Type Here to Get Search Results !

حضور مفتی اعظم بہار کی تحقیق انیق کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ربانی نعمتیں بخششیں غیر متناہی ہے

حضور مفتی اعظم بہار کی تحقیق انیق کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ربانی نعمتیں بخششیں غیر متناہی ہے
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
(1) خدا تعالی قادر مطلق کی عطا سے حضور رسول اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے انہیں کوئی انسان گنتی و شمار میں نہیں لاسکتا۔
(2) حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف کا بیان دراصل تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے اس لئے کہ اگر بیان میں زیادتی ہوگی تو مرتبہ الوہیت کے ساتھ مماثلت کا خطرہ ہوگا اور کمی ہوگی تو تنقیص رسالت ہو جائے گی۔
(3) نزع لفظی کسے کہتے ہیں؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں حضور مصباح ملت مفتی اعظم بہار صاحب قبلہ اس مسئلہ میں کہ
زید جوکہ ایک عالم ہے ایک محفل میں تقریر کر رہے تھے وہ اپنی تقریر میں عقیدہ توحید و رسالت کچھ اس طرح بیان کیے کہ اللّٰه تعالیٰ کی ذات لا محدود ہے اور حضور اقدس صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ و سلم کے فضل و کمال محدود ہیں اس پر ایک عالم دین نے دوران تقریر ہی ان سے کہا کہ خدا کی عطا سے حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فضل و کمال بھی لا محدود ہے اس لیے آپ اپنی بات سے رجوع کریں 
اس مولانا نے کہا کہ میں رجوع نہیں کرونگا اس لیے کہ اللّٰه کے مقابل ہر بندہ مخلوق ہے اور مخلوق لامحدود نہیں ہوسکتے ورنہ خالق و مخلوق میں کیا فرق رہ جائے گا 
پھر یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات ہیں اگر اس میں سے کوئی صفت حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مانے تو یہ شرک ہے 
اس پر بھی عالم صاحب نے اس سے کہا کہ یہ بھی آپ غلط بول رہے ہیں چونکہ اللّٰه تعالیٰ کی جو صفات ہیں وہ ذاتی ہے اور حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وسلم کو جو صفت عطا ہوئی وہ اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے عطائی ہے 
یہ شرک کیسے ہوجائے گا 
حضور مفتی اعظم بہار صاحب کی بارگاہ میں عریضہ ہے کہ اس مسئلے میں کون سے مولانا حق بجانب ہیں قرآن و حدیث و اقوال فقہاء کی روشنی میں جلد واضح فرما دیں بڑی مہربانی ہوگی بینوا و توجروا۔
المستفتی :- محمد شاہد علی 
متعلم الجامعتہ الرضویہ ھدایت المسلمین سندرپور سرلاہی نیپال
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ہدایت الحق والصواب 
ہمارا ایمان یہ ہے کہ ہم شہادت دیتے ہیں اللّٰه تعالیٰ واحد ہے اس کی ذات لامحدود ہے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت والجماعت امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں
ذات الٰہی محدود نہیں۔
(جامع الاحادیث جلد 7 ص 513)
خدا تعالیٰ کی ذات 
(1) ولا حد لہ 
اور نہ اس کی کوئی حد ہے
 (2) و لا عد لہ 
اور نہیں کوئی اس کے جوڑ کا 
 (3) ولا مثل لہ 
اور نہ اس کی مثال ہے 
(4) لا ضد لہ 
نہیں کوئی اس کا مد مقابل 
(5) ولا ند لہ  
اور نہ اس جیسا کوئی 
(6) ولا شبہ لہ 
اور نہ کوئی اس جیسا 
(7) ولا کفو لہ 
اور نہ اس کا کفو ہے 
(8) ولا نظیر لہ 
اور نہ کوئی اس کی نظیر ہے 
(9) ولا وزیر لہ 
اور نہ اس کا کوئی وزیر ہے 
(10) ولا شریک لہ 
اور نہ اس کی ذات میں نہ صفات میں نہ اسمائے حسنیٰ میں نہ قدرت میں اور نہ بادشاہت میں کوئی شریک ہے وہ ایک ہے اور پاک و بے عیب ہے  
جس عالم صاحب نے کہا کہ خدا تعالیٰ کی صفت لا محدود ہے وہ حق بجانب ہے اور یہی ایمان حقیقی ہے 
لہٰذا حقیقی اور ذاتی اعتبار سے مخلوق میں کسی کی صفت لا محدود نہیں ہے غیر منتناہی نہیں ہے  
 سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت و الجماعت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں
اللّٰه تعالیٰ کی ذات غیر متناہی ہے ۔اس کی صفتیں بھی غیر متناہی ہیں ۔ اس کی ہر وصف غیر متناہی ہے ۔ اعداد میں غیر متناہی ہے
چنانچہ مخلوق کا علم خواہ کتنا ہی وسیع اور کثیر ہو یہاں تک کہ عرش تا فرش تک اول سے آخر تک اور اس کے کروڑوں درجوں پر ہو تب بھی محدود ہوگا کیونکہ عرش و فرش دو سمتیں ہیں۔ دو کنارے ہیں۔ روز اول سے روز آخر تک بھی دو حدیں ہیں۔ایک چیز دو چیزوں میں گھر جائے تو متناہی ہوگی غیر متناہی نہیں ہوگی البتہ حد کے بغیر کسی چیز کا ہونا غیر متناہی ہوسکتا ہے لامتناہی بالفعل ہونا اللہ تعالیٰ کے علموں سے خاص اور علم متناہی اس کے بندوں کے علم سے خاص ہے ۔ذات الہی محدود نہیں ۔ اس کی مخلوق سے کسی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ محدود نہ ہو (الدولۃ المکیہ)
