Type Here to Get Search Results !

لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنے کا حکم قسط پنجم

لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے کا حکم قسط پنجم
____________________
نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا 
 استعمال ضروریات شرعیہ اور حاجت شرعیہ میں داخل نہیں ہے اور نہ اس پر عرف و عادت اور عموم بلوی صادق ہے 
______________________
سنا ہے کہ گروپ میں کوئی لمبی تحریر نہیں پڑھتے ہیں انہیں معلوم ہونا چایئے کہ ایک ساعت علم دین پڑھنا رات بھر نوافل پڑھنے سے افضل ہے
______________________
اس لئے پانچ منٹ وقت نکال کر پڑھ لیجئے اور رات بھر نوافل پڑھنے کا ثواب پائیں کام وہ کیجئے جس میں ثواب حاصل ہو
_______________________
الضرورات تبیح المحظورات یعنی 
ضروریات ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں اس کا صحیح مطلب کیا ہے۔؟
 آج کل کچھ لوگ اپنی مطلب آوری کے لئے اپنی شہرت کے لئے اکثر ممنوعات چیز کو اسی قاعدہ یعنی ضروریات ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں کے تحت جائز کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کل وقت و ماحول اور کثیر لوگوں کے عمل کی وجہ سے یہی مناسب ہے کیا یہ حکم صحیح ہے؟
الجواب ۔یہ اصول ہر گز صحیح نہیں ہے اگر اکثر لوگوں کا جھوٹ بولنے کی عادت ہوجایے شراب پینے کی عادت ہوجایے تو کیا جھوٹ اور شراب کو وقت اور ماحول اور عوام کی عادت کی وجہ سے جائز کا حکم ہوگا ؟ بالکل نہیں ہوگا    
 بے شک اصول فقہ ہے کہ ضرورات ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں لیکن کچھ شرائط کے ساتھ ورنہ حکم ممانعت برقرار رہے گی 
 قرآن کا ارشاد ہے 
مااتکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا
یعنی جو کچھ تمہیں رسول دیں وہ لو اور جس سے منع فرمایئں اس سے باز رہو (القرآن العظیم) 
اس آیت مبارکہ میں 
تمام مسلمانوں کے عمل کے لئے دو قانون بنائے گئے 
(1) اول یہ کہ جو چیز رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ علیہ وآلہ وسلم عطا فرمائیں وہ لے لو
(2) دوئم یہ کہ اور جو نہ دے وہ نہ لو یہی صحیح حکم ہے کہ جو شرعاً حلال ہے وہ حلال ہے اور جو شرعا حرام ہے وہ حرام ہے لیکن 
 ضروریات شرعیہ و حاجت ملجیہ اور ملکی قانون کی سخت مجبوریاں کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ مسائل میں چند شرائط کے ساتھ حکم مباح دیا جاسکتا ہے    
لیکن ممنوعات کام کو کرنے کی اجازت تین شرطوں کے ساتھ مشروط ہیں اگر تینوں شرطیں نہیں پائی گئیں تو وہ ممنوع کام کو کرنا جائز نہیں ہوگا اور اگر وہ تینوں شرطیں پائیں گئی تو وہ چیز بھی بقدر ضرورت اور بقدر حاجت جائز ہوگا نہ کہ ہمیشہ کے لئے جائز ہوگا  
فقہی قاعدہ ہے کہ 
ما اںیح للضرورۃ یقدر بقدرھا۔
یعنی جو چیز ضرورت کے تحت جائز ہے وہ صرف بقدر ضرورت ہی جائز ہے جیسے مردار کھانا یا شرب پی لینا صرف اتنا ہی جائز جس سے جان بچ جائے زیادہ بالکل نہیں ۔
