Type Here to Get Search Results !

جب شوہر کا نطفہ غالب ہوتا ہے تو لڑکے کی ولادت ہوتی ہے کیا یہ بات درست ہے؟

اس فتوی کا رد بلیغ
(سوال نمبر 710)
جب شوہر کا نطفہ غالب ہوتا ہے تو لڑکے کی ولادت ہوتی ہے کیا یہ بات درست ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ جب شوہر کا نطفہ غالب ہوتا ہے تو لڑکے کی ولادت ہوتی ہے کیا یہ بات درست ہے؟
شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا کثیرا 
سائلہ:- خوشنما فاطمہ اسماعیلیہ چندواڑا ایم پی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم 
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مذکورہ صورت میں یہ بات درست ہے کہ جب مرد کا نطفہ غالب ہوتا ہے تو بیٹا پیدا ہوتا ہے اور اگر عورت کا نطفہ غالب ہو تو لڑکی پیدا ہوتی ہے کیوں کہ عورت کے رحم میں دو خانہ ہوتے ہیں دایاں خانہ لڑکے کے لئے ہوتا ہے اور بایاں خانہ لڑکی کے لئے ہوتا ہے
فتاوٰی رضویہ میں ہے 
عورت کے رحم میں دو خانے ہیں داہنا خانہ لڑکے کے لئے اور بایاں لڑکی کے واسطے، اور نطفہ مرد کا غالب آئے تو لڑکا بنتاہے اور عورت کا غالب پڑا تو لڑکی بتنی ہے پھر اگر مردکا نطفہ غالب آیا اور رحم کے سیدھے خانے میں پڑا تو لڑکی ہوگی، ظاہر وباطن عورت اور اگر نطفہ مرد کا غالب آیا اور رحم کے بائیں خانے میں گرا تو ایسی صورت میں لڑکا ہوگا
(فتاوی رضویہ جلد 21 ص 126)
حاصل کلام یہ ہے کہ مرد کا نطفہ بھی غائب ہو اور دوخانوں میں سے بائیں خانہ میں پڑے تو لڑکا ورنہ لڑکی۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کتبتہ کنیز فاطمہ قادریہ رضویہ شہر کانپور فقہی مسائل برائے خواتین شرعی سوال و جواب
۱۸/۱۰/۲۰۲۴
تصحیح و تصدیق حضرت مفتی محمد مجیب قادری حنفی العربی دار الافتاء البرکاتی علماء فاؤنڈیشن شرعی و جواب ضلع سرہا نیپال
۱۹/۱۰/۲۰۲۴
اس فتویٰ کا رد بلیغ ملاحظہ فرمائیں
 مجھے تعجب ہے کہ مفتی اسلام حضرت مولانا مفتی محمد مجیب صاحب سلمہ نے بغیر سمجھے تصدیق کیسے فرمادیئے خیر 
اوپر والے فتویٰ میں لکھا ہوا ہے کہ 
(1) پھر اگر مرد کا نطفہ غالب آیا اور رحم کے سیدھے خانے میں پڑا تو لڑکی ہوگی۔
اس کا معنی ہوا کہ اگر مرد کا نطفہ عورت کے سیدھے رحم میں پڑا تو لڑکی ہوگی جبکہ یہ صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ لڑکا ہوگا  
جیسا کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرمایا ہے کہ 
پھر اگر مرد کا نطفہ غالب آیا اور رحم کے سیدھے خانے میں پڑا تو لڑکا ہوگا۔
اگر مرد کا نطفہ غالب آیا اور رحم کے بائیں خانے میں گرا تو ہوگا صورت میں لڑکا ۔مگر دل میں زنانہ۔
یہی صحیح عبارت ہے
(2)پھر آپ نے فتوے کا حاصل کلام لکھا ہے کہ 
حاصل کلام یہ ہے کہ مرد کا نطفہ بھی غالب ہو اور دو خانون میں سے بائیں خانہ میں پڑے تو لڑکا ہوگا ورنہ لڑکی۔
یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ صحیح یہ ہے کہ اگر دونوں خانون کے سیدھے خانے میں پڑا تو لڑکا اور بائیں خانے میں گرا تو ہوگا صورت میں لڑکا ۔مگر دل میں زنانہ جیسا کہ اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اگر مرد کا نطفہ غالب آیا اور رحم کے بائیں خانے میں گرا تو ہوگا صورت میں لڑکا ۔مگر دل میں زنانہ۔
اس میں یہ نہیں لکھا ہوا ہے 
کہ مرد کا نطفہ غالب آیا اور دونوں خانون میں پڑے تو لڑکا ہوگا ورنہ لڑکی۔
(3), آپ کے فتوی میں حوالہ بھی غلط ہے آپ لکھتے ہیں فتاوی رضویہ جلد 21 ص 126 یہ غلط حوالہ ہے بلکہ یہ فتوی فتاوی رضویہ جلد جدید 21 ص 600 پر ہے 
مجھے تعجب ہے کہ مفتی اسلام حضرت مولانا مفتی محمد مجیب صاحب سلمہ نے بھی بغیر سمجھے اور مطالعہ کئے تصدیق فرمادیئے ان کو کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی تصدیق فرمانا چاہئے*.
