Type Here to Get Search Results !

مالکِ نصاب نے اپنی قربانی کسی میت کے نام سے کردی تو کیا حکم ہے؟ قسط اول


حضرت علامہ مولانا مفتی محمد وسیم اکرم رضوی مصباحی صاحب مدظلہ العالی کے ایک فتوی کا دس مفتیان کرام کی کتابوں سے رد کاملہ
قسط نمبر اول
صحیح مسئلہ یہی ہے کہ جس شخص نے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یا سرکار غوث پاک یا کسی دوسرے بزرگ یا اپنے ماں باپ کے نام سے قربانی کی تو وہ قربانی صحیح ہے ۔لیکن اگر وہ شخص خود مالک نصاب ہے تو اسے پہلے اپنے نام سے قربانی کرنی واجب ہے نہیں کرے گا تو گنہگار ہوگا۔
جس پر قربانی واجب ہے اگر اس نے اپنے نام سے,قربانی نہ کرکے کسی دوسرے کی طرف سے قربانی کرے گا تو واجب ساقط نہ ہوگا۔‌اب مفتی وسیم اکرمی رضوی مصباحی صاحب کا جواب مطالعہ فرمائیں جو یہاں نقل ہے 
(سوال نمبر 381)
مالکِ نصاب نے اپنی قربانی کسی میت کے نام سے کردی تو کیا حکم ہے؟ 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
فتوی : مفتی محمد وسيم اكرم رضوی مصباحی
(جامعۃ المدینہ نیپال ) 
تصدیق وتائید : مفتی محمد نظام الدین رضوی
(جامعہ اشرفیہ مبارک پور ) 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ سے متعلق کہ ایک ایسا شخص ہے جس پر قربانی واجب ہونے کے سارے شرائط پائے جاتے ہیں لیکن قربانی کبھی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کرتا ہے تو کسی سال غوث پاک کے نام سے کرتا ہے،اپنے نام کی نہیں کرتا۔ اس شخص کا ایسا کرنا کہاں تک درست ہے؟ کیا اس کے ذمے کا وجوب اس طرح سے قربانی کرنے سے ساقط ہو جائے گا ؟ یا مذکورہ شخص گناہ گار ہوگا۔‌بینوا و توجروا
السائل: ساجد خان بھوانی پٹنہ اڈیشہ ھند
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب:
جس شخص کے اوپر قربانی واجب ہے اسے اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔
پھر بھی اگر وہ فوت شدہ بزرگوں کی طرف سے اپنے ہی مال سے قربانی کرتا ہے تو بھی اس کی قربانی درست ہے، اس کے ذریعے بھی اس کا وجوب ساقط ہو جائے گا۔
کیونکہ کہ اصل جانور اور گوشت کا یہی مالک ہے، یہ ان بزرگوں کو ایصال ثواب کہلائے گا۔
رد المحتار میں ہے:
"(قَوْلُهُ وَعَنْ مَيِّتٍ) أَيْ لَوْ ضَحَّى عَنْ مَيِّتٍ وَارِثُهُ بِأَمْرِهِ أَلْزَمَهُ بِالتَّصَدُّقِ بِهَا وَعَدَمِ الْأَكْلِ مِنْهَا، وَإِنْ تَبَرَّعَ بِهَا عَنْهُ لَهُ الْأَكْلُ لِأَنَّهُ يَقَعُ عَلَى مِلْكِ الذَّابِحِ وَالثَّوَابُ لِلْمَيِّتِ، وَلِهَذَا لَوْ كَانَ عَلَى الذَّابِحِ وَاحِدَةٌ سَقَطَتْ عَنْهُ أُضْحِيَّتُهُ كَمَا فِي الْأَجْنَاسِ  قَالَ الشُّرُنْبُلَالِيُّ: لَكِنْ فِي سُقُوطِ الْأُضْحِيَّةَ عَنْهُ تَأَمُّلٌ اهـ. أَقُولُ: صَرَّحَ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ فِي الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ بِلَا أَمْرٍ أَنَّهُ يَقَعُ عَنْ الْفَاعِلِ فَيَسْقُطُ بِهِ الْفَرْضُ عَنْهُ وَلِلْآخَرِ الثَّوَابُ فَرَاجِعْهُ".
[ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)٣٣٥/٦]
نیز فتاویٰ قاضی خان میں ہے:
رجل اشترى أضحية ثم مات، إن كان الميت أوجبها على نفسه بلسانه يجبر
الورثة على أن يضحوا عنه، ولو ضحى عن ميت من مال نفسه بغير أمر المیت،
جاز. وله أن يتناول منه ولا يلزمه أن يتصدق به؛ لأنها لم تصر ملكا للميت بل الذبح حصل على ملکه۔ ولهذا لو كان على الذابح أضحية سقطت عنه
 وإن ضحى عن ميت من مال الميت بأمر الميت يلزمه التصدّق بلحمه، ولا يتناول منه؛ لأن الأضحية تقع عن الميت۔
(فتاوى قاضي خان فصل: فيما يجوز في الضحاياو مالا يجوز، من كتاب الاضحية ج:3،ص:239)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
كتبه: محمد وسيم اكرم الرضوي
مدرس : جامعۃ المدینہ نيبال 
٣،ذو الحجة الحرام،١٤٤١۔ 25،جوالائی، 2020
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
مفتی وسیم اکرم رضوی کا مکمل پتہ بھی نہیں لکھا ہوا ہے کہ کون صاحب ہیں کہاں کے رہنے والے ہیں کچھ وضاحت نہیں ہے صرف جامعۃ المدینہ نیپال لکھا ہوا ہے نیپال میں کون سی جگہ ہے وہ نہیں لکھا ہوا ہے خیر
عالی جناب حضرت علامہ مولانا مفتی محمد وسیم اکرم رضوی مصباحی صاحب مدظلہ العالی 
آپ کے نام سے کسی واٹس ایپ گروپ میں اپ کا یہ فتویٰ دیکھا جس میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ استاد محترم محقق مسائل جدیدہ سراج الفقہاء حضرت مفتی محمد نظام الدین صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ صدر شعبہ افتاء الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور نے اس کی تصدیق یا تصحیح فرما دیں چونکہ حضور محقق مسائل جدیدہ کے لیٹر پیڈ پر یہ تصدیق نامہ نہیں ہے اس لئے یہ میری سمجھ سے باہر کی بات ہے اور مجھ کو آپ کے فتوی سے مطلب ہے اگر یہ فتوی آپ کا ہے تو اس فقیر کو اس پر اعتراض ہے
  آپ نے فتاوی قاضی خان اور ردالمحتار کے حوالہ سے فرمایا کہ جس شخص کے اوپر قربانی واجب ہے اسے اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے پھر بھی اگر وہ فوت شدہ بزرگوں کی طرف سے اپنے مال سے قربانی کرتا ہے تو بھی اس کی قربانی درست ہے اس کے ذریعہ بھی اس کا وجوب ساقط ہو جائے گا۔
(یہ آپ کا جواب ہے)
فقیر محمد ثناء اللہ خاں ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
 کو آپ کے اس جواب پر اعتراض ہے کہ علامہ شامی متوفی 1252 ھ کے بعد جتنی مشہور فتاوے کی کتابیں ہند و نیپال میں ہیں مثلا فتاوی امجدیہ فتاوی ملک العلماء فتاوی فیض رسول وغیرہ کسی میں یہ نہیں لکھا ہوا ہے کہ وہ واجب سے سبکدوش ہوگیا بلکہ سب مفتیان کرام فرماتے ہیں کہ اگر وہ مالک نصاب ہے تو اس قربانی سے وہ اپنے وجوب سے سبکدوش نہیں ہوگا اسے اپنے نام کی قربانی کرنی ہوگی جو واجب ہے 
میرا یہ جواب تین قسطوں میں ہوگا یہ قسط اول ہے  
ملاحظہ فرمائیں :
