یا شھید السلام
یحییٰ السنوار بھی شہادت کے اعلی منصب پر فائز
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
انبیاء کی سرزمین اس وقت لہو سے ہر طرف سرخ رنگ بکھیر رہی ہے قائدین سے لیکر مجاہدین بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر روز اہل فلسطینی شہادتوں کی قربانیوں کو پیش کرتے ہوئے شہادت کے اعلی منصب پر پہنچ رہے ہیں یقیناً یہ شہادتیں اس عارضی دنیا کے لیئے ایک سخت آزمائش ہوسکتی ہیں غم کا ایک بڑا پہاڑ بن سکتی ہیں لیکن آخرت میں فلاح و کامیابی کا ضامن بنے گی اللہ کی خاطر معرکہ میں شہادت فرمانے والوں کا کس طرح شایان شان استقبال ہوگا شائد ہی اس دنیا کے کسی انسان کے خواب و خیال میں بھی نہ آیا ہوگا لیکن ان قربانیوں کو راہ خدا میں پیش کرنا اتنا آسان نہیں جتنا زبان سے کہنا اور قلم سے لکھنا ہے اسماعیل ہنیہ نے بحثیت قائد جامہ شہادت نوش فرماتے ہوئے شہدا کی صف میں کھڑے ہوگئے پھرحسن نصر اللہ اور اب یحییٰ النسوار بھی شہادت کے اعلی مرتبے پر پہنچ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
جمعرات کے روز اسرائیلی فوج نے دعوی پیش کیا تھا کہ حماس کے رہ نما النسوار کو ایک حملے ماردیا گیا لیکن مزاحمتی تنظیم کی جانب سے اس خبر کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی تھی اور یہ کش مکش جمعہ کی شام تک بھی چلتی رہی جمعہ کے روز فلسطین کی مساجد سے اعلان کیا گیا کہ حماس کے قائد و مجاہد یحیی النسوار ایک حملے میں شہید کردیئے گئے پھر بھی جاری اس کش مکش کو جمعہ کی شام حماس نے بھی تصدیق کردی کہ یحیی النسوار شہید کردیئے گئے اس شہادت کے بعد اسرائیل میں اور اس کی فوج میں ایک جشن کا ماحول برپا ہوگیا اور کہا جارہا ہے کہ اب جنگ کمزور سی پڑ گئی لیکن باطل کی خوشیاں صرف ایک ہنگامی ہوسکتی ہے قیادتوں کی قربانیوں سے تحریک مزید طاقت ور بن جائے گی مجاہدین میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوگا چونکہ یہ جنگ ایمان کی طاقت سے لڑی جارہی ہے ناکہ افراد کی قوت سے باطل اگر خوش فہمی میں مبتلاء ہوتو ہونے دیں یہ مجاہیدن کے لیئے غائبانہ نصرت و خدا وندی بھی ہوسکتی ہے۔
زرائع کے مطابق بدھ کو مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے اسرائیلی فوج کے بریگیڈ 410 کے ایک فوجی نے رفح کے علاقے تل السلطان کی ایک عمارت میں کسی شخص کو ایک گھر میں آتے جاتے دیکھاگیا اس پر اسرائیلی میرین فورس نے اس بنیاد پر کہ گھر میں مسلح افراد موجود ہیں اس طرف پیش قدمی کی اور دوپہر کے آس پاس گھر میں تین عسکری افراد کی موجودگی کا پتہ چلایا گیا جو السنوار کے ساتھی تھے جنھوں نے حماس کے سربراہ السنوار کا راستہ کھولنے کی کوشش کی لیکن اسرائیلی فوج نے ان پر حملہ کردیا جس سے السنوار کے ساتھی منقسم ہوگئے السنوار عمارت کی دوسری منزل پر پہنچ گئے اسرائیلی ٹینک نے اس عمارت پر بم برسائے بعد ازاں بریگیڈ 450 کے فوجیوں کی دونوں عمارتوں کے احاطے میں جھڑپیں شروع ہو گئیں السنوار اور ان کے ساتھیوں کی جانب دو بم پھینکے گئے جس کے نتیجے میں ان کے بیچ رابطہ منقطع ہو گیا۔