  فتاوی رضویہ کو سمجھنا آسان نہیں ہے کسی فتوی کو کتاب سے نقل کرے وقت دھیان دینا۔ چایئے مطالعہ کرنا چاہیے پھر نقل فرماتے 
فتاوی رضویہ کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں 
 الجواب بعون الملک الوہاب 
صورت مسئولہ میں سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ 
،عورت کے رحم میں دو خانے ہیں داہنا خانہ لڑکے کے لئے اور بایاں لڑکی کے واسطے ۔اور نطفہ مرد کا غالب آئے گا تو لڑکا بنتا ہے اور عورت کا غالب پڑا تو لڑکی بنتی ہے
پھر اگر مرد کا نطفہ غالب آیا اور رحم کے سیدھے خانہ میں پڑا تو لڑکا ہوگا ۔ظاہر و باطن مرد ۔اور عورت کا نطفہ غالب آیا اور رحم کے بائیں خانے میں پڑا تو لڑکی ہوگی ظاہر و باطن عورت ۔ ۔اور اگر نطفہ مرد کا غالب آیا اور رحم کے بائیں خانے میں گرا تو ہوگا صورت میں لڑکا ۔مگر دل میں زنانہ ۔اسے داڑھی منڈانے 
گہنا پہننے ۔ہاتھ پاؤں میں مہندی لگانے ۔عورتوں کے سے بال بڑھا کر چوٹی گندھوانے یا جوڑا باندھنے یا بکھرے ہوئے رکھنے 
کلیوں دار غرارہ دار پائنچہ پہننے سرخ نیفہ ڈالنے وغیرہ وغیرہ کسی زنانی وضع کا شوق ہوگا اور اس حالت میں مرد کا نطفہ خفیف غالب تھا تو بالکل زنانہ زنخہ بن جائے گا 
اور اگر نطفہ عورت کا غالب آیا اور رحم کے داہنے خانے میں گرا تو ہوگی صورت میں لڑکی مگر دل میں مردانی ۔اسے انگرکھا پہننے ۔ٹوپی رکھنے ۔عمامہ باندھنے ۔گھوڑے پر چڑھنے ۔تلوار اٹھانے ۔تیر اندازی کرنے 
مردانہ جوتا پہننے وغیرہ وغیرہ کسی مردانی وضع کا ذوق ہوگا بہر حال یہ خانے بہکے ہوئے اللہ و رسول صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وسلم کے ملعون ہیں ۔رسول اللّٰه صلی ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللّٰه کی لعنت اس مرد پر کہ عورتوں کے پہننے کی چیز پہنے اور اس عورت پر کہ مردوں کی چیز استعمال کرے
( فتاویٰ رضویہ جلد 21 ص 600 اور تلخیص فتاوی رضویہ جلد ششم ص 92 ۔93) 
الحاصل : جو لڑکا عورت کی طرح شوق رکھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر مرد کا نطفہ غالب آیا اور عورت کے بائیں رحم میں گرا تو اس نطفہ سے جو لڑکا پیدا ہوگا وہ ہوگا مرد لیکن عورت کی طرح شوق رکھے گا یعنی گہنا پہننے کا شوق ۔مہندی لگانے کا شوق بال بڑھا کر چوٹی گندھوانے کا شوق وغیرہ رکھتا ہے 
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 30 ربیع الثانی 1446
3 نومبر 2024
حضور مفتی اعظم بہار کا ایک فتویٰ بنام اس فتوے سوال نمبر 110 کتبۃ کنیز فاطمہ کانپور 
اور تصحیح وتصدیق کردہ حضرت مفتی مجیب قادری حنفی العربی دارالافتاء البرکاتی علماء فاؤنڈیشن و جواب ضلع سرہا نیپال ١٩/١٠/٢٠٢٤
کے رد بلیغ کے جواب پر ایک اشکال اور اس کا جواب
من جانب (مفتی) محمد علی زین اللّٰه قادری