مالک نصاب نے کسی غیر زندہ یا مردہ کے نام سے قربانی کردی تو کیا اس شخص کا واجب ساقط ہو جائے گا اور اسے اپنے نام سے قربانی کرنے کی ضرورت نہ ہوگی؟۔ 
الجواب ۔مالک نصاب نے کسی غیر زندہ یا مردہ کے نام سے قربانی کردی تو قربانی جائز ہوگئی مگر اس کا اپنا واجب ساقط نہیں ہوا اس لئے پھر سے اپنی طرف سے جانور قربانی کرنا واجب ہوگا  
جن مفتی صاحب نے کہا کہ واجب ساقط ہوجائے گا ان کی دلیل یہ تمام کتب کی عبارتیں ہیں ملاحظہ فرمائیں 
(1) فتح المعین میں ہے: 
 تبرع بالأضحية عن ميت، جاز له الأكل منها والهدية والصدقة، لأن الأجر للميت والملك للمضحى، وهو المختار، بخلاف ما لو كان بأمر الميت، حيث لا يأكل فى المختار (فتح المعين، كتاب الأضحية)  
ترجمہ فتح المعین میں ہے :-
میت کی طرف سے قربانی کا صدقہ کرنا، اس میں سے کھانا، ہدیہ دینا اور صدقہ کرنا جائز ہے، کیونکہ ثواب میت کو جاتا ہے اور مال قربانی کرنے والے کا ہے، اور یہی مختار ہے، اس کے برعکس کہ اگر یہ مردہ شخص کے حکم سے ہو،تو مختار یہ ہے اس سے نہ کھائے (فتح المعین، کتابِ قربانی)
(محمد ثناء اللہ خان ثناءالقادری مرپاوی) 
فتح المعین شرح قرۃ العین
مصنف زین الدین بن علی بن احمد الشافعی متوفی 928 ھ ہیں 
فتح المعین سے واضح ہوا کہ
جو قربانی میت کے نام سے کی گئی اس کا گوشت قربانی کرنے والے کو کھانا جائز ہے اور کسی دوسرے کو دینا یعنی بطور ہدیہ اور صدقہ کرنا بھی جائز ہے یہ سب اس لئے جائز ہے کہ اس نے اپنے مال سے جانور کو میت کے نام سے قربانی کیا اس لئے یہ اسی کی ملکیت ہے اور مالک اپنے سامان میں تصرف کر سکتا ہے
لہذا فتح المعین کا یہ جزیہ بھی اس کی تائید میں نہیں ہے کیونکہ  
 اس سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ اس کا اپنا واجب ساقط ہوگیا ۔
(2) بزازیہ میں ہے: 
 وأجاز نصير بن يحيى ومحمد بن سلمى ومحمد بن مقاتل فيمن يضحى عن الميت أنه يصنع به مثل ما يصنع بأضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح۔
(بزازية على هامش الهندية-6\295)
 نصیر بن یحییٰ، محمد بن سلمہ اور محمد بن مقاتل نے اجازت دی ہے کہ جو شخص میت کی طرف سے قربانی کرے تو اس کے ساتھ وہی سلوک کرے جو صدقہ کے لحاظ سے قربانی کے لیے کیا جاتا ہے۔ کھانا، اور ثواب مُردوں کو جاتا ہے، اور ملکیت قربانی کرنے والے کو جاتی ہے۔
(محمد ثناء اللہ خان ثناءالقادری مرپاوی) 
بزازیہ جس کے مصنف شیخ حافظ الدین محمد بن محمد بن شہاب کر وری حنفی ابن بزاز کردری متوفی 827 ھ ہیں مصنف ابن بزاز کے نام سے مشہور ہے آپ نویں صدی ہجری کے تھے 
اس کتاب کی عبارت سے یہ واضح نہ ہوا کہ جس نے میت کے نام سے قربانی کی تو اس کے ذمہ سے واجب ساقط ہوگیا بلکہ یہ ثابت ہے کہ جو شخص میت کی طرف سے قربانی کرے تو اس کے ساتھ وہی سلوک کرے جو صدقہ کے لحاظ سے قربانی کے لئے کیا جاتا ہے جیسے قربانی کرنے والا اس جانور کا مالک ہے اب وہ گوشت کو کھائے کھلائے تقسیم کرے یا نہ کرے سب جائز ہے ۔ لہذا بزازیہ کا یہ جزیہ بھی اس قول کی تائید میں نہیں ہے کہ وہ واجب سے سبکدوش ہوگیا 