اس سے واضح ہوا کہ خدا تعالیٰ کی ذات و صفتیں غیر متناہی ہے لامحدود ہے 
لیکن اگر اس طرح کہنا کہ خدا تعالیٰ کی عطا سے حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بھی بے شمار ہیں تو یہ جائز ہے کیونک یہ حقیقی ذاتی معنیٰ پر نہیں ہے بلکہ عطائی معنیٰ پر ہے یعنی خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے آپ کو بے شمار اوصاف عطا فرمائے ہیں جن کا حصر ناممکن ہے اور ہمارے اس قول کی تائید سرکار سیدی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت کے ان اشعار سے ہو رہی ہے 
سرکار سیدی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں
(1) تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہو تجھے
اس شعر میں لفظ تناہی آیا ہوا ہے اور تناہی کا معنی انتہا کو پہنچنا ۔ غیر محدود ۔ لا تعداد اور دوسرا لفظ : بری : آیا ہے اور بری کا معنی پاک یعنی یا رسول ﷲ صلی اللّٰه علیہ وسلم آپ کے اوصاف ۔کمالات غیر محدود ہیں 
ان اشعار کی وضاحت کرتے ہوئے شارح حدائق بخشش حضرت مولانا صوفی محمد اول قادری رضوی سنبھلی فرماتے ہیں کہ
اے میرے آقا و مولی صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں حیران و پریشان ہوں کہ آپ کو کیا کیا کہوں کیونکہ آپ کے اوصاف حمیدہ غیر محدود عیوب سے پاک و منزہ ہیں ۔ اس بے عیب ذات ذوالجلال نے آپ کو بے عیب و بے مثال پیدا فرمایا ہے (سخن رضا مطلب ہائے حدائق بخشش ص 193)
(2) کہہ لے گی سب کچھ ان کے ثناخواں کی خامشی
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
اس کی شرح میں فرماتے ہیں ان کے مداح و تعریف کرنے والے کی خاموشی زبان حال سے سب کچھ کہہ دے گی کیونکہ وہ یہ کہہ کر چپ ہوگیا ہے کہ سرکار میں آپ کو کیا کیا کہوں کہ آپ کے اوصاف لامتناہی ہیں اور میرے الفاظ محدود ہیں اللّٰه تعالیٰ نے آپ کا نام نامی اسم گرامی محمد صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم رکھا ہے آپ کا مدح خواں خود وہ ہے تو دوسرا آپ کی تعریف کیا بیان کرسکتا ہے 
(سخن رضا مطلب ہائے حدائق بخشش ص 194) 
یہاں شارح حدائق بخشش نے حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف کو اوصاف لامتناہی یعنی جس کی کوئی انتہا نہیں کہا اور اپنے الفاظ کو محدود کہا یعنی یا رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ کے اوصاف لامتناہی ہیں اور ہم سب کے اوصاف محدود ہیں  
 (3) یا رسول ﷲ صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ کی تعریف اور آپ کے اوصاف لا محدود ہیں عیب سے پاک ہیں یا رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ آپ کے اوصاف عیب تناہی سے بری ہیں یعنی آپ کی تعریف کی کوئی حد نہیں ہے 
ایک دوسرے اشعار میں فرماتے ہیں کہ
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کردیا 
خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے (حدائق بخشش) 
یا رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ کو کیا کیا کہوں جو کہوں وہ کم ہے اس لئے رضا نے اپنی گفتگو اس بات پر ختم کردی اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ اے آقا آپ اللّٰه تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں اور باقی ماسوا اللّٰه کے تمام مخلوق ارضی و سماوی کے آقا و مولیٰ ہیں ۔ وہ سب آپ کے غلام ہیں ۔ جن و انس و ملک سب آپ کا کلمہ پڑھتے ہیں آپ کے ذکر میں رطب اللسان ہیں 
(4) سرور کہوں کہ مالک و مولی کہوں تجھے 
باغ خلیل کا گل زیبا کہوں تجھے 
یعنی یا رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کو حاکم و سردار کہوں یا مالک و مختار داتا و مولا کہوں یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باغ کا خوبصورت گلاب کا پھول کہوں ۔ میں حیران ہوں کہ آپ کو کن کن القابات سے یاد کروں آپ کے رب نے آپ کو ہمہ صفت موصوف پیدا فرمایا ہے ۔ اپ کا ثانی نہ پیدا ہوا اور نہ ہوگا
 تم بے مثلی حق کے مظہر ہو پھر مثل تمہارا کیوں کر ہو۔
(سخن محبوب ص 192)
اور یہ کہنا کہ بعطائے رب قدیر خدا تعالیٰ کی نعمتیں اور بخشیشیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر غیر منتناہی ہے اور بے شمار ہے کوئی گنتی نہیں کرسکتا ہے یہ جائز ہے اور اس کی تائید اس سے ہورہی ہے کہ 
(5) سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ
الی مالا نھایۃ لہ نعم و افضال
خداوندی (ربانی نعمتیں اور بخشیں خصوصا آپ پر ) غیر متناہی ہیں ۔ان کی کوئی حد و نہایت نہیں۔کوئی گنتی و شمار نہیں لاسکتا