بانئ : دارالافتاء والقضاء شاخ مفتی اعظم بہار ممبئی 
سوال : کیا فرماتے ہیں حضور مصباح ملت مفتئ اعظم بہار حضرت مولانا مفتی محمد ثناء اللّٰه خان ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار  
اس مسئلے میں کہ رضا فاؤنڈیشن جامع نظامیہ رضویہ اندرون لوہاری دروازہ لاہور پاکستان سے جو فتاوی رضویہ جلد ۲۱ صفحہ ٦٠٠ 
اور فتاویٰ رضویہ جلد ٢١ صفحہ ٦٠٠ 
 رضا اکیڈمی ممبئی سے چھپی ہے
اور فتاویٰ رضویہ جلد ٢١ صفحہ ١٢٦ دعوت اسلامی ایپ 
 اس میں لکھا ہوا ہے کہ 
اگر مرد کا نطفہ غالب آیا اور رحم کے سیدھے خانے میں پڑا تو لڑکی ہوگی
 حضور مفتی اعظم بہار کا ایک فتوی بنام اس فتوی کا رد بلیغ کے جواب پر ایک اشکال اور اس کا جواب۔
سوال : کیا فرماتے ہیں حضور مصباح ملت مفتئ اعظم بہار حضرت مولانا مفتی محمد ثناء اللّٰه خان ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار اس مسئلہ میں کہ رضا فاؤنڈیشن جامع نظامیہ رضویہ اندرون لوہاری دروازہ لاہور پاکستان سے جو فتاوی رضویہ جلد ۲۱
اور رضا اکیڈمی ممبئی اور دعوت اسلامی ایپ چھپی ہے اس میں لکھا ہوا ہے کہ 
اگر مرد کا نطفہ غالب آیا اور رحم کے سیدھے خانے میں پڑا تو لڑکی ہوگی۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۱ 
اور آپ اپنے فتوے میں لکھتے ہیں کہ 
اگر مرد کا نطفہ غالب آیا اور رحم کے سیدھے خانے میں پڑا تو لڑکا ہوگا بحوالہ تلخیص (فتاوی رضویہ جلد ششم ص ۹۲) 
ان دونوں میں صحیح فتویٰ کون سا ہے ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی 
بینوا و توجروا 
المستفتی 
(مفتی ) محمد علی زین اللّٰه خان قادری رضوی ثنائی 
بانئ: شاخ دارالافتاء والقضاء مفتئ اعظم بہار ممبئی 
نیتا جی نگر گھاٹکوپر مشرق ممبئی مہاراشٹرا 400077
موبائل نمبر 
9329882932
مورخہ ۱ جمادی الاول بمطابق 4 نومبر 2024
الجواب : جو فقیر قادری نے لکھا وہی صحیح فتویٰ ہے  
فتاوی رضویہ جو پاکستان سے چھپی ہے اور دیگر دونوں مطبوعہ کی کتاب اس میں کاتب سے غلطی ہوئی ہے 
سب سے پہلے سمجھا جائے کہ جب مفتی صاحبان کتاب سے جزیہ یا عبارت نقل فرماتے ہیں وہ سوال اور جواب کا بار بار مطالعہ کریں پھر اگر صحیح لگے تو نقل فرمائیں ورنہ دوسری کتاب سے ملائیں 
جو فتاویٰ رضویہ رضا فاونڈیشن اور رضا اکیڈمی سے اور دعوت اسلامی ایپ سے چھپی ہے اس میں کاتب نے غلطی کی ہے
 اور جو فتاویٰ رضویہ مرکز اہل سنت برکات رضا 
امام احمد رضا روڈ پور بندر گجرات سے چھپی ہے اس کی یہ عبارت صحیح ہے کیونکہ 
(1) اولا اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ اسی عبارت کے اوپر تحریر فرماتے ہیں کہ عورت کے رحم میں دو خانے ہیں داہنا خانہ لڑکے کی لئے اور بایاں خانہ لڑکی کے واسطے ۔
اور نطفہ مرد کا غالب آیا تو لڑکا بنتا ہے اور عورت کا غالب پڑا تو لڑکی بنتی ہے (فتاوی رضویہ جلد جدید ۲۱ ص ٦٠٠) 
