Type Here to Get Search Results !

ہر فضیلت کے وہ جامع ہیں نبوت کے سوا اعتراض اور اس کا جواب


ہر فضیلت کے وہ جامع ہیں نبوت کے سوا
[اعتراض اور اس کا جواب]
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
عین المعارف المعروف دیوان آسی از غوث العالمین قطب العارفین سرکار عبد العلیم آسی رشیدی سکندر پوری ثم غازی پوری قدس سرہ السامی کے صفحہ ١٠ میں ایک شعر ہے 
پوچھتے ہو شہ جیلاں کے فضائل آسی
ہر فضیلت کے وہ جامع ہیں نبوت کے سوا
       اور ایک شعر "فرش پر عرش" از محدث اعظم ہند سراج العلما تاج العرفا شاہ ابو المحامد سید محمد اشرفی جیلانی قدس سرہ السامی کے صفحہ ١١ پر ہے م
رتبہ حضرت صدیق کا یہ ہے سید
ہر فضیلت کے وہ جامع ہیں نبوت کے سوا 
بعض حضرات کو یہ شبہ گزرا کہ حضور محدث اعظم کا شعر جو افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں ہے اس میں رد و بدل کر کے حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی شان میں کر لیا گیا ہے جس کی وجہ سے بعض حضرات یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ یہ شعر محدث اعظم کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں ہے 
لیکن میں واضح کر دوں کہ دونوں شعر دو عارف باللہ کے الگ الگ ہیں کسی میں رد و بدل نہیں کیا گیا ہے ہاں سوال یہ ہو سکتا ہے کہ تضمین کس نے کی تو قرین قیاس یہ ہے کہ حضور محدث اعظم نے سرکار آسی غازی پوری کے مصرع ثانی میں تضمین کی ہے کیونکہ سرکار آسی غازی پوری کی پیدائش 1834ء میں ہوئی اور وفات 1917ء میں ہوئی اور حضور محدث اعظم کی پیدائش 1893ء میں ہوئی اور وفات 1963ء میں ہوئی اس اعتبار سے جس وقت سرکار آسی پوری کی وفات ہوئی اس وقت حضور محدث اعظم کی عمر 24/چوبیس سال کی تھی حضور محدث اعظم نے سترہ سال کی عمر میں تعلیم سے فراغت حاصل کی حضور سرکار آسی علیہ الرحمہ 83 سال عمر مبارک پائے یعنی 68 سال کے حضور محدث اعظم سے بڑے ہوئے تو ظاہر ہے کہ حضور محدث اعظم نے ایک سن رسیدہ عارف باللہ کے مصرع کی تضمین کی ہے جو کہ فخر کی بات ہے لیکن اگر یہیں یہ کہا جائے سرکار آسی نے محدث اعظم ہند کے مصرع کی تضمین کی ہے تو یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے اگر چہ امکان موجود ہے اگر اس ممکنہ صورت کو مان بھی لیا جائے پھر بھی کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ کسی دوسرے شاعر کے کسی مصرع پر تضمین کرنا شائع و ذائع ہے بلکہ یہ محاسن کلام میں سے ہے فن شاعری پر مہارت کی دلیل ہے جیسا کہ حضور مفتی اعظم ہند رضی اللہ عنہ کا ایک شعر ہے 
وصل مولی چاہتے ہو تو وسیلہ ڈھونڈ لو 
بے وسیلہ نجدیو ہر گز خدا ملتا نہیں 
اس شعر کے مصرع ثانی کی تضمین سرکار تاج الشریعہ رضی اللہ عنہ نے یوں کی ہے 
ابتغو فرما کے گویا رب نے یہ فرما دیا 
"بے وسیلہ نجدیو ہر گز خدا ملتا نہیں"
اور اگر اس صورت پر بھی کوئی اعتراض کرے اور کہے کہ حضور محدث اعظم رضی اللہ عنہ تک سرکار آسی غازی پوری کا کلام پہنچا ہی نہیں تو پھر وہ کس طرح تضمین کیے ہوں گے؟
       تو اب یہاں تیسری صورت ماننی پڑے گی اور وہ ہے "توارد" یعنی بسا اوقات اتفاقا شاعر کا کوئی ایک شعر یا چند شعر بغیر اختلاف کے کسی دوسرے شاعر کے موافق ہو جاتا ہے جو کہ کمال فن جولانیت علم کی طرف رہنمائی کرتا ہے جیسا کہ بحر الفصاحت میں ہے:
