام 32 پوائنٹ ہوگا جس کو لوگوں کی آسانی کے لئےدو کلو ,اڑتالیس گرام کہا جائے یہی صحیح صدقہ فطر کا وزن ہے
سوال دوم آپ نے ،ایک دوسرے قول سے جس کو بعض علماء نے بارہ ماشہ یعنی ایک تولہ کو جدید وزن میں 11.664 گرام کہتے ہیں ان کے نزدیک کس حساب,سے فطرہ نکالا جاتا ہے
الجواب ان کا حساب اس طرح سے ہے
ایک تولہ یعنی بارہ ماشہ جدید وزن میں 11.664گرام ہے تو اس میں 12ماشہ سے تقسیم کریں گے تو تقسیم کرنے پر حاصل تقسیم 0972, آئے گا,,اب اس 0972 میں 11.25ماشہ سے ضرب دیا جائے گا تو حاصل ضرب 1.919.0925 گرام آئے گا ان کےنزدیک یہی صحیح وزن ہے اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو علماء صدقہ فطر کو ایک کلو اسی گرام 1.کلو نو سو بیس گرام جیسا کہ خواجہ مظفر حسین صاحب رحمتہ اللہ علیہ یا ایک کلو چھ سو گرام 1.600 گرام یا ایک کلو نوے 1090 گرام کہتے ہیں
سوال یہ اٹھتا ہے کہ نصاب کے متعلق کسی ایک قول پر اتفاق رائے کیوں نہیں ہوسکا کوئی کچھ اور کوئی کچھ اور تحریر فرماتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟
الجواب اس کی اول و آخر وجہ یہ ہے کہ
قول اول
کسی سنار کی کتاب میں ایک تولہ 11.6666667گرام کا اور ایک بھر 10.93750,گرام کا لکھا ہوا ہے
قول دوئم
کسی کی کتاب میں ایک تولہ 11.627.90698گرام اور ایک بھر 10.90116279,گرام لکھا ہے
قول دوئم
کسی سنار کی کتاب میں ایک تولہ 11.664گرام اور ایک بھر 10.935گرام کا ہوتا ہے لکھا ہوا ہے
قول چہارم
کسی سنار کے نزدیک قدیم سکہ کا ایک تولہ 12.441گرام کا اور ایک بھر 11.664گرام کا ہوتا ہے
ان میں اول قول کے حساب سے نصف صاع 1919.53125گرام ہوتا ہے
دوئم قول کے حساب سے نصف صاع 1913.15407 گرام ہوتا ہے
سوئم قول کے حساب سے نصف صاع 1919.925 گرام ہوتا ہے
قول چہارم قول کی وجہ سے نصف صاع 2 کلو 47گرام 32ملی گرام ہوتا ہے
ایک جگہ امام علم و فن حضرت علامہ مولانا مفتی خواجہ مظفر حسین رحمتہ اللہ علیہ ایک تولہ کا جدید وزن چار طریقے سے تحریر فرماتے ہیں کہ
ایک تولہ کا وزن 11.654گرام کا ہوتا ہے
پھرفرماتے ہیں کہ ایک تولہ کا جدید وزن 11.668گرام کا ہوتا ہے پھر لکھتے ہیں کہ ایک تولہ کا جدید کلو گرام میں وزن 11.664گرام کا ہوتا ہے مندرجہ ذیل بالا مساوات میں تولے کا کم سے کم 11.654گرام جس کی وجہ سے صدقہ فطر کا وزن ایک کلو 917 گرام 444, ملی گرام کا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ تولے کا وزن 11.668 گرام ہوتا ہے اس کی وجہ سے صدقہ فطر ایک کلو نو سو انیس گرام سات سو سینتالیس ملی گرام ہوتا ہے اس لئے اوسط درجہ 11.664 گرام کا ایک تولہ ہوا جس کی وجہ سے صدقہ فطر ایک کلو نو سوبیس گرام ہوا
اور جویلرس کے حساب سے اقل دین مہر 30 گرام 6592 ملی گرام ہوتا ہے /,تحقیقات امام علم و فن /
اور حضرت بقیۃ السلف علامہ مولانا مفتی محمد صالح صاحب مدظلہ العالی کے نزدیک ایک تولہ کا جدید وزن 12.441گرام ہوتا ہے جس کی وجہ سے صدقہ فطر دو کلو سینتالیس گرام بتیس پوائنٹ ہوا جو آسانی کے لیے دو کلو 48گرام نکالا جائے
انہی وجوہات کی بناء پر جن عالم کو جو قول ملا وہ اپنی تحقیق سے اسی حساب سے نصاب تحریر فرمایا اسی
لئے زکوۃ کے نصاب اور صدقہ فطر اور دین مہر کے نصاب میں جدید وزن گرام میں اختلاف پیدا ہوا اور کسی ایک قول پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا مگر آج کل بارہ ماشہ 12 گرام 441 ملی گرام کے برابر پر عمل ہے