یہ فتوی ۲ ذی الحجہ ۱۳۳۲ ھ کا ہے 
اس عبار ت سے صاف ظاہر ہوگیا کہ اگر مرد کا نطفہ غالب آیا تو لڑکا بنتا ہے نہ کہ لڑکی اس عبارت کو دھیان سے پڑھا جائے یہیں سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے جب اوپر عبارت میں آگیا کہ لڑکا بنتا ہے تو پھر نیچے لڑکی کیوں ہوگا یہ اس بات پر دلالت ہے کہ یہ عبارت صحیح نہیں ہے  
(2) دوسری وجہ یہ ہے کہ جب فتاویٰ رضویہ کو ١٤٤٠ ھ میں امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف کی طرف سے بنام 
تلخیص فتاوی رضویہ کے نام سے شائع کیا گیا تو اس کی جلد ششم صفحہ ٩٢ پر وہی عبارت ہے جو فتاویٰ رضویہ مرکز اہل سنت برکات پور بندر سے چھپی ہے فتاویٰ رضویہ جلد جدید ٣٠ جلدوں والی, کے تقریبا ١٠٨ , سال کے بعد تلخیص فتاویٰ رضویہ چھپی ہے اگر لاہور والی جلد کی عبارت صحیح ہوتی تو تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص ٩٢ میں اسی عبارت کو مفتیان کرام نقل فرماتے ہیں لیکن اس عبارت کو نقل نہ فرما کر پور بندر والی شائع کردہ فتاویٰ رضویہ کی عبارت نقل فرماتے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لاہور والی کتاب کی عبارت صحیح نہیں ہے اور
پور بندر والی عبارت صحیح ہے
(3)تیسری بات اکثر کتابوں میں کاتب سے غلطی ہوجاتی ہے جیسے کہ فتاویٰ رضویہ میں ایک جگہ ہے 
یضح بالجماء ھی التی لا قرن لھا خلقۃ و کذا العظماء التی ذھب بعض قرنھا بالکسر او غیرہ فان بلغ الکسر الی المخ ثم لن یجز 
قہستانی۔ ۔یعنی جماء کی قربانی جائز ہے یہ وہ ہے کہ جس کے سینگ پیدائشی طور پر نہ ہوں ۔اور یوں عظماء بھی جائز ہے یہ وہ ہے جس کے سینگ کا کچھ حصہ ٹوٹا ہوا ہو ۔اور غیر میں اگر سینگ مخ سمیت ٹوٹا ہوتو جائز ہو۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید ۲۰ ص ٤٥٦) 
اس ترجمہ میں لم یجز کا ترجمہ جائز ہے کیا گیا ہے جبکہ لم یجز کا معنی جائز نہیں ہے یہاں بھی کاتب سے اور تصحیح کرنے والے سے یا نظر ثانی کرنے والے سے غلطی ہوئی تو اسی طرح صورت مسئولہ میں کاتب تصحیح کرنے والے اور نظر ثانی کرنے والے سے غلطی ہوئی ہے تو مفتی صاحب جب اس عبارت کو نقل فرمائیں گے تو ترجمہ من عن نقل نہیں کرنا ہوگا بلکہ اصلاح کرکے لکھنا ہوگا 
(4) چوتھی بات کہ لاہور والی فتاویٰ رضویہ میں جو لکھا ہے وہاں عبارت نقل کرنے والے سے غلطی ہوئی ہے اور جس نے فتوے کو نقل کیا اس نے بھی اصلاح نہیں کی ناہی جس نے تصدیق کی اس نے اصلاح کی اور من عن لکھ کر سائل کو جواب دے دیئے جس سے سائل کے علاوہ اور لوگوں کے اور جو علم رکھتے ہیں ان سب کے متنفر ہونے کا امکان زیادہ ہے
 اس لئے عبارت کو صحیح سے پڑھ کر سمجھ کر نقل فرمائیں تاکہ شک وشبہ پیدا نہ ہو 