(3) فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:
سئل عمن يضحى عن الميت، قال: يصنع به كما يصنع بأضحيته يريد به أنه يتناول من لحمه كما يتناول من لحم أضحيته، فقيل له أتصير عن الميت؟ قال: الأجر للميت، والملك للمضحى، وبه قال سلمة وابن مقاتل وأبو مطيع، وقال عصام، يتصدق بالكل، وفى الكبرى، المختار أنه لا يلزمه۔ یعنی 
  میت کی طرف سے قربانی کرنے والے کے بارے میں پوچھا گیا، آپ نے فرمایا: وہ اس کے ساتھ ایسا ہی کرے جیسا کہ وہ اپنی قربانی کا گوشت( کے ساتھ کرتا ہے) کھاتا ہے۔ اس سے کہا گیا: کیا تم مردوں کی طرف سے قربانی کرتے ہو ؟ آپ نے فرمایا: ثواب میت کے لیے ہے اور مال قربانی کرنے والے کے لیے ہے، اور یہی سلمہ، ابن مقاتل اور ابو مطیع نے کہا ہے۔ اور عصام نے کہا: وہ سب کچھ صدقہ کردے ، اور کبری میں ہے۔ اور مختار یہ ہے کہ وہ ایسا کرنے کا پابند نہیں ہے۔
(محمد ثناء اللہ خان ثناءالقادری مرپاوی)
فتاوی تار تار خانیہ مصنف علامہ فقیہ امام عالم بن علاء اندریتی جلوہ ھلوی ھندی متوفی 786ھ ہیں۔
اس سے بھی یہ واضح نہیں ہوا کہ میت کی طرف سے قربانی کرنے والے کے ذمہ جو واجب قربانی ہے وہ قربانی ساقط ہوگئی بلکہ اس قدر ثابت ہے کہ میت کے نام سے قربانی کرنے والا اس جانور کا مالک ہے اور میت کے نام سے کیا ہے تو اس پر اس کی ویسی ہی ملکیت حاصل ہے جیسی اس کی اپنی قربانی پر حاصل ہے یعنی وہ گوشت کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے یا تقسیم کرسکتا ہے یا صدقہ کرسکتا ہے سب جائز ہے یعنی اس میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ثواب میت کے لئے اور مال قربانی کرنے والے کے لئے ۔ مال قربانی والے کے لئے ہے اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ اس جانور کا مالک ہے اس کے گوشت کو تقسیم بھی کرسکتا ہے اور نہ بھی کرسکتا ہے لہذا فتاوی تار تار خانیہ کا یہ جزیہ سے بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ واجب سے سبکدوش ہوگیا 
ان تمام عباراتیں اس بات کی تائید میں ہے جو حضور صدرالشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی صاحب رضوی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ
 میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کے گوشت کا بھی وہی حکم ہے کہ خود کھائے دوست واحباب کودے فقیروں کو دے یہ ضروری نہیں کہ سارا گوشت فقیروں ہی کو دے کیونکہ گوشت ان کی ملک ہے یہ سب کچھ کرسکتا ہے
اور میت نے کہہ دیا ہے کہ میری طرف سے قربانی کردینا تو اس میں سے نہ کھائے بلکہ کل صدقہ کردے۔
(شرح بہار شریعت جلد پانزدہم ص 222 بحوالہ الدرالمختار جلد 9 کتاب الاضحیۃ) 
مال ذابح کے لئے ہے اس کا یہی مطلب ہوا جو فتاوی امجدیہ میں ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ جب وہ مال کا مالک تو اس قربانی سے وہ واجب سے سبکدوش ہوگیا 
