تعلیمات اعلیٰ حضرت کی روشنی
-----------قسط دوم------------
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز سے سوال ہوا کہ:"جو لوگ سیدوں کو کلمات بے ادبانہ کہا کرتے ہیں اور ان کے مراتب کو خیال نہیں کرتے بلکہ کلمہ تحقیر آمیز کہہ بیٹھتے ہیں ان کا کیاحکم ہے؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"سادات کرام کی تعظیم فرض ہے۔اور ان کی توہین حرام بلکہ علمائے کرام نے ارشاد فرمایا جو کسی عالم کو مولویا یا کسی(سید میر )کو میروا بروجہ تحقیر کہے کافر ہے۔مجمع الانہر میں ہے:
-----------قسط دوم------------
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز سے سوال ہوا کہ:"جو لوگ سیدوں کو کلمات بے ادبانہ کہا کرتے ہیں اور ان کے مراتب کو خیال نہیں کرتے بلکہ کلمہ تحقیر آمیز کہہ بیٹھتے ہیں ان کا کیاحکم ہے؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"سادات کرام کی تعظیم فرض ہے۔اور ان کی توہین حرام بلکہ علمائے کرام نے ارشاد فرمایا جو کسی عالم کو مولویا یا کسی(سید میر )کو میروا بروجہ تحقیر کہے کافر ہے۔مجمع الانہر میں ہے:
وَالِاسْتِخْفَافُ بِالْأَشْرَافِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ،ومَنْ قَالَ لِلْعَالِمِ عُوَيْلِمٌ أَوْ لِعَلَوِيٍّ عُلَيْوِيٌّ قَاصِدًا بِهِ الِاسْتِخْفَافَ كَفَرَ،
(مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر،ج ١ ،ص ٦٩٥،باب المرتد،أَلْفَاظَ الْكُفْرِ أَنْوَاع،الناشر دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)
سادات کرام اور علماء کی تحقیر کفر ہے جس نے عالم کی تصغیر کر کے عویلم یا علوی(سید)کو علیوی تحقیر کی نیت سے کہا تو کفر کیا۔
پھر یہ حدیث نقل فرماتے ہیں:
عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ لَمْ يَعْرِفْ حَقَّ عِتْرَتِي، وَالْأَنْصَارِ، وَالْعَرَبِ فَهُوَ لِأَحَدِ ثَلَاثٍ: إِمَّا مُنَافِقًا، وَإِمَّا لِزَنيةٍ،...وَإِمَّا لِغَيْرٍ أي حَمَلَتْهُ أُمُّهُ عَلَى غَيْرِ طُهُورٍ
(مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر،ج ١ ،ص ٦٩٥،باب المرتد،أَلْفَاظَ الْكُفْرِ أَنْوَاع،الناشر دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)
سادات کرام اور علماء کی تحقیر کفر ہے جس نے عالم کی تصغیر کر کے عویلم یا علوی(سید)کو علیوی تحقیر کی نیت سے کہا تو کفر کیا۔
پھر یہ حدیث نقل فرماتے ہیں:
عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ لَمْ يَعْرِفْ حَقَّ عِتْرَتِي، وَالْأَنْصَارِ، وَالْعَرَبِ فَهُوَ لِأَحَدِ ثَلَاثٍ: إِمَّا مُنَافِقًا، وَإِمَّا لِزَنيةٍ،...وَإِمَّا لِغَيْرٍ أي حَمَلَتْهُ أُمُّهُ عَلَى غَيْرِ طُهُورٍ
(شعب الإيمان، ج ١ ،ص ١٦٢،حدیث نمبر ١٥٠٠،تعظيم النبي صلى الله عليه وسلم وإجلاله وتوقيره صلى الله عليه وسلم،فصل في الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم،الناشر: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض بالتعاون مع الدار السلفية ببومباي بالهند
الطبعة: الأولى، 1423 هـ - 2003 م)
امیر المومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو میری اولاد(سیدوں)اور انصار اور عرب کا حق نہ پہچانے وہ تین علتوں سے خالی نہیں۔یا تو منافق ہے یا حرامی ہے یا اس کی ماں نے ناپاکی کی حالت میں اس کا حمل لیا۔
پھر لکھتے ہیں:
