Type Here to Get Search Results !

حضرت مجدد الف ثانی مکتوبات کے آئینے میں

حضرت مجدد الف ثانی مکتوبات کے آئینے میں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
✍️ محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین: تحریک علمائے بندیل کھنڈ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
 جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار
(اقبال) 
اسم گرامی
شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی
(مکمل نام:شیخ احمد سر ہندی ابن شیخ عبد الا حد فاروقی) (پیدائش: 26 جون 1564ء— وفات: 10 دسمبر 1624ء) دسویں صدی ہجری کے نہایت ہی مشہور عالم و صوفی تھے۔ جو مجدد الف ثانی اور قیوم اول سے معروف ہیں آپ کے مشہور خلیفہ سید آدم بنوري علیہ الرحمہ ہیں.
حالات زندگی
آپ کی ولادت جمعۃ المبارک 14 شوال971 ھ (یہی خواجہ باقی باللہ کا سال ولادت ہے عجیب اتصال روحانی)بمطابق 26 مئی 1564ء کو نصف شب کے بعد سرہند شریف ہندوستان میں ہوئی۔ آپ کے والد شیخ عبد الاحد ایک ممتاز عالم دین تھے اور صوفی تھے۔ صغر سنی میں ہی قرآن حفظ کر کے اپنے والد سے علوم متداولہ حاصل کیے پھر سیالکوٹ جا کر مولانا کمال الدیّن کشمیری سے معقولات کی تکمیل کی اور اکابر محدثّین سے فن حدیث حاصل کیا۔ آپ سترہ سال کی عمر میں تمام مراحل تعلیم سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ تصوف میں سلسلہ چشتیہ کی تعلیم اپنے والد سے پائی، سلسلہ قادریہ کی شیخ سکندر کیتھلی اور سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم دہلی جاکر خواجہ باقی باللہ سے حاصل کی۔ 1599ء میں آپ نے خواجہ باقی باللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے علم و بزرگی کی شہرت اس قدر پھیلی کہ روم، شام، ماوراء النہر اور افغانستان وغیرہ تمام عالم اسلام کے مشائخ علما اور ارادتمند آکر آپ سے مستفید و مستفیض ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ ’’مجدد الف ثانی ‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے۔ یہ خطاب سب سے پہلے آپ کے لیے ’’عبدالحکیم سیالکوٹی‘‘ نے استعمال کیا۔ طریقت کے ساتھ وہ شریعت کے بھی سخت پابند تھے۔ آپ کے مرشد کی وفات (نومبر 1603ء) کے بعد سلسلہ نقشبندیہ کی سربراہی کا شرف حاصل ہوا اور آخری عمر تک دعوت وارشاد سے متعلق رہے سرہند میں بروز سہ شنبہ 28 صفرالمظفر 1034؁ھ بعمر 62 سال اور کچھ ماہ وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔(وکیپیڈیا) 
*امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر جلالت فاروقي کا پرتو*
مکتوب ۱۵ میں حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ عید قرباں کے موقع پر خلفائے راشدین کا نام ترک کرنے والے امام اور وہاں کے قاضیوں، رئیسوں، سادات پر کس قدر سخت الفاظ میں خط روانہ کر رہے ہیں اور اس حرکت شنیعہ پر کس قدر نالاں و برہم ہیں ملاحظہ فرمائیں. 