رپورٹ کے مطابق سرائیلی فورس نے ایک ڈرون طیارہ عمارت کی طرف بھیجا جس کا ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل بھی ہورہا ہے اس عمارت کے ایک کمرے میں صوفے پر ایک شخص جس پر السنوار زخمی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے چہرے پر رومال لپیٹے ہوئے تھے جن کا ہاتھ زخمی تھا قائد کو آخری لمحات میں بھی مزاحمت کرتے دیکھا گیا انھوں نے ایک لکڑی سے اسرائیلی ڈرون طیارے پر پھینکنے کی کوشش کی اس کے بعد اسرائیلی ٹینک نے مزید اس عمارت پر ایک اور بم داغا شائد کہ اس بار قائد جامہ شہادت نوش فرما چکے تھے اسرائیلی فورس جمعرات کی صبح جب اس عمارت میں داخل ہوئی فوجیوں نے اندر لاشیں دیکھیں جن میں ایک لاش حماس قائد یحیی السنوار سے مشابہت پائی گئی جس کی بعد میں تصدیق کردی گئی کہ یہ حماس قائد السنوار ہی تھے۔
ایک طرف اسرائیلی فوج میں جشن کا ماحول چھایا ہوا ہے اسرائیل کا وزیر خارجہ کہتا ہے کہ اب حماس کو ہتھیار ڈال دینا چاہیئے امریکہ کہتا ہے کہ اب جنگ بندی کے لیئے ایک نئی پیش رفت کی جاسکتی ہے مطلب یہودی طاقتیں یہ اندازہ لگارہی ہیں کہ حماس کا اصل قائد اب شہید ہوچکا ہے اسی لیئے یہ تحریک اب ماند پڑ جائے گی بائیڈن کہہ رہے ہیں کہ اب حماس کے بغیر اس مسلئہ کو نپٹا جاسکتا ہے لیکن حماس کے رہ نماؤں خاص کر خلیل الحیہ نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ قائدین اپنی قربانیوں کو پیش کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن یہ تحریک اور معرکہ مسجد اقصیٰ کے تحفظ اور فلسطین کے حق میں جاری رہے گی باطل نہ ہمارے عزائم کو کمزور کرسکتا ہے نہ ہی ہماری ایمان کی طاقت کو ایک قائد جس کو عربی دنیا اور ان کے پیشوا کہتے ہیں کہ یہ معصوموں کا قتل کروارہے ہیں لیکن کیا انھیں نظر نہیں آتا کہ قیادت اپنے خاندانوں اور خود کو بھی شہادت کے منصب پر پہنچارہی ہے ذرا اندازہ لگائیں کہ ایک قائد کے پاس کونسی اشیاء دستیاب ہوتی ہیں بس کچھ روپیئے ذکر الہی کے لیئے تسبیح مسنون دعاؤں کی کتاب دفاعی بندوق اور چند چھوٹی چھوٹی اشیاء جو صرف ایک بستے کا سامان جو اپنے پیچھے چھوڑ کر چلے گئے آہ کتنے خوش نصیب ہے قائد جن کو آخرت میں نہ دولت کی پوچھ نہ کوئی بڑا حساب کتاب ایسی زندگیوں کی رودادیں تو صرف صحابہ اکرام کی تاریخ ہی میں مل سکتی ہے۔
لیکن اس قائد نے اپنے پیچھے جو سب سے اہم چیز چھوڑ گئے وہ ہے افکار اور نظریات جس سے مزاحمت کے اندر ہر وقت جوش اور ولولہ پیدا کرے گی کیونکہ یہ السنوار ہی تھے جنھوں نے بائیس سال صیہونی جیل میں قید کی زندگی گذاری صعوبتوں کو برداشت کیا سوال یہ ہے کہ باطل طاقتیں خوش کیوں ہے ؟