"بلکہ علماء وانصار وعرب سے تو وہ مراد ہیں جو گمراہ بددین نہ ہوں اور سادات کرام کی تعظیم ہمیشہ(ہے) جب تک ان کی بد مذہبی حد کفر کو نہ پہنچے کہ اس کے بعد وہ سید ہی نہیں نسب منقطع ہے.....جیسے نیچری،قادیانی،وہابی غیر مقلد،دیوبندی اگر چہ سید مشہور ہوں نہ سید ہیں نہ ان کی تعظیم حلال بلکہ توہین وتکفیر فرض،اور روافض کے یہاں تو سیادت بہت آسان ہے کسی قوم کا رافضی ہوجائے،دودن بعد میر صاحب ہوجائے گا۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٢،ص٤٢١ تا ٤٢٢،و ٤٢٣،مسئلہ ۱۸۰ تا ۱۸۳،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز،نظریہ دے رہے ہیں کہ سادات کرام(سیدوں)کا مقام یہ ہے کہ ان کی تعظیم فرض ہے،یہاں تک کہ سادات کرام فاسق و فاجر ہوں بلکہ گمراہ ہوں خارج اہل سنت ہوں تب بھی ان کی تعظیم فرض ہے،اگر کوئی سادات کرام کی توہین و تحقیر کرتا ہے تو گناہ عظیم کا مرتکب فاسق ہے بلکہ تحقیر کی نیت بھی ہے تو فقہی اعتبار سے ایسا شخص کافر ہے،ہاں! اگر کوئی سید کہلانے والا کافر قطعی ہو جائے تو پھر ان کی تعظیم باقی نہیں رہتی کیوں کہ کفر کے بعد سیادت باقی نہیں رہتی۔
اسی طرح جب اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز سے سوال ہوا کہ:"حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دربارہ محبت واطاعت آل(پاک)کے لئے کچھ ارشاد فرمایا ہے یانہیں؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"محبت آل اطہار کے بارے میں متواتر حدیثیں بلکہ قرآن عطیم کی آیت کریمہ ہے:قُلۡ لَّاۤ اَسۡئَلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی ؕ(سورۃ الشوریٰ آیت ٢٣)
(ان سے)فرمادیجئے(لوگو!)اس دعوت حق پر میں تم سے کچھ نہیں مانگتا مگر رشتہ(داروں)کی الفت و محبت"
پھر لکھتے ہیں:
"ان(سیدوں)کی محبت بحمد اللہ تعالٰی مسلمان کا دین ہے۔اور اس(محبت آل رسول)سے محروم ناصبی خارجی جہنمی ہے والعیاذ باﷲ تعالٰی،مگر(آل نبی سے)محبت صادقہ(ہو)نہ(کہ)روافض کی سی محبت کاذبہ(ہو)
پھر لکھتے ہیں:
"پھر اگر عالِم سید بھی ہو تو نور علی نور(ہے،)امور مباحہ میں جہاں تک نہ شرعی حرج ہو نہ کوئی ضرر(تو)سید غیر عالِم کے بھی احکام کی اطاعت کرے کہ اس میں اس(غیر عالم سید)کی خوشنودی ہے اور سادات کرام کی خوشی میں کہ حد شرع کے اندر ہو حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رضا ہے اور حضور کی رضا اللہ عزوجل کی رضا"
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٢،ص ٤٢٢،و ٤٢٣ ،مسئلہ ۱۸۰ تا ۱۸۳،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ اعلی حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ سادات کرام کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ ان کی محبت دین ہے، اور سادات کرام سے محبت کرنے کا حکم ہم سب کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ نے بھی دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دیا ہے،اور یاد رکھو!جن کے دل میں سادات کرام(سیدوں)کی محبت نہیں وہ ناصبی،خارجی،جہنمی ہے،اور سادات کرام اگر عالم بھی ہوں تب تو دو جہت سے ان کی تعظیم ہر مسلمان پر ضروری ہے ایک سیادت کی وجہ سے اور ایک عالم ہونے کی وجہ سے نیز ایسے سادات کرام جو عالم ہیں ان کے احکامات کی پابندی تو کرنی ہے لیکن اگر غیر عالم سادات بھی ہوں اور ان کے احکامات کی پابندی کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو تو ان غیر عالم سادات کے احکامات کی بھی پابندی کرنی چاہیے اس لیے کہ سادات کرام کو راضی کرنا گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ کی رضا اللہ کی رضا ہے۔