ہاں ردالمختار اور فتاوی قاضی خان سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے واجب ساقط ہوگیا
درمختار میں ہے 
وعن میت بالامر الزم تصدقا والافکل منھا وھذا المنیر یعنی میت کی جانب سے اس کے حکم سے قربانی کی گئی ہوتو اس کا صدقہ کرنا لازم ہے ۔ورنہ اس میں سے کھاؤ ۔یہ اختیار دیا گیا 
اور اس عبارت کے تحت ردالمحتار میں ہے کہ 
"(قَوْلُهُ وَعَنْ مَيِّتٍ) أَيْ لَوْ ضَحَّى عَنْ مَيِّتٍ وَارِثُهُ بِأَمْرِهِ أَلْزَمَهُ بِالتَّصَدُّقِ بِهَا وَعَدَمِ الْأَكْلِ مِنْهَا، وَإِنْ تَبَرَّعَ بِهَا عَنْهُ لَهُ الْأَكْلُ لِأَنَّهُ يَقَعُ عَلَى مِلْكِ الذَّابِحِ وَالثَّوَابُ لِلْمَيِّتِ، وَلِهَذَا لَوْ كَانَ عَلَى الذَّابِحِ وَاحِدَةٌ سَقَطَتْ عَنْهُ أُضْحِيَّتُهُ كَمَا فِي الْأَجْنَاسِ قَالَ الشُّرُنْبُلَالِيُّ: لَكِنْ فِي سُقُوطِ الْأُضْحِيَّةَ عَنْهُ تَأَمُّلٌ اهـ. أَقُولُ: صَرَّحَ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ فِي الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ بِلَا أَمْرٍ أَنَّهُ يَقَعُ عَنْ الْفَاعِلِ فَيَسْقُطُ بِهِ الْفَرْضُ عَنْهُ وَلِلْآخَرِ الثَّوَابُ فَرَاجِعْهُ".
[ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار٣٣٥/٦] 
یعنی اگر میت کی جانب سے اس کے وارث نے اس کے امر سے قربانی دی تو اس پر اس کا صدقہ کرنا اور اس سے کچھ نہ کھانا لازم ہوگا ۔اگر اس کی جانب سے بطور نفل قربانی دے تو اس سے کھانے کی اجازت ہوگی ۔کیونکہ یہ ذابح کی ملکیت پر واقع ہوگی اور ثواب میت کے لئے ہوگا ۔اسی وجہ سے اگر ذابح پر ایک قربانی لازم ہوتو اس سے قربانی ساقط ہو جائے گی جس طرح "اجناس " میں ہے "شرنبلانی نے کہا : 
لکن فی سقوط الاضحیۃ عنہ تامل یعنی اس سے قربانی ساقط ہونے میں تامل ہے 
میں کہتا ہوں:فتح القدیر " میں باب الحج عن الغیر لغیرہ بلا امر میں اس امر کی تصریح کی ہے کہ یہ حج فاعل کی جانب سے واقع ہوگا ۔پس اس سے فرض ساقط ہو جائے گا اور دوسرے کے لئے ثواب ہوگا ۔پس اس کی طرف رجوع کیجئے  
فتاوی قاضی خان میں ہے
لو ضحى عن ميت من مال نفسه بغير أمر المیت جاز وله أن يتناول منه ولا يلزمه أن يتصدق به لأنها لم تصر ملكا للميت بل الذبح حصل على ملکه.ولهذا لو كان على الذابح أضحية سقطت عنه وإن ضحى عن ميت من مال الميت بأمر الميت يلزمه التصدّق بلحمه ولا يتناول منه لأن الأضحية تقع عن الميت
یعنی:اور اگر اس نے میت کے حکم کے بغیر کسی میت کی طرف سے اپنے مال سے قربانی کی تو جائز ہے اور وہ اس قربانی میں سے کھا سکتا ہے اور اس پر اس گوشت کو صدقہ دینا واجب نہیں ہے کیونکہ وہ قربانی اس میت کی ملک نہیں ہے بلکہ وہ ذبح کرنے والے کی ملک ہے اور اس وجہ سے اگر ذبح کرنے والے پر قربانی واجب ہو تو اس کی طرف سے قربانی ساقط ہوجائےگی اور اگر اس نے میت کےحکم سے میت کے مال سے میت کے لیے قربانی کی تو وہ جن جن سارا گوشت صدقہ کردے اورخود بھی اس سے نہ کھائے کیونکہ قربانی میت کی طرف سےہوئی ہے (فتاوى قاضي خان فصل: فيمایجوز في الضحاياو مالا يجوز من كتاب الاضحية جلد3صفحہ239)