دراصل 7 اکٹوبر کے حملے کا اصل منصوبہ ساز قائد کو مانا جاتا ہے جو نہ صرف فکری پختگی کے سالار تھے بلکہ عملی میدان کے بھی شہسوار تھے جیل کی صعوبتوں نے انھیں کندن بنادیا تھا یحیی السنوار کو اسرائیلی قیدیوں کے ایک تبادلے کے طور پر سنہ 2011 میں اسرائیلی جیل سے رہا کیا گیا تھارہائی کے بعد وہ حماس میں ایک سخت گیر اور انتہائی بااثر شخصیت بن گئے تھےاسی لیئے آج اسرائیل اور امریکہ ایک شخص کو شہید کرکے تحریک کو فانی سمجھ رہے ہیں لیکن جو تحریک شخصیت پر قائم ہوتی ہے وہ شخصیت کے خاتمہ کے ساتھ تحریک بھی ختم ہوجاتی ہے لیکن یہ مزاحمتی تحریک ایک فکری پختگی اور ایمان کی طاقت سے لڑی جارہی ہے ناکہ شخصیت کی بناء پر ہاں تحریک میں ایک عظیم سپہ سالار کا خلاء پیدا ہوا ہے لیکن عزائم اور حوصلوں کا نہیں بلکہ صلاح الدین ایوبی کے روپ میں نئے چہرے آتے رہیں گے جو حق اور انصاف کی لڑائی لڑتے رہیں گے جب تک کہ فتح مقدر نہ بن جائے۔
دوسری طرف یحیی السنوار کی شہادت کے بعد حزب اللہ نے اعلان کیا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ جنگ میں نئے میزائلوں کے حملے کے ساتھ آغاز کرنے جارہے ہیں ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کی طرف سے یہ اعلان جمعرات کے روز کیا گیا ہے اس مرحلے پر ایسے گائیڈڈ میزائل کا استعمال کیا جائے گا جو اسرائیل کے اندر زیادہ متعین اہداف کو نشانہ بنا سکیں گے یہ گائیڈڈ میزائل اسرائیلی فوج کے خلاف پہلی بار استعمال ہوں گے مطلب حزب اللہ اب پوری طرح سے مزید چوکس اور تیار ہے کہ وہ السنوار کا انتقام لے سکتا ہے جس نے حالیہ چند دنوں میں اسرائیل کا اچھا خاصہ نقصان کیا ہے اور درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو مار ڈالا ہے حزب اللہ مزید طاقت کے ساتھ اس معرکہ میں شامل ہونا چاہتا ہے اور ادھر حماس بھی اب اپنی طاقت کا مظاہرہ کرسکتا ہے جو اسرائیل کے لیئے کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ان کے بیانات اور حوصلوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ مشرقی وسطیٰ کے عسکری جنگجو فتح مقدر بن جانے تک یہ جدوجہد جاری رکھنے والے ہیں اور باطل اندر سے بہت کمزور ہوچکا ہے تب ہی وہ ایک شخص کو شہید کرکے اپنی فتح سمجھ بیٹھا ہے لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں ہونے والا ہے۔
السنوار کے مزاج اور ان کی سختی ان کا جوش و جنون آپ اس بات سے بخوبی اندازہ لگاسکتے کہ وہ کس طرح کی شخصیت کے انسان تھے ان کے پاس ایک بندوق تھی جس کو وہ عوامی تقریبات اور جلوسوں میں لہرا کر کہا کرتے تھے کہ یہ ایک ناکام اسرائیلی آپریشن میں مارے جانے والی فوجی کی ہے اس کو وہ اپنی فتح قرار دیتے اور بار بار یاد دہانی کرواکر ہجوم میں حوصلوں کی اڑان بھرتے آج حماس ایک کے بعد دیگر طاقتور قائدین سے محروم تو ہوتی جارہی ہے جس کا ایک عارضی غم بھی ہوگا لیکن ان کے چٹان نما حوصلوں کو کوئی رائی برابر بھی کمزور نہیں کرسکتا پھر اگلا قائد آئے گا اور اس تحریک کو ایک نئے جوش اور نئے ولولے کے ساتھ آگے بڑھائے گا تب تک کہ جب تک فتح ان کا مقدر نہ بن جائے۔