اسی طرح جب اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز سے سوال ہوا کہ:"جو لوگ سیدوں سے محبت رکھتے ہیں ان کے لئے یوم محشر میں آسانی ہوگی یانہیں؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ہاں سچے(پکے)محبان اہل بیت کرام کے لئے روز قیامت نعمتیں برکتیں راحتیں ہیں۔
پھر یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
"عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الزَمُوا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ يَوَدُّنَا دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إِلَّا بِمَعْرِفَةِ حَقَّنَا»
(المعجم الأوسط للطبرانی،ج ٢،ص ٣٦٠،حدیث نمبر حدیث نمبر ٢٢٣٠،باب الألف، من اسمه احمد،الناشر دار الحرمین القاھرۃ)
یعنی:حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"ہم اہل بیت کی محبت لازم پکڑو کہ جو اللہ سے ہماری دوستی کے ساتھ ملے گا وہ ہماری شفاعت سے جنت میں جائے گا۔قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کسی بندے کو اس کا عمل نفع نہ دے گا جب تک ہمارا(اہل بیت)حق نہ پہچانے"
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٢،ص ٤٢٢،و ٤٢٤ ،مسئلہ ۱۸۰ تا ۱۸۳،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ سادات کرام کا مقام اتنا بلند و بالا ہے کہ:ان سے سچی و پکی محبت کرنے والوں کو آخرت میں نعمتیں برکتیں راحتیں ملیں گی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ملے گی،اور خوب اچھی طرح یاد رکھو!سادات کرام سے اگر کوئی محبت نہیں کرتا ہے تو اس کا نیک عمل اس کے کچھ کام کا نہیں ہے نیک عمل تبھی کام آئے گا جب سادات کرام سے سچی اور پکی محبت ہوگی،اس لیے اے مسلمانو!سیدوں کی محبت کو لازمی طور پکڑ لو!
اسی طرح جب اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ سے سوال ہوا کہ:"ایک جلسہ میں دو مولوی صاحبان تشریف رکھتے ہیں ایک ان میں سے سید ہیں تو مسلمان کسے صدر بنائیں؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اگر دونوں عالم دین سنی صحیح العقیدہ اور جس کام کے لئے صدارت مطلوب ہے اس کے اہل ہوں تو سید کو ترجیح ہے ورنہ ان میں جو عالم یا علم میں زائد یا سنی ہو اور دونوں علم دین میں مساوی ہوں تو جو اس کام کا زیادہ اہل ہو"
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٢،ص ٤٢٢،و ٤٢٤ ،مسئلہ ۱۸۰ تا ۱۸۳،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ عبارت سے واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ سادات کرام کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ترین ہے کہ جب کسی جلسہ یا کانفرنس میں یا کسی دینی محفل میں دو عالم دین موجود ہوں اور ان دونوں عالم دین میں سے ایک عالم دین سید ہوں تو صدارت کے لیے انتخاب کی جب بات آئے اور دونوں صدارت کے اہل ہوں تو سید عالم دین کو صدر منتخب کیا جائے گا کیونکہ وہ اہل بھی ہیں عالم دین بھی ہیں اور سید بھی ہیں۔