ایسا بھی اتفاق ہوتا ہے کہ کسی شاعر کا کوئی شعر یا چند اشعار بغیر اختلاف لفظ و معنی کے ہو بہو دوسرے شاعر کے کلام کے مطابق ہو جاتے ہیں یا مضمون بالکل مطابق ہوتا ہے اور قصد سرقہ کا نہیں ہوتا ۔ اس کو توارد کہتے ہیں۔ اور ایسا بعض اساتذہ کے کلام میں پایا جاتا ہے ۔ اگر چہ یہ بات کمال جودت پر دلالت کرتی ہے۔ اور اتفاقی ہے۔ 
توارد و سرقہ میں فرق یہ ہے کہ توارد نا دانستہ ہوتا ہے اور سرقہ دانستہ اور جو کلام کبھی نظر سے نہ گزرا ہو اور کانوں تک نہ پہنچا ہو اس میں اکثر توارد نہیں ہوتا ۔ اور اگر کہیں احیانا ہو جاتا ہے تو مذموم نہیں ۔ بلکہ پچھلے شاعر کی علو طبیعت پر دلالت کرتا ہے۔ کہ اس کی فکر استاد کی فکر سے جا ملی لیکن بد گمانوں کی زبانوں سے چھٹکارا کہاں کہ وہ اس بلند پروازی اور عنقا شکاری کو سرقے پر حمل کرتے ہیں اور سنان طعن و تشنیع سے طلسم نگاروں کے دلوں کو چھید تے ہیں ۔
نقل ایک مرتبہ لشکر گوالیار میں مشاعرہ ہوا اور یہ طرح ہوئی ۔
"کیا جانے لکھ دیا اسے کیا اضطراب میں"
مولوی سید اکبر بیخود بریلوی مسکن بدایونی موطن کا مطلع تھا۔
        ساقی کا عکس رخ نہیں جام شراب میں
ہے آفتاب جلوہ نما آفتاب میں
 انھیں دنوں میں چودھری سعید الدین حسین صاحب رئیس کھیڑہ بدایوں نے مجلس مشاعرہ ترتیب دی تھی اور وہاں بھی یہی طرح ہوئی تھی ۔ مولوی احمد حسن صاحب وحشت بدایونی جو پرانے شاعر اور ایک نامی آدمی ہیں ان کا بھی مطلع غزل یہی تھا۔
      ساقی کا عکس رخ نہیں جام شراب میں
ہے آفتاب جلوہ نما آفتاب میں
ایک کو دوسرے کے شعر سے اطلاع تو در کنار نام سے بھی واقفیت نہیں تھی۔ اور اتنا زمانہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ان کا شعر ان تک پہنچا یعنی ایک ہی ہفتے میں دونوں جگہ مشاعرہ ہوا تھا۔ [ج 2 ص 1590_1591]
     اب آتے ہیں شعر مذکور کے دوسرے رخ کی طرف بعض حضرات کو یہ بھی الجھن ہے کہ علامہ آسی غازی پوری علیہ الرحمہ کا یہ فرمانا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ حضور غوث اعظم شیخ اکبر رضی اللہ عنہ نبوت کے سوا ہر فضیلت کے جامع ہیں کیونکہ یہ شان تو حضرت ابو بکر صدیق کی ہے جیسا کہ حضور محدث اعظم کے شعر سے مستفاد ہوتا ہے تو دیکھیے 
           تفریح الخاطر میں ہے:
فاذا أراد أن يضع قدميه على رقبتي سأل الله تعالى عنى فألهمه. هذا ولدك اسمه عبد القادر لولا اني ختمت النبوة بك لكان هو أهلا لها بعد فشكر الله تعالى عليه وقال لى جدى صلى الله عليه وسلم يا بني طوبي لك رأيتني و وجدت نعمتى ثم طوبى لمن رآك أو رأى من رآك أو رأى من رأى من رأى من رآك الى سبعة وعشرين وجعلتك وزيرى في الدنيا والآخرة ووضعت قدمى هذه على رقبتك وقدماك على رقاب جميع الاولیا بلا تفاخر ولا مباهاة ولو كانت النبوة بعدى لنلها ولانبوۃ بعدی
تو جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے میرے کندھوں پر اپنے پاؤں مبارک رکھنے کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالی سے میرے بارے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ آپ کی اولاد میں سے ہے اس کا نام عبدالقادر ہے۔ اے محبوب اگر آپ خاتم النبین نہ ہوتے تو آپ کے بعد عہدۂ نبوت اسے عطا کیا جاتا ۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اور میرے جد کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا اے میرے بیٹے تجھے مبارک ہو تو نے مجھے دیکھا اور میری نعمت سے سرفراز ہوا۔ پھر اس کو مبارک ہو جو تجھے دیکھے اور تیرے دیکھنے والے کو دیکھے یا دیکھنے والے کے دیکھنے والے کو دیکھے اسی طرح آپ نے ستائیس تک فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں دنیا و آخرت میں اپنا وزیر بنایا۔ اور میں نے اپنا یہ قدم تیری گردن پر رکھا۔ اور تیرا قدم تمام ولیوں کی گردنوں پر بغیر فخر کے ہوگا ۔ اگر میرے بعد نبوت ہوتی تو تم نبی ہوتے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
[ص 9/10]
        ولى على قدم النبي وانا على قدم جدى صلى الله عليه وسلم و ما رفع المصطفى صلى الله عليه وسلم قدما الأوضعت انا قدمي في الموضع الذي رفع منه الا ان يكون قدما من اقدام النبوۃ فانہ لا سبیل ان ینالہ غیر نبی 
[ص 22]
ہر ولی کسی نہ کسی نبی کے قدم مبارک پر ہے اور میں اپنے جد امجد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک پر ہوں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں جہاں اپنا قدم مبارک رکھا میں نے وہاں وہاں اپنا قدم رکھا سوائے نبوت کے کیوں کہ اس تک کسی غیر نبی کی رسائی نہیں 
اسی کی روشنی میں مجدد دین و ملت سیدنا سرکار اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
     اُلُوْہِیَّت نُبُوَّت کے سوا تو
    تمام اَفضال کا قابل ہے یا غوث
     نبی کے قدموں پر ہے جُز نُبُوَّت
   کہ ختم اس راہ میں حائل ہے یاغوث
     اُلُوْہِیَّت ہی احمد نے نہ پائی
    نُبُوَّت ہی سے تو عاطِل ہے یا غوث
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نبوت کے سوا تمام فضائل کے جامع ہیں لیکن ایک سوال یہ ہوگا کہ کیا حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے حضور کو دیکھا تو دیکھیے زبدۃ الآثار تلخیص بہجۃ الاسرار از عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ عنہ میں ہے :
شیخ جلیل شریف ابو عباس احمد بن شیخ عبد اللہ ازہر حسینی نے خبر دی کہ ایک بار میں شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں حاضر ہوا ، اس وقت آپ کی مجلس میں قریباً دس ہزار افراد موجود تھے۔ شیخ علی بن ہیتی حضرت غوث الاعظم کے سامنے ذکر مقری کے پاس بیٹھے تھے انھیں ذرا اونگھ آئی حضرت غوث پاک لوگوں کو فرمانے لگے : خاموش رہو۔ جب سارے خاموش ہو گئے تو لوگوں کی سانس کی آواز کے بغیر کچھ سنائی نہ دیتا تھا ۔ پھر آپ منبر سے نیچے اترے اور شیخ علی ہیتی کے پاس مؤدب کھڑے ہو گئے اور غور سے دیکھنے لگے۔ علی ہیتی کی آنکھ کھلی۔ آپ نے علی ہیتی سے پوچھا تم نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے جب اس نے کہا کہ ہاں۔ تو آپ نے فرمایا :
میں رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی آمد پر تمھارے سامنے ادبا کھڑارہا۔ شیخ علی ہیتی نے کہا کہ حضور نے مجھے نصیحت کی ہے کہ میں حضرت شیخ عبد القادر کی مجلس میں حاضر رہا کروں۔ حضرت شیخ نے فرمایا : جو تمھیں خواب میں نظر آئے میں اُنھیں بیداری میں دیکھ رہا تھا۔ راوی نے مزید بیان کیا کہ اس دن مجلس میں سات آدمی فوت ہوئے تھے۔ [ص 49]
       واضح رہے کہ بہجۃ الاسرار ایسی مستند معتبر کتاب ہے جس کے بارے میں امام احمد رضا خان قادری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