حرام چیز یا ناپاک چیز سے علاج کرانے کا حکم
(1) پہلا اصول 
جان جانے کا خوف ہو جیسے کسی کے ناک سے خون جاری ہے اور نہیں وہ خون نہیں تھمتا یہاں تک کہ اس کے مرجانے کا اندیشہ ہو تو ناپاک چیز سے علاج کرا سکتا ہے  
(2) دوسرا اصول ۔
اس تدبیر سے اسے شفا ہوجانا بھی معلوم ہو۔
جیسا کہ عبارت قاضی خان لوکان فیہ شفاء یعنی اگر اس میں شفا معلوم ہو (قاضی خان) 
بس اگر اس سے علاج کرانے میں یقینی علم ہو کہ اس میں شفا ہے ورنہ نہیں ۔
(3) تیسرا اصول 
اس کے سوا اور کوئی تدبیر شفا نہ ہو جیسا کہ ردالمحتار میں ہے جب جائز ہے کہ اس سے شفا ہوجانا معلوم ہو اور دوسری کوئی دوا نہ معلوم ہو۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 23ص 342) 
اگر حلال اور۔ پاک چیز سے شفا حاصل ہوسکتی ہے تو حرام چیز سے علاج کرانا جائز نہیں یعنی
  ان کی نظیر یہ ہے کہ اگر پیاس سے جان جاتی ہو اور سوا شراب کے کوئی چیز موجود نہیں یا بھوک سے دم نکلتا ہو اور سوا مردار کے کچھ پاس نہیں تو اس وقت بمقدار جان بچانے کے شراب و مردار کے استعمال کی شرع مطہر نے رخصت دی ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23ص342)
یعنی اضطراری کی حالت میں اس لئے شراب اور مردار وہاں حلال ہیں جہاں کوئی نعم البدل نہ پایا جائے لہذا بصورت دیگر وہ حلال نہیں 
الحاصل یہ حکم کہ الضرورات تبیح المحظورات یعنی ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں حقیقۃ تین شرطوں سے مشروط ہیں 
کوئی ممنوعات کام کرنے کے لئے تین شرائط ہیں ورنہ اجازت نہیں ہے
(1) اول کہ اگر وہ کام نہیں کیا تو جان جا سکتی ہے یاکوئی ہاتھ پیر کانٹ سکتا ہے یااس کے بغیر ضرورت پوری نہیں ہوسکتی ہے 
یعنی یہ کہ جان جانے کا خوف ہو۔
(2) دوم کہ اگر حاجت شرعی کو پوری ہونے کے لئے حرام کام کیا تو یقینا وہ کام ہوجائے گا ورنہ نہیں وہ کام نہیں ہوگا اور یہ صرف وہم نہ ہو بلکہ یقینی حتمی ہو اور اس تدبیر سے اسے کام پورا ہوجانا کا یقینی علم معلوم ہو۔
(3) سوم کہ اس کے سوا اور کوئی تدبیر ضرورت پوری کرنے میں نہ ہو
 جیسے حرام سے علاج کرنا 
 اور اس کی دلیل فتاوی رضویہ میں ردالمحتار کے حوالے سے ہے 
فی النھایۃ عن الذخیرۃ یجوز ان اعلم فیہ شفاء ولم یعلم دواء آخر
یعنی نہایہ میں ذخیرہ کے حوالے سے یے 
جب جائز ہے کہ اس سے شفا ہوجانا معلوم ہو اور دوسری کوئی دوا نہ معلوم ہو 
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ فرماتے ہیں کہ
ان اللہ لم یجعل شفاء کم فیما حرم علیکم۔
یعنی بے شک اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تم پر حرام فرمایا اس میں تمہارے لئے شفا نہیں رکھی اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ یہ ان چیزوں سے متعلق ہے جن میں فی الواقع شفاء نہیں لیکن جن میں شفا موجود ہے تو ان کے استعمال میں کیا حرج ہے کیا تم دیکھتے نہیں کہ پیاسے آدمی کے لئے اضطراری حالت میں شراب کا پینا بھی حلال ہے اور ردالمحتار میں ہے 