(6) قال اللہ تعالیٰ (وللاخرۃ خیر لک من الاولی) 
اے نبی ! بے شک ہر آنے والا لمحہ تمہارے لئے گزرے ہوئے لمحہ سے بہتر ہے ۔اور ساعت بساعت آپ کے مراتب رفیعہ ترقیوں میں ہے۔
(فتاویٰ رضویہ کامل سے ماخوذ مسائل کلامیہ کا مجموعہ بنام عقائد و کلام ص 143.144)
دیکھا سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ رب قدیر کی عطا سے اللّٰه تعالیٰ کی نعمتیں اور بخشِشیں آپ پر غیر متناہی ہے   
(7) اور فتاوی رضویہ ہی سے شرح بہار شریعت میں ہے کہ العظمۃ اللہ خدائے تعالیٰ سے ذات وصفات میں مشابہت (ومماثلت ) کیسی
( ۔اس سے مشابہ و مماثل ہونے کا شبہ بھی اس قابل نہیں کہ مسلمان کے دل ایمان منزل میں اس کا خطرہ گزرسکے ۔جب کہ اہل حق کا ایمان ہے کہ حضور اقدس سرور عالم عالم اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان احسانات الہی کا جو بارگاہ الٰہی سے ہر ان۔ہر گھڑی ۔ہر لحظہ ۔۔ہر لمحہ ان کی بارگاہ بیکس پناہ پر مبذول رہتی ہیں ۔ان انعامات اور ان ) نعمائے خدا وندی کے لائق جو شکر وثناء ہے اسی پورا پورا بجا نہ سکے نہ ممکن کہ بجالائے کہ جو شکر کریں وہ بھی نعمت آخر موجب شکر و دیگر الی مالانھایۃ و بے افضال خدا وندی (ربانی نعمتیں اور بخشیشیں خصوصا آپ پر ) غیر متناہی ہیں ۔ان کی کوئی حد و نہایت نہیں ۔انہیں کوئی گنتی وشمار میں نہیں لاسکتا ۔قال آللہ تعالیٰ وللاخرۃ خیر لک من الاولی (سے نبی بے شک ہر آنے والا لمحہ تمہارے لئے گزرے ہوئے لمحہ سے بہتر ہے اور ساعت بساعت آپ کے مراتب رفیعہ ترقیوں میں ہیں ) مرتبہ قاب قوسین او ادنی کا پایا ( اور یہ وہ منزل ہے کہ نہ کسی نے پائی اور نہ کسی کے لئے ممکن ہے اس تک رسائی وہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ شب اسریٰ مجھے میرے رب نے اتنا نزدیک کیا کہ مجھ میں اور اس میں دو کمانوں بلکہ اس سے بھی کا فیصلہ رہ گیا۔
(شرح بہار شریعت جلد اول ص 159) 
اس عبارت سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ربانی نعمتیں و بخشیشیں غیر متناہی ہے ان کی کوئی حد و نہایت نہیں
انہیں کوئی شمار میں نہیں لاسکتا 
(8) اور فیروز اللغات ص 907 پر ہے متناہی بمعنی انتہا کو پہنچنے والا اور ص 1140 پر ہے کہ لا منتناہی بمعنی غیر محدود ۔جس کی کوئی حد نہ ہو۔
(فیروز اللغات اردو ص 1140)
اس سے واضح ہوا کہ حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم کے اوصاف بھی غیر متناہی یعنی غیر محدود ہیں اور غیر محدود بمعنی لامحدود یعنی جس کی کوئی حد نہیں اور مزید اس کی تائید امام محمد بوصیری قدس سرہ کے ان اشعار سے ہورہی ہے  
جیسا کے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت ارشاد فرماتے ہیں اور جس کو سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ نے الملفوظ میں نقل فرماتے ہیں کہ 
(9)فان فضل رسول اللّٰه لیس کہ حد
فیعرب عنہ ناطق بفم
یعنی امام محمد بوصیری قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ یا رسول ﷲ صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم , آپ کے فضل کی کوئی انتہا نہیں کہ بیان کرنے والا کیسا ہی گویا ہو اسے بیان کرسکے (الملفوظ امام سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف جلد دوم ص 60)
دیکھا اس میں امام بوصری رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں کہ یا رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ کے فضل کی کوئی حد نہیں یعنی لامحدود اور غیر متناہی ہے اور اس شعر کو سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت قبول فرماکر برقرار رکھتے ہیں اور سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ الملفوظ میں نقل فرماتے ہیں
اس تمام تصریحات سے واضح ہوا کہ جس عالم صاحب نے اس خطیب سے کہا کہ خدا کی عطا سے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فضل و کمال لامحدود ہے یہ جائز ہے اس قول کے قائل کو اس قول سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ صحیح عقیدہ ہے اور اس قول کی تائید قصیدہ بردہ شریف اور فتاوی رضویہ اور حدائق بخشش اور الملفوظ اعلی حضرت اور شرح بہار شریعت سے ہورہی ہے۔
قصیدہ بردہ شریف کا یہ اشعار کہ 
دع ماادعتہ النصاری فی نبیھم
واحکم بما شئت مدحافیہ واحتکم ۔
فنسب الی ذاتہ ما شئت من شرف
وانسب الی قدرہ ماشئت من عظم
فان فضل رسول اللّٰه لیس کہ حد
فیعرب عنہ ناطق بفم
یعنی عیسائیوں نے اپنے نبی کے بارے میں جو دعویٰ کیا اسے چھوڑ دیجئے باقی جو تمہارے دل میں آئے حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرو اور اچھے طریقے سے مدح سرائی کرو 
حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے متعلق جو چاہیں نسبت قائم کریں اور آپ کے نسب کے متعلق جو عظمت منسوب کرنا چاہیں کرلیں 
پس بے شک حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کی کوئی حد نہیں کہ کوئی بولنے والا اپنی زبان سے آپ کی فضیلت بیان کرسکے
امام شرف الدین محمد بن سعید بوصیری قدس سرہ کے قصیدہ بردہ شریف کے اشعار ہیں جو بنام الفصل الثالث فی مدح النبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ کے تحت اشعار نمبر 42.43.44.45 ہیں جو بارگاہ رسول ﷲ صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں مقبول ہے جیسا کہ اس حکایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اور جب یہ اشعار مقبول بارگاہ رسالت میں ہے تو واضح ہوا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے افضال اوصاف اور کمالات اور رب کی نعمتیں اور بخشیشیں سب کی کوئی حد نہیں وہ حکایت یہ ہے کہ  
ایک دفعہ امام بوصیری پر اچانک فالج ہوگیا علاج معالجہ کیا مگر کچھ افاقہ نہ ہوا ۔ بیماری جب طول پکڑ گئی تو دوست احباب سے ساتھ چھوڑ گئے حتیٰ کہ عزیز و اقارب تک بیزار ہوگئے آخر ایک روز ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگی جائے چنانچہ آپ نے نہایت ہی بے بسی کی حالت میں یہ نعتیہ قصیدہ کہا اور بارگاہ رسالت میں عقیدت مندی کے پھول پیش کئے اور پھر کچھ عرصہ تک یہی قصیدہ پڑھتے رہیں حتیٰ کہ ایک روز روتے روتے سوگئے خواب میں حضور اکرم صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی آپ نے امام بوصیری کے جسم پر ہاتھ پھیرا تو جب امام بوصیری بیدار ہوئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ بالکل تندرست ہوگئے ہیں اور ان کا مرض جاتا رہا ۔یہ قصیدہ بردہ شریف 660ھ میں لکھا گیا تھا 
اس سے واضح ہوا کہ یہ قصیدہ بردہ شریف مقبول بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ہے جن میں یہ شعر بھی ہے کہ حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی فضلیت کی کوئی حد نہیں
قصیدہ بردہ شریف کے اشعار جن کے ایک شعر میں ہے کہ لیس لہ حد یعنی جس کی کوئی حد نہیں یعنی حد بمعنی انتہا
(فیروز اللغات ص 564)
یعنی کوئی انتہا نہیں جب انتہا نہیں اور انتہا بمعنی اخیر ۔حد
(فیروز اللغات ص 127)
تو پتہ چلا کہ غیر انتہا ہے یعنی کوئی حد نہیں ہے 
(10) دیکھا سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ اللّٰه سبحانہ و تعالیٰ کی نعمتیں اور بخشِشیں آپ پر غیر متناہی ہے (عقائد و کلام) 
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف کے اس عبارت سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو غیر منتناہی نعمتیں و بخشیشیں عطا فرمائے گئے ہیں یہاں حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف وکمالات کے لئے غیر متناہی کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یقینا یہ صحیح ہے کیونکہ خدا تعالیٰ رب قدیر کی عطا سے آپ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فضل وکمال لامحدود ہے  
اور اس قول میں احتمال شرک بھی نہیں ہے کیونکہ یہاں ذاتی نہیں بلکہ عطائی مراد ہے جس طرح حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا علم غیب عطائی ہے اور خدا تعالیٰ کا علم حقیقی و ذاتی و غیر متناہی ہے اس طرح عقیدہ رکھے کہ 
  (11) صفت الٰہی ذاتی ہے اور صفت مخلوق عطائی اور علم الٰہی ذاتی ہے اور علم خلق عطائی ۔ 
وہ واجب ہے/ یہ ممکن ہے 
وہ قدیم ہے / یہ حادث و نا مخلوق ہے 
 یہ مخلوق ہے / وہ نامقدور ہے  
یہ مقدور ہے/ وہ ضروری البقا ہے  
یہ جائز الفناء ہے/ وہ
ممتنع التغیر ہے  
یہ ممکن التبدل  
ان عظیم تفرقوں کے بعد احتمال شرک نہ ہوگا مگر کسی مجنون کو 
(12) اللّٰه تعالیٰ کے ناموں کا شمار نہیں :
 کہ اس کی شان غیر محدود 4ہیں رسول اللّٰه صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے اسمائے پاک بھی بکثرت ہیں (عقائد و کلام ص 135) 
(12) سرکار سیدی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد اعظم امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ اللّٰه عزوجل کے ناموں کا شمار نہیں: کہ اس کی شان غیر محدود ہے ۔ رسول اللّٰه صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اسمائے پاک بھی بکثرت ہیں : کہ کثرت اسماء شرف مسمی سے ناشی ہے ۔,آٹھ سو سے زائد مواہب و شرح مواہب میں ہیں ۔اور فقیر نے تقریبا چودہ سو پائے ۔اور حصر ناممکن (عقائد و کلام ص 135)
سرکار سیدی اعلیٰ حضرت عظیم البرکت کی اس عبارت میں لفظ حصر ناممکن ہے یعنی آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اسمائے مبارکہ کا احاطہ کرنا نا ممکن ہے کیونکہ آپ کے اوصاف حمیدہ محدود ہونے کے عیب سے پاک ہیں اور اسمائے مبارکہ اوصاف حمیدہ ہی تو ہیں 