کنیز فاطمہ قادریہ رضویہ شہر کانپور کو بھی عبارت کو سمجھ کر لکھنے کی ضرورت تھی اور تصدیق کردہ مفتی مجیب قادری صاحب نیپال کو بھی تصدیق کرتے وقت اس پر دھیان دینا چایئے تھا مگر دونوں سے سہو ہوگیا 
اللّٰه سبحانہ و تعالیٰ اصلاح کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آمین یارب العالمین 
واللّٰه اعلم باالصواب
کتبہ 
محمد ثناء اللّٰه خان ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار 
ایک جمادی الاول 1446 
4 نومبر 2024 بن
(1) تحقیقات مشائخ بریلی کے خلاف
(2) نہ سننے کو ہم تیار
(3) میں کرتا ہوں ہمیشہ ہوشیار
کہ میرا نام ہے ثناءاللّٰه وفادار
رجوع نامہ
کنیز فاطمہ قادریہ رضویہ نے اپنے پہلے فتوے سے اور مفتی مجیب صاحب لھان نیپال اپنی تصدیق سے رجوع فرما لیئے ہیں اور پہلے فتوے کو کالعدم کرتے ہوئے دوسرا فتوی بھیج چکے ہیں۔
مزید قابل مبارک باد ہیں حضور مفتی اعظم بہار کہ انہوں نے ہم لوگوں کی اس مسئلہ میں رہبری فرمائی اور تمام ایڈیشن سے شائع کردہ فتاوی رضویہ کے متعلق تمام اشکال کا حل فرمایا
من جانب
مفتی محمد علی زین اللّٰه خان قادری رضوی ثنائی خلیفۂ حضور مفتی اعظم بہار
بانئ : دار الافتاء والقضاء شاخ مفتی اعظم بہار ممبئی نیتاجی نگر گھاٹکوپر مشرق ممبئی مہاراشٹرا
موبائل نمبر 9320882932
سوال نمبر 710
جب شوہر کا نطفہ غالب ہوتا ہے تو لڑکے کی ولادت ہوتی ہے کیا یہ بات درست ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰه و برکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
جب شوہر کا نطفہ غالب ہوتا ہے تو لڑکا کی ولادت ہوتی ہے کیا یہ بات درست ہے؟
شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللّٰه خیرا کثیرا 
*سائلہ خوشنما فاطمہ اسماعیلیہ چندواڑا ایم پی انڈیا*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم 
وعلیکم السلام ورحمۃ اللّٰه وبرکاتہ 

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ہاں یہ بات درست ہے کہ مرد کا نطفہ اگر غالب آ جائے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے اور اگر عورت کا نطفہ غالب آ جائے تو لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ 
اس کی تفصیل یہ ہے کہ عورت کے رحم میں دو خانے ہیں۔ 
داہنا خانہ لڑکے کے لیے خاص ہے اور بایاں خانہ لڑکی کے لئے خاص ہے  
1) تو لڑکا پیدا ہونے کے لئے مردکا نطفہ بھی غالب ہو اور نطفہ سیدھے خانے میں بھی پڑے۔ 
2) اور لڑکی پیدا ہونے کے لئے عورت کا نطفہ غالب ہو اور نطفہ بھی بائیں خانے میں ہی پڑے۔ 
3) اور تیسری صورت جو مذکورہ دونوں صورتوں سے الگ ہے ۔ 
مرد کا نطفہ تو غالب آئے مگر پڑے رحم کے بائیں خانے میں ۔ 
تو ایسا لڑکا پیدا ہوگا جس کی دلی چاہت (زنانہ) یعنی عورتوں والی ہوگی ۔