انبیاء کی سرزمین اس وقت لہو سے ہر طرف سرخ رنگ بکھیر رہی ہے قائدین سے لیکر مجاہدین بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر روز اہل فلسطینی شہادتوں کی قربانیوں کو پیش کرتے ہوئے شہادت کے اعلی منصب پر پہنچ رہے ہیں یقیناً یہ شہادتیں اس عارضی دنیا کے لیئے ایک سخت آزمائش ہوسکتی ہیں غم کا ایک بڑا پہاڑ بن سکتی ہیں لیکن آخرت میں فلاح و کامیابی کا ضامن بنے گی اللہ کی خاطر معرکہ میں شہادت فرمانے والوں کا کس طرح شایان شان استقبال ہوگا شائد ہی اس دنیا کے کسی انسان کے خواب و خیال میں بھی نہ آیا ہوگا لیکن ان قربانیوں کو راہ خدا میں پیش کرنا اتنا آسان نہیں جتنا زبان سے کہنا اور قلم سے لکھنا ہے اسماعیل ہنیہ نے بحثیت قائد جامہ شہادت نوش فرماتے ہوئے شہدا کی صف میں کھڑے ہوگئے پھرحسن نصر اللہ اور اب یحییٰ النسوار بھی شہادت کے اعلی مرتبے پر پہنچ گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
جمعرات کے روز اسرائیلی فوج نے دعوی پیش کیا تھا کہ حماس کے رہ نما النسوار کو ایک حملے ماردیا گیا لیکن مزاحمتی تنظیم کی جانب سے اس خبر کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی تھی اور یہ کش مکش جمعہ کی شام تک بھی چلتی رہی جمعہ کے روز فلسطین کی مساجد سے اعلان کیا گیا کہ حماس کے قائد و مجاہد یحیی النسوار ایک حملے میں شہید کردیئے گئے پھر بھی جاری اس کش مکش کو جمعہ کی شام حماس نے بھی تصدیق کردی کہ یحیی النسوار شہید کردیئے گئے اس شہادت کے بعد اسرائیل میں اور اس کی فوج میں ایک جشن کا ماحول برپا ہوگیا اور کہا جارہا ہے کہ اب جنگ کمزور سی پڑ گئی لیکن باطل کی خوشیاں صرف ایک ہنگامی ہوسکتی ہے قیادتوں کی قربانیوں سے تحریک مزید طاقت ور بن جائے گی مجاہدین میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوگا چونکہ یہ جنگ ایمان کی طاقت سے لڑی جارہی ہے ناکہ افراد کی قوت سے باطل اگر خوش فہمی میں مبتلاء ہوتو ہونے دیں یہ مجاہیدن کے لیئے غائبانہ نصرت و خدا وندی بھی ہوسکتی ہے۔
زرائع کے مطابق بدھ کو مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے اسرائیلی فوج کے بریگیڈ 410 کے ایک فوجی نے رفح کے علاقے تل السلطان کی ایک عمارت میں کسی شخص کو ایک گھر میں آتے جاتے دیکھاگیا اس پر اسرائیلی میرین فورس نے اس بنیاد پر کہ گھر میں مسلح افراد موجود ہیں اس طرف پیش قدمی کی اور دوپہر کے آس پاس گھر میں تین عسکری افراد کی موجودگی کا پتہ چلایا گیا جو السنوار کے ساتھی تھے جنھوں نے حماس کے سربراہ السنوار کا راستہ کھولنے کی کوشش کی لیکن اسرائیلی فوج نے ان پر حملہ کردیا جس سے السنوار کے ساتھی منقسم ہوگئے السنوار عمارت کی دوسری منزل پر پہنچ گئے اسرائیلی ٹینک نے اس عمارت پر بم برسائے بعد ازاں بریگیڈ 450 کے فوجیوں کی دونوں عمارتوں کے احاطے میں جھڑپیں شروع ہو گئیں السنوار اور ان کے ساتھیوں کی جانب دو بم پھینکے گئے جس کے نتیجے میں ان کے بیچ رابطہ منقطع ہو گیا۔