 یہ دو نوں مشہور ومعروف معتمد علیہ فقہ حنفی کی کتابیں ہیں اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ردالمحتار کے مصنف علامہ شامی متوفی 1252 ھ ہیں انہوں نے کتاب الاجناس فی الفروع مصنف ابوالعباس احمد بن محمد الناطفی الحنفی متوفی 446 ھ سے نقل فرماتے ہیں اور فتاوی قاضی خان ؛ کے مصنف امام فخرالدین حسن بن منصور اوزجندی فرغانی متوفی 592 ہیں اس کو خانیہ بھی کہتے ہیں یہ نہایت معتبر اور مقبول فتاوی ہیں ۔امام قاضی خان مجتہد فی المسائل تھے ۔اپ کی تصحیح دوسروں کی تصحیح پر مقدم ہے کیونکہ آپ فقیہ النفس تھے لیکن خود علامہ شامی فرماتے ہیں کہ
قال الشرنبلالی لکن فی سقوط الاضحیۃ عنہ تامل
 یعنی اس سے قربانی کے ساقط ہونے میں تامل ہے اور علامہ شرنبلانی بھی بہت بڑے محقق تھے آپ کی کتاب مراقی الفلاح بہت مشہور و جامع معتبر ہے جب تامل ہے تو مفتی بہ قول نہیں ہوا 
تاریخی لحاظ سے ملاحظہ فرمائیں  
اس مسئلہ کو کہ جو مالک نصاب اپنی نام کی واجب قربانی نہ کرکے کسی دوسرے کی جانب سے قربانی کردے تو اس کا وجوب ساقط ہوجایے گا جیسا کہ 
   علامہ شامی متوفی 1252 تحریر فرماتے ہیں کہ ولھذا لوکان علی الذابح واحدۃ سقطت عنہ اضحییتہ کما فی الاجناس یعنی اسی وجہ سے اگر ذابح پر ایک قربانی لازم ہے تو اس سے قربانی ساقط ہوجایے گی جس طرح اجناس میں ہے 
اس کے متعلق تاریخی فیصلہ 
(1) حضرت علامہ ابوالعباس احمد بن الناطفی حنفی متوفی 446 کی کتاب الاجناس فی الفروع ہے اسی کتاب سے علامہ شامی رد المحتار میں یہ جزیہ نقل فرماتے ہیں  
(2) پھر اس کے تین سو چھیالیس (146) سال کے بعد حضرت علامہ امام فخرالدین حسن بن منصور اوزجندی متوفی 592 ھ نے فتاوی قاضی خان میں اس جزیہ کو نقل فرماتے ہیں 
(3) لیکن اس کے 194 سال کے بعد علامہ فقیہ امام عالم بن علاء اندریتی جلوہ ھلوی ھندی متوفی 786 ھ اپنی کتاب تار تار خانیہ میں اس جزیہ کو نہیں لکھتے ہیں ہوسکتا ہے کہ حضرت کی نگاہ اس پر نہیں گئی ہو یا حضور نے قبول نہیں کیا 
(4) پھر اس کے بیالیس (42) سال کے بعد شیخ حافظ محمد بن شہاب ابن بزاز متوفی 828 ھ نے اپنی کتاب بزازیہ میں اس جزیہ کو نہیں لکھتے ہیں 
(5) پھر اس کے ایک سو سال کے بعد بھی حضرت علامہ زین الدین بن علی بن احمد الشافعی متوفی 928 ھ بھی اپنی کتاب فتح المعین میں اس جزیہ کو نہیں لکھتے ہیں 
(6) پھر ان تمام جزیہ۔ جو کتاب الاجناس 446 ھ میں ہے اس کے 623 سال کے بعد اور فتاوی قاضی خان 592 ھ کے 472 سال کے بعد اس قول کہ ولھذا لوکان علی الذابح واحدۃ سقطت عنہ اضحییتہ کما فی الاجناس یعنی اسی وجہ سے اگر ذابح پر ایک قربانی لازم ہو تو اس سے قربانی ساقط ہوجایے گی جس طرح اجناس میں بے 