(13) حضور رئیس الاتقیاء حضرت نقی علی خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
کثرت اسماء تا کثرت صفات پر دلالت کرے قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اسمائے شریفہ کا متضمن مدح ہونا آپ کے خصائص سے ہے (الکلام الاوضح فی تفسیر الم نشرح لک ص 356)
کسی نے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت سے عرض کی کہ یہ کثرت اسماء کثرت صفات پر دلالت کرتی ہے
ارشاد : ہاں (الملفوظ اعلی حضرت جلد اول ص 34)
اس سے واضح ہوا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے اسمائے مبارکہ کی گنتی نا ممکن ہے ہاں یہ کہنا زیادہ احتیاط ہے کہ بکثرت ہیں کیونکہ اسمائے مبارکہ کسی حد پر جاکر ٹھہریں گے اسی لئے مخلوق میں کوئی بھی ذاتی طور پر لامحدود نہیں ہے بلکہ رب قدیر کی عطا سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ کے اسمائے مبارکہ بھی بے شمار ہے جس کا حصر ناممکن ہے 
(14)خدا تعالیٰ حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو تمام ممکنہ صفات عطا فرمائے تو یہ نہ قدرت الٰہی پر دشوار اور نہ عزت وجاہت انبیاء کے لئے بسیار 
انبیاء اولیاء اور ملوک کے احوال و درجات ایک سے ایک بلند ہیں ۔اپ تمام مقامات میں آخری حد کی طلب میں ترقی فرماتے گئے ۔یہاں تک کہ سب مقامات کی انتہاء کا احاطہ کرلیا ۔ لہٰذا آپ کا مقام تمام مقامات سے اعلیٰ ہے اور آپ کا درجہ تمام درجات سے بلند ہے ۔اس کے بعد صرف اللّٰه جل شانہ ہے 
(مطالع المسبرات شرح دلائل الخیرات شریف) 
(15)حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ افضل جمیع مخلوق الٰہی ہیں کہ اوروں کو فرداً فرداً جو کمالات عطا ہوئے حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں وہ سب جمع کر دیئے گئے 
 اور ان کے علاؤہ حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو وہ کمالات ملے ہیں جن میں کسی کا حصہ نہیں بلکہ اوروں کو جو کچھ ملا حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے و طفیل میں ملا ہے بلکہ حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم کے دست اقدس سے ملا 
بلکہ کمال اس لئے کمال ہوا کہ حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ کہ صفت ہے اور حضور صلیٰ اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کے کرم سے اپنی نفس ذات میں کامل و اکمل ہیں
(16) آپ کے اتنے اوصاف حمیدہ ہیں کہ رسول صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وسلم کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں پہچانتا اور نہ کوئی جانتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:
 *یا ابا بکر لم یعرفنی حقیقۃ غیر ربی*. یعنی اے ابوبکر ! مجھے جیسا میں حقیقت میں ہوں میرے رب کے سوا کسی نے نہ جانا
اور نہ کوئی آپ کی کماحقہ تعریف کرسکتا ہے (17)مداح الحبیب مولانا جمیل الرحمٰن قادری رضوی علیہ الرحمہ بریلی شریف فرماتے ہیں 
غیر ممکن ہے ثنائے مصطفی
خود ہی واصف ہے خدائے مصطفی
سوال : صورت مسئولہ میں جو ایک عالم صاحب نے فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ کا فضل وکمال محدود ہیں اس پر ایک دوسرے عالم دین نے دوران تقریر ہی میں ان سے کہا کہ خدا تعالیٰ کی عطا سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فضل وکمال بھی لامحدود ہیں اس لئے آپ اس بات سے رجوع کریں لیکن وہ مقرر صاحب رجوع نہیں کہے تو ان دونوں میں کون حق پر ہے کیا حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فضل لامحدود ہیں ؟
 الجواب:- بے شک خدا تعالیٰ کی عطا سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ کا فضل وکمال کا کوئی حد نہیں ہے یعنی لا محدود ہیں جیسا کہ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے قصیدہ بردہ شریف میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مدح میں لیس لہ حد فرمایا کہ آپ کے فضل کا کوئی حد نہیں ہے یعنی لامحدود ہیں غیر منتناہی ہے اور یہ قصیدہ بردہ شریف رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مقبول ہے اور اس کو سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت نے برقرار رکھا اور سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ نے الملفوظ اعلی حضرت میں بیان فرماکر برقرار رکھا لہذا یہ مولانا صاحب حق بجانب ہے اور وہ مقرر صاحب اس قول کو قبول نہیں کیا اور نہ اپنے قول کی وضاحت فرمائی وہ حق بجانب نہیں ہے اگر اس کا یہی عقیدہ ہے تو اسے توبہ کرنے کا حکم شرع ہے
