Type Here to Get Search Results !

نرگسی کلچر اور ڈائلاگ بازی کا دور

نرگسی کلچر اور ڈائلاگ بازی کا دور
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
نرگسیت مطلقا بری بھی نہیں ہے۔
تاہم جب اس کلچر کے افراد کو خود کو ارفع فی التفکیر اور اعلم بالصواب سمجھنے کا عارضہ لاحق ہو جائے تب یہ رجحان مضرت رساں ہے۔دوسرا نقصان یہ ہے کہ قوم اپنی تمام تر جہالت و سطحیت کے باوجود اس زعم فاسد میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ وہ ناصرف راست پر جمی ہوئی ہے بلکہ خدائی مکالمے پروسنے والے گروہ سے تعلق کے سبب خدا سے قریب تر بھی ہے۔بالفاظ دیگر نرگسیت زدگی اور خود پسندی کے شکار معاشرے پر خوش فہمی و غلط فہمی دونوں کا نشہ چڑھا رہتا ہے۔
پچھلی نصف صدی کا رکارڈ کھنگال لیں!
مارے پاس مدرس و معلم ، مقرر و ذاکر کی بڑی بڑی کھیپ موجود رہی۔ہمارے مدارس نے مناظرے کے مہارتھی پیدا کیے۔مگر حکمت و دانائی،عاقبت اندیشی و مستقبل شناسی کے ہنر سے لبریز مدبرین، مفکرین، مبصرین و ناقدین کی پرورش کر کے ان کی وراثت کو آگے نہیں بڑھا سکے۔اس امانت کے امینوں پر خاطر خواہ انوسٹ نہیں کیا گیا جس کا رزلٹ یہ ہے جن کے اندر مدبرانہ و حکیمانہ صلاحیتیں تھیں وہ بھی مقرر و ذاکر بننے کے رجحان کے زیر اثر آ گئے۔اگر مستقبل شناس اور عاقبت اندیش علما پر بھروسہ کیا جاتا تو آج یہ نوبت نہیں آتی۔ہند میں تیسرے کلاس کے شہری نہیں بن جاتے۔قومی وقار کی سلامتی کے لیے تقسیم کے بعد کی تین دہائیاں بانگ درا تھیں یہ ٹرننگ پوائنٹ تھا۔
فلمی ڈائلاگ بازی ایک آرٹ ہے۔یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ جذباتی ڈائلاگز محض ریل لائف خو ہی سوٹ کرتے پیں، ریئل لائل میں ان کی کوئی گنجائش نہیں۔حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اصلاح و فلاح کے نام پر برپا کیے گئے جلسے و جلوس جنہیں خالص خشیت الہی اور تبلیغ دین کی متین و سادہ بنیادوں پر کھڑا رہنا تھا وہ فلمی ڈائلاگ بازی سے متأثر ہو گئے۔
یہاں خطبا کے دو فلمی ڈائلاگز بتا کر آگے بڑھتے ہیں۔
ایک خطیب خود کو ہندو سماج کی نظر میں راشٹر وادی کہلانے کا ڈائلاگ مارتے ہوئے چیختا ہے کہ
(۱)"تم ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ میں ملک کی سرحد کی ذمے داری دے دو، دیکھ لینا،ہم خواجہ کے نام لے کر اٹھیں گے اور اسلام آباد اور لاہور کے سینے پر ترنگا لہرا کر دم لیں گے"۔
(۲)دوسرا ڈائلاگ 
ارے کم بختو، جس خواجہ کے بٹھائے سے اونٹ نہیں اٹھائے گئے ہم اسی خواجہ کے بسائے ہوئے مسلمان ہیں۔
دونوں ڈائلاگز پر اتنے نعرے لگے کہ جلسے میں ایسا لگا کہ ہند خا اقتدار پھر مسلمانوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔آپ دونوں ڈائلاگز کا حالات اور ہماری بے بسی سے تجزیہ کریں تو حیرت ہوگی کہ خطبا کی اچھالی گئی اس لالی پاپ سے عوام الناس ہی نہیں، خواص الناس بھی گرویدہ ملیں گے۔