  کے متعلق علامہ شرنبلانی متوفی 1069 ھ چھ سو تیئیس (623) سال کے بعد فرماتے ہیں کہ اس قول میں تامل ہے  
(7) پھر محمد بن عبداللہ تمرتاشی غزی متوفی 1004ھ بھی اپنی کتاب تنویر الابصار میں اس گیا کو نہیں لاتے ہیں  
(8) پھر علامہ علاء الدین محمد بن علی حصکنی اپنی کتاب درمختار میں اس جزیہ کو نہیں لکھتے ہیں
(9) ہاں 1252 ھ میں علامہ شامی کتاب الاجناس سے اس جزیہ کو نقل فرماتے ہیں
(10) حضور مجدداعظم امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ المتوفی 1340 ھ میں اپنی مشہور کتاب فتاوی رضویہ کے قربانی کے باب میں اس جزیہ کو نقل نہیں فرماتے ہیں ہوسکتا ہے کہ امام اہل سنت سے اس طرح کا سوال نہیں کیا گیا فقیر بہت تلاش کیا لیکن کامیاب نہیں ہوا
(11) پھر علامہ محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252 ھ میں یعنی 446 ھ کے آٹھ سو چھ سال (806) سال کے بعد کتاب الاجناس کا یہ جزیہ ولھذا لوکان علی الذابح واحدۃ سقطت عنہ اضحییتہ کما فی الاجناس اپنی کتاب ردالمحتار میں نقل فرماکر تحریر فرماتے ہیں کہ قال شرنبلانی:لکن فی سقوط الاضحیۃ عنہ تامل اھ اس کا مطلب ہوا کہ علامہ شرنبلانی کو اس میں تامل ہے یعنی شک وشبہ ہے اسی لئے یہ متفق علیہ قول نہیں ہوا اگر یہ قول مثہور و مقبول ہوتا تو 446 ھ کے بعد 786 ھ تک کسی نہ کسی کتاب منقول ہوتا ہے لیکن 786 ھ میں فتاوی تار تار خانیہ میں اس کا وجود ہی نہیں ہے پھر اس کے بعد فتاوی بزازیہ 828 ھ میں نقل نہیں ہے اور پھر 928 ھ میں فتح المعین میں نقل نہیں ہے 
  الحاصل
(1) فتح المعین (2)۔بزازیہ ۔ (3) تار تار خانیہ(4) تنویر الابصار (5) ۔درمختار (6) اور فتاوی رضویہ ان سب میں اس جزیہ کا وجود ہی نہیں ہے یہ کل چھ فتاوے کی مشہور کتابیں ہوئیں اس کے بعد فتاوے کی وہ دس کتابیں ہیں جو اس دور میں مفتیان کرام ان سب سے فتوی دیتے ہیں اور سب مصنف یا فقیہ یا شارح حدیث سب اپنے اپنے وقتوں میں مرجع خلائق تھے ان کے فتاوی پر عوام سے لے کر علماء عمل کرتے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں جن میں صرف تین کا ذکر اس قسط میں ہے باقی مکمل جواب کے ساتھ دوسرے قسط میں مطالعہ فرمائیں گے 
(8) 1252 ھجری کے بعد حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 1367 ھ سے اسی طرح کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ جس پر قربانی واجب ہے اس کو خور اپنے نام سے کرنا چاہئے لڑکے یا زوجہ کی طرف سے کرے گا تو واجب ساقط نہ ہوگا 
(9) پھر حضور ملک العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی ظفر الدین بہاری رحمتہ اللہ علیہ متوفی 1382 ھ نے فرمایا کہ پہلے ہر شخص ایک خصی بصفات قربانی اپنی طرف سے کرے اور دوسرا خصی اپنے تمام بھائی کی طرف سے ۔پھر تحریر فرماتے ہیں کہ ایک کسی کار خیر میں لوگوں کو شریک کرلینا اور ایک اس پر سے سقوط واجب جاننا ۔ان دونوں میں آسمان وزمین کا فرق ہے