(16) اس مقرر کا یہ کہنا کہ اللّٰه کی جو صفات ہے اگر اس میں سے کوئی صفت حضور کے لئے مانے تو یہ شرک ہے
الجواب:- یہ قول صحیح نہیں ہے ہاں اگر حقیقی و ذاتی معنی کے اعتبار سے کہا تو حق بجانب ہے لیکن یہاں ذاتی قید نہیں ہے بے شک خدا تعالیٰ نے اپنی اوصاف حمیدہ کا حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ کو مظہر بنایا  
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں
محمد مظہر کامل ہے حق کی شان عزت کا
نظر آتا ہے اس کثرت میں کچھ انداز وحدت کا
یعنی محمد صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مظہر کامل ہے یعنی بے مثل خدا نے آپ کو بے مثل بنایا ہے
خدا تعالیٰ رؤف ہے تو حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو رؤف کہا اللّٰه تعالیٰ رحیم ہے تو اس نے حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ کو رحیم کہا رسول اکرم سمیع بھی ہیں علیم بھی ہیں غنی و معطی ہے
رسول اللّٰه صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ کو لاکھوں فضائل وکمالات عالیہ ایسے عطا ہوئے کہ کسی نبی و رسول کو نہ ملے۔ خدا تعالیٰ کی صفت حقیقی و ذاتی ہے اور رسول ﷲ صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی صفت عطائی ہے  
  لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ خدا تعالیٰ کی جو صفات ہیں اگر ان صفت میں سے کوئی صفت حضور کے لئے عطائی مانے تو یہ شرک ہے یہ قول گمراہی و ضلالت ہے اس سے توبہ و استغفار کرے کیونکہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تمام صفتیں 
نعمتیں برکتیں افضال و اکرام اور خصائص سب بعطائے رب قدیر ہے اور خدا عطا کرنے پر قادر مطلق ہے ا
 آپ سب گواہ رہیں کہ فقیر محمد ثناءاللہ خان ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی کا عقیدہ یہ ہے کہ 
 (1) اللّٰه ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں کہ : لاالہ الا اللّٰه یعنی الل ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں
(2) نہ صفات میں کہ (لیس کمثلہ شئ) یعنی اس جیسا کوئی نہیں
(3) نہ اسماء میں: کہ (ھل تعلم لہ سمیا ) کیا اس کے نام کا دوسرا جانتے ہو؟
(4) نہ احکام میں: کہ ( ولایشرک فی حکمہ احدا) یعنی اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا 
(5) نہ افعال میں: کہ 
(ھل من خالق غیر اللّٰه) یعنی کیا اللّٰه کے سوا کوئی اور خالق ہے ؟
(6) نہ سلطنت میں : کہ (ولم یکن لہ شریک فی الملک) یعنی اور بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں
تو جس طرح اس کی ذات اور ذاتوں کے مشابہ نہیں ۔ یونہی اس کی صفات بھی صفات مخلوق کے مماثل نہیں 
(18) سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ افعال عباد جمیع وتمام وکمال بلا تخصیص و بلا استثناء مخلوق الہی ہیں۔
(عقائد و کلام ص 83) 
اور یہ جو ایک ہی نام کا اطلاق اس پر اور اس کی مخلوق پر دیکھا جاتا ہے۔جیسے علیم ۔حکیم ۔کریم سمیع 
بصیر اور ان جیسے اور ۔ تو یہ محض لفظی موافقت ہے 
نہ کہ معنوی شرکت اس میں حقیقی معنی میں کوئی مشابہت نہیں (عقائد و کلام ص 93)
سوال : کیا دونوں صاحبان میں نزاع لفظی ہے ؟
الجواب : نہیں نزع لفظی نہیں ہے  
نزع لفظی کسے کہتے ہیں؟
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
ائمہ اہل سنت میں جو مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے اگرچہ بعض ناظرین ظواہر الفاظ سے دھوکہ کھائیں مگر عند التحقیق اس کا حاصل نزاع لفظی یا ایسی ہی کسی ہلکی بات کی طرف را جع ہوا ہے۔
پھر ایک فریق کے دوسرے پر الزامات حقیقۃ اپنے معنی مراد پر ہیں جس سے دوسرے کا ذہن خالی ہے نہ اس کی مراد سے انہیں تعلق نہ اسے دیکھ کر کوئی رسول کہ سکتا ہے کہ وہ امر جس کا الزام دیا گیا فریقین میں مختلف فیہ ہے۔
(عقائد و کلام ص 415) 
مثلا ایمان مخلوق ہے یا غیر مخلوق ؟
امام عارف باللہ حارث محاسبی۔ و جعفر بن حرب ۔و ائمہ سمرقند اول کے قائل ہیں ( یعنی ایمان مخلوق ہے) اور اسی طرف امام ہمام ابو الحسن اشعری قدس سرہ مائل ۔بلکہ اسی پر امام الآئمۃ سراج الائمۃ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نص شریف دلیل کامل ہے اور امام عماد السنہ احمد بن حنبل وغیرہ جماعت محدثین سے قول ثانی منقول (یعنی ایمان غیر مخلوق ہے) یونہی مسئلہ زیادت و نقصان ایمان ۔کہ قدیم سے مختلف فیہا ہے ۔امام رازی وغیرہ بہت محققین اسے بھی نزاع لفظی پر اتارتے ہیں۔
(عقائد و کلام ص 416)
اس سے واضح ہوا کہ عام طور سے ائمہ اہل سنت کے مابین مسائل اصولی میں بھی اختلاف نزاع لفظی کی حد تک رہتا ہے مگر 