اب یہ تلخ سچائی قبول کر لیں کہ جلسہ بازی و مناظرہ بازی کی رسیا قوم کو فکر و تدبیر ، حکمت و مصلحت کی باتیں پلے نہیں پڑتیں۔یہ تو بس جذباتی مکالمے اور فلمی ڈائلاگ جیسے بے سر پیر کی تقریروں پر گزارا کرنا جانتی ہے۔یہی سبب ہے کہ آج قوم کی جھولی حکمت عملی اور سیاست مدن سے آشنا مفکرین و مدبرین سے خالی ہے۔مناظر و مجادل و مقابر کی قلت نہیں ہے۔جدھر دیکھیں دو چار مناظر مل ہی جائیں گے۔مگر پچھلے پچاس سال میں تدبیر و تفکیر اور حکمت و دانائی سے مانوس افراد کی بڑی قلت رہی۔وجہ صاف تھی کہ قوم کا مزاج ہی ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اس کے خورد و کلاں، صغیر و کبیر، کوچک و بزرگ، ارذل و افضل، اور اسفل و اعلی سب جذبات و بے بصیرتی کی ایک ہی رو میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔
علامہ ارشد باکمال مناظر ہونے کے باوصف ایک بہترین مدبر و مفکر بھی تھے۔یہی وجہ ہے ان کے مناظرے سے زیادہ آج ان کی ان تحریروں کا شور ہے جن میں انہوں نے ملی زبوں حالی اور قومی مسائل پر آٹھ آٹھ آنسو بہائے ہیں۔عظمت رفتہ کی بحالی اور ملی وقار کی باز آباد کاری کے لیے مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔جماعت کی فلاح کے اٹھتے بیٹھتے فکر مندی کا اظہار کیا ہے۔
افراد جماعت کی فکری و عقلی گراوٹ کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ آج سے کوئی ۲۰ روز قبل مجھے ایک ادارے کا فون آیا۔علیک سلیک کے بعد کہا کہ حضرت آپ کا نمبر مشکل سے حاصل کیا ہے۔ضروری بات یہ ہے کہ آپ ایک اچھے محرر ہیں۔سوشل میڈیا پر قارئین کا ایک بڑا حلقہ آپ کی تحریریں پڑھتا ہے۔اس لیے ہمارے ادارے نے بعض ضروری موضوعات پر اہل قلم سے تحقیقی تحریریں لکھوانے کا پروجیکٹ شروع کیا ہے۔اپ سے گزارش ہے کہ مشاجرات صحابہ پر دو سو سے ڈھائی سو صفحات پر ایک تحقیقی دستاویز لکھنے کی ذمے داری آپ قبول کر لیں۔
اس وقت میں نے لکھنے کی حامی بھی بھر لی۔پھر دو دن کے بعد میں نے محنتانہ پر کلیئر بات کی کہ اگر متعلقہ موضوع پر ڈھائی سو صفحات پر ایک تحقیقی کتاب لکھ دوں تو ادارہ کیا محنتانہ ادا کرے گا؟ جواب ملا کہ حضرت فی صفحہ سو روپے کے حساب سے دیا جائے گا۔
احباب! آپ سوچیں اور کیلکولیٹ کریں! ایک ہائی وولٹیج موضوع پر ڈھائی سو صفحات پر مشتمل تحقیقی مواد سے لبریز کتاب لکھ کر دینے کے بعد ایک محرر یا صاحب قلم کو ۲۵ ہزار روپے بطور محنتانہ ملیں گے۔جن لوگوں کا تحقیق و ریسرچ سے ناطہ ہے انہیں اس خار زار وادی کی مشکلیں معلوم ہوں گی۔تحقیق و ریسرچ کا ایک صفحہ لکھنا بھی کتنا محنت طلب کام ہے یہ تو اہل تحقیق ہی جانتے ہیں۔
اسے آپ قوم اور ارباب قوم کی فکری نابلوغت کا نتیجہ بھی کہ سکتے ہیں۔ایک کم خواندہ آدمی دو تین اردو کے کتابیں پڑھ کر تقریر جھاڑ لیتا ہے۔قوم کی نظر میں وہ ہیرو بن جاتا ہے اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ایک مولانا ایک دو چھوٹے اور بے نتیجہ مناظرہ کر لیتا ہے قوم کی نظر میں وہ عقل بن جاتا ہے۔اب ایسے عالم کو ہائی پروٹوکول کے ساتھ ہائی پروفائل ٹریٹمنٹ دینا قوم اپنا اخلاقی و مذہبی فریضہ سمجھتی ہے۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مشتاق نوری
۲۲؍فروری ۲۰۲۵ء 
۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area