رپورٹ کے مطابق سرائیلی فورس نے ایک ڈرون طیارہ عمارت کی طرف بھیجا جس کا ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائرل بھی ہورہا ہے اس عمارت کے ایک کمرے میں صوفے پر ایک شخص جس پر السنوار زخمی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے چہرے پر رومال لپیٹے ہوئے تھے جن کا ہاتھ زخمی تھا قائد کو آخری لمحات میں بھی مزاحمت کرتے دیکھا گیا انھوں نے ایک لکڑی سے اسرائیلی ڈرون طیارے پر پھینکنے کی کوشش کی اس کے بعد اسرائیلی ٹینک نے مزید اس عمارت پر ایک اور بم داغا شائد کہ اس بار قائد جامہ شہادت نوش فرما چکے تھے اسرائیلی فورس جمعرات کی صبح جب اس عمارت میں داخل ہوئی فوجیوں نے اندر لاشیں دیکھیں جن میں ایک لاش حماس قائد یحیی السنوار سے مشابہت پائی گئی جس کی بعد میں تصدیق کردی گئی کہ یہ حماس قائد السنوار ہی تھے۔
ایک طرف اسرائیلی فوج میں جشن کا ماحول چھایا ہوا ہے اسرائیل کا وزیر خارجہ کہتا ہے کہ اب حماس کو ہتھیار ڈال دینا چاہیئے امریکہ کہتا ہے کہ اب جنگ بندی کے لیئے ایک نئی پیش رفت کی جاسکتی ہے مطلب یہودی طاقتیں یہ اندازہ لگارہی ہیں کہ حماس کا اصل قائد اب شہید ہوچکا ہے اسی لیئے یہ تحریک اب ماند پڑ جائے گی بائیڈن کہہ رہے ہیں کہ اب حماس کے بغیر اس مسلئہ کو نپٹا جاسکتا ہے لیکن حماس کے رہ نماؤں خاص کر خلیل الحیہ نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ قائدین اپنی قربانیوں کو پیش کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن یہ تحریک اور معرکہ مسجد اقصیٰ کے تحفظ اور فلسطین کے حق میں جاری رہے گی باطل نہ ہمارے عزائم کو کمزور کرسکتا ہے نہ ہی ہماری ایمان کی طاقت کو ایک قائد جس کو عربی دنیا اور ان کے پیشوا کہتے ہیں کہ یہ معصوموں کا قتل کروارہے ہیں لیکن کیا انھیں نظر نہیں آتا کہ قیادت اپنے خاندانوں اور خود کو بھی شہادت کے منصب پر پہنچارہی ہے ذرا اندازہ لگائیں کہ ایک قائد کے پاس کونسی اشیاء دستیاب ہوتی ہیں بس کچھ روپیئے ذکر الہی کے لیئے تسبیح مسنون دعاؤں کی کتاب دفاعی بندوق اور چند چھوٹی چھوٹی اشیاء جو صرف ایک بستے کا سامان جو اپنے پیچھے چھوڑ کر چلے گئے آہ کتنے خوش نصیب ہے قائد جن کو آخرت میں نہ دولت کی پوچھ نہ کوئی بڑا حساب کتاب ایسی زندگیوں کی رودادیں تو صرف صحابہ اکرام کی تاریخ ہی میں مل سکتی ہے۔
لیکن اس قائد نے اپنے پیچھے جو سب سے اہم چیز چھوڑ گئے وہ ہے افکار اور نظریات جس سے مزاحمت کے اندر ہر وقت جوش اور ولولہ پیدا کرے گی کیونکہ یہ السنوار ہی تھے جنھوں نے بائیس سال صیہونی جیل میں قید کی زندگی گذاری صعوبتوں کو برداشت کیا سوال یہ ہے کہ باطل طاقتیں خوش کیوں ہے ؟