لان حل الخمر والمیتۃ حیث لم یوجد ما یقوم مقا مھما
یعنی اس لئے کہ شراب اور مردار (وہاں)حلال ہیں جہاں کوئی نعم البدل نہ پایا جائے لہذا بصورت دیگر وہ حلال نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23ص 342) 
یعنی اس چیز کے علاؤہ اور کوئی دوسری حلال چیز نہ ہو یا علاج کرانے کے لئے اور کوئی دوا یا ترکیب نہ ہو اور ہو تو معلوم نہ ہو اور معلوم بھی تو پانا بہت مشکل ہو اور زیادہ دیر ہوجایے جس کی وجہ سے جان جاسکتی ہو اور کام یقینی خراب ہوسکتا ہو 
اور جو حکم ان تین شرطوں کے ساتھ مشروط ہو جن کے بعد اس میں اصلا استبداد نہیں کہ الضر ورات تبیح المحظورات
یعنی ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں
الضرورات تبیح المحظورات یعنی ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہے اس اصول کے تحت ممنوع کو جائز اس وقت کہا جائے گا کہ جب حاجت وضرورت واقعی شرعی ہو اور طریقہ تحصیل سوا اس کے دوسرا کوئی جائز راستہ نہ ہو ہاں اگر طرقہ تحصیل اس کے سوا دوسرا نہ ہو اس کے لئے بقدر حاجت تا وقت حاجت جائز ہے ورنہ حرام حلال نہیں ہوسکتا جیسے کسی شخص پر حج فرض نہیں یعنی وہ صاحب نصاب نہیں ہے اب اس کی خواہش ہے کہ میں حج کروں اور اس کے لئے وہ لوگوں سے سوال کرتا ہو یا بھیک مانگتا ہو تو یہ حرام ہے کیونکہ فقیر پر حج فرض نہیں اب اس کا یہ حج کا ارادہ حج نفل ہے اور نفل حج کرنے کے لئے دوسرے سے سوال کرنا یا چندہ مانگنا حرام ہے کیونکہ ۔ نفل کام کے لئے حرام کام کا ارتکاب جائز نہیں ہے
ایک اور مثال جیسے 
سرکار سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں کہ
جب غرض ضروری نہ ہوتو سوال حرام مثلا آج کا کھانے کو موجود ہے تو کل کے لئے سوال حلال نہیں کہ کل تک کی زندگی بھی معلوم نہیں کھانے کی ضرورت درکنار ۔یوہیں رسوم شادی کے لئے سوال حرام کہ نکاح شرع میں ایجاب و قبول کا نام ہے جس کے لئے ایک پیسہ کی ضرورت شرعا نہیں
اور اگر غرض ضروری ہے اور بے سوال کسی طریقہ سے دفع ہوسکتی ہے جب بھی سوال حرام ۔مثلا کھانے کو کچھ پاس نہیں مگر ہاتھ میں ہنر ہے یا آدمی قوی تندرست قابل مزدوری ہے کہ اپنی صنعت یا اجرت سے بقدر حاجت پیدا کرسکتا ہے قبل اس کے کہ احتیاج تابحد مخمصہ پہنچے تو اسے سوال حلال نہیں ۔نہ اسے دینا جائز کہ ایسوں کو دینا انہیں کسب حرام کا موید ہوتا ہے اگر کوئی نہ دے تو جھک مار کر آپ ہی محنت مزدوری کریں (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 619 ۔620)
پس یہ اصول تین شرطوں کے ساتھ مشروط ہیں اور جب یہ تین شرطیں پائی جائیں تو پھر اس قاعدہ پر عمل کرنا جائز ہوگا ورنہ جائز نہیں ہوگا 
 ہاں آج کل ایک ملکی قانون کی بھی مجبوری بھی دیکھی جائے گی ۔ وہ بھی صرف جائز قانون اور وہ بھی بقدر حاجت