الحاصل :-------------
ہمارے علماء کرام ساڑھے سات سولہ کو 87 گرام 48 ملی گرام کے برابر کہتے ہیں اور اور اکثر مفتیان کرام ساڑھے سات تولہ سونا کو 93 گرام 312 ملی گرام کہتے ہیں ان دونوں میں تقریبا 26گرام کا فرق ہے سوال طلب ہے کہ ہم لوگ کس نصاب پر زکاۃ ادا کریں کیونکہ دونوں قول اپنی قوت پر ہے
اصل مسئلہ ہے کہ ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی کسی کے پاس ہے تو وہ صاحب نصاب ہے اس پر زکاۃ فرض ہے ۔
لیکن آج کے دور میں گرام سے لوگ زکاۃ نکالتے ہیں اسی لئے ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی رائج الوقت میں کتنا گرام ہے اس میں اختلاف علمائے اہل سنت ہے
(1) علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جو عاقل بالغ آزاد مسلمان ( خواہ مرد ہو یا عورت ) ساڑھے سات تولہ سونا یعنی رائج الوقت وزن 93 گرام 312 ملی گرام یا ساڑھے باون تولہ چاندی 653 گرام 184 ملی گرام کا تنہا مالک ہو یا ان چاندی سونا دونوں میں کسی ایک کا مالک ہو وہ شریعت اسلامیہ کے نزدیک صاحب نصاب کہلاتا ہے ۔اس سے واضح ہوا کہ 93 گرام 312 ملی گرام کا ایک نصاب ہوتا ہے اسی طرح 653 گرام 184 ملی گرام کا ایک نصاب ہوتا ہے اس سے کم پر زکاۃ فرض نہیں ہے ۔ اور جب اس سے کم پر زکاۃ فرض ہی نہیں تو اس سے کم پر زکاۃ کیوں نکالیں ؟ لیکن اصل تحقیق یہی صحیح ہے
(2) اور بعض مفتیان کرام فرماتے ہیں کہ ساڑھے سات تولہ سونا 87 گرام 36 ملی گرام کے برابر ہے اور ساڑھے باون تولہ چاندی 612 گرام 36 پوائنٹ برابر ہے اسی نصاب پر زکواۃ نکالا جائے اور جب اسی پر نصاب کامل ہوجاتا ہے
خیال رہے کہ زکوۃ کی فرضیت بھی نماز روزے کی طرح قطعی ہے
آج کل کے صحیح تحقیق کے مطابق ساڑھے سات تولہ سونا 93گرام 312 ملی گرام کے برابر اور چاندی 653گرام 184 ملی گرام کے برابر ہے اور یہی صحیح تحقیق ہے پھر بھی
کوئی صرف 87 گرام 48 ملی گرام سونا اور چاندی 612گرام 36 ملی گرام پر زکواۃ نکالتا ہے ان کا یہ احتیاطی عمل ہوگا اور اس پر زکواۃ باقی نہیں رہے گا اگر یہ نصاب صحیح نہیں ہوگا تو ان کا یہ زکواۃ نفل ہوجائے گا اور اگر پہلے کا اس پر زکواۃ باقی ہوگا وہ ادا ہو جائے گا الحاصل اس مقدار سے زکاۃ نکالنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ عبادات میں احتیاط پر عمل ہوتا ہے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ترسیل:-محمد محب اللہ خاں ڈائریکٹر مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتا مڑھی بہار
سرپرست:-حضور توصیف ملت حضور تاج السنہ شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان صاحب قادری بریلوی مدظلہ العالی
صدر رکن اکیڈمی تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی ثنائی صاحب میرا روڈ ممبئی
(2) رکن خصوصی
شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شمس الحق رضوی ثنائی کھوٹونہ نیپال
(3) رکن خصوصی
جامع ماقولات و منقولات ماہر درسیات حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ قادری بریلوی شریف
(4) رکن سراج ملت حضرت مفتی عبد الغفار خاں نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
(5) عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ مفتی محمد جیند رضا بتاہی امام جامعہ مسجد کوئلی سیتامڑھی
(6) حضرت مولانا محمد سلیم الدین ثنائی کوئلی مدرس اکڈنڈی سیتامڑھی بہار۔