دراصل 7 اکٹوبر کے حملے کا اصل منصوبہ ساز قائد کو مانا جاتا ہے جو نہ صرف فکری پختگی کے سالار تھے بلکہ عملی میدان کے بھی شہسوار تھے جیل کی صعوبتوں نے انھیں کندن بنادیا تھا یحیی السنوار کو اسرائیلی قیدیوں کے ایک تبادلے کے طور پر سنہ 2011 میں اسرائیلی جیل سے رہا کیا گیا تھارہائی کے بعد وہ حماس میں ایک سخت گیر اور انتہائی بااثر شخصیت بن گئے تھےاسی لیئے آج اسرائیل اور امریکہ ایک شخص کو شہید کرکے تحریک کو فانی سمجھ رہے ہیں لیکن جو تحریک شخصیت پر قائم ہوتی ہے وہ شخصیت کے خاتمہ کے ساتھ تحریک بھی ختم ہوجاتی ہے لیکن یہ مزاحمتی تحریک ایک فکری پختگی اور ایمان کی طاقت سے لڑی جارہی ہے ناکہ شخصیت کی بناء پر ہاں تحریک میں ایک عظیم سپہ سالار کا خلاء پیدا ہوا ہے لیکن عزائم اور حوصلوں کا نہیں بلکہ صلاح الدین ایوبی کے روپ میں نئے چہرے آتے رہیں گے جو حق اور انصاف کی لڑائی لڑتے رہیں گے جب تک کہ فتح مقدر نہ بن جائے۔
دوسری طرف یحیی السنوار کی شہادت کے بعد حزب اللہ نے اعلان کیا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ جنگ میں نئے میزائلوں کے حملے کے ساتھ آغاز کرنے جارہے ہیں ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کی طرف سے یہ اعلان جمعرات کے روز کیا گیا ہے اس مرحلے پر ایسے گائیڈڈ میزائل کا استعمال کیا جائے گا جو اسرائیل کے اندر زیادہ متعین اہداف کو نشانہ بنا سکیں گے یہ گائیڈڈ میزائل اسرائیلی فوج کے خلاف پہلی بار استعمال ہوں گے مطلب حزب اللہ اب پوری طرح سے مزید چوکس اور تیار ہے کہ وہ السنوار کا انتقام لے سکتا ہے جس نے حالیہ چند دنوں میں اسرائیل کا اچھا خاصہ نقصان کیا ہے اور درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو مار ڈالا ہے حزب اللہ مزید طاقت کے ساتھ اس معرکہ میں شامل ہونا چاہتا ہے اور ادھر حماس بھی اب اپنی طاقت کا مظاہرہ کرسکتا ہے جو اسرائیل کے لیئے کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ان کے بیانات اور حوصلوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ مشرقی وسطیٰ کے عسکری جنگجو فتح مقدر بن جانے تک یہ جدوجہد جاری رکھنے والے ہیں اور باطل اندر سے بہت کمزور ہوچکا ہے تب ہی وہ ایک شخص کو شہید کرکے اپنی فتح سمجھ بیٹھا ہے لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں ہونے والا ہے۔
السنوار کے مزاج اور ان کی سختی ان کا جوش و جنون آپ اس بات سے بخوبی اندازہ لگاسکتے کہ وہ کس طرح کی شخصیت کے انسان تھے ان کے پاس ایک بندوق تھی جس کو وہ عوامی تقریبات اور جلوسوں میں لہرا کر کہا کرتے تھے کہ یہ ایک ناکام اسرائیلی آپریشن میں مارے جانے والی فوجی کی ہے اس کو وہ اپنی فتح قرار دیتے اور بار بار یاد دہانی کرواکر ہجوم میں حوصلوں کی اڑان بھرتے آج حماس ایک کے بعد دیگر طاقتور قائدین سے محروم تو ہوتی جارہی ہے جس کا ایک عارضی غم بھی ہوگا لیکن ان کے چٹان نما حوصلوں کو کوئی رائی برابر بھی کمزور نہیں کرسکتا پھر اگلا قائد آئے گا اور اس تحریک کو ایک نئے جوش اور نئے ولولے کے ساتھ آگے بڑھائے گا تب تک کہ جب تک فتح ان کا مقدر نہ بن جائے۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
تحریر:- سید سرفراز احمد