الحمد لله وسلام على عباده الذين اصطفی ( الله تعالی کے لیے ہے اور اس
کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔)
شہر "سامانہ" کے سادات عظام اور قاضیوں اور بزرگ رئیسوں کے معزز خادموں کو تکلیف دینے کا باعث یہ ہے کہ سنا گیا ہے کہ اس جگہ کے خطیب نے عید قربان کے خطبہ میں خلفائے راشدین رضی الله تعالی عنہم کے ذکر کو ترک کیا ہے اور ان کے مبارک ناموں کونہیں لیا اور یہ بھی 
سنا گیا ہے کہ جب لوگوں نے اس سے تعرض کیاتو بجائے اس کے کہ اپنی سہو و نسيان کا عذر کرتا سرکشی سے پیش آیا اور یوں کہا کہ اگر خلفاء راشدین کے نام کا ذکر نہیں ہوا تو کیا ہوا اور یہ بھی سنا گیا ہے کہ اس مقام کے رئیسوں اور معزز لوگوں نے اس بارہ میں بہت سستی کی ہے اور اس بے انصاف خطیب کے ساتھ درشتی سے پیش نہیں آئے۔
وائے نہ يکبار کہ صدبار وائے. ترجمہ: ایک افسوس نہیں صدہا افسوس 
خلفاء راشدین رضی الله تعالی عنہم کا ذکر اگر چہ خطبہ کے شرائط میں سے نہیں لیکن اہل سنت کا شعار تو ضرور ہے۔ عداوت اور ہیکڑ پن کے سوائے اس کے کہ جس کے دل میں باطن اور پلید ہو اور کوئی شخص اس کو ترک نہیں کرتا۔ ہم نے مانا کہ اس نے تعصب اور عناد سے ترک نہیں کیا مگر من تشبه بقوم فهو منهم (جس نے کسی قوم کی مشابہت کی، وہ انہیں میں سے ہے) کا کیا جواب دے گا؟ اور اتقوا مواضع التہم (تہمت کی جگہوں سے بچو) کے موافق تہمت کے ظن سے کس طرح خلاصی پائے گا؟ ۔ اگر شیخین کی تقدیم، تفضیل میں توقف ہے تو طریق اہل سنت کے مخالف ہے اور اگر حضرات ختنین کی محبت میں متردد ہے تو بھی اہل حق سے خارج ہے۔ عجب نہیں کہ وہ یہ حقیقت جو کشمیریہ کی طرف منسوب ہے۔ یہ خبیث کشمیر کے رافضیوں سے لے کر آیا ہو۔ اس کو سمجھانا چاہے کہ حضرات شیخین کی افضلیت صحابہ اور تابعین کی اجماع سے ثابت ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس کو بزرگ اماموں کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔
جن میں سے ایک امام شافعی رضی الله تعالی عنہ ہیں۔ شیخ امام ابو الحسن اشعری نے کہا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت باقی امت پرقطعی اور یقینی ہے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنی خلافت و مملکت کے زمانے میں ان کے تابعداروں کے جم غفیر کے تواتر سے ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنھما تمام امت سے افضل ہیں۔ اس روایت کو اسی لوگ روایت کرتے ہیں بلکہ بخاری میں ہے کہ مولی علي رضی اللہ عنہ سے محمد بن حنفیہ نے سوال کیا کہ سب سے افضل کون ہے؟ تو جواب فرمایا ابو بکر، پھر سوال کیا فرمایا عمر، پھر خود ہی محمد بن حنفیہ بولے "پھر آپ ہیں" فرمایا میں تو ایک عام مسلمان ہوں. (مکتوبات مجدد الف ثانی ص 59 تا 60) 
*مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کا رد بدعات و منکرات*
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں بہت سی ہندوانہ رسوم و رواج اور عقائد اسلام میں شامل ہو گئے تھے۔ اسلام کا تشخص ختم ہو چکا تھا اور اسلام اور ہندومت میں فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ ان کے مطابق دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے۔ آپ اپنے ایک مکتوب میں بدعات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے ایک مکتوب اپنے فرزند کو لکھتے ہوئے یوں نصیحت کرتے ہیں. 
مکتوب نمبر ٢٣ جو اپنے مخدوم زادہ حضرت محمد عیسی کی طرف روانہ فرمایا کس قدر بدعت سے بیزاری کا حکم ارشاد فرما رہے ہیں 
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله وسلام على عباده الذين اصطفى (اللہ تعالی کے لیے حمد ہے اور اس
کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو
سب سے اعلی نصیحت جوفرزند عزیز سلمہ اللہ تعالی اور تمام دوستوں کو کی جاتی ہے۔ وہ یہی ہے کہ سنت سنیہ کی تابعداری کریں اور بدعت ناپسندیدہ سے بچیں ۔ اسلام دن بدن غربت پیدا کرتا جاتا ہے اور مسلمان غریب ہوتے جاتے ہیں اور جوں جوں مرتے جائیں گے، زیادہ تر غریب ہوتے جائیں گے۔ حتی کہ زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا۔ وتقوم القيامة علی شرار الناس اور قیامت برے لوگوں پر قائم ہوگی۔ سعادت مند وہ شخص ہے جو اس غربت میں آقا علیہ السلام کی سنتوں میں سے کسی سنت کو زندہ کرے اور مستعملہ بدعتوں میں سے کسی بدعت کو مار ے-اب وہ وقت ہے کہ حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے ہزار سال گزر چکے ہیں اور قیامت کی علامتوں نے پرتو ڈالا ہے۔ سنت عہد نبوت کے بُعد کے باعث
پوشیدہ ہوگئی ہے اور بدعت جھوٹ کے ظاہر ہونے کے باعث جلوہ گر ہوئی ہے۔ اب ایک ایسے بہادر جوان مرد کی ضرورت ہے ہے جو سنت کی مدد کرے اور بدعت کو شکست دے۔ بدعت کا جاری کرنا دین کی بربادی کا موجب ہے اور بدعتی کی تعظیم کرنا اسلام کے گرانے کا باعث ہے۔ من وقر صاحب البدعة فقد أعان على هدم الإسلام (جس نے کسی بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کے گرانے میں مدددی) آپ نے سنا ہوگا، پورے ارادہ اور کامل ہمت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ سنتوں میں سے کوئی سنت جاری ہو جائے اور بدعتوں میں سے کوئی بدعت دور ہو جائے ۔ خصوصا ان دنوں میں کہ اسلام ضعیف ہورہا ہے۔ اسلام کی رسمیں جبھی قائم رہ سکتی ہیں جب کہ سنت کو جاری کیا جائے اور بدعت کو دور کیا جائے ۔ 
گزشتہ لوگوں نے شاید بدعت میں کچھ" حَسن" دیکھا ہوگا جو بدعت کے بعض افراد کو مستحسن اور پسندیدہ سمجھا ہے لیکن فقیر اس مسئلہ میں ان کے ساتھ موافق نہیں ہے اور بدعت کے کسی فردکو احسن نہیں جانتا
بلکہ سوائے ظلمت و کدورت کے اس میں کچھ نہیں پاتا ۔
مزید لکھتے ہیں "گزشتہ زمانہ میں چونکہ اسلام قوی تھا، اس لیے بدعت کے خلیات کو اٹھا سکتا تھا اور ہوسکتا ہے کہ بعض بدعتوں کے ظلمات نور اسلام کی چمک میں نورانی معلوم ہوتے ہوں گے اور حسن کا علم پا لیتے ہوں گے۔ اگر چہ درحقیقت ان میں کسی میں اتم احسن اور نورانیت نہ تھی مگر اس وقت کہ
اسلام ضعیف ہے، بدعتوں کے ظلمات کو نہیں اٹھا سکتا۔ اس وقت متقدمین ومتاخرین کا فتویٰ جاری نہ کرنا چاہئے کیونکہ ہر وقت کے احکام جدا ہیں۔ اس وقت تمام جہان بدعتوں کے بکثرت ظاہر ہونے کے باعث دریائے ظلمات کی طرح نظر آرہا ہے اور سنت کا نور بسبب غربت اور ندرت کے اس دریاے طوفانی میں کرم شب افروز یعنی جگنو کی طرح محسوس ہورہا ہے اور بدعت کی تاریکی چھاتی جا رہی ہے بدعت کو بڑھاوا دینا سنت کے نور کو ہلکا کرنا ہے. 
اب اختیار ہے کہ کوئی خواہ بدعتوں کی ظلمت کو زیادہ کرے یا سنت کے نور کو بڑھائے اور اللہ تعالی کا گروہ زیادہ کرے یا شیطان کا گردہ ۔ الا ان حزب الله هم المفلحون. الا ان حزب الشيطان هم الخاسرون. خبر دار! الله تعالی کا گروہ فلاح یافتہ ہے اور شیطان کا گروہ خسارہ پانے والا ہے۔
*متصوفہ زمانہ کو نصیحت*
صوفیہ کے نام، افعال کو دلیل بناکر سماع و رقص کو جائز قرار دینے والوں کو کس دردمندانہ انداز میں نصیحت فرماتے اور حقیقت حال سے آشنا کراتے ہیں یہ بھی ملاحظہ فرمائیں 