اب اس اصول کے تحت دیکھا جائے کہ اقوال علمائے کرام کے روشنی میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنا منع ہے اب اگر کوئی نہ پڑھے تو جان نہیں جاسکتی ہے کوئی نہ نماز پڑھے تو ایسا نہیں کہ نماز قبول نہ ہوگی اور کوئی نہ پڑھے تو گناہ ہوگا جب یہ سب باتیں نہیں تو پھر اس کی اجازت کیوں ؟
اس کے برعکس اگر لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھے تو کثیر تعداد علماء کے نزدیک نماز فاسد ہے کسی کے نزدیک مکروہ وممنوع ہے کسی کے نزدیک بدعت ہے اس سے بچنے کے لئے یہی ترکیب ہے لاؤڈ اسپیکر سے نہ پڑھے کہ ابھی یہ اس ضرورات میں شامل نہیں ہے جس کی وجہ سے جائز قرار دیا جائے کیونکہ تکبیرات انتقالات کے لاؤڈ اسپیکر کی جگہ اس کا نعم البدل مکبرین ہے جو سنت بھی ہے اور مکبرین کو نہ رکھ کر لاؤڈ اسپیکر کا استعمال رافع سنت ہوگا اس لئے پرہیز کیا جائے  
تیسری بات یہ ہے آج کل اکثر نئی روشنی والے لوگ نئی خیال کے شکار ہوگئے ہیں مسائل شرعیہ کی تحقیق و تدقیق میں ان کا کوئی خاص مقام نہیں ۔یا کچھ غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ ملک عرب کی تمام مساجد میں ملک یوروپ کی تمام مساجد میں ہندوستان میں ممبئی احمدا باد کی مسجدوں میں دہلی کی جامع مسجد میں ۔کلکتہ کی مساجد میں۔بکارو یعنی سب جگہوں کے مساجدوں میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز عوام اور علماء پڑھتے ہیں تو آج کل وقت و ماحول کو دیکھتے ہوئے جائز کا حکم۔ دینے میں بھلائی ہے ۔
یاد رکھیں مسلم بھائیوں !
مکہ شریف 
اجمیر شریف دہلی کی جامع مسجد کلکتہ کی مسجد کے نمازیوں کا فعل ہمارے لئے نہ دلیل اور نہ قابل حجت ہے ہمارے لئے حکم شرع دلیل اور حجت ہے اور اس کا دوسرا جواب ہے کہ جہاں لاوڈ اسپیکر سے نماز ہوتی ہے اس شہر میں کئی جگہوں میں بغیر لاؤڈ اسپیکر کے نماز لوگ پڑھتے ہیں تو واضح ہوا کہ اس کا بدل وہ ہے جہاں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہیں ہوتا ہے وہی جاکر نماز پڑھیں کیونکہ ابھی بھی ایسا م نہیں کہ پورے شہر و تمام دیہاتوں کی مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز ہورہی ہے چلئے مان لیا جائے ک ان جگہوں کی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ہوتا ہے اور یہ دلیل جواز ہو سکتا ہے
 یعنی جب اکثر یا کم مساجد میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز ہوتی ہے تو اس کا استعمال جواز کی دلیل ہوسکتا ہے تو اس کے برعکس جہاں شہروں اور گاؤں کے اور مساجد خصوصا 99%,سے زائد گاؤں کی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز نہیں ہوتی ہے جب زیادہ تر شہروں کی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے دلیل جواز ہوسکتا ہے تو پھر جہاں لاؤڈ اسپیکر سے نماز نہیں ہوتی ہے تو ان مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کا عدم استعمال عدم جواز کی دلیل بطریق اولیٰ ہوگا اس اصول کو یاد رکھیں . 