" كتب مناقب اولیاء میں باعتبار صحت اسانید اس کا وہ مرتبہ ہے ، جو کتب حدیث میں صحیح بخاری شریف کا بلکہ صحاح میں بعض شاذ بھی ہوتی ہیں اور اس میں کوئی حدیث ( روایت ) شاذ بھی نہیں" 
      (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۸، صفحه ٢٨٠)
اب بہجۃ الاسرار شریف کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ حضور غوث الاعظم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت بیداری میں دیکھا اور یہ کسی سے مخفی نہیں کہ جس نے حضور کو ظاہری حیات میں بحالت ایمان دیکھا اور اپنے ایمان کے ساتھ دنیا سے گیا تو وہ اصطلاحی حقیقی صحابی ہے لیکن اب حضور پر نور سرکار مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو بقید ظاہری حیات ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں تو اگر کسی نے ظاہری حیات کے بعد بحالت ایمان حالت بیداری میں حضور کی زیارت کی تو اس کا کیا حکم ہوگا تو بعض فقہا کی عبارت سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ ان کو فضیلت صحابیت حاصل ہوگی لیکن صحابی نہیں کہا جائے گا اس لیے کہ وہ حکمی صحابی ہیں اصطلاحی نہیں 
اور واضح رہے کہ اصطلاحی حقیقی صحابی ہونا ایک الگ شی ہے اور حکما صحابی ہونا ایک لگ شی شق اول کے حامل کو صحابی کہا جائے گا اور شق ثانی کے حامل کو صحابی نہیں کہا جائے گا بس فضیلت حاصل ہوگی۔
مثلا ایک شہید حقیقی ہے اور ایک شہید حکمی ہے شہید حقیقی کو تو شہید کہا جائے گا لیکن شہید حکمی کو شہید نہیں کہا جائے گا شہید حکمی اس لیے کہتے ہیں کہ اسے شہید جیسا ثواب ملتا ہے بس لیکن وہ اصطلاحا حقیقتا شہید نہیں کہلاتا ہے ایسے ہی حدیث میں جس نے اپنی ماں کے چہرے کو دیکھا تو اسے ایک حج مبرور کا ثواب ملے گا لیکن اس ثواب کے ملنے سے اسے حاجی نہیں کہا جائے گا
محقق علی الاطلاق حضور عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ عنہ مدارج النبوۃ میں رقم طراز ہیں:
'حضرت غوث پاک اگر چہ در اصطلاح صحابی نہ گویند مگر در بعضے وجوہ حکما صحابی داشتند" [ج 1 ص 26]
     یعنی حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کو اگر چہ اصطلاحا صحابی نہیں کہا جا جائے گا لیکن بعض ایسی صورتیں ہیں جن کی وجہ سے وہ حکما صحابی ہیں اس توضیح کے بعد سرکاری آسی غازی پوری قدس سرہ السامی کے شعر کا مطلب یہ ہوگا 
اے آسی تم شاہ جیلاں پیر پیراں میر میراں محبوب یزداں ابن زہرا حضور پُرنور سرکار غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی شان و فضیلت کے بارے میں پوچھتے ہو تو سنو کہ وہ ایسی ذات ہے جو الوہیت اور نبوت کے سوا تمام فضائل کے جامع ہیں
پوچھتے ہو شہ جیلاں کے فضائل آسی 
ہر فضیلت کے وہ جامع ہیں نبوت کے سوا
    سردار اولیا کے لیے زبان ولایت سے نکلا ہوا یہ شعر اپنے اندر ایسے رنگا رنگ محاسن کلام اور خوبیاں سمیٹے ہوئے ہے جس کی گہرائی میں ڈوبنا چاہیں تو ڈوبتے ہی چلے جائیں 
اسی لیے سرکار آسی غازی پوری فرماتے ہیں
شعر گوئی نہ سمجھنا کہ مرا کام ہے یہ
قالبِ شعر میں آسی فقط الہام ہے یہ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- محمد جسیم اکرم مرکزی پورنوی
تخصص فی الفقہ جامعۃ الرضا بریلی شریف یوپی ہند 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area