اسی طرح جب اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز سے سوال ہوا کہ:"ایک شخص سید ہے لیکن اس کے اعمال واخلاق خراب ہیں اور باعث ننگ وعار ہیں تو اس سید سے اس کے اعمال کی وجہ سے تنفر رکھنا نسبی حیثیت سے اس کی تکریم کرنا جائز ہے یانہیں؟اس سید کے مقابل کوئی غیر مثل شیخ،مغل،پٹھان وغیرہ وغیرہ کا آدمی نیک اعمال ہوں تو اس کو سید پر بحیثیت اعمال کے ترجیح ہوسکتی ہے کہ نہیں؟شرع شریف میں ایسی حالت میں اعمال کو ترجیح ہے کہ نسب کو؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"سید سنی المذہب کی تعظیم لازم ہے اگر چہ اس کے اعمال کیسے ہوں ان اعمال کے سبب اس سے تنفر نہ کیا جائے نفس اعمال سے تنفر ہو بلکہ اس کے مذہب میں بھی قلیل فرق ہو کہ حد کفر تک نہ پہنچے جیسے تفضیل تو اس حالت میں بھی اس کی تعظیم سیادت نہ جائے گی ہاں اگر اس کی بد مذہبی حد کفر تک پہنچے جیسے(وہ)رافضی وہابی قادیانی نیچری وغیرہم(ہو جائے)تو اب اس کی تعظیم حرام ہے کہ جو وجہ تعظیم تھی یعنی سیادت وہی نہ رہی"
پھر لکھتے ہیں:
" شریعت نے تقوٰی کو فضیلت دی ہے " اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنۡدَ اللہِ اَتْقٰىکُمْ ؕ"[سورۃ الحجرات آیت ١٣]( اللہ تعالٰی کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔)مگر یہ(تقویٰ) فضل ذاتی ہے(اور)فضل نسب منتہائے نسب کی افضلیت پر ہے سادات کرام کی انتہائے نسب حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ہے۔اس فضل انتساب کی تعظیم ہر متقی پر فرض ہے کہ وہ اس کی تعظیم نہیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم ہے"
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٢،ص ٤٢٤،و ٤٢٥ ،مسئلہ ۱۸۰ تا ۱۸۳،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ سادات عظام کا مقام اتنا ارفع و اعلیٰ ہے کہ:سیدوں کے اعمال چاہے کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں اگر کفر تک نہیں پہنچا تو ان کی تعظیم فرض و لازم ہے یہاں تک کہ اگر کوئی سید گمراہ ہو جائے خارج اہل سنت و جماعت ہو جائے لیکن کافر نہ ہو مثلاً کوئی سید تفضیلی ہو جائے یعنی مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کو تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین پر فضلیت دینے لگے تو بھی ان کی تعظیم فرض و ضروری ہے،یعنی سید اگر فاسق و فاجر ہو یا پھر گمراہ و اہل سنت سے خارج ہو تب بھی ان کی تعظیم و فرض و ضروری لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سیدوں کے ان برے کاموں کو خلاف اہل سنت ان کے برے عقیدوں کو بھی اچھا اور سچا سمجھ لیا جائے بالکل نہیں قطعاً نہیں،بلکہ ان کے برے کاموں سے نفرت کی جائے گی، خلاف اہل سنت ان کے برے عقیدے سے نفرت کی جائے کی اور ان برے اعمال و عقائد کا رد کیا جائے۔ہاں اگر کوئی سید کہلانے والا ایسا عقیدہ رکھے جو بالکل کفریہ ہو جس میں تاویل کی گنجائش نہ ہو مثلاً وہ رافضی، وہابی، قادیانی نیچری وغیرہم جیسا عقیدہ رکھتا ہو یعنی ضروریات دین کا منکر تو اب ان کی تعظیم نہیں کی جاے گی۔نیز!یہ بھی خوب ذہن نشین رکھو کہ! سادات کرام کی تعظیم ہر ایک مسلمان پر فرض و ضروری چاہے کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو چاہے کتنا ہی بڑا متقی و پرہیز گار کیوں نہ ہو ہر ایک پر سیدوں کی تعظیم ضروری ہے پھر چاہے سید عالم ہو یا نہ ہو چاہے سید متقی ہو یا نہ ہو۔
......جاری........