 یعنی اس کو داڑھی منڈانے گہنا پہننے مہندی لگانے عورتوں کی طرح لمبا بال رکھنے عورتوں کا لباس پہننے یعنی اس مرد میں عورتوں کاسا شوق ہوگا۔ 
4) اور چوتھی صورت ۔
اگر نطفہ عورت کا غالب آئے اور رحم کے دائیں خانے میں پڑے تو ایسی لڑکی پیدا ہوگی جو دل میں مردانہ چاہت رکھے گی۔ اسے ٹوپی عمامہ پہننے مردانہ لباس جوتا چپل پہننے کا ذوق و شوق ہوگا ۔

یہی تلخیص فتاوی رضویہ جلد ششم صفحہ ۹۲/۹۳ میں ہے کہ 
عورت کے رحم میں دو خانے ہیں 
داہنا خانہ لڑکے کے لئے اور بایاں خانہ لڑکی کے واسطے ۔ 
اگر نطفہ مرد کا غالب آئے گا تو لڑکا بنتا ہے
 اور نطفہ عورت کا غالب پڑا تو لڑکی بنتی ہے
پھر اگر مرد کا نطفہ غالب آیا اور رحم کے سیدھے خانہ میں پڑا تو لڑکا ہوگا ۔ظاہر و باطن مرد ۔اور عورت کا نطفہ غالب آیا اور رحم کے بائیں خانے میں پڑا تو لڑکی ہوگی ظاہر و باطن عورت ۔اور اگر نطفہ مرد کا غالب آیا اور رحم کے بائیں خانے میں گرا تو ہوگا صورت میں لڑکا ۔مگر دل میں زنانہ ۔اسے داڑھی منڈانے گہنا پہننے ۔ہاتھ پاؤں میں مہندی لگانے ۔عورتوں کے سے بال بڑھا کر چوٹی گندھوانے یا جوڑا باندھنے یا بکھرے ہوئے رکھنے کلیوں دار غرارہ دار پائنچہ پہننے سرخ نیفہ ڈالنے وغیرہ وغیرہ کسی زنانی وضع کا شوق ہوگا اور اس حالت میں مرد کا نطفہ خفیف غالب تھا تو بالکل زنانہ زنخہ بن جائے گا 
اور اگر نطفہ عورت کا غالب آیا اور رحم کے داہنے خانے میں گرا تو ہوگی صورت میں لڑکی مگر دل میں مردانی اسے انگرکھا پہننے ۔ٹوپی رکھنے عمامہ باندھنے ۔گھوڑے پر چڑھنے ۔تلوار اٹھانے ۔تیر اندازی کرنے مردانہ جوتا پہننے وغیرہ وغیرہ کسی مردانی وضع کا ذوق و شوق ہوگا 
بہر حال یہ خانے بہکے ہوئے اللّٰه و رسول صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وسلم کے ملعون ہیں ۔
رسول اللّٰه صلی ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللّٰه کی لعنت اس مرد پر کہ عورتوں کے پہننے کی چیز پہنے اور اس عورت پر کہ مردوں کی چیزوں کو استعمال کرے
( فتاویٰ رضویہ جلد 21 ص 600 اور تلخیص فتاوی رضویہ جلد ششم ص 92 ۔93) 
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کتبتہ کنیز فاطمہ قادریہ رضویہ شہر کانپور فقہی مسائل برائے خواتین شرعی سوال و جواب
۱۸/۱۰/۲۰۲۴
تصحیح و تصدیق حضرت مفتی محمد مجیب قادری حنفی العربی دار الافتاء البرکاتی علماء فاؤنڈیشن شرعی و جواب ضلع سرہا نیپال
۱۹/۱۰/۲۰۲۴
نوٹ اس سے پہلے کا جواب کالعدم ہے۔
(یہی ان کا دوسرا فتوی ہے جس میں لکھتے ہیں کہ اس کے پہلے کا جواب کالعدم ہے میں دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور ایک اچھے مفتی کی شان و پہچان بھی یہی ہے )
مفتی محمد علی زین اللّٰه خان قادری رضوی ثنائی ممبئی مہاراشٹرا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area