(10) پھر حضور فقیہ ملت حضور علامہ مولانا مفتی جلال الدین امجدی متوفی 1423 ھ نے فرمایا کہ دوسرے کہ طرف سے قربانی کرنے پر بھی واجب اس کے ذمہ سے ساقط نہ ہوگا 
اسی طرح 1252 ھ سے لے کر 194 سال تک یعنی آج 1446 ھ تک سبھی مشہور و معروف فتاوے کی کتابوں میں یہی لکھا ہوا ہے کہ جس پر قربانی واجب ہے اس کو خود اپنے نام سے قربانی کرنی چاہیے اور اپنے نام سے نہ کرکے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے یا کسی زندہ اور فوت شدہ بزرگ یا اپنے لڑکے یا زوجہ یا کسی رشتی دار کی طرف سے قربانی کرے گا تو اس کا اپنا واجب ساقط نہ ہوگا ہاں قربانی صحیح ہوگی اور جن کی جانب سے کی گئی ان کو ثواب حاصل ہوگا لیکن اگر وہ شخص خود مالک نصاب ہے تو اسے اپنے نام سے بھی قربانی کرنی واجب ہے نہیں کرے گا ترک واجب کا گناہ ہوگا اور وہ سخت گنہگار ہوگا پھر اگر ایام قربانی باقی ہے تو فورا ان ایام میں قربانی کرے اور اگر ایام قربانی گزر گئے تو اگر وہ قربانی کا جانور خرید چکا تھا یا اپنے گھر میں پال رہا تھا تو اسی کو صدقہ کردے اور اگر نہیں خریدا تھا تو ایک بکری کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے اور یہی مفتی بہ قول ہے اسی پر فتویٰ ہے
(1) اور ان مفتیان کرام میں سے حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی متوفی 1367 ھ کی وہ ذات بابرکاٹ ہیں جن کو حضور مجدداعظم امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا قدس سرہ سے فن افتا میں شرف تلمذ حاصل تھا امام اہل سنت عظیم البرکت مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ نے تفقہ کے سلسلہ میں صدر الشریعہ کو اپنے تلامذہ میں خصوصی سے نوازا اور فرمایا :
آپ یہاں کے موجودین میں تفقہ جس کا نام ہے وہ مولوی امجد علی میں زیادہ پائیے گا ۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ آپ کے فتاوی کتاب وسنت کی تائیدات سے مزین ہیں ۔فقہی کلیات و جزیات اور نظائر و شواہد سے مملو اور ندرت استدلال وحسن استنباط میں فتاوی رضویہ کا عکس نظر آتا ہے
(2) پھر ان میں سے حضرت ملک العلماء مفتی محمد ظفر الدین بہاری رحمتہ اللہ علیہ متوفی 1383 ھ ہیں جو اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے فیض یافتہ اور خاص تلمیذ رشید تھے آپ کو افتاء کی مشق کرائی اور جامع فنون علوم بنادیا  
(3) اور ان میں سے حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین امجدی متوفی 1422 ھ رحمتہ اللہ علیہ ہیں جن کی درجنوں کتابیں ہیں اس دور میں ان تینوں ذات بابرکاٹ کی کتابوں سے مفتیان کرام فتوی نقل فرماتے ہیں اور ان کے فتاوے پر لوگ عمل کرتے ہیں 
 واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
24 صفر المظفر 1446
30 اگست 2024
اس قسط اول کے بعد قسط دوم کا ان شاءاللہ مطالعہ فرمائیں گے

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area