Type Here to Get Search Results !

لاؤڈ اسپیکر پر نماز کا حکم قسط سوم

لاؤڈ اسپیکر سے نماز کا حکم قسط سوم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
حضور مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی لاؤڈ اسپیکر سے نماز کا حکم پر نایاب تین قسطوں میں تحقیق انیق
از ترسیل:- محمد محب اللہ خان شہزادہ حضور مفتی اعظم بہار
بانی مفتی اعظم ایجوکیشن ٹرسٹ آزاد چوک مہسول سیتا مڑھی بہار
__________________
وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
میرے کرم فرما عالم نبیل فاضل جلیل عزیز القدر وقار اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد رفیق احمد صاحب مصباحی برھم پوری نیپال کا حکم تھا تو میں حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اور اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہ 
من سئل عن علم فکتمہ الجم بلجام النار۔
یعنی جس سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا اور اس نے اس کو چھپایا تو اس کے۔ منہ پر آگ کی لگام چڑھائی جائے گی 
ایک دوسری حدیث شریف میں ہے
الساکت عن الحق شیطان اخرس
یعنی حق سے خاموش رہنے والا گونگا شیطان ہے۔
(فتاویٰ حامدیہ ص 449)
 جواب لکھنے کا شرف حاصل کیا الحمد اللہ رب العالمین
جواب ملاحظہ فرمائیں
(1) کیا عزر شرعی کی وجہ سے لاؤڈ اسپیکر سے نماز جائز نہیں ہوسکتی ؟ 
الجواب :- عذر اس وقت تسلیم کیا جائے گا جب اس کے قائم مقام کوئی دوسری چیز نہ ہو
 لاؤڈ اسپیکر کا عذر کی وجہ سے بھی نماز میں استعمال جائز نہیں ہوگا کیونکہ عذر شرعی اسے کہتے ہیں جب اس کا کوئی بدل موجود نہ ہو اور یہاں لاؤڈ اسپیکر کا بدل مکبر ہے نماز کی صفوں میں مکبر رکھا جائے اور یہ بھی خیال رہے کہ جہاں تک جس صف تک امام کی آواز پہنچتی ہے وہاں تک مکبر نہیں رکھا جائے بلکہ اس کے بعد پھر اس مکبر کی آواز جس صف تک نہیں پہنچتی ہے اس کے بعد رکھا جائے جہاں تک امام کی آواز یا مکبر کی آواز پہنچتی ہے وہاں تک مکبر نہیں رکھا جائے 
(2)کیا عموم بلوی کی وجہ سے لاؤڈ اسپیکر سے نماز جائز نہیں ہوسکتی ؟ 
الجواب : آج بھی اس معاملہ میں عموم بلوی نہیں پایا جاتا ہے اس لئے جائز نہیں ہے 
اور یہ کہنا کہ آج کل لاؤڈ اسپیکر پر عموم بلوی ہے اس لئے جائز ہے حالانکہ آج تک اس میں عموم بلوی نہیں پایا جاتا ہے خود ہمارے سیتامڑھی ضلع اور ملک نیپال میں غور کریں کہ کتنے گاؤں یا شہر میں اہل سنت کی مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز ہوتی ہے آپ کو معلوم ہوگا کہ ضلع سرلاہی شہر ملنگواں میں اور اس ضلع کے۔ باقی گاؤں میں کس مسجد میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز نہیں ہوتی ہے اگر ایک دو جگہ ہو تو یہ دلیل نہیں ہے کیونکہ فقہی احکام غالب پر مبنی ہوتے ہیں جیسا کہ 
فتویٰ رضویہ میں ہے کہ 
وانما تبتنی الاحکام الفقھیۃ علی الغالب فلا ینظر الی النادر ولا یحکم الا بالمنع۔
یعنی فقہی احکام غالب حالات پر مبنی ہوتے ہیں لہذا نادر الوقوع پر نگاہ نہیں کی جاتی اس لئے ممانعت کا فیصلہ ہی کیا جائے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 24 ص 76)
(3) کیا کتیر جماعت میں فساد پیدا نہ ہو اس کے لئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جائز نہیں ہوسکتا؟
الجواب ۔پھر بھی جائز نہیں کیونکہ یہ کام مکبر سے لیا جا سکتا ہے 
(4) *لاؤڈ اسپیکر نہیں لگانے سے آپس میں دو پارٹی ہوجاتی فتنہ و فساد برپا ہوجاتا ہے کیا اس کو دور کرنے کے لیے نماز میں لاؤڈ اسپیکر لگا نہیں لگاسکتے* ؟
الجواب : جائز نہیں ہے بلکہ فتنہ و فساد برپا کرنے والے کو سمجھا یا جائے کہ شریعت کی اجازت نہیں ہے آپ اپنی محبوب نمازیں خراب نہ کریں 