ضروری اپیل!اہل علم سے گزارش ہے کہ راقم سے کوئی عبارت سمجھنے میں یا نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی خطا ہوئی تو ضرور مطلع فرمائیں تاکہ اصلاح کرلی جائے۔
طالب دعا:شبیر احمد راج محلی۔
جنرل سیکریٹری:- تنظیم علمائے اہل سنت راج محل(رجسٹرڈ)و خادم التدريس دارالعلوم گلشن کلیمی راج محل۔
٢١/اگست ٢٠٢٤ء بروز جمعرات۔
الطبعة: الأولى، 1423 هـ - 2003 م)
امیر المومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو میری اولاد(سیدوں)اور انصار اور عرب کا حق نہ پہچانے وہ تین علتوں سے خالی نہیں۔یا تو منافق ہے یا حرامی ہے یا اس کی ماں نے ناپاکی کی حالت میں اس کا حمل لیا۔
پھر لکھتے ہیں:
"بلکہ علماء وانصار وعرب سے تو وہ مراد ہیں جو گمراہ بددین نہ ہوں اور سادات کرام کی تعظیم ہمیشہ(ہے) جب تک ان کی بد مذہبی حد کفر کو نہ پہنچے کہ اس کے بعد وہ سید ہی نہیں نسب منقطع ہے.....جیسے نیچری،قادیانی،وہابی غیر مقلد،دیوبندی اگر چہ سید مشہور ہوں نہ سید ہیں نہ ان کی تعظیم حلال بلکہ توہین وتکفیر فرض،اور روافض کے یہاں تو سیادت بہت آسان ہے کسی قوم کا رافضی ہوجائے،دودن بعد میر صاحب ہوجائے گا۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٢،ص٤٢١ تا ٤٢٢،و ٤٢٣،مسئلہ ۱۸۰ تا ۱۸۳،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز،نظریہ دے رہے ہیں کہ سادات کرام(سیدوں)کا مقام یہ ہے کہ ان کی تعظیم فرض ہے،یہاں تک کہ سادات کرام فاسق و فاجر ہوں بلکہ گمراہ ہوں خارج اہل سنت ہوں تب بھی ان کی تعظیم فرض ہے،اگر کوئی سادات کرام کی توہین و تحقیر کرتا ہے تو گناہ عظیم کا مرتکب فاسق ہے بلکہ تحقیر کی نیت بھی ہے تو فقہی اعتبار سے ایسا شخص کافر ہے،ہاں! اگر کوئی سید کہلانے والا کافر قطعی ہو جائے تو پھر ان کی تعظیم باقی نہیں رہتی کیوں کہ کفر کے بعد سیادت باقی نہیں رہتی۔
اسی طرح جب اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز سے سوال ہوا کہ:"حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دربارہ محبت واطاعت آل(پاک)کے لئے کچھ ارشاد فرمایا ہے یانہیں؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"محبت آل اطہار کے بارے میں متواتر حدیثیں بلکہ قرآن عطیم کی آیت کریمہ ہے:قُلۡ لَّاۤ اَسۡئَلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّۃَ فِی الۡقُرۡبٰی ؕ(سورۃ الشوریٰ آیت ٢٣)
(ان سے)فرمادیجئے(لوگو!)اس دعوت حق پر میں تم سے کچھ نہیں مانگتا مگر رشتہ(داروں)کی الفت و محبت"
پھر لکھتے ہیں:
"ان(سیدوں)کی محبت بحمد اللہ تعالٰی مسلمان کا دین ہے۔اور اس(محبت آل رسول)سے محروم ناصبی خارجی جہنمی ہے والعیاذ باﷲ تعالٰی،مگر(آل نبی سے)محبت صادقہ(ہو)نہ(کہ)روافض کی سی محبت کاذبہ(ہو)
پھر لکھتے ہیں:
"پھر اگر عالِم سید بھی ہو تو نور علی نور(ہے،)امور مباحہ میں جہاں تک نہ شرعی حرج ہو نہ کوئی ضرر(تو)سید غیر عالِم کے بھی احکام کی اطاعت کرے کہ اس میں اس(غیر عالم سید)کی خوشنودی ہے اور سادات کرام کی خوشی میں کہ حد شرع کے اندر ہو حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رضا ہے اور حضور کی رضا اللہ عزوجل کی رضا"
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٢،ص ٤٢٢،و ٤٢٣ ،مسئلہ ۱۸۰ تا ۱۸۳،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ اعلی حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ سادات کرام کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ ان کی محبت دین ہے، اور سادات کرام سے محبت کرنے کا حکم ہم سب کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ نے بھی دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دیا ہے،اور یاد رکھو!