*صوفیہ وقت بھی اگر کچھ انصاف کریں اور اسلام کے ضعف اور جھوٹ کی کثرت کا ملاحظہ کریں تو چاہیے کہ سنت کے ماسوا میں اپنے پیروں کی تقلید نہ کریں اور اپنے شیوخ کا بہانہ کرکے امور ختم پرعمل نہ کریں۔ اتباع سنت بے شک نجات دینے والی اور خیرات و برکات بخشنے والی ہے اور غیر سنت کی تقلید میں خطر در خطر ہیں۔ وما على الأول الا البلاغ قاصد*...... بعدہ فرماتے ہیں ہمارے *پیروں کو اللہ تعالی ہماری طرف سے جزائے خیر دے کہ انہوں نے اپنے تابعداروں کو امور مبتدعہ کے بجا لانے کی ہدایت نہ کی اور اپنی تقلید سے ہلاک کرنے والے انددھیروں میں نہ ڈالا اور سنت کی متابعت کے سوا اور کوئی راستہ نہ بنایا اور صاحب شریعت علیہ الصلوۃ والسلام کی اتباع اور عزیمت پرعمل کرنے کے سوا کچھ ہدایت نہ فرمائی۔ اس واسطے ان بز رگواروں کا کارخانہ بلند ہو گیا اور ان کے حصول کا ایوان سب سے اعلی بن گیا۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سماع و رقص پر پشتِ پا ماری(پیر سے ٹھوکر لگائی) ہے اور وجد و تواجد کو انگشت شہادت سے ٹکرے ٹکرے ٹکرے کر دیا ہے۔ دوسروں کا مکشوف ومشہود ان بزرگواروں کے نزدیک ماسوا میں داخل ہے(سنت کے علاوہ) اور اوروں کا متخيل و معلوم نفی کے قابل ہے۔*(اور سنت کے علاوہ اعمال جو بزرگوں سے صادر ہوے انکی اتباع ضروری نہیں سمجھتے) (مکتوبات مجدد الف ثانی ص 80 تا 82)
*مشاجرات صحابہ اور مجدد الف ثانی*
مکتوب نمبر 36 جو کہ تقریباً 23 صفحات پر مشتمل ہے آپ نے اس میں رافضیوں کی خوب دھجیاں اڑائی ہیں لکھتے ہیں کہ.... امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز رضی الله عنہ سے بھی منقول ہے۔
"تلك دماء طھر الله عنها أيدينا فلنطھر عنها ألسنتنا" یہ وہ خون ہیں جن سے ہمارے ہاتھوں کو الله تعالی نے پاک رکھا۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھیں۔ اس عبارت سے مفہوم ہوتا ہے کہ ایک کو صواب پر اور دوسرے کو خطا پر بھی نہ کہنا چاہئے اور سب کو نیکی سے یاد کرنا چاہئے۔...... حضرت امیر (علی) رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ *یہ ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے باغی ہو گئے ۔ یہ لوگ نہ کافر ہیں نہ فاسق کیونکہ ان کے پاس تاویل ہے جو کفر وفسق سے روکتی ہے*۔(مکتوبات ج دوم ص 106)
آگے لکھتے ہیں..... حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے والے مسلمانوں کا جم غفیر ہے جن میں اصحاب کبار شامل ہیں بلکہ کچھ تو وہ ہیں جنھیں آقا علیہ السلام سے جنت کا مژدہ جانفزا بھی ملا ان سب کو اسلام سے خارج کرنا اسلام کی بنیاد ڈھانا ہے کہ جب یہی مسلمان، عادل، نہ ہوں تو انکے ذریعے پہنچنے والا دین بھی باطل ٹھہرے گا. (مکتوبات مجدد الف ثانی ج دوم ص 113)
حضرات! آپ نے دیکھا کہ مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے بغیر کسی رعایت کے جہاں احقاق حق اور ابطال باطل کی ضرورت تھی وہاں بھرپور وار کیا اور اپنے بیگانے کی پروا نہ کی اور یہی چیز بدرجہ اتم سیدی سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے یہاں بھی پائی جاتی ہے اعلائے کلمۃ الحق کے لیے آپ نے کبھی کوئی رعایت نہ کی خود فرماتے ہیں
کلک رضا ہے خنجر خونخوار برق بار
اعدا سے کہدو خير منائیں نہ شر کریں
ایک یہی مناسبت نہیں ہے ان دونوں مجددین کے مابین اور بھی بہت سی مناسبتیں ہیں جیسے ایک یہی کے ان دونوں محبوبان خدا کے وصال کا مہینہ ماہ صفر ہے ایک کا انتقال28 صفر تو دوسرے کا 25 صفر ہے - دونوں کے یہاں جلال فاروقی برابر دیکھنے کو ملے گا. 
بلکہ برائی دیکھ کر خاموش رہنے والے عمائدین کی بھی سرزنش کی اور نت نئی ایجادات پر بھی ناخوشی کا اظہار کیا - ساتھ ہی متصوفہ زمانہ کی نفسانی خواہشات کا بھی پردہ چاک کیا جو وہ متقدمین اولیاء اللہ کی آڑ میں کرتے تھے اور صاف فرما دیا کہ "اتباع سنت میں پیروی کریں" اس کے علاوہ جو اعمال ان سے صادر ہوے انھیں دلیل بنا کر من مانی نہ کریں. 
اللہ رب العزت ہمیں بھی حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کے مشن کو اپنانے اور آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے. آمین. 
مورخہ 28 اکتوبر 2019 ء

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area