(5) *کثیر تعداد جماعت ہونے کی وجہ سے سب مقتدیوں کی کانوں میں امام کی آواز پہنچ جائے تو کیا اس لئے لاؤڈ اسپیکر نماز میں نہیں لگاسکتے* ؟
الجواب : نہیں کیونکہ یہ کام مکبر سے بھی پورا ہوسکتا ہے 
(6)؛, *صدا باز گشت سے اگر نماز نہیں ہوتی تو مکہ شریف و مدینہ شریف یا ہے فلاں مسجد میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کیوں کیا جاتا ہے۔* ؟ 
شریعث میں کسی کے فعل پر عمل نہیں کیا جاتا ہے بلکہ حکم شرع پر عمل کیا جاتا ہے قرآن و حدیث اور اجماع امت و فقہائے ملت کے اقوال سے استدلال کرنے کی بجائے لوگوں کے عمل سے استدلال کرنا غلط ہے 
(7) *مختلف فیہ مسائل ہونے کی وجہ سے اب کیا حکم ہوگا*.؟
الجواب : احوط ہے یعنی لاؤڈ اسپیکر سے نماز نہ پڑھنا احوط ہے ایسا حکم جس میں جائز اور ناجائز دونوں حکم ہو تو احوط ہے اس کی مثالیں مسائل کتب میں مذکور ہے 
*(8).*کیا مکبرین کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر کا نماز میں استعمال کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟*
الجواب : حصور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
اور لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ بھی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جائز نہ ہوگا اس لئے کہ جو مکبر اور مقتدی امام سے دور ہوں گے وہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کی اتباع کریں گے جو نماز کے فساد کا باعث ہوگا اکابرین علمائے اہل سنت کا یہی فتویٰ ہے کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ممنوع و ناجائز اور مفسد نماز ہے (فتاوی برکاتیہ ص 285)
 (10) *کیا الضرورات تبیح المحظورات* یعنی ضروریاتِ شرعیہ سے ممنوعات شرعیہ مباح ہو جاتے ہیں کے تحت نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جائز نہیں ہوگا ؟کہ آج کل کثیر تعداد جماعت کی وجہ سے آواز نہیں پہنچتی ہے

الجواب :بے شک ضرورت شرعیہ کے وقت بہت سے محظورات مباح ہو جاتے ہیں جیسے اگر کسی کو بھوک لگی ہو اور کھانے کو مردار گوشت کے علاؤہ کچھ نہیں ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں
تفسیرات احمدیہ میں حضرت ملا جیون رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ثم ھذہ المحرمات انما حرم اکلھا اذ کان فی حالۃ اللختیار و اما فی حالۃ الاضطرار فحکمھا الرخصۃ علی ما صرح بہ فی قولہ تعالیٰ فمن اضطراالایۃ یعنی فمن اضطر من جوع او شرب بحیث یخاف تلف النفس یعنی ان محرمات کا کھانا اس صورت میں حرام ہے جبکہ حالت اختیار میں ہو اور اگر حالت اضطرار ہو تو رخصت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول : فمن اضطر الآیۃ: سے مصرح ہے یعنی اس قدر بھوک اور پیاس کا غلبہ ہو کہ جان پر بن آئی ہو (فتاوی حامدیہ ص 436)
 اس سے واضح ہوا کہ جب بھوک و پیاس کا ایسا غلبہ ہو کہ اگر کچھ نہیں کھائے تو جان چلی جائے گی بالکل یقین کامل ہو اور حالت اضطرار ہو تو مردار گوشت کے علاؤہ کچھ نہیں ہے تو اب کھانا رخصت ہے ورنہ نہیں ٹھیک اس اصول پر کہ یہ کوئی نہیں کہ سکتا ہے کہ ہم اگر نماز میں لاؤڈ اسپیکر نہیں لگائیں گے تو مرجائیں گے تو بھر جائز کا حکم کیوں دیا جائے گا اور حقیقتا بغیر لاؤڈ اسپیکر کے ہر جگہ لوگ نمازیں پڑھ رہے ہیں صرف چند لوگ ضد کرتے ہیں لہذا اس چند لوگوں کی باتوں پر دھیان نہیں دیں اور اپنے اکابرین کے اقوال اور ماہر سائنس کے اقوال پر عمل کریں کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز امام کی آواز نہیں ہوتی ہے اس لئے نماز فاسد ہوجاتی ہے
تینوں قسطوں کے ابحاث سے واضح ہوا کہ
مختلف فیہ مسئلہ ہونے کی وجہ سے صورت مسئولہ میں چار احکام ہیں  
(الف)۔ *اصل حکم* ۔: *مفسد نماز ہے*. 