جن کے دل میں سادات کرام(سیدوں)کی محبت نہیں وہ ناصبی،خارجی،جہنمی ہے،اور سادات کرام اگر عالم بھی ہوں تب تو دو جہت سے ان کی تعظیم ہر مسلمان پر ضروری ہے ایک سیادت کی وجہ سے اور ایک عالم ہونے کی وجہ سے نیز ایسے سادات کرام جو عالم ہیں ان کے احکامات کی پابندی تو کرنی ہے لیکن اگر غیر عالم سادات بھی ہوں اور ان کے احکامات کی پابندی کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو تو ان غیر عالم سادات کے احکامات کی بھی پابندی کرنی چاہیے اس لیے کہ سادات کرام کو راضی کرنا گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ کی رضا اللہ کی رضا ہے۔
اسی طرح جب اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز سے سوال ہوا کہ:"جو لوگ سیدوں سے محبت رکھتے ہیں ان کے لئے یوم محشر میں آسانی ہوگی یانہیں؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ہاں سچے(پکے)محبان اہل بیت کرام کے لئے روز قیامت نعمتیں برکتیں راحتیں ہیں۔
پھر یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
"عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الزَمُوا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ يَوَدُّنَا دَخَلَ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِنَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَنْفَعُ عَبْدًا عَمَلُهُ إِلَّا بِمَعْرِفَةِ حَقَّنَا»
(المعجم الأوسط للطبرانی،ج ٢،ص ٣٦٠،حدیث نمبر حدیث نمبر ٢٢٣٠،باب الألف، من اسمه احمد،الناشر دار الحرمین القاھرۃ)
یعنی:حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"ہم اہل بیت کی محبت لازم پکڑو کہ جو اللہ سے ہماری دوستی کے ساتھ ملے گا وہ ہماری شفاعت سے جنت میں جائے گا۔قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کسی بندے کو اس کا عمل نفع نہ دے گا جب تک ہمارا(اہل بیت)حق نہ پہچانے"
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٢،ص ٤٢٢،و ٤٢٤ ،مسئلہ ۱۸۰ تا ۱۸۳،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ سادات کرام کا مقام اتنا بلند و بالا ہے کہ:ان سے سچی و پکی محبت کرنے والوں کو آخرت میں نعمتیں برکتیں راحتیں ملیں گی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ملے گی،اور خوب اچھی طرح یاد رکھو!سادات کرام سے اگر کوئی محبت نہیں کرتا ہے تو اس کا نیک عمل اس کے کچھ کام کا نہیں ہے نیک عمل تبھی کام آئے گا جب سادات کرام سے سچی اور پکی محبت ہوگی،اس لیے اے مسلمانو!سیدوں کی محبت کو لازمی طور پکڑ لو!
اسی طرح جب اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ سے سوال ہوا کہ:"ایک جلسہ میں دو مولوی صاحبان تشریف رکھتے ہیں ایک ان میں سے سید ہیں تو مسلمان کسے صدر بنائیں؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اگر دونوں عالم دین سنی صحیح العقیدہ اور جس کام کے لئے صدارت مطلوب ہے اس کے اہل ہوں تو سید کو ترجیح ہے ورنہ ان میں جو عالم یا علم میں زائد یا سنی ہو اور دونوں علم دین میں مساوی ہوں تو جو اس کام کا زیادہ اہل ہو"
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٢،ص ٤٢٢،و ٤٢٤ ،مسئلہ ۱۸۰ تا ۱۸۳،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ عبارت سے واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ سادات کرام کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ترین ہے کہ جب کسی جلسہ یا کانفرنس میں یا کسی دینی محفل میں دو عالم دین موجود ہوں اور ان دونوں عالم دین میں سے ایک عالم دین سید ہوں تو صدارت کے لیے انتخاب کی جب بات آئے اور دونوں صدارت کے اہل ہوں تو سید عالم دین کو صدر منتخب کیا جائے گا کیونکہ وہ اہل بھی ہیں عالم دین بھی ہیں اور سید بھی ہیں۔