اور یہاں صورت مسئولہ میں یہ مسئلہ کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات ہیں وہ ذاتی ہے اور حضور صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی جو صفت عطا ہوئی وہ اللہ کی طرف سے عطائی ہے قدیم سے یہ مختلف فیہ نہیں ہے اور نہ ابھی ہے اس لئے یہ نزع لفظی نہیں کہلائے گا۔
خطیب صاحب نے یہ کہا کہ اللّٰه تعالیٰ کی جو صفات ہیں اگر اس میں سے کوئی صفت حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مانے تو یہ شرک ہے اس کے جواب میں دوسرے عالم صاحب نے کہا یہ بھی آپ غلط بول رہے ہیں چونکہ اللّٰه کی جو صفات ہیں وہ ذاتی ہے اور حضور صلیٰ اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جو صفت عطا ہوئی وہ اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے عطائی ہے تو شرک کیسے ہو جائے گا ؟
الجواب : اس بات کو سننے کے بعد اس خطیب صاحب کو کہنا چاہئے کہ میری مراد ذاتی صفت ہے نہ کہ عطائی صفت ہے لیکن وہ خاموش ہوگئے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے جب یہ خلاصہ کردیا گیا کہ حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صفات عطائی ہیں تو یہ شرک کیسے ہوگا ؟ اور نہ نزاع لفظی ہوا اس پر اس خطیب کو اپنے قول سے رجوع کرلینا چائے تھا کہ لیکن رجوع نہ کیا اس سے واضح ہوا کہ اگر اس خطیب کا یہ عقیدہ ہے کہ اللّٰه تعالیٰ کے جو صفات ہیں اگر اس میں سے کوئی صفت حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے عطائی بھی مانے تو یہ شرک ہے یہ قول صحیح نہیں ہے ایسا قائل گمراہ بدمذہب ہے اسے توبہ کا حکم ہے جبکہ وہ حقیقی ذاتی صفات کا نہیں بلکہ عطائی صفات کا انکار کیا ہے 
نہ نزع فلسفی ہے اور نہ نزع لفاظی ہے بلکہ حق اور ناحق کی بات ہے یعنی ذاتی اور عطائی کا تفرقہ ہے
صورت مسئولہ میں جس قول سے سوال ہے آخر اس کا کیا مطلب ہوگا بلکہ یہ قول دو حال پر ہے 
(1) ذاتی صفت 
(2) عطائی صفت 
جب تک ذاتی و عطائی کے فرق پر ایمان نہ لاوگے ۔کبھی قرآن و حدیث اور اقوال ائمہ کے قہروں سے پناہ نہ پاوگے اور اس پر ایمان لاتے ہی تمہاری شرکیات کے راگ کافور ہو جائیں گے 
جس قول کو ہم اسلاف کے موافق پائیں گے تسلیم کریں گے نہ اس لئے کہ یہ اس کا قول ہے بلکہ اس لیے کہ صراط مستقیم کے مطابق ہے ۔اور جس کی بات خلاف پائیں گے تسلیم نہیں کریں گے کہ وہ صراط مستقیم کے خلاف ہے 
صفت الہی ںعطائے الہی نہیں ۔تو جو بعطائے الہی ۔وہ صفت آلہی نہیں
آدمی اگر عقل و ہوش سے کچھ بہرا رکھتا ۔ہو 
تو بعطائے رب قدیر کا لفظ آتے شرک کا خاتمہ ہوگیا جو عطا رب قدیر ہے وہ حقیقی ذاتی نہیں بلکہ عطائی ہے 
  اللّٰه تعالیٰ نے آپ کو دنیا و آخرت میں بے شمار خصائص و امتیازات سے نوازا ہے ۔جس کا احاطہ کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں بس خدا تعالیٰ کے علم میں ہے 
 سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں
رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو لاکھوں فضائل و کمالات عالیہ ایسے عطا ہوئے ۔ کہ کسی نبی و رسول کو نہ ملے (عقائد وکلام ص 503)
(19)اوصاف کے دو اقسام ہیں
(1) ایک یہ کہ ذاتی کہ اپنی ذات سے بے عطائے غیر ہو 
(2) دوسرا کہ عطائی کہ اللہ عزوجل کا عطیہ ہو 
اولا :اللہ عزوجل کے لئے خاص حقیقی و ذاتی ہے 
اللہ عزوجل کا علم غیب اور تمام صفات ذاتیہ ۔ازلی ابدی لازم ذات الٰہی ہیں (عقائد و کلام ص 96)
دوئم حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فضل کی کوئی حد نہیں ہے جیسا کہ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ 660ھ میں کہا کہ فان فضل رسول اللہ لیس لہ حد یعنی رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فضل و کمال لامحدود ہے(یعنی بعطائے رب قدیر) 
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں
رسول ﷲ صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو لاکھوں فضائل وکمالات عالیہ ایسے عطا ہوئے ۔ کہ کسی نبی ورسول کو نہ ملے۔
(عقائد و کلام ص 503)
(20) شرک کسے کہتے ہیں
 جواب :- حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک ہے ذات میں شریک ٹھہرانے کا مطلب یہ ہے کہ دو سے زیادہ خدا جانے جیسے عیسائی کہ تین خدا مان کر مشرک ہوئے اور جیسے ہندو کی کئی خدا ماننے کے سبب مشرک ہیں اور صفات میں شریک ٹھہرانے کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کی طرح کسی دوسرے کے لئے کوئی صفت ثابت کرے ۔مثلا سمع (سننا) اور بصر (دیکھنا ) وغیرہ جیسا کہ خدا ئے تعالیٰ کے لئے بغیر کسی کے دیئے ذاتی طور پر ثابت ہے اسی طرح کسی دوسرے کے لئے سمع اور بصر وغیرہ ذاتی طور پر مانے کہ بغیر خدا کے دیئے اسے یہ صفتیں خود حاصل ہیں تو شرک ہے اور کسی دوسرے کے لئے عطائی طور پر مانے کہ خدا تعالیٰ نے اسے یہ صفتیں عطا کی ہیں تو شرک نہیں جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے۔ خود انسان کے بارے میں فرمایا:فجعلنہ سمیعا بصیرا یعنی ہم نے انسان کو سمیع و بصیر بنایا۔