سرکار حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ بریلی شریف سے لے کر ابھی حضور حکیم الامت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ ۔ حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمتہ اللہ علیہ ۔عمدۃ المحققین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد حبیب اللہ نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ۔حضور شارح ںخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ ۔حضرت بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المنان اعظمی رحمتہ اللہ علیہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مطیع الرحمان پورنوی صاحب مدظلہ العالی تک تمام علمائے کرام لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے کو منع فرماتے ہیں اور یہ حضرات دور حاضر ہ کے علماء ہیں ان کو بھی دنیا کی خبر ہے ماحول کی خبر ہے لوگوں کی مجبوری بھی جان رہے ہیں پھر بھی ناجائز فرماریے ہیں اور کافی تعداد میں اس عنوان پر کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں  
ایک اشکال اور اس کا حل
محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نظام الدین صاحب مدظلہ العالی نے لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے کو مباح کا حکم فرمایا اور مفتی مطیع الرحمان پورنوی صاحب مدظلہ العالی ناجائز کا حکم فرمایا تو اس صورت میں کس قول پر عمل کیا جائے یعنی جائز والا قول پر یا ناجائز والا قول پر پھر کچھ مفتیان کرام حرام فرمایا اور ایک دو مفتیان کرام نے حلال فرمایا یعنی جائز فرمایا تو ان تمام تعارض کو کیسے دور کیا جائے تاکہ عوام کو سمجھایا جائے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنا منع ہے ؟
الجواب ؛ ان دونوں قوموں میں حرام والا قول اور ناجائز والا قول پر عمل کیا جائے گا اور فتوی بھی دیا جائے گا کیونکہ  
 فقہی قاعدہ ہے 
اذا اجتمع الحلال و الحرام غلب الحرام‌
یعنی حلال اور حرام جب جمع ہوں گے تو غلبہ حرام کو ہوگا ۔
اور اسی ضمن میں یہ بھی  
فقہی قاعدہ ہے
اذا تعارض المانع والمقتضی فانہ یقدم المانع
یعنی مانع اور مقتضی میں جب تعارض ہوگا تو مانع مقدم کیا جائے گا اس صورت میں حکم عدم جواز کا ہوگا (الاشباہ والنظائر ۔الفن الاول ۔القواعد الکلیۃ ۔ النوع الثانی ص 93 ۔95)
پس ان دونوں قواعد کے مطابق حکم عدم جواز ہوگا
 اور اسی پر عمل کیا جائے گا 
سوال ؛ کچھ لوگوں کا کہنا کہ حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ بریلی شریف کے حیاٹ مبارکہ میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نماز میں آج کی طرح نہیں تھا آج تو کئی طرح کے لاؤڈ اسپیکر نکل چکے ہیں اور اب ہر جگہ پر لاؤڈ اسپیکر سے عوام اور علماء نماز پڑھ رہے ہیں اس لئے جواز کا حکم پر عمل کیا جائے ؟ کیا یہ دلیل صحیح ہے ؟
الجواب ۔بہت خوب آپ کی یہ دلیل ہے کہ اب ہر جگہ عوام اور علماء لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھتے ہیں تو عمل استعمال سے جواز کا حکم دینا چاہئے چلئے میں بھی آپ کے اس اصول کو قبول کرلیا پھر اسی اصول کے تحت میرا کہنا ہے کہ جن مساجد میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھتے ہیں تو یہ عمل دلیل جواز کے لئے کافی ہے ٹھیک اسی طرح جن مساجد میں لوگ لاؤڈ اسپیکر سے نماز نہیں پڑھتے ہیں تو آپ کے اصول سے عدم جواز کا حکم ہوگا کیونکہ وہاں استعمال کی وجہ سے جائز تو یہاں عدم استعمال کی وجہ سے عدم جواز اور جب جائز اور ناجائز میں تعارض ہو تو ناجائز قول کو ترجیح حاصل ہے بلکہ ہمارے ایک ضلع سیتا مڑھی کے تمام شہروں اور دیہاتوں کے سنی مساجد میں غالبا لاؤڈ اسپیکر سے سنی لوگ نماز نہیں پڑھتے ہیں خصوصا سیتا مڑھی شہر کے مرغیاچک میں نہیں ہے میرے گاؤں مرپا اس کے اس پاس کچور بھوتانی فتح پور ۔سرور پور ۔ںیتاہی ۔مہچٹی ۔مرہا ۔ڈہٹی وغیرہ تمام گاؤں میں لاؤڈ اسپیکر کا نماز میں استعمال نہیں ہوتا ہے لہذا اس پر نہ عرف صادق ہے اور نہ عموم بلوی صادق ہے اور نہ عادت میں شامل ہے اس لئے عدم جواز کے قول کو ترجیح ہے اور یہی صحیح تحقیق ہے باقی جو نہ مانے وہ جانے میرا کام حق بات لوگوں تک پہنچا دینا 
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم وعلم جل مجدہ اتم واحکم
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
20 رمضان المبارک 1446
21 مارچ 2025
(لمبی تحریر ہے اگر کوئی ٹائیپنگ غلطی یا لفظی غلطی نظر آئے تو پرسنل پر برائے مہربانی اطلاع فرمائیں عین نوازش ہوگی تاکہ درست کردیا جائے گا)

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area