لاؤڈ اسپیکر کی اقتداء سے نماز فاسد ہوتی ہے اس لئے شرعا نماز پڑھنے میں اس کا استعمال جائز نہیں ہے ہاں اذان ۔خطبہ دے سکتے ہیں
 مائک کے ذریعہ جو آواز آتی ہے وہ امام کی آواز نہیں ہے اس لئے نماز جائز نہیں ہوگی جیسا کہ 
(1) حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی تحقیق ہے
(2) جیسا کہ حضور صدر الشریعہ قدس سرہ کی تحقیق ہے
(3) جیسا کہ مفتی شاہ اجمل صاحب سنبھلی قدس سرہ کی تحقیق ہے
(4) جیسا کہ حضور شیر بیشہ سنت قدس سرہ کی تحقیق ہے
(5) جیسا کہ سید العلماء سید آل مصطفی قدس سرہ کی تحقیق ہے
(6) جیسا کہ حضور محدث اعظم کچھو چھوی قدس سرہ کی تحقیق ہے
(7) جیسا کہ حضور مجاہد ملت قدس سرہ کی تحقیق ہے
(8) جیسا کہ مفتی محبوب علی خان لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق ہے
(9) جیسا کہ حافظ ملت شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی قدس سرہ کی تحقیق ہے
(10) جیسا کہ مفتی اعظم دہلی مفتی مظہر اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق ہے
(11) جیساکہ حضور شارح ںخاری مفتی شریف الحق صاحب امجدی رحمتہ اللہ علیہ کی تحقیق ہے
(12) جیسا کہ حضور فقیہ ملت قدس سرہ کی تحقیق ہے 
(فتاوی برکاتیہ ص تمام کی تحقیق نقل ہے ) 
(13) جیسا کہ سابق آمین شریعت و مفتی دارالافتاء ادارہ شرعیہ پٹنہ کے مفتی حضرت علامہ مفتی افضل حسین مظفر پوری کی تحقیق ہے  
 یہ سب ہمارے وہ مشہور و معروف اکابرین ہیں جن کی حیات مبارکہ میں عوام و علماء مستفیض ہوا کرتے تھے اس وقت بھی یہ سبھی مشائخ مرجع خلائق تھے اور آج بھی مرجع خلائق ہیں اور ان کی کتابوں سے مفتیان کرام دلائل نقل فرماتے ہیں کثیر تعداد میں علمائے اہل سنت اور عوام اس پر قائم ہے بلکہ اصول ہے کہ بہت سے حامل فقہ خود فقیہ نہیں ہوتے اسی لئے بہت سے حامل فقہ افقہ کی طرف رجوع کرتے ہیں لہذا یہ تمام وہ اکابرین جو خود افقہ ہیں اور حامل فقہ ان کی رجوع کرتے ہیں تو ان کے اقوال کو چھوڑ کر چند مفتیان کرام کے اقوال عمل کرنا عقلمندی نہیں ہے 
(ب) *جواز کی صورت* : قلیل تعداد میں علمائے کرام جواز کے قائل ہے 
(ت) .*احتیاط* ۔حضور حافظ ملت رحمتہ اللہ علیہ اور بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بچنا بہتر ہے (فتاوی بحر العلوم جلد اول ص)
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ صرف لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر رکوع سجدہ کریں گے ان کی نماز نہ ہوگی ۔یہی فتوی حضور مفتی اعظم ہند قبلہ دامت برکاتہم القدسیہ اور بہت سے اکابر اہل سنت کا ہے اور بعض لوگوں کے نزدیک اگرچہ نماز ہوجایے گی لیکن چونکہ معاملہ نماز جیسی اہم عبادت کے جائز اور ناجائز ہونے کا ہے اس لئے تاوقتیکہ محققین فن یہ ثابت نہ کردیں کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ متکلم کی آواز ہے احتیاطا نماز کے ناجائز ہونے کا ہی حکم کیا جائے گا (فتاوی فیض رسول جلد اول ص 358 ۔مورخہ 29 رجب المرجب 1400ھ) 
،(ث) *احوط*. یعنی زیادہ احتیاط  
ان تمام قسطوں کے ابحاث سے واضح ہوا کہ اس سے بچنا احوط ہے کہ حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کا قول بحمدہ بجا و درست ہیں آج بھی کثیر علمائے کرام کا اس پر عمل ہے 
فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ
*فالعمل بما علیہ الاکثر ھو الاحوط* یعنی عمل اکثر کے قول پر ہے اور یہی احوط ہے (رسالہ امام احمد رضا پر اعتراض ایک تحقیقی جائزہ ص 20) ایک اور اصول فقہ ہے کہ جب ایک مسئلہ کے متعلق حرمت و حرکت دو قول ہوں تو قول حرمت پر عمل کیا جائے گا جب کسی مسئلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہو تو دونوں کے دلائل پر غور کیا جائے کہ کون دلائل باقوت ہے لہذا جو مسئلہ دلیل میں باقوت ہو اس پر عمل کریں اور اگر دونوں باقوت ہوں تو دونوں قولوں کا لحاظ رکھا جائے اور لاؤڈ اسپیکر کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی ناجائز ہونے کی دلیل باقوت ہے اس لئے احوط یہی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نمازیں نہ پڑھیں کیونکہ جب ایک بڑا گروہ لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنے کی صورت میں عدم جواز کے قائل ہے اور چند لوگ جواز کے قائل ہے اس اختلاف سے بچنے کے لئے علماء کرام کی کثیر تعداد کے اقوال پر عمل کرنا احوط ہے جب ایک بڑا گروہ لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنے کی صورت میں عدم جواز کی طرف ہے تو اس صورت میں کام وہی کیا جائے کہ جس کے جواز میں کسی کا اختلاف نہ ہو اس لئے بغیر لاؤڈ اسپیکر سے نمازیں پڑھیں کیونکہ بغیر لاؤڈ اسپیکر کے نماز پڑھی جاتی ہے تو دونوں فریق اس کو جائز ہی کہیں گے کوئی ناجائز نہیں کہے گا اس لئے صورت مسئولہ میں بیر گنج کے مسلمانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ جب اب تک بغیر لاؤڈ اسپیکر کے نمازیں پڑھا کرتے آرہے ہیں تو اب بھی بغیر لاؤڈ اسپیکر کے نماز پڑھیں صورت مسئولہ میں لاؤڈ اسپیکر لگانے کی اجازت نہیں ہے ہاں اذان و خطبہ اور خطابت میں استعمال کرسکتے ہیں 
  *لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے کے متعلق تفصیل جاننے کے لئے*
(1) رسالہ القول الازھر فی عدم جواز الصلوۃ باقتداء لاؤڈ اسپیکر ص 20 تصنیف حضرت شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی خان قدس سرہ)
(2) فتاوی امجدیہ جلد اول ص 190 
(3) فتاوی امجدیہ پر شارح ںخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ صاحب کا ایک حاشیہ پر تبصرہ ص 190 چونکہ حضور صدر الشریعہ رحمتہ اللہ علیہ کو جب تک لاؤڈ اسپیکر کی حقیقت نہیں معلوم ہوئی اس وقت جائز کا حکم فرمایا اور جب حقیقت واضح ہوگئی تو منع فرمایا اسی کے متعلق شارح ںخاری فقیہ عصر کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں 
(4) فتاوی فیض رسول جلد اول ص 357 سے ص 368
(5) فتاوی برکاتیہ ص 283 سے ص 289
(6) فتاوی بحر العلوم جلد اول ص 322 سے ص 330 تک 
(7) فتاوی شرعیہ جلد اول ص 311 سے ص 319
(8) ضروری مسائل ص 11 سے ص 20 تک 
(9) فتوی یورپ ص 198 سے ص 202 تک 
کتابیں پڑھیں

واللہ اعلم الحاصل: 
*اقول*.( 'یعنی محمد ثناء اللہ خاں ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار ۔) 
۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بہت سارے مسائل میں فقہائے کرام نے تعامل ۔عرف ۔عموم بلوی ۔ضرورت شرعیہ اور حاجت شرعیہ کی بنا پر حکم کو تبدیل فرمایا ہے ۔لیکن لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے میں نہ تعامل نہ عرف نہ عموم بلوی نہ ضرورت اور نہ حاجت اور نہ اہل سنت کی عادت ہے
*عادت کی شرعی تعریف*.
 الاشباہ والنظائر کے حوالہ سے فتوی مفتی اعظم بہار میں نقل ہے کہ 
*انما تعتبر العادۃ اذا اطردت او غلبت* یعنی عادت وہ معتبر ہے جب وہ عام اور غالب ہو ۔ 
*تعامل کی تعریف*.
تحریر الاصول لامام ابن الہمام و بحر الرائق و ردالمحتار میں ہے
*التعامل ھو الاکثر استعما لا*.,یعنی تعامل وہ ہے جس کا استعمال کثیر ہو 
جب تعامل و عادت کی تعریف معلوم ہوگئی تو ملک ہند و نیپال کے اہل سنت مسلمان تلاش کریں کہ کیا ہند و نیپال کے ہورے ملک میں ہر گاوں میں ہر شہر میں ہر جامع مسجد میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے کی اکثر لوگوں کی عادت ہے آپ کو کوشش کرنے کا بعد بھی آپ پائیں گے کہ اکثر اہل سنت مسلمان بغیر لاؤڈ اسپیکر کے نماز پڑھتے ہیں اور لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے کی سنی مسلمانوں میں عادت بھی نہیں ہے اور فقہاء فرماتے ہیں
فتوی لوگوں کی عادت پر ہوگا *وفی الکافی الفتوی علی عادۃ الناس* یعنی کافی میں ہے کہ فتوی لوگوں کی عادت پر ہوگا بحر کے مصنف اسے ثابت مانا اور اس کو انہوں نے علامہ سعدی آفندی سے نہر میں نقل کیا اور ثابت رکھا (فتاوی مفتی اعظم بہار جلد سوم ص 57)
 *عرف و عادت اور عموم بلوی قبول کرنے میں کچھ باتوں کا لحاظ ضروری ہے*
(1) عرف و عادت اور عموم بلوی وہی معتبر ہے جس پر کثیر مسلمانوں کا عمل ہو
(2) اس عرف وعادت اور عموم بلوی کو غلبہ حاصل ہو 
(3) وہ عرف عام ہو اور عادت کی وجہ سے غالب ہو 
(4) لوگوں سے عادت کو چھڑانے میں نزاع ہو ۔حرج ہو 
(5) اور عرف و عادت وہی معتبر میں جس میں نص نہ ہو ۔جیسا کہ الہدایہ کتاب الاجارات میں ہے 
*ھو المعتبر فیما لم ینص علیہ* یعنی وہ عرف معتبر ہے جہاں نص نہ ہو اور لوگوں کی وہی عادت مقبول ہے جس میں نص موجود نہ ہو جیسا کہ قدوری میں
*مالم ینص علیہ فھو محمول علی عادات الناس*. یعنی جس میں نص موجود نہ ہو تو وہ لوگوں کی عادت پر محمول ہوگا (فتاوی مفتی اعظم بہار جلد سوم ص 65) 
پس حاصل ہوا کہ نیپال اور ہند میں سیتامڑھی ضلع کے تمام گاؤں و شہروں میں لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے کی نہ عادت ہے اور نہ عرف اور نہ عموم بلوی ہے اس لئے عرف وعادت اور عموم بلوی نہ ہونے کی وجہ سے بھی لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ اس میں عمل کثیر نہیں ہے اور نہ بلاد کثیرہ میں بکثرت رائج بھی نہیں ہے اگر ہے بھی چند جگہوں کا اس لئے اس میں عرف تعامل اور عموم بلوی بھی نہیں پایا جاتا ہے اس لئے بھی ناجائز اور مفسد نماز کا حکم دیا جائے گا اگر کسی ایک گاؤں یا کسی شہر کے مسلمان اس کو رائج دینا چاہتے ہیں تو انہیں سمجھایا جائے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
*وذکر فان الذکر تنفع المومنین* یعنی اور سمجھاو کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے لہذا جو مسلمان لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر ضد کررہے ہیں انہیں وہاں کے علمائے کرام احکام شرعیہ یار دلائے اور بتلایا جائے کہ کام وہ کیجئے جس سے آپ کی نمازیں خراب نہ ہوں پھر بتلائیں کہ چلئے بالفرض مان لیا جائے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نکلی ہوئی آواز متکلم کی ہے تو ٹھیک اس خیال سے نماز ہوجایے گی اور اگر لاؤڈ اسپیکر سے نکلنے والی آواز متکلم کی نہیں ہوئی تو آپ کی نماز فاسد ہوگئی تو ہم ایسا کام کیوں کریں ہم وہ کام کریں جس سے ہماری نمازیں برباد نہ ہو کہ قیامت میں سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال ہوگا اگر اس میں کامیاب تو ہر جگہ کامیاب 
 کیونکہ *پہلا فرض اس امت پر نماز ہے اور پہلے اسی کا حساب ہوگا اسی سے مواخذہ کیا جائے گا اگر وہ پوری نہ نکلی سب اعمال رد کردینے جائیں گے*.
مسلمانو کو جایئے ۔اس عمدہ عبادت کو کمال شوق و رغبت سے بجا لائیں اور کوئی عذر و بہانے پیش نہ کریں ۔ لاؤڈ اسپیکر سے نماز نہ پڑھے کیونکہ کثیر مستند اکابرین و مشائخ کرام اور فقہائے کرام کے اقوال سے ثابت ہے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے
 سوال : اس ضمن میں ایک آخری سوال ہے کہ جب لاؤڈ اسپیکر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے کہ اس سے نکلنے والی آواز متکلم کی آواز نہیں تو پھر اذان یا خطبہ جمعہ و عیدین نکاح اور خطابت میں اس کا استعمال کیوں جائز ہوگا ،؟ اس سب پر بھی حکم فساد دیا جائے؟ کہ یہ سب بھی عبادت ہے کیونکہ آپ نے ہی اس کو کھا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نکلی ہوئی آواز آدمی کی اصل آواز نہیں سمجھی جا سکتی اور جو آواز لاؤڈ اسپیکر سے سنی جاتی ہے آدمی کی آواز کے مشابہ ہوتی ہے اور مشابہ آواز بالکل نقلی ہے 
 الجواب :۔ چونکہ قرآن و احادیث اور علمائے متقدمین میں لاؤڈ اسپیکر کے متعلق کوئی جزیہ منقول نہیں ہے اسی لئے ہمارے علمائے کرام ماہر سائنس اور ٹیکنالوجی انجینیئروں کے اقوال سے استدلال کیا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز متکلم کی آواز نہیں اسی لئے اس سے نماز فاسد ہوگی مگر اذان و خطبہ اور نکاح سب جائز ہوگا اور دلیل ہمارے علمائے اکابرین کے ذمہ ہے شک یہ سب بھی ذکر الہی ہے مگر ہمارے علمائے کرام نے ان سب کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا اور نماز میں مفسد صلوۃ کا حکم دیا اور شریعت میں اس کی بہت سی نظیریں موجود ہیں یہاں صرف دو نظیر بیان کرتا ہوں کہ فساد عبادت کے شبہ کو احتیاطا ہمیشہ یقین ہی کا فتنہ دیا جاتا ہے جیسے کہ حدیث میں ہونے کے باوجود تیرہ (13) ذی الحجہ کو قربانی کو ناجائز قرار دیا گیا اس لئے کہ اس تاریخ میں فساد قربانی کا شبہ ہے اور ایک اور مثال یہ ہے کہ حطیم کو طواف میں احتیاطا کعبہ شریف کا جز تسلیم کیا گیا اس لئے کہ خارج ماننے میں فساد طواف کا شبہ ہے مگر اسی حطیم کو نماز کے مسئلہ میں احتیاطا کعبہ شریف سے خارج قرار دیا گیا اس لئے کہ جز تسلیم کرنے میں فساد کا شبہ ہے
 رد المحتار ۔جلد دوم ص 167 میں ہے
*اذا استقبلہ المصلی لم تصح صلاتہ لان فرضیۃ استقبال الکعبہ ثبتت بالنص القطعے و کون الحطیم من الکعبۃ ثبت بآلآحاد فصار کانہ من الکعبۃ من وجہ دون وجہ فکان الاحتیاط فی وجوب الطواف وراءہ ہ وفی عدم صحتہ استقبالیہ*.(ردالمحتار جلد اول ص ،167) 
دیکھا یہاں حطیم ایک ہی ہے اور اس حطیم کو طواف میں احتیاطا کعبہ شریف کا جز تسلیم کیا گیا مگر پھر اسی حطیم کو نماز کے مسئلہ میں احتیاطا کعبہ شریف سے خارج کردیا جبکہ حطیم ایک ہی ایک طرح سے حطیم کعبہ کا جز ہے اور دوسری طرح سے یہ حطیم کعبہ کے جز سے خارج قرار دیا گیا 
لہذا اسی بنیاد پر بھی نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ناجائز ہی قرار دیا جائے گا اور اس کی آواز پر رکوع وسجود کرنے سے فساد نماز ہی کا حکم کیا جائے گا اور اذان ۔خطبہ ۔نکاح ۔خظابت ۔اعلان میں فساد کا حکم نہیں دیا جائے گا کہ اس کو خارج کیا گیا ہے یعنی لاؤڈ اسپیکر ایک ہی مگر اس سے نماز میں فساد پیدا ہونے کی وجہ سے استعمال کرنا ممنوع قرار دیا گیا اور پھر وہی لاؤڈ اسپیکر اذان و خطبہ اور نکاح سے خارج قرار نہیں کیا گیا 
*لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے والے کے سامنے دو صورتیں ہیں*.
(1) کثیر اکابرین علمائے کرام لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے کو مفسد نماز مانتے ہیں
(2) قلیل علمائے کرام جائز مانتے ہیں اور مفسد نماز نہیں مانتے ہیں 
ان دونوں صورتوں میں آدمی اول صورت اختیار کرکے اپنی نماز کو مفسد ہونے سے بچائے گا ۔ کیونکہ نماز تمام اعمال میں سب سے بہتر عمل ہے اور تمام فرائض میں سب سے اہم فرض ہے ۔نماز کو اسی لئے افضل العبادات کہا جاتا ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ اب لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نمازوں کے لئے عام ہوچکا ہے ۔لہذا اب اس فتوی کو نہیں مانیں گے ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ حکم شرع سے آگاہ کرنا ہم فرض تھا وہ ہم نے کردیا ۔اب عمل کی ذمہ داری لوگوں پر ہے اگر مسلمان اپنی نمازوں کو فساد سے نہیں بچائیں گے تو اس کا خمیازہ قیامت کے دن اٹھائیں گے دعا ہے خدا تعالیٰ ہم سب کو مقبول نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم 
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 14 رمضان المبارک 1446 
15 مارچ 2025
(نوٹ لمبی تحریر ہے اس لئے اگر کوئی ٹائیپنگ غلطی ہو تو پرسنل پر اطلاع دیں اگر کچھ شرعی غلطی بھی ہو تو اطلاع دیں تاکہ تصحیح کا کام شروع کردیا جائے )
بحمدہ سبحانہ وتعالی یہ تینوں سلسلہ وار قسط تقریبا بیس یا بائیس کتابوں سے لاؤڈ اسپیکر کے متعلق عطر تحقیق ہے

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area