(انوار شریعت ص 14)
اس سے واضح ہوا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بے انتہا اوصاف حمیدہ بعطائے رب قدیر ہے 
 حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ کے اوصاف غیر متناہی ہے بے شک 
اللّٰه رب قدیر کی عطا سے رسول اکرم صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ کے اوصاف اس قدر ہیں کہ جن کا شمار اللّٰه تعالیٰ ہی جانتا ہے کسی مخلوق کو رسائی نہیں
جیسا کہ علم غیب کے متعلق عقیدہ ہے کہ رسول ﷲ صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا علم تمام جہاں کے علم سے وسیع تر ہے 
حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کسی کے طفیل میں نہیں وہ ذات الہی سے بلا واسطہ پیدا ہوئے ہے تعظیم کے تمام اقسام تعظیم کے ساتھ جن میں اللّٰه تعالیٰ کے الوہیت میں شریک کرنا نہ ہو ۔ہر طرح امر مستحسن ۔ ان کے نزدیک جن کی آنکھوں کو اللہ نے نور بخشا ہے 
 جب امام بوصیری رحمۃ اللّٰه علیہ کے قصیدہ بردہ شریف جن میں یہ شعر ہے کہ 
فان فضل رسول اللّٰه لیس لہ حد (اس کا ترجمہ الملفوظ اعلی حضرت میں لکھا ہوا ہے کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کے فضل کی کوئی انتہا ہی نہیں ۔الملفوظ اعلی حضرت جلد دوم ص 60) خیال رہے کہ یہ قصیدہ بردہ شریف مقبول بارگاہ رسالت صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے تو یہ کہنا جائز ہے کہ خدا تعالیٰ کی عطا سے حضور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فضل کی کوئی انتہا نہیں ہے , اور الملفوظ میں بھی لیس لہ احد کا یہی ترجمہ ہے بس واضح ہوا کہ اور جو انتہا نہیں وہ غیر متانی ہے  
(21) سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ
بلاشبہ جتنے فضائل و کمالات خزانہ قدرت میں ہیں سب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمائے گئے اللہ عزوجل فرماتا ہے ویتم نعمتہ علیک اللہ اپنی تمام نعمتیں تم پر پوری کرے گا ۔لازم ہے کہ کہ الوہیت کے نیچے جتنے فضائل جس قدر کمالات جتنی نعمتیں جس قدر برکات پیں مولی عزوجل نے سب اعلی درجہ کمال پر حضور کو عطا فرمائیں۔
(الملفوظ اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلی شریف جلد دوم ص 40)
الحمدللہ رب الوہیت مستلزمات (جن چیزوں سے خدا ہونا لازم آئے) سے نیچے جو کچھ فضیلت ۔مرتبہ ۔خوبی ۔بزرگی ہے ۔سب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو شایان ہے ۔بشر و ملک کسی کی تعریف کو حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف سے کچھ نسبت نہیں۔
(عقائد و کلام ص 388)
الحاصل : وہ مقرر صاحب جتنے اقوال بیان کئے ہیں ان تمام اقوال کے متعلق وضاحت بیان کریں کہ ان کی کیا مراد ہے ؟حقیقی ذاتی مراد ہے یا عطائی مراد ہے ؟ ان اقوال میں دونوں احتمالات ہیں کیونکہ کسی قول میں ذاتی یا عطائی مراد کی قید نہیں ہے اس لئے وہ حق بجانب نہیں ہے بلکہ معترض نے عطائی کے ساتھ بیان کیا پھر بھی وہ رجوع نہیں کرسکے اس لئے جب تک وہ اپنی وضاحتی بیان نہ کریں کہ ان کی مراد کیا ہے ؟ وہ حق بجانب نہیں ہے اور جو عالم صاحب نے ان پر اعتراض کرتے ہوئے بیان کیا کہ آپ غط بول رہے ہیں چونکہ خدا تعالیٰ کی عطا سے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فضل وکمال بھی لامحدود ہے وہ عالم صاحب حق بجانب ہیں اور ان کو کسی قول سے رجوع کرنے کی حاجت نہیں چونکہ وہ اپنے سب اقوال میں بعطائے رب قدیر کی قید سے عطائی مراد لے رہے ہیں اور ان کے سب اقوال کو قصیدہ بردہ شریف ۔فتاوی رضویہ ۔الملفوظ اعلی حضرت اور حدائق بخشش اور عقائد و کلام جو فتاوی رضویہ سے ماخوذ مسائل کلامیہ کا مجموعہ بنام عقائد و کلام سے اور شرح بہار شریعت سے تائید حاصل ہے جو فضائل کے لئے کافی ہے 
آدمی کو اس کی انانیت نے ہلاک کیا ۔گناہ کرتا ہے ۔ اور جب اس سے کہا جائے : توبہ کر تو اپنی کسر شان سمجھتا ہے ۔ عقل رکھتا تو اصرار میں زیادہ ذلت وخواری جانتا 
اے شخص ؛ ہر گز منصب علم کے منافی نہیں کہ حق کی طرف رجوع کیجئے ۔بلکہ یہ عین مقتضائے علم ہے ۔ اور سخن پروری ہر بدتر ہر جہل سے بدتر جہل ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
محمد محب اللہ خان
ڈائریکٹر مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آذاد چوک مہسول سیتا مڑھی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area