اسی طرح جب اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز سے سوال ہوا کہ:"ایک شخص سید ہے لیکن اس کے اعمال واخلاق خراب ہیں اور باعث ننگ وعار ہیں تو اس سید سے اس کے اعمال کی وجہ سے تنفر رکھنا نسبی حیثیت سے اس کی تکریم کرنا جائز ہے یانہیں؟اس سید کے مقابل کوئی غیر مثل شیخ،مغل،پٹھان وغیرہ وغیرہ کا آدمی نیک اعمال ہوں تو اس کو سید پر بحیثیت اعمال کے ترجیح ہوسکتی ہے کہ نہیں؟شرع شریف میں ایسی حالت میں اعمال کو ترجیح ہے کہ نسب کو؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"سید سنی المذہب کی تعظیم لازم ہے اگر چہ اس کے اعمال کیسے ہوں ان اعمال کے سبب اس سے تنفر نہ کیا جائے نفس اعمال سے تنفر ہو بلکہ اس کے مذہب میں بھی قلیل فرق ہو کہ حد کفر تک نہ پہنچے جیسے تفضیل تو اس حالت میں بھی اس کی تعظیم سیادت نہ جائے گی ہاں اگر اس کی بد مذہبی حد کفر تک پہنچے جیسے(وہ)رافضی وہابی قادیانی نیچری وغیرہم(ہو جائے)تو اب اس کی تعظیم حرام ہے کہ جو وجہ تعظیم تھی یعنی سیادت وہی نہ رہی"
پھر لکھتے ہیں:
" شریعت نے تقوٰی کو فضیلت دی ہے " اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنۡدَ اللہِ اَتْقٰىکُمْ ؕ"[سورۃ الحجرات آیت ١٣]( اللہ تعالٰی کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔)مگر یہ(تقویٰ) فضل ذاتی ہے(اور)فضل نسب منتہائے نسب کی افضلیت پر ہے سادات کرام کی انتہائے نسب حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ہے۔اس فضل انتساب کی تعظیم ہر متقی پر فرض ہے کہ وہ اس کی تعظیم نہیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم ہے"
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٢،ص ٤٢٤،و ٤٢٥ ،مسئلہ ۱۸۰ تا ۱۸۳،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ سادات عظام کا مقام اتنا ارفع و اعلیٰ ہے کہ:سیدوں کے اعمال چاہے کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں اگر کفر تک نہیں پہنچا تو ان کی تعظیم فرض و لازم ہے یہاں تک کہ اگر کوئی سید گمراہ ہو جائے خارج اہل سنت و جماعت ہو جائے لیکن کافر نہ ہو مثلاً کوئی سید تفضیلی ہو جائے یعنی مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کو تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین پر فضلیت دینے لگے تو بھی ان کی تعظیم فرض و ضروری ہے،یعنی سید اگر فاسق و فاجر ہو یا پھر گمراہ و اہل سنت سے خارج ہو تب بھی ان کی تعظیم و فرض و ضروری لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سیدوں کے ان برے کاموں کو خلاف اہل سنت ان کے برے عقیدوں کو بھی اچھا اور سچا سمجھ لیا جائے بالکل نہیں قطعاً نہیں،بلکہ ان کے برے کاموں سے نفرت کی جائے گی، خلاف اہل سنت ان کے برے عقیدے سے نفرت کی جائے کی اور ان برے اعمال و عقائد کا رد کیا جائے۔ہاں اگر کوئی سید کہلانے والا ایسا عقیدہ رکھے جو بالکل کفریہ ہو جس میں تاویل کی گنجائش نہ ہو مثلاً وہ رافضی، وہابی، قادیانی نیچری وغیرہم جیسا عقیدہ رکھتا ہو یعنی ضروریات دین کا منکر تو اب ان کی تعظیم نہیں کی جاے گی۔نیز!یہ بھی خوب ذہن نشین رکھو کہ! سادات کرام کی تعظیم ہر ایک مسلمان پر فرض و ضروری چاہے کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو چاہے کتنا ہی بڑا متقی و پرہیز گار کیوں نہ ہو ہر ایک پر سیدوں کی تعظیم ضروری ہے پھر چاہے سید عالم ہو یا نہ ہو چاہے سید متقی ہو یا نہ ہو۔
......جاری........
ضروری اپیل!اہل علم سے گزارش ہے کہ راقم سے کوئی عبارت سمجھنے میں یا نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی خطا ہوئی تو ضرور مطلع فرمائیں تاکہ اصلاح کرلی جائے۔
طالب دعا:شبیر احمد راج محلی۔
جنرل سیکریٹری:- تنظیم علمائے اہل سنت راج محل(رجسٹرڈ)و خادم التدريس دارالعلوم گلشن کلیمی راج محل۔
٢١/اگست ٢٠٢٤